نظام شمسی

سورج کا نظام سیارہ

نظامِ شمسی سورج اور ان تمام اجرام فلکی کے مجموعے کو کہتے ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سورج کی ثقلی گرفت میں ہیں۔ اس میں 8 سیارے، ان کے 162 معلوم چاند، 3 شناخت شدہ بونے سیارے (بشمول پلوٹو)، ان کے 4 معلوم چاند اور کروڑوں دوسرے چھوٹے اجرام فلکی شامل ہیں۔ اس آخری زمرے میں سیارچے، کوئپر پٹی کے اجسام، دم دار سیارے، شہاب ثاقب اور بین السیاروی گرد شامل ہیں۔

ہمارا نظام شمسی

عام مفہوم میں نظام شمسی کا اچھی طرح معلوم مرسوم / charted حصہ سورج، چار اندرونی سیاروں، سیارچوں، چار بیرونی سیاروں اور کوئپر پٹی پر مشتمل ہے۔ کوئپر پٹی سے پرے کے کافی اجسام بھی نظام شمسی کا ہی حصہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔

سورج سے فاصلے کے اعتبار سے سیاروں کی ترتیب یہ ہے: عطارد، زہرہ، ##زمین، ##مریخ، ###مشتری، #زحل، یورینس اور نیپچون۔ ان میں سے چھ سیاروں کے گرد ان کے اپنے چھوٹے سیارے گردش کرتے ہیں جنہیں زمین کے چاند کی مناسبت سے چاند ہی کہا جاتا ہے۔ چار بیرونی سیاروں کے گرد چھوٹے چٹانی اجسام، ذرات اور گردوغبار حلقوں کی شکل میں گردش کرتے ہیں۔ تین بونے سیاروں میں پلوٹو، کوئپر پٹی کا سب سے بڑا معلوم جسم؛ سیرس، سیارچوں کے پٹی کا سب سے بڑا جسم؛ اور ایرس، جو کوئپر پٹی سے پرے واقع ہے؛ شامل ہیں۔ پلوٹو کو 2006 میں سیارے کے درجہ سے معزول کر دیا گیا۔ دیکھیں۔ پلوٹو کا نظام شمسی سے اخراج

اصطلاحات

نظام شمسی کے سیارے اور بونے سیارے؛ اجسام کا حجم ان کے اصل حجم کے متناسب دکھایا گیا ہے لیکن ان کا باہمی فاصلہ اصل فاصلے کے متناسب نہیں ہے

سورج کے گرد چکر لگانے والے اجسام کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: سیارے، بونے سیارے (Dwarf planets) اور چھوٹے شمسی اجسام (Small Solar System bodies)۔

سیارہ سورج کے گرد مدار میں گردش کرنے والے کسی ایسے جسم کو کہتے ہیں جو درج ذیل خصوصیات کا حامل ہے

  • اس کی کمیت کم از کم اتنی ہو کہ اپنی کشش ثقل کے باعث ایک کرے کی شکل اختیار کر لے
  • اپنی کشش ثقل سے اپنے مدار اور اس کے آس پاس کے علاقے سے چھوٹے اجسام کو صاف کر چکا ہو

تسلیم شدہ آٹھ سیارے یہ ہیں: عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس، نیپچون

24 اگست 2006 کو بین الاقوامی فلکیاتی اتحاد (International Astronomical Union) نے پہلی بار سیارے کی تعریف کی اور پلوٹو کو سیاروں کی فہرست سے خارج کر دیا۔ پلوٹو کو اب ایرس اور سیرس کے ساتھ بونے سیاروں کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔[1]

بونے سیاروں کے مدار کے آس پاس عموما دوسرے چھوٹے اجسام پاے جاتے ہیں کیونکہ ان کی کشش ثقل اتنی مضبوط نہیں ہوتی کے وہ اپنے پڑوس میں صفائی (Clearing the neighbourhood) کر سکیں۔ کچھ دوسرے اجسام جو مستقبل میں بونے سیارے قرار دیے جا سکتے ہیں ان میں اورکس، سیڈنا اور کواوار شامل ہیں۔

پلوٹو 1930ء میں اپنی دریافت سے 2006ء تک نظام شمسی کا نواں سیارہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں پلوٹو سے ملتے جلتے بہت سے دوسرے اجسام بیرونی نظام شمسی میں دریافت کیے گئے، خصوصاً ارس، جو جسامت میں پلوٹو سے بڑا ہے۔

سورج کے گرد مدار میں باقی تمام اجسام چھوٹے شمسی اجسام (Small Solar System bodies) کے زمرے میں آتے ہیں۔[2]

قدرتی سیارچے یا چاند وہ اجسام ہیں جو سورج کی بجائے دوسرے سیاروں، بونے سیاروں یا SSSBs کے گرد گردش کر رہے ہوں۔

کسی بھی سیارے کا سورج سے فاصلہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتا کیونکہ سیاروں کے مدار عموماً بیضوی ہوتے ہیں۔ کسی سیارے کے سورج سے کم سے کم فاصلے کو اس کا حضیض (perihelion) کہتے ہیں اور اس کے زیادہ سے زیادہ فاصلے کو اس کا اوج (aphelion) کہتے ہیں۔

ماہرین فلکیات عام طور پر اجرام فلکی کے باہمی فاصلوں کی پیمائش کے لیے فلکیاتی اکائیاں (Astronomical Unit یا AU) استعمال کرتے ہیں۔ ایک فلکیاتی اکائی( AU ) تقریباًً سورج سے زمین تک کے فاصلے کے برابر ہوتی ہے۔ سورج سے زمین کا فاصلہ تقریباًً 149598000 کلومیٹر یا 93000000 میل ہے۔ پلوٹو سورج سے 38 فلکیاتی اکائیوں (AU) جبکہ مشتری تقریباًً 5.2 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہے۔ ایک نوری سال، جو ستاروں کے مابین فاصلوں کی معروف ترین اکائی ہے، تقریباًً 63,240 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے برابر ہوتی ہے۔

غیر رسمی طور پر نظام شمسی کو الگ الگ مَناطِق (zones) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اندرونی نظام شمسی میں پہلے چار سیارے اور سیارچوں کی پٹی شامل ہے۔ بعض فلکیات دان بیرونی نظام شمسی میں سیارچوں سے پرے تمام سیاروں اور دوسرے اجسام کو شامل کرتے ہیں،[3]جبکہ بعض کے نزدیک بیرونی نظام شمسی نیپچون کے بعد شروع ہوتا ہے اور مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون ایک علاحدہ درمیانی مِنطقہ (zone) کا حصہ ہیں۔[4]

سورج سے دوسرے سیاروں کا فاصلہ

Astronomical unitAstronomical unitAstronomical unitAstronomical unitAstronomical unitAstronomical unitAstronomical unitAstronomical unitAstronomical unitAstronomical unitHalley's CometSunEris (dwarf planet)Makemake (dwarf planet)Haumea (dwarf planet)PlutoCeres (dwarf planet)NeptuneUranusSaturnJupiterMarsEarthVenusMercury (planet)Astronomical unitAstronomical unitDwarf planetDwarf planetCometPlanet

Distances of selected bodies of the نظام شمسی from the Sun. The left and right edges of each bar correspond to the perihelion and aphelion of the body, respectively. Long bars denote high orbital eccentricity. The radius of the Sun is 0.7 million km, and the radius of Jupiter (the largest planet) is 0.07 million km, both too small to resolve on this image.

