اردو

پاکستان کی قومی زبان اور بعض بھارتی ریاستوں کی سرکاری اور بول چال والی زبان

اُردُو، برصغیر پاک و ہند کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01 فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59 فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔[8] زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔ [9]نیپال میں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے [10] اور جنوبی افریقہ میں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔

اردوئے معلیٰ
"اردو" نستعلیق میں لکھا گیا
تلفظمعاونت:بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ برائے اردو و ہندی: [ˈʊrd̪u] ( سنیے)
مستعملپاکستان اور بھارت[1]
مقامی متتکلمین
6 کروڑ 5 لاکھ (80% بھارت میں) (2007)ne2007
زبان دوم: 14 کروڑ 4 لاکھ پاکستان میں (2011)۔[2]
اشارتی نظام
  • بھارتی اشارتی نظام (ISS)[4]
  • اشارتی اردو[5]
باضابطہ حیثیت
سرکاری زبان
نظمیت از
رموزِ زبان
آیزو 639-1ur
آیزو 639-2urd
آیزو 639-3urd
گلوٹولاگurdu1245[7]
لسانی اثرات59-AAF-q(مع ہندی،
بشمول 58 تنوع: 59-AAF-qaa to 59-AAF-qil)
  وہ خطے جہاں اردو کو سرکاری یا مقامی زبان کا درجہ حاصل ہے
  (دیگر)علاقے جہاں صرف ایک علاقائی زبان سرکاری ہے

1837ء میں، اردو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری زبان بن گئی، کمپنی کے دور میں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلف ہند-اسلامی سلطنتوں کی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔ [11] یورپی نوآبادیاتی دور میں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنھوں نے اردو اور ہندی کے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سے ہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا ۔

اٹھارویں صدی میں اردو ایک ادبی زبان بن گئی اور اس کی دو معیاری شکلیں دہلی اور لکھنؤ میں وجود میں آئیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی شہر کراچی میں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔ [12] [13] دکنی، ایک پرانی اردو کی شکل ہے جو دکن میں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تک دکن سلاطین کی درباری زبان بن گئی۔ [14] [13]

اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زبان دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوب ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔

تسمیہ

اردو اور ہندوستانی یہ دو الفاظ 20ویں صدی کی پہلی تین دشکوں تک ہم معانی ہوئی کرتی تھیں.

اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس ہندوستانی زبان کے لیے استعمال کیا تھا۔ [15] حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی اصطلاح استعمال کی تھی۔ [16] اردو کا مطلب ترک زبان میں فوج ہے۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں، اسے زبانِ اُرْدُوئے مُعَلّٰی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلب بلند کیمپ کی زبان ہے ۔ [17] [18] [19] پہلے اسے ہندوی، ہندی، ہندوستانی اور ریختہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ [15] [20]

تاریخ

نستعلیق خطاطی پر لشکری زبان کا عنوان

اردو ہندی زبان کی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔[21][22] یہ شورسینی زبان (یہ زبان وسطی ہند آریائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، ان میں پنجابی زبان بھی شامل ہے) کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سے قرون وسطٰی (چھٹی سے تیرھویں صدی) کے درمیان وجود میں آئی۔[23][24]

تیرھویں صدی سے انیسویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقت ہندی، [25] ہندوستانی اور ہندوی کہا جاتا تھا۔[26]

اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظ horde کا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔

بھلے آج کے دور میں اردو کو ایک مستقل زبان کی شناخت حاصل ہے لیکن عظیم اردو قلمکار اُنیسویں صدی کی کچھ ابتدائی دہائیوں تک اردو زبان کو ہندی یا ہندوی کی شکل میں ظاہر کرتے رہے ہیں۔[27]

جیسے غلام حمدان مصحفی نے اپنی ایکشاعری میں لکھا ہے: -

مصحفی فارسی کو طاق پہ رکھ،

اب ہیں اشعارِ ہندوی کا رواج"[28]


اور شاعر مير تقی میر نے کہا ہے:

نہ جانے لوگ کہتے ہے کس کو سرورِ قلب،

آیا نہیں یہ لفظ تو ہندی زبان کے بیچ[29]


نستعلیق رسم الخط میں لکھا ہوا جملہ زبانِ اردو مُلّا ("بلند کیمپ زبان")

