ابن ملجم

قاتل علی بن ابی طالب

عبد الرحمٰن ابن ملجم مرادی ایک خارجی تھا جو خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ حضرت علی کا قتل کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔

ابن ملجم
(عربی میں: عبد الرحمن بن ملجم المرادي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
وفاتسنہ 661ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفاتسر قلم   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفاتسزائے موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہسیاسی قاتل   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الزامقتل ارادی   ویکی ڈیٹا پر (P1595) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

قتل کا منصوبہ

کچھ روایات کے مطابق جنگ نہروان کی شکست کے بعد متعدد خارجیوں نے مکہ مکرمہ میں ملاقات کی اور 40ھ کی جنگ نہروان پر تبادلہ خیال کیا جس میں خارجیوں کے سیکڑوں ساتھی علی کی فوج سے علیحدگی کے بعد علی کی افواج کے ہاتھوں مارے گئے۔ صرف 9 آدمی خوارج کے زندہ بچ کر فرار ہویے باقی سب میدان جنگ مارے گئے۔[1] ان 9 خارجیوں میں سے 3 خارجیوں نے اسلام کے تین رہنماؤں کے قتل پر راضی ہو گئے۔ جن تین لوگوں کو قتل کرنا تھا ان میں علی المرتضی، امیر معاویہ اور عمرو بن العاص کے نام شامل تھے۔ ابن ملجم نے علی المرتضی کو، حجاج بن عبداللہ برک نے امیر معاویہ کو اور عمرو بن بكر تميمی نے عمرو بن العاص کو شہید کرنے کا ذمہ لیا۔[2] تینوں نے تجویز کے مطابق ایک ہی دن فجر کے وقت وار کرنا تھا۔[3]

علی کا قتل

26 جنوری 661ء کو مسجد کوفہ میں فجر کی نماز کے دوران میں سجدہ کرتے ہوئے عبد الرحمٰن ابن ملجم نے علی ابن ابی طالب پر حملہ کیا اور ابن ملجم کی زہر آلود تلوار سے علی زخمی ہو گئے۔[2][4] علی کے لیے طبی علاج معروف حکیم اثیر ابن عمر الساکونی نے کیا تھا۔ تاہم، تین دن بعد 21 رمضان المبارک 40ھ یعنی 28 جنوری، 661ء کو علی المرتضی رحلت فرما گئے۔ علی کے وصال کے تین دن بعد علی کے بیٹے حسن ابن علی نے خود ابن ملجم کو قتل کیا یہ 40ھ کا واقعہ ہے۔[5][6]

کچھ اور غیر مستند روایات کے مطابق ابن ملجم کو معاویہ ابن ابی سفیان نے علی کے قتل پر مامور کیا تھا۔[7][8][9][10] ان روایات کے مطابق خود ابن ملجم نے اس بات کا اقرار کیا اور کہا کہ میں نے معاویہ کے کہنے پر ایسا فعل کیا. لیکن یہ تمام روایات مستند نہیں ہیں ۔[11][7][12]

حوالہ جات