سورج اور سیاروں کی جسامت

نظام شمشی کے آٹھ سیارے(جسامت کے لحاظ سے)
سورج اور آٹھ سیارے جسامت کے لحاظ سے
  نام [5]نصف قطر (رداس)کمیتکثافتزمین سے موازنہ بلحاظ کمیت
(کلومیٹر)(کلوگرام)  
سورج6950001.99E+301.41333000
عطارد24403.30E+235.430.055
زہرہ60524.87E+245.240.816
زمین63785.97E+245.521.000
مریخ33976.42E+233.930.108
مشتری714921.90E+271.33318.258
زحل602685.68E+260.6995.142
یورینس255598.68E+251.3214.539
نیپچون247661.02E+261.6417.085
پلوٹو11501.27E+222.060.002
ہماری زمین کا چاند17387.35E+223.340.012
آئیو (مشتری کا چاند)18218.93E+223.530.015
یوروپا (مشتری کا چاند)15654.80E+222.990.008
گانیمید (مشتری کا چاند)26341.48E+231.940.025
کالستو (مشتری کا چاند)24031.08E+231.850.018

اس جدول سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ایک بہت ہی بڑے تصوارتی سمندر میں چاند، سورج اور سب سیاروں کو پھینکا جائے تو صرف زحل تیرتا رہے گا باقی سب ڈوب جائیں گے۔

مسطّر اور ساخت

نظام شمسی کے اجسام کے مدار؛ اصل قطر کے متناسب۔ تصویر اوپری بائیں کونے سے گھڑی وار سمت میں ہے۔

سورج، جو ایک main sequence G2 ستارہ ہے، نظام شمسی کا مرکزی جز ہے۔ سورج نظام شمسی کی معلوم کمیت میں سے 99.86 فیصد کا حامل ہے اور ثقلی طور پر دوسرے تمام اجسام پر حاوی ہے۔[6]مشتری اور زحل، جو سورج کے گرد گردش کرنے والے سب سے بڑے سیارے ہیں، باقی ماندہ کمیت کے 90 فیصد کے حامل ہیں۔ اورت بادل میں بھی، جو فی الحال ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے، مادے کی کافی مقدار موجود ہو سکتی ہے۔

سورج کے گرد گردش کرنے والے سبھی سیاروں کے مدار (پلوٹو سیارہ نہیں ہے) زمین کے مدار کے تقریباًً متوازی ہیں یا اس سے بہت کم زاویہ بناتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں دم دار سیاروں اور کوئپر پٹی کے اجسام کے مدار زمین کے مدار سے کافی زاویے پر ہیں۔

سورج کے گرد گردش کے ساتھ ساتھ تمام سیارے اپنے محور پر بھی گردش کرتے ہیں۔ اگر سورج کے قطب شمالی کے عین اوپر سے معائنہ کیا جائے تو ماسوائے چند اجسام کے، جیسے ہیلی کا دمدار سیارہ، تمام سیارے اپنے محور کے گرد مخالف گھڑی وار سمت میں گردش کرتے ہیں۔

تمام اجسام سورج کے گرد کیپلر کے قانون کے مطابق حرکت کرتے ہیں۔ ہر جسم کا مدار بیضوی ہے اور اس بیضے کے ایک مرکز (focus) پر سورج واقع ہے۔

سورج کی یہ تصویر کلیمینٹائن مہم میں چاند کے پیچھے سے لی گئی ہے۔ دائیں سے بائیں: زحل، مریخ اور عطارد نظر آ رہے ہیں

سورج کے قریب والے اجسام دور والے اجسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے گردش کرتے ہیں۔ سیاروں کے مدار بہت کم بیضوی، بلکہ تقریباًً دائروی ہیں لیکن بہت سے دمدار سیاروں، سیارچوں اور کوئپر پٹی کے اجسام کے مدار انتہائی بیضوی ہیں۔

سیاروں کے مدار ایک دوسرے سے بہت زیادہ فاصلے پر واقع ہیں اور دو مداروں کے درمیانی فاصلے میں تغیر بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ فاصلے نقشوں میں دکھانا کافی مشکل ہے اس لیے عموماً نظام شمسی کے نقشوں میں سیاروں کو ایک دوسرے سے یکساں فاصلے پر دکھایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں، کچھ مثالوں کے سوا، کوئی سیارہ سورج سے جتنا دور ہے، اس کے مدار کا اپنے سے پہلے والے سیارے کے مدار سے فاصلہ اتنا ہی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر زہرہ کا مدار عطارد کے مدار سے 0.33 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہے، جبکہ زحل مشتری سے 4.3 فلکیاتی اکائی (AU) دور ہے اور نیپچون یورینس سے 10.5 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہے۔ سائنسدانوں نے ان فاصلوں کا باہمی تعلق معلوم کرنے کی کچھ کوششیں تو کی ہیں لیکن اب تک کوئی نظریہ متفقہ طور پر قبول نہیں کیا جا سکا ہے۔

تشکیل

قبل السیاروی طشتری ایک فنکار کی نظر میں (Artist's conception of a protoplanetary disk)

نظام شمسی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نیبولائی نظریے کے مطابق وجود میں آیا۔ یہ نظریہ عمانویل کینٹ نے 1755ء میں پیش کیا تھا۔ اس نظریے کے مطابق 4 ارب 60 کروڑ سال پہلے ایک بہت بڑے مالیکیولی بادل کے ثقلی انہدام (gravitational collapse) کی وجہ سے نظام شمسی کی تشکیل ہوئی۔ یہ بادل شروع میں اپنی وسعت میں کئی نوری سال پر محیط تھا اور خیال ہے کہ اس کے انہدام سے کئی ستاروں نے جنم لیا ہو گا۔ قدیم شہابیوں میں ایسے عناصر کی معمولی مقدار/ذرات(traces) پائے گئے ہیں جو صرف بہت بڑے پھٹنے والے ستاروں (نجومِ منفجر (exploding stars)) میں تشکیل پاتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورج کی تشکیل ستاروں کے کسی ایسے جھرمٹ (خوشۂ انجم (star cluster)) میں ہوئی جو اپنے قریب کے کئی سپر نووا دھماکوں کی زد میں تھا۔ ان دھماکوں سے پیدا ہونے والی لہروں (shock waves) نے اپنے آس پڑوس کے نیبیولا کے گیسی مادے پر دباؤ ڈال کر زیادہ گیسی کثافت کے خطے پیدا کر دیے جس سے سورج کی تشکیل کی ابتدا ہوئی۔ ان کثیف خطوں میں قوت ثقلی کو بہتر طور پر اندرونی گیسی دباؤ پر قابو پانے کا موقع ملا اور پھر یہ کشش ثقل پورے بادل کے انہدام (collapse) کا باعث بنی۔