اردو زبان کو ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ منصوب کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے کئی نظریات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ممتاز محقق حافظ محمود شیرانی کے نزدیک یہ زبان محمود غزنوی کے حملہ ہندوستان کے ادوار میں پنجاب میں پیدا ہوئی، جب فارسی بولنے والے سپاہی پنجاب میں بس گئے، نیز ان کے نزدیک یہ فارسی متکلمین دہلی فتح کرنے سے قبل دو سو سال تک وہیں آباد رہے، یوں پنجابی اور فارسی زبانوں کے اختلاط نے اردو کو جنم دیا، پھر ایک آدھ صدی بعد جب اس نئی زبان کا آدھا گندھا خمیر دہلی پہنچا تب وہاں اس نے مکمل زبان کی صورت اختیار کی، اس حوالے سے انھوں نے پنجابی اور اردو زبان میں کئی مماثلتیں بھی پیش کی ہیں۔ شیرانی کے اسی نظریہ کو پنجاب میں اردو نامی مقالے میں لکھا گیا، جس نے اردو زبان دانوں میں کافی شہرت پائی اور اسی کو دیکھ کر بہت سے محققین نے اردو کے آغاز کو مسلمانوں کی آمد سے جوڑنا شروع کر دیا، اس طرح "دکن میں اردو"، "گجرات میں اردو"، "سندھ میں اردو"، "بنگال میں اردو "حتیٰ کہ "بلوچستان میں اردو" کے نظریات بھی سامنے آنے لگے۔ (حقیقتاً شیرانی سے قبل بھی سنیت کمار چترجی، محی الدین قادری زور جیسے بعض محققین اردو پنجابی تعلق کے بارے میں ایسے خیالات رکھتے تھے، البتہ اسے ثابت کرنے میں وہ دوسروں سے بازی لے گئے) حافظ شیرانی کے نظریہ کی مخالفت کرنے والوں میں مسعود حسین خان اور سبزواری جیسے محققین شامل ہیں، جنھوں نے ان کے نظریے کو غلط ثابت کیا۔

برطانوی راج میں فارسی کی بجائے ہندوستانی کو فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا اور ہندو مسلم دونوں اس پر عمل کرتے تھے۔ لفظ اردو کو شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس سب سے پہلے استعمال کیا تھا۔ انھوں نے خود اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی لفظ بھی استعمال کیا۔[30] تیرہویں سے اٹھارویں صدی تک اردو کو عام طور پر ہندی ہی کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ اسی طرح اس زبان کے کئی دوسرے نام بھی تھے، جیسے ہندوی، ریختہ یا دہلوی۔ اردو اسی طرح علاقائی زبان بنی رہی، پھر 1837ء میں فارسی کی بجائے اسے انگریزی کے ساتھ دفتری زبان کا درجہ دیا گیا۔ اردو زبان کو برطانوی دور میں انگریزوں نے ترقی دی، تاکہ فارسی کی اہمیت کو ختم کیا جا سکے۔ اس وجہ سے شمال مشرقی ہندوستان کے ہندوؤں میں تحریک اٹھی کہ فارسی رسم الخط کی بجائے اس زبان کو مقامی دیوناگری رسم الخط میں لکھا جانا چاہیے۔ نتیجتاً ہندوستانی کی نئی قسم ہندی کی ایجاد ہوئی اور اس نے 1881ء میں بہار میں نافذ ہندوستانی کی جگہ لے لی۔ اس طرح اس مسئلہ نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوستانی کو دو زبانوں اردو (برائے مسلم) اور ہندی (برائے ہندو) میں تقسیم کر دیا۔ اور اسی فرق نے بعد میں ہندوستان کو دو حصوں بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا (اگرچہ تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے ہندو شعرا و مصنفین اردو زبان سے جڑے رہے، جن میں معروف منشی پریم چند، گلزار، گوپی چند نارنگ اور آزاد وغیرہ شامل ہیں۔)

ابتدائی تاریخ

غالب کے اردو دیوان کے ابتدائی صفحات، 1821

ہندوستان کے دہلی کے علاقے میں مقامی زبان کھوری بولی تھی، جس کی ابتدائی شکل پرانی ہندی (یا ہندوی) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ [31] [32] [33] [34] اس کا تعلق وسطی ہند آریائی زبانوں کے مغربی ہندی زبان سے ہے۔ [35] [36] [37] [38][39][40][41][42] [43] [44]