اس گیسی بادل کا وہ حصہ جو بعد میں نظام شمسی بنا، اپنے قطر میں قریباً 7,000 سے 20,000 فلکیاتی اکائیوں (AU) پر محیط تھا اور اس کی کمیت سورج کی موجودہ کمیت سے کچھ زیادہ تھی۔ اسے ماہرین فلکیات قبل الشمس نیبیولا بھی کہتے ہیں۔ جیسے جیسے نیبیولا سکڑتا گیا، محافظۂ زاویائی معیار حرکت یعنی conservation of زاویائی معیار حرکت کے باعث اس کی گردش کی رفتار بڑھتی گئی۔ جوں جوں مادہ اس بادل کے مرکز میں اکٹھا ہوتا گیا، ایٹموں کے آپس میں ٹکرانے کی تکرار (تعدد (frequency)) بھی بڑھتی گئی اور اس وجہ سے مرکز میں درجہ حرارت بڑھنے لگا۔ مرکز، جہاں پر اب زیادہ تر مادہ اکٹھا ہو چکا تھا، گرم سے گرم تر ہوتا چلا گیا اور اس کا درجہ حرارت باقی ماندہ بادل کے مقابلے میں کافی زیادہ ہو گیا۔ گردش، کشش ثقل، گیسی دباؤ اور مقناطیسی قوتوں کے زیر اثر سکڑتا ہوا نیبیولا آہستہ آہستہ ایک گردش کرتی ہوئی قبل السیاروی طشتری میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا جس کا قطر تقریباًً 200 فلکیاتی اکائیاں (AU) تھا اور جس کے مرکز میں ایک گرم اور کثیف (dense) جنم لیتا ہوا ستارہ تھا۔

تقریباًً 10 کروڑ سال بعد اس سکڑتے ہوئے نیبیولا کے مرکز میں ہائڈروجن کی کثافت اور اس کا دباؤ اتنا ہو گیا کہ یہاں پر مرکزی ائتلاف کا عمل شروع ہو گیا۔ مرکزی ائتلاف کی رفتار اس وقت تک بڑھتی رہی جب تک آبسکونی توازن (hydrostatic equilibrium) حاصل نہیں ہو گیا۔ اس موقع پر مرکزی ائتلاف سے پیدا ہونے والی توانائی/دباؤ کی قوت کشش ثقل کے برابر ہو گئی اور مزید سکڑاؤ کا عمل رک گیا۔ اب سورج ایک مکمل ستارہ بن چکا تھا۔

بادل کے باقی ماندہ گردوغبار اور گیسوں سے سیاروں کی تشکیل ہوئی۔

سورج

زمین سے سورج کا منظر

سورج نظام شمسی کا مرکزی ستارہ اور اس کا سب سے اہم حصہ ہے۔ یہ کمیت میں زمین کی نسبت 332,946 گنا بڑا ہے۔ اس کی بھاری کمیت اسے اتنی اندرونی کثافت فراہم کرتی ہے جس سے اس کے مرکز میں مرکزی ائتلاف(nuclear fusion) کا عمل ہو سکے۔ مرکزی ائتلاف کے نتیجے میں بہت بڑی مقدار میں توانائی پیدا ہوتی ہے جس کا زیادہ تر حصہ برقناطیسی لہروں (electromagnetic radiations) اور روشنی کی شکل میں خلا میں بکھر جاتا ہے

ویسے تو ماہرین فلکیات سورج کو ایک درمیانی جسامت کا زرد بونا ستارہ شمار کرتے ہیں، لیکن یہ درجہ بندی کچھ گمراہ کن ہے، کیونکہ ہماری کہکشاں کے دوسرے ستاروں کے مقابلے میں سورج نسبتاً بڑا اور چمکدار ہے۔ ستاروں کی درجہ بندی ہرٹزپرنگ-رسل نقشے(Hertzsprung-Russell diagram) کے مطابق کی جاتی ہے۔ اس گراف میں ستاروں کی چمک کو ان کے سطحی درجہ حرارت کے مقابل درج (plot) کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر زیادہ گرم ستارے زیادہ چمکدار ہوتے ہیں۔ اس عمومی خصوصیت کے حامل ستاروں کو رئیسی متوالیہ (main sequance) ستارے کہتے ہیں اور سورج بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ لیکن سورج سے زیادہ گرم اور چمکدار ستارے بہت کمیاب ہیں جبکہ سورج سے مدھم اور ٹھنڈے ستارے عام ہیں۔

ہرٹزپرنگ-رسل نقشہ۔ Main Sequence نچلے دائیں کونے سے اوپری بائیں کونے تک ہے

سائنسدانوں کا خیال ہے کے اس وقت سورج اپنی زندگی کے عروج پر ہے اور ابھی اس میں جلانے کے لیے بہت ایندھن باقی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سورج کی چمک میں اضافہ ہو رہا ہے؛ ابتدا میں سورج کی چمک اس کی موجودہ چمک کا صرف 75 فیصد تھی۔

سورج میں ہائڈروجن اور ہیلیم کے تناسب سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ابھی اپنی عمر کے درمیانی حصے میں ہے۔ وقت کے ساتھ سورج کی جسامت اور چمک میں اضافہ ہوتا جائے گا، اس کا درجہ حرارت کم ہوتا جائے گا اور رنگت سرخی مائل ہوتی جائے گی۔ تقریباً 5 ارب سال میں سورج ایک سرخ جن (giant) بن جائے گا۔ اس وقت سورج کی چمک اس کی موجودہ چمک سے کئی ہزار گنا زیادہ ہو گی

سورج اول آبادی (population I) کا ستارہ ہے؛ یہ کائناتی ارتقاء کے بہت بعد کے مراحل میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی ساخت میں دوم آبادی (population II) کے ستاروں کی نسبت بھاری عناصر کی مقدار زیادہ ہے۔ ان بھاری عناصر کو فلکیات کی زبان میں دھاتیں کہتے ہیں گو کہ علم کیمیا میں دھات کی تعریف اس سے مختلف ہے۔ ہائڈروجن اور ہیلیم سے بھاری عناصر قدیم پھٹنے والے ستاروں کے مرکز میں بنے تھے؛ اس لیے کائنات میں ان عناصر کی موجودگی کے لیے ستاروں کی پہلی نسل (generation) کا مرنا ضروری تھا۔ قدیم ترین ستاروں میں دھاتوں کی بہت کم مقدار پائی جاتی ہے جبکہ نئے ستاروں میں ان کی مقدار زیادہ ہے۔ ماہرین فلکیات کے خیال میں سورج کی اونچی دھاتیت اس کے گرد سیاروں کی تشکیل کے لیے انتہائی اہم تھی کیونکہ سیارے دھاتوں کے ارتکام (accretion) سے ہی بنے ہیں۔

اندرونی نظام شمسی

اندرونی نظام شمسی اس خطے کا روایتی نام ہے جس میں سورج، پہلے چار سیارے اور سیارچے آتے ہیں۔ یہ سیارے اور سیارچے سلیکیٹ اور دھاتوں سے ملکر بنے ہیں اور سورج سے نسبتاً قریب قریب ہیں؛ اس پورے خطے کا رداس مشتری اور زحل کے مابین فاصلے سے بھی کم ہے۔

اندرونی سیارے

اندرونی سیارے۔ بائیں سے دائیں: عطارد، زہرہ، زمین،مریخ۔ تمام سیاروں کا حجم ان کے اصل حجم کے متناسب دکھایا گیا ہے

نظام شمسی کے چار پہلے سیارے اپنی ساخت کی بنا پر باقی سیاروں سے مختلف ہیں۔ ان کی سطح عموماً چٹانوں اور اونچا نقطۂ انجماد رکھنے والی معدنیات، مثلاً سلیکیٹ وغیرہ سے بنی ہے۔ ان کی ٹھوس سطح کے نیچے انتہائی گرم اور نیم مائع مینٹل پایا جاتا ہے اور اس کا بھی غالب جز سلیکیٹ معدنیات ہی ہیں۔ ان کا مرکز لوہے اور نکل کا بنا ہوا ہے۔ چار میں سے تین سیاروں (زہرہ، زمین اور مریخ) میں کرہ ہوائی بھی موجود ہے۔ ان سب پر شہاب ثاقب ٹکرانے کی وجہ سے تصادمی گڑھے بھی پائے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی ٹھوس سطح کے نیچے مائع مینٹل زیر حرکت رہتا ہے، اس لیے ان کا سطحی قرش بھی وقتاً فوقتاً حرکت کرتا ہے۔ قرش کی اس حرکت کے باعث سطح پر آتش فشاں پہاڑ اور کھائیاں جنم لیتی ہیں۔

عطارد
عطارد نظام شمسی کا سب سے چھوٹا (0.055 کمیت ارضی) اور سورج سے قریب ترین (0.4 AU) سیارہ ہے۔ عطارد کا کوئی چاند نہیں اور اس کا معمولی کرہ فضا زیادہ تر ان ایٹموں پر مشتمل ہے جو باد شمسی اس کی سطح پر سے اڑاتی ہے۔
زہرہ
زہرہ حجم میں تقریباً زمین کے برابر ہی ہے(0.815 کمیت ارضی)۔ زمین کی طرح اس کا مرکز بھی فولادی ہے جس کے گرد ایک موٹی مینٹل کی تہ ہے جو سلیکیٹ کی بنی ہے۔ زہرہ پر اچھا خاصا کرہ فضا بھی موجود ہے۔ زہرہ کا موسم خشک اور فضا زمین کی نسبت نوے گنا زیادہ کثیف ہے۔ اس کی سطح پر اندرونی ارضیاتی فاعلیہ (geological activity) کے بہت سے آثار جیسے کہ آتش فشاں پہاڑ اور کہائیاں پائی جاتی ہیں۔ زہرہ کا کوئی بھی چاند نہیں ہے اور پورے نظام شمسی میں یہ سب سے گرم سیارہ ہے۔ اس کی سطح پر درجۂ حرارت اکثر 400 درجۂ صد (centigrade) سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس گرمی کی وجہ غالباً اس کی کثیف فضا اور اس میں موجود دفیئہ یا حبس المکاں (Green House) گیسیں ہیں۔
زمین
زمین اندرونی سیاروں میں سب سے بڑا اور کثیف سیارہ ہے۔ اندرونی سیاروں میں یہ واحد سیارہ ہے جس پر اب بھی ارضیاتی عمل ہو رہا ہے اور جس پر زندگی پائی جاتی ہے۔ اس کا مائع کرہ آبی تمام سیاروں میں یکتا ہے اور صرف زمین پر ساخت الطبقات (Plate Tectonics) دیکھنے کو ملتی ہیں۔ زمین کی فضا بھی باقی سب سیاروں سے بہت مختلف ہے؛ اس پر موجود جانوروں، پودوں اور خوردہ حیات نے فضا میں %21 فیصد آزاد آکسیجن پیدا کر دی ہے جو کسی اور سیارے پر نہیں پائی جاتی۔ زمین کا ایک چاند بھی ہے جو باقی اندرونی سیاروں کے چاندوں سے بڑا ہے۔
مریخ
مریخ زمین اور زہرہ دونوں سے چھوٹا ہے (0.107 کمیت ارضی)۔ اس کی فضا کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے۔ اس کی سطح پر بڑی تعداد میں آتش فشاں پہاڑ جیسے اولیمپس مونس اور کھائی نما وادیاں جیسے Valles Marineris پائی جاتی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے ماضی قریب کے زمانے تک اس پر ارضیاتی فاعلیہ (geological activity) ہوتے رہے ہیں۔ مریخ کے دو بہت ہی چھوٹے چھوٹے چاند (Demios اور Phobos) ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دراصل سیارچے ہیں جو مریخ کے بہت قریب سے گزرتے ہوئے اس کی گرفت میں آ گئے ہیں۔

سیارچوی پٹی

مکمل مضمون کے لیے دیکھیے سیارچوی پٹی

سیارچوی پٹی

سیارچے عام طور پر چھوٹے اجرام فلکی ہوتے ہیں جو چٹانوں، دھاتوں اور اس طرح کی دوسرے ناقابل تبخیر و تصعید (non-volatile) مادوں سے بنے ہوتے ہیں۔ سیارچوی پٹی مریخ اور مشتری کے درمیان، سورج سے 2.3 سے 3.3 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر واقع ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اجسام نظام شمسی کی تخلیق کے وقت مشتری کی ثقلی مداخلت کے باعث اکٹھے ہو کر ایک سیارہ بننے سے رہ گئے تھے۔

سیارچے اپنی جسامت میں خوردبینی ذرات سے لے کر کئی سو کلومیٹر چوڑی دیوہیکل چٹانوں تک ہو سکتے ہیں۔ انتہائی بڑے سیارچوں، جیسے کہ سیرس، کے علاوہ تمام سیارچوں کو چھوٹے اجرام فلکی میں شمار کیا جاتا ہے۔ مستقبل میں مزید تحقیق کے بعد کچھ اور بڑے سیارچوں، مثلاً 4 ویسٹا اور 10 ہائجیا، کو بھی بونے سیارے قرار دیا جا سکتا ہے۔