دہلی جیسے شہروں میں، قدیم ہندی اور فارسی کااثر و رسوخ تھا اور اسے "ہندی" اور بعد میں "ہندوستانی" بھی کہا جانے لگا۔ [45] [46] [47] [48] [49] ہندوی کی ایک ابتدائی ادبی روایت کی بنیاد امیر خسرو نے تیرھویں صدی کے آخر میں رکھی تھی۔ [50] [51] [52] [53] دکن کی فتح کے بعد اور اس کے بعد عظیم مسلم خاندانوں کی جنوب میں ہجرت کے بعد، زبان کی ایک شکل قرون وسطی کے ہندوستان میں شاعری کے طور پر پروان چڑھی۔ [54] اور اسے دکنی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں تیلگو زبان اور مراٹھی زبان کے الفاظ شامل ہیں۔ [55] [56] [57] تیرھویں صدی سے اٹھارویں صدی کے آخر تک جو زبان اب اردو کے نام سے جانی جاتی ہے اسے ہندی، [58] ہندوی، ہندوستانی، [59]دہلوی، [60] لاہوری اور لشکری کہا جاتا تھا۔ [61] دہلی سلطنت نے فارسی کو ہندوستان میں اپنی سرکاری زبان کے طور پر قائم کیا، یہ پالیسی مغل سلطنت کی طرف سے جاری رہی، جس نے سولہویں سے اٹھارویں صدی تک شمالی جنوبی ایشیا کے بیشتر حصوں میں توسیع کی اور ہندوستانی پر فارسی اثر کو مضبوط کیا۔ [62] [63]

خان آرزو کے نوادر الفاز کے مطابق، "زبانِ اردو شاہی"[64] کو عالمگیر کے زمانے میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ 1700ء کی دہائی کے اوائل میں اورنگزیب عالمگیر کے دورِ حکومت کے اختتام تک، دہلی کے آس پاس کی عام زبان کو زبانِ اردو کہا جانے لگا، [65] یہ نام ترک زبان کے لفظ اوردو (فوج) یا اوردا سے ماخوذ ہے اور کہا جاتا ہے۔ "کیمپ کی زبان" کے طور پر پیدا ہوا ہے یا زبانِ اردو کا مطلب ہے: "اونچے کیمپوں کی زبان"[66] یا مقامی طور پر "لشکری زبان" کا مطلب ہے " فوج کی زبان[67] اگرچہ اردو کی اصطلاح مختلف ہے۔ اس وقت کے معنی [68] یہ ریکارڈ کیا گیا ہے کہ اورنگزیب عالمگیر ہندوی زبان میں بولتا تھا، جو غالباً فارسی زبان میں تھی، کیونکہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ہندوی اس دور میں فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تھی۔ [69]

اس عرصے کے دوران اردو کو "مورس" کہا جاتا تھا، جس کا مطلب صرف مسلمان تھا، [70] یورپی مصنفین نے [71] جان اوونگٹن نے 1689ء میں لکھا: [72]

موروں کی زبان ہندوستان کے قدیم اصلی باشندوں سے مختلف ہے لیکن اپنے کرداروں کے لیے ان غیر قوموں کی پابند ہے۔ کیونکہ اگرچہ مورز بولی اپنے لیے مخصوص ہے، پھر بھی اس کے اظہار کے لیے خطوط سے محروم ہے۔ اور اس لیے، اپنی مادری زبان میں اپنی تمام تحریروں میں، وہ اپنے خطوط ہیتھنز یا فارسیوں یا دیگر اقوام سے مستعار لیتے ہیں۔

1715 میں ریختہ میں ایک مکمل ادبی دیوان نواب صدرالدین خان نے لکھا۔ [73] ایک اردو فارسی لغت خان آرزو نے 1751ء میں احمد شاہ بہادر کے دور میں لکھی تھی۔ [74] اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس متعارف کرایا تھا [75] ایک ادبی زبان کے طور پر اردو نے درباری، اشرافیہ کے ماحول میں شکل اختیار کی۔ [76