سیارچوی پٹی میں ایسے ہزاروں اور ممکنہ طور پر لاکھوں، اجسام پائے جاتے ہیں جن کا قطر ایک کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ سیارچوں کی پٹی کی کل کمیت زمین کی کمیت کے ہزارویں حصے سے زیادہ ہو۔ پٹی میں سیارچے ایک دوسرے سے کافی دور دور ہیں اور خلائی جہاز عموماً اس خطے سے کسی تصادم کے بغیر آسانی سے گذر جاتے ہیں۔ چھوٹے سیارچے، جن کا قطر 10 میٹر سے لے کر 1 ملی میٹر تک ہو، شہاب ثاقب کہلاتے ہیں۔

Ceres
سیرس
سیرس سیارچوی پٹی کا سب سے بڑا جسم ہے اور اس میں پایا جانے والا واحد بونا سیارہ بھی۔ یہ سورج سے 2.77 فلکیاتی اکائی (AU) کے فاصلے پر ہے۔ اس کا قطر 1000 کلومیٹر سے کچھ کم ہے جو اتنی کشش ثقل پیدا کرنے کے لیے کافی ہے جس کے زیر اثر یہ ایک کرے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب سیرس دریافت ہوا تو اسے ایک سیارہ سمجھا گیا لیکن 1850ء میں دوسرے سیارچوں کی دریافت کے بعد اس کا درجہ کم کر کے اسے سیارچوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ 2006ء میں اس کا درجہ دوبارہ تبدیل کر کے اسے بونا سیارہ قرار دیا گیا۔
سیارچوی گروہ
سیارچوں کو ان کی مداری خصوصیات کی بنا پر گروہوں اور خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سیارچہ چاند وہ سیارچے ہوتے ہیں جو اپنے سے بڑے سیارچوں کے گرد گردش کرتے ہیں۔ یہ عام سیاروں کے چاندوں کی طرح آسانی سے نہیں پہچانے جا سکتے کیونکہ بعض اوقات اس جسم کے تقریباً برابر ہی ہوتے ہیں جس کے گرد گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ سیارچوی پٹی میں کچھ دمدار سیارے (main-belt comets) بھی پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زمین پر پانی اسی طرح کے سیارچوی پٹی کے دمدار سیاروں کی بدولت پہنچا ہے۔

وسطی نظام شمسی

نظام شمسی کے وسطی حصے میں دیو ہیکل گیسی سیارے، ان کے بڑے بڑے چاند اور کم مدت کے دمدار سیارے پائے جاتے ہیں۔ اس حصے کا کوئی روایتی نام نہیں ہے؛ بعض اوقات اسے "بیرونی نظام شمسی" کہا جاتا ہے لیکن عصر حاضر میں یہ نام زیادہ تر نیپچون سے پرے کے حصے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

بیرونی سیارے

نیچے سے اوپر: مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون

سورج کے گرد گردش کرنے والے تمام مادے میں سے 99 فیصد چار بیرونی سیاروں یا گیسی جنات، میں موجود ہے۔ مشتری کی فضاء زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہے۔ یورینس اور نیپچون کی فضاء میں مختلف برفانی مادوں، جیسے کہ پانی، امونیا اور میتھین، کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ ان برفانی مادوں کے باعث کچھ ماہرین فلکیات ان دو سیاروں کو ایک الگ ہی زمرے میں رکھتے ہیں جسے وہ "یورانی سیارے" یا "برفانی جنات" کہتے ہیں۔ ان چاروں سیاروں کے گرد حلقے ہیں لیکن صرف زحل کے حلقے زمین سے صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں۔

مشتری
مشتری نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔ یہ زمین سے 318 گنا بھاری ہے اور سورج سے 5.2 فلکیاتی اکائی (AU) کے فاصلے پر ہے۔ اس کی ساخت زیادہ تر ہائڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہے۔ مشتری کی اندرونی حرارت کی وجہ سے اس کی فضاء میں کچھ تقریباً مستقل خصوصیات پیدا ہو گئی ہیں، جیسے کہ بادلوں کے جمگھٹے اور عظیم سرخ دھبہ۔ مشتری کے تریسٹھ چاند ہیں۔ ان میں سے چار بڑے چاند، گینیمیڈ، کالیسٹو، آئی او اور یورپا بہت سی ایسی خصوصیات کے حامل ہیں جو اندرونی سیاروں میں پائی جاتی ہیں؛ مثلاً آتش فشانی اور اندرونی حرارت۔ گینیمیڈ، جو نظام شمسی میں سب سے بڑا چاند ہے، حجم میں عطارد سے بھی بڑا ہے۔
زحل
نظام شمسی کا چھٹا سیارہ زحل اپنے بکثرت حلقوں کے لیے مشہور ہے۔ زحل سورج سے 9.5 فلکیاتی اکائی (AU) کے فاصلے پر ہے اور زمین سے 95 گنا بھاری ہے۔ یہ اپنی سطح اور فضاء کی ساخت میں مشتری سے کافی مماثلت رکھتا ہے گو کہ اس کی نسبت کافی ہلکا ہے۔ زحل کے چھپن چاند ہیں جن میں سے دو، ٹائیٹن اور انکلاڈس، ارضیاتی فاعلیہ کا مظاہرہ کرتے ہیں اگرچہ کہ یہ زیادہ تر برف سے بنے ہیں۔ ٹائیٹن حجم میں عطارد سے بھی بڑا ہے اور نظام شمسی کا واحد چاند ہے جس پر خاطر خواہ کرہ فضاء موجود ہے۔
یورینس
یورینس سورج سے 19.6 فلکیاتی اکائی (AU) کے فاصلے پر ہے اور زمین سے 14 گنا بھاری ہے۔ یہ چاروں بیرونی سیاروں میں سے سب سے کم کمیت کا حامل ہے۔ یورینس کی ایک منفرد بات اس کے محور کا اس کے مدار سے انتہائی ترچھا زاویہ ہے۔ اس کا محور سورج کے گرد اس کے مدار سے 98 درجے کا زاویہ بناتا ہے۔ اس منفرد زاویے کی وجہ سے یورینس پر دن اور رات کی تشکیل باقی سب سیاروں کی نسبت بالکل مختلف ہے۔ اس کے قطبین پر بھی یورینسی سال میں ایک بار سورج عین سر پر آجاتا ہے اور لمبے عرصے تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا۔ اس کا مرکز باقی گیسی جنات سیاروں کی نسبت ٹھنڈا ہے اور اس سے بہت کم حرارت خلا میں خارج ہوتی ہے۔ یورینس کے 27 چاند ہیں جن میں سے سب سے بڑے ٹیٹانیہ، اوبیرون، امبریل، ایریل اور میرانڈہ ہیں
نیپچون
نیپچون سورج سے 30 فلکیاتی اکائی (AU) کے فاصلے پر ہے اور زمین سے 17 گنا بھاری ہے۔ یہ حجم میں یورینس سے چھوٹا مگر اس سے زیادہ کثیف ہے۔ یہ یورینس سے زیادہ حرارت بھی خارج کرتا ہے لیکن مشتری اور زحل کی نسبت اس کی حرارت کا اخراج کہیں کم ہے۔ نیپچون کے تیرہ چاند ہیں۔ ان میں سب سے بڑا، ٹرائٹن، ارضیاتی طور پر فعال ہے اور اس پر مائع نائٹروجن کے geysers پائے جاتے ہیں۔ ٹرائیٹن نظام شمسی میں واحد بڑا چاند ہے جو اپنے سیارے کے گرد گھڑی وار سمت میں گردش کرتا ہے اور اس وجہ سے ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ نیپچون کا یہ چاند نظام شمسی کی ابتدا سے نیپچون کے گرد گردش نہیں کر رہا بلکہ یہ ایک سیارچہ ہے جو نیپچون کے قریب سے گزرتے ہؤے اس کی گرفت ثقل میں آ گیا ہے۔ نیپچون کے مدار میں کچھ دوسرے چھوٹے سیارے بھی گردش کرتے ہیں جنہیں نیپچون Trojans کہا جاتا ہے۔

دم دار سیارے

مکمل مضمون کے لیے دیکھیے دم دار سیارے

دم دار سیارہ ہیلی بوپ

دم دار سیارے چھوٹے اجرام فلکی ہوتے ہیں جن کا قطر عموماً چند کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوتا۔ یہ مختلف قسم کے منجمد مادوں سے بنے ہوتے ہیں۔ ان کے مدار انتہائی بیضوی ہوتے ہیں؛ عموماً ان کا حضیض (perihelion) اندرونی سیاروں کے مداروں کے اندر ہوتا ہے اور ان کا

edabہوتا ہے۔ جب کوئی دم دار سیارہ اندرونی نظام شمسی کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو سورج کی حدت کے باعث اس کی سطح پر تصعید اور آئن سازی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بخارات اور ذرات دم دار سیارے سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور گرد اور بخارات پر مشتمل ایک لمبی سی دم بناتے ہیں جو برہنہ آنکھ سے بھی دکھائی دیتی ہے۔

کم دورانیہ/عرصہ مدت والے دم دار سیارے ہر دو سو سال یا اس سے بھی کم عرصے میں نمودار ہوتے ہیں جبکہ لمبے دورانیے والے سیارے ہزاروں سال میں ایک بار دکھائی دیتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کم دورانیے والے سیارے، جیسے ہیلی کا دم دار سیارہ، کوئپر بیلٹ سے آتے ہیں، جبکہ لمبے دورانیے والے سیارے، جیسے ہیل-باپ، اورٹ بادل سے آتے ہیں۔ دم دار سیاررں کے گروہ، جیسے کہ Kreutz Sungrazers، ایک سیارے کے ٹوٹنے سے بنتے ہیں۔ کچھ انتہائی لمبے دورانیے کے سیاروں کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نظام شمسی کے باہر سے آتے ہیں، لیکن ان کے مداروں کا درست تعین مشکل ہے اس لیے یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ بعض پرانے دم دار سیارے بارہا سورج کے قریب سے گزرنے کے باعث اپنے منجمد مادے کھو چکے ہیں اور صرف ان کا چٹانی مرکز باقی بچا ہے۔ انھیں اکثر سیارچوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔

عَبر نیپچون خطہ (Trans-Neptunian region)

نیپچون سے پرے کا خطہ، جسے اکثر بیرونی نظام شمسی یا خطہ ماورا النیپچون بھی کہا جاتا ہے، زیادہ تر unexplored ہے۔ بظاہر یہ خطہ صرف برف اور چٹانی مادوں سے بنے چھوٹے اجسام پر مشتمل دکھائی دیتا ہے۔ اس خطے میں اب تک دریافت شدہ اجسام میں سب سے بڑا جسم قطر میں زمین سے پانچ گنا چھوٹا اور کمیت میں ہمارے چاند سے بھی بہت کم ہے۔

کوئپر پٹی

کوئپر پٹی ایک مصور کی نظر میں۔ نیپچون اور پلوٹو کے مدار اصل قطر کے متناسب دکھائے کیے ہیں

کوئپر پٹی، جو اس خطے کے شروع میں واقع ہے، سیارچوی پٹی کی طرح گردوغبار اور ملبے کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے، لیکن سیارچوی پٹی کے برعکس یہ زیادہ تر برف پر مشتمل ہے۔ یہ حلقہ سورج سے 30 سے 50 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ خطہ کم مدت کے دمدار سیاروں، جیسے ہیلی کا دمدار سیارہ، کا منبع خیال کیا جاتا ہے۔ اس پٹی کے بیشتر اجسام نظام شمسی کے چھوٹے اجسام کے زمرے میں آتے ہیں لیکن ان میں سے بعض بڑے اجسام، جیسے کواوار ،وارونا اور سیڈنا، کو مستقبل میں بونے سیارے بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق کوئپر پٹی میں 50 کلومیٹر سے زیادہ قطر والے ایک لاکھ سے زیادہ اجسام موجود ہیں، لیکن ان کے خیال میں اس پٹی کی مجموعی کمیت زمین کی کمیت کے دسویں یا ایک سویں حصے کے برابر ہے۔ اس پٹی کے اکثر اجسام کے ایک سے زیادہ چاند ہیں اور اکثر کے مدار زمین کے مدار سے کافی زاویے پر ہیں

گمگی اور روایتی کوئپر پٹی۔ گمگی اجسام کے مدار سرخ رنگ میں دکھائے گئے ہیں جبکہ روایتی اجسام کے مدار نیلے رنگ میں

کوئپر پٹی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ روایتی پٹی اور گمگی پٹی (resonant belt)۔ گمگی پٹی کے اجسام نیپچون سے ایک گمگی رشتہ (resonance relationship) میں جڑے ہوئے ہیں؛ یعنی سورج کے گرد ان کی گردش کا وقت دوران نپچون کی کشش ثقل کے زیر اثر ہے۔ نیپچون کے اپنے مدار میں ہر تین چکر پورا کرنے پر یہ اجسام سورج کے گرد اپنے دو چکر پورے کرتے ہیں یا پھر اس کے ہر دو چکروں کے مقابلے میں ایک۔ گمگی پٹی نیپچون کے مدار کے اندر ہی سے شروع ہوتی ہے۔ روایتی پٹی کے اجسام کا نیپچون کی گردش دوران سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ پٹی تقریباًً 39.4 سے 47.7 فلکیاتی اکائیوں (AU) تک پھیلی ہوئی ہے۔ روایتی پٹی کے اجسام کو کیوبیوانوز (cubewanos) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عجیب سا نام دراصل اس پٹی کے سب سے پہلے دریافت ہونے والے جسم کیو بی ون (QB1) کے نام پر رکھا گیا ہے جو 1992ء میں دریافت ہوا تھا۔

پلوٹو اور اس کے تین معلوم چاند
پلوٹو اور کیرون
پلوٹو جس کا سورج سے اوسط فاصلہ 39 فلکیاتی اکائیاں (AU) ہے، ایک بونا سیارہ اور کوئپر پٹی کا سب سے بڑا معلوم جسم ہے۔ جب 1930 میں یہ دریافت ہوا تو اسے نظام شمسی کا نواں سیارہ گردانا گیا اور اس کی یہ حیثیت 2006ء میں بین الاقوامی فلکیاتی اتحاد کی جانب سے سیارے کی ایک نئی تعریف پیش کیے جانے تک برقرار رہی۔ پلوٹو کا مدار کافی بیضوی اور ترچھا ہے؛ زمین کے مدار کے اس کا زاویہ 17 درجے ہے۔ اپنے اوج (aphelion) پر یہ سورج سے 49.5 فلکیاتی اکائیاں (AU) دور چلا جاتا ہے جبکہ اپنے حضیض (perihelion) پر سورج سے اس کا فاصلہ صرف 29.7 فلکیاتی اکائیاں (AU) رہ جاتا ہے۔
کیرون پلوٹو کا سب سے بڑا چاند ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ماہرین فلکیات کیرون کی درجہ بندی تبدیل کرکے اسے بھی بونا سیارہ قرار دے دیں۔ کیرون دراصل پلوٹو کے گرد گردش نہیں کرتا بلکہ یہ دونوں اجسام اپنے درمیان خلا میں ایک ثقلی نقطہ توازن کے گرد گردش کرتے ہیں اور جڑواں سیارے محسوس ہوتے ہیں۔ دو بہت چھوٹے چھوٹے سے چاند، نکس اور ہائڈرا، ان دونوں کے گرد گردش کرتے ہیں۔
پلوٹو گمگی پٹی (resonant belt) میں واقع ہے اور نیپچون کے اپنے مدار میں ہر تین چکر پورے کرنے پر یہ اپنے دو چکر پورے کرتا ہے۔ کوئپر پٹی کے وہ اجسام جو نیپچون کے ساتھ اسی تناسب میں سورج کے گرد گردش کرتے ہیں،پلوٹو کی مناسبت سے پلوٹینوز (plutinos) بھی کہلاتے ہیں۔

منتشر طشتری

منتشر طشتری کے اجسام کالے اور سرمئی رنگ میں دکھائے گئے ہیں

منتشر طشتری کوئپر پٹی سے overlap کرتی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ منتشر طشتری کے اجسام کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کے یہ دراصل کوئپر پٹی سے ہی آئے ہیں اور نیپچون کی ابتدائی زندگی میں جب اس کا مدار سورج سے دور جا رہا تھا تو اس کی کشش ثقل کے زیر اثر یہ اجسام بے ترتیب مداروں میں چلے گئے۔ زیادہ تر منتشر طشتری کے اجسام کا حضیض (perihelion) کوئپر پٹی کے اندر واقع ہے، جبکہ ان کے اوج (aphelion) کا سورج سے فاصلہ 150 فلکیاتی اکائیوں (AU) تک ہے۔ ان کے مدار زمین کے مدار سے کافی زاویہ بناتے ہیں اور اکثر کے مدار زمین کے مدار کے عموداً (90 درجے کے زاویہ پر) واقع ہیں۔ بعض فلکیات دان منتشر طشتری کو کوئپر پٹی کا ہی حصہ سمجھتے ہیں اور اسے "کوئپر پٹی کے منتشر اجسام" کا نام دیتے ہیں۔

ارس اور اس کا چاند ڈسنومیا
ارس
ارس منتشر طشتری کا سب سے بڑا معلوم جسم ہے۔ یہ سورج سے 68 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہے اور پلوٹو سے کم از کم 5 فیصد بڑا ہے۔ اس کے قطر کا اندازہ 2,400 کلومیٹر یا 1500 میل ہے۔ ارس ماہرین فلکیات کے مابین اکثر بحث و مباحثے کی وجہ رہا ہے کیونکہ 2006 تک پلوٹو کو اس سے چھوٹا ہونے کے باوجود سیارے کا درجہ حاصل تھا جبکہ یہ اس اعزاز سے محروم تھا۔ اس کا ایک چاند ہے؛ ڈسنومیا۔ پلوٹو کی طرح اس کا مدار بھی بہت بیضوی ہے؛ اس کا حضیض (perihelion)۔ 38.2 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہے جو تقریباً پلوٹو کے سورج سے اوسط فاصلے کے برابر ہے اور اس کا اوج (aphelion)۔ 97.6 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہے۔ اس کا مدار زمین کے مدار سے بہت ترچھا بھی ہے۔

خطہ ہائے بعید

وہ نقطہ جہاں پر نظام شمسی ختم ہوتا ہے اور بین النجمی خلا (interstellar space) شروع ہوتی ہے کچھ ٹھیک طرح سے متعین نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ حد دو مختلف قوتیں طے کرتی ہیں: باد شمسی اور سورج کی کشش ثقل۔ باد شمسی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پلوٹو کے مدار کے چار گنا فاصلے پر ختم ہو جاتی ہے لیکن سورج کی کشش ثقل اس سے ہزار گنا فاصلے پر بھی اثر رکھتی ہے۔

سکون شمسی

خلائی جہاز وائجر شمسی نیام میں داخل ہوتے ہوئے

کرہ شمسی (heliosphere) کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ باد شمسی اپنی پوری رفتار سے تقریباً 95 فلکیاتی اکائیوں (AU) یا پلوٹو کے مدار سے تین گنا فاصلے تک، جاتی ہے۔ یہاں اس کا تصادم مخالف سمت سے آنے والی بین النجمی واسطے کی ہواؤں سے ہوتا ہے۔ اس تصادم کے نتیجے میں بادشمسی کی رفتار میں کمی آتی ہے، اس کے کثافت بڑھ جاتی ہے اور یہ مزید بے سکون (turbulent) ہو جاتی ہے۔ اس مقام تک کرہ شمسی ایک درست کرے کی شکل کا ہے لیکن اس سے آگے یہ ایک بیضے کی شکل کا ہو جاتا ہے جسے شمسی نیام (heliosheath) کہتے ہیں۔ شمسی نیام کی شکل اور طرز عمل دونوں ایک دمدار سیارے کی دم کی طرح ہیں؛ یہ اس مقام سے کہکشاں میں سورج کی حرکت کی سمت میں تقریباً 40 فلکیاتی اکائیوں (AU) تک جاتی ہے لیکن اس سے مخالف سمت میں اس سے کئی گنا زیادہ فاصلے تک پھیلی ہوئی ہے۔ سکون شمسی، جو کرہ شمسی کی بیرونی حد ہے، وہ نقطہ ہے جہاں باد شمسی مکمل طور پر رک جاتی ہے اور بین النجمی خلا کا آغاز ہوتا ہے۔[7]

آج تک کوئی خلائی جہاز سکون شمسی سے آگے نہیں گیا اس لیے یہ جاننا ناممکن ہے کہ اس سے آگے خلا میں کیا حالات ہیں۔ یہ بھی بخوبی معلوم نہیں کہ کرہ شمسی نظام شمسی کو نقصان دہ کائناتی اشعاع (cosmic rays) سے کس حد تک بچاتا ہے۔ کرہ شمسی سے باہر کے حالات معلوم کرنے کے لیے ایک خصوصی مہم زیر غور ہے۔[8]

اورت بادل

کوئپر پٹی اور اورت بادل، ایک فنکار کے تصور میں

نظریاتی (hypothetical) اورت بادل کھربوں برفانی اجسام کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے جو نظام شمسی کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ یہ سورج سے 50,000 سے 100,000 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر پھیلا ہوا ہے اور خیال کیا جاتا ہے لمبے وقت دوران کے دمدار سیارے یہیں سے آتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے زیادہ تر اجسام دمدار سیارے ہیں جو اندرونی نظام شمسی سے بیرونی سیاروں کی کشش ثقل کے باعث خارج ہو گئے تھے۔ اورت بادل کے اجسام بہت آہستہ رفتار سے حرکت کرتے ہیں اور ان کی حرکت میں کبھی کبھار ہونے والے واقعات جیسے کہ دوسرے اجسام سے تصادم، کسی گزرتے ہوئے ستارے کی کشش ثقل یا کہکشاں کے مدوجذر، آسانی سے خلل پیدا کر سکتے ہیں۔[9][10]

سیڈنا اور اندرونی اورت بادل
90377 سیڈنا (Sedna) ایک سرخی مائل پلوٹو کی طرح کا جسم ہے جو سورج کے گرد ایک انتہائی بڑے مدار میں گردش کر رہا ہے۔ اس کا مدار انتہائی بیضوی ہے؛ اپنے حضیض (perihelion) پر یہ سورج سے 76 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر ہوتا ہے لیکن اپنے اوج (aphelion) پر سورج سے 928 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے پر چلا جاتا ہے۔ اسے سورج کے گرد ایک چکر پورا کرنے میں 12,050 سال کا عرصہ لگتا ہے۔ مائک براؤن (Mike Brown)، جس نے سیڈنا کو 2003 میں دریافت کیا تھا، کا خیال ہے کہ سیڈنا کوئپر پٹی یا منتشر طشتری کا حصہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا اوج، نیپچون کی ہجرت کے زیر اثر آنے کے لحاظ سے بہت زیادہ فاصلے پر ہے۔ وہ اور کچھ دوسرے ماہرین فلکیات سیڈنا کو ایک بالکل الگ گروہ کا حصہ خیال کرتے ہیں جسے وہ "اندرونی اورت بادل" کا نام دیتے ہیں۔[11]
غالب امکان یہ ہے کہ سیڈنا ایک بونا سیارہ ہے لیکن ابھی اس کی شکل وثوق سے معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

حدود

نظام شمسی کا ایک بڑا حصہ ابھی بھی نا معلوم ہے۔ سورج کی کشش ثقل کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ 2 نوری سال یا 125,000 فلکیاتی اکائیوں (AU)، کے فاصلے تک دوسرے ستاروں کی کشش ثقل پر حاوی ہے۔ اس کے مقابلے میں اورت بادل ممکنہ طور پر صرف 50,000 فلکیاتی اکائیوں (AU) کے فاصلے تک پھیلا ہوا ہو سکتا ہے۔[12] سیڈنا جیسے اجسام کی دریافت کے باوجود کوئپر پٹی اور اورت بادل کے درمیان کا خطہ، جس کا رداس ہزاروں فلکیاتی اکائیوں پر محیط ہے، زیادہ تر غیر مرسوم (uncharted) ہے۔ سورج اور عطارد کے درمیانی خطے پر بھی ابھی تحقیقات جاری ہیں۔[13]

نظام شمسی کے غیر مرسوم حصوں میں نئے اجسام کی دریافت کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

کہکشاں میں محل وقوع

ہماری کہکشاں میں سورج کا محل وقوع

نظام شمسی جس کہکشاں میں واقع ہے اس کا نام جادہ شیر (Milky Way) ہے۔ یہ ایک barred spiral کہکشاں ہے۔ اس کا قطر ایک لاکھ نوری سالوں پر محیط ہے اور اس میں 2 کھرب ستارے موجود ہیں۔[14]ہمارا سورج اس کہکشاں کے بیرونی بازؤں میں سے ایک اورائن بازو یا مقامی spur میں موجود ہے۔[15]سورج سے ہماری کہکشاں کا مرکز تقریباً 25,000 سے 28,000 نوری سال کی دوری پر ہے اور یہ کہکشاں کے مرکز کے گرد تقریباً 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کے رفتار سے گردش کر رہا ہے۔ اس رفتار سے اسے ایک چکر پورا کرنے میں اندازہً 22.5 سے 25 کروڑ سال لگتے ہیں۔ اس چکر کو نظام شمسی کا کہکشانی سال (galactic year) بھی کہتے ہیں۔[16]

ماہرین کے خیال میں سورج کے اس محل وقوع کا زمین پر زندگی کے ارتقا میں بہت اہم کردار ہے۔ سورج کا مدار تقریباً دائروی ہے اور یہ اسی رفتار سے کہکشاں کے مرکز کے گرد گردش کر رہا ہے جس رفتار سے کہکشاں کے بازو گردش کرتے ہیں۔ رفتار کی اس یکسانی کے باعث سورج ان بازؤں میں سے کبھی کبھار ہی گزرتا ہے۔ چونکہ ان بازؤں میں خطرناک سپر نووا کی کافی کثرت پائی جاتی ہے، سورج کا ان میں سے نہ گذرنا زمین کو ان خطرناک اثرات سے نسبتاً محفوظ رکھتا ہے اور زندگی کو ارتقا کا موقع فراہم کرتا ہے۔[17]سورج ستاروں کی گنجان آبادی والے مرکزی خطے سے بھی کافی فاصلے پر ہے۔ اگر سورج مرکز کے قریب واقع ہوتا تو دوسرے ستاروں کے قریب ہونے کے باعث ان کی کشش ثقل اورت بادل کے اجسام کو مسلسل ان کے مداروں سے ہٹا کر اندرونی نظام شمسی کی جانب بھیجتی رہتی۔ ان میں سے بہت سے اجسام زمین سے ٹکرا کر زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے تھے۔ کہکشاں کے مرکز سے آنے والی برقناطیسی لہریں پیچیدہ جانداروں کے ارتقا میں خلل انداز بھی ہو سکتی تھیں۔[17]

مزید دیکھیے

حوالہ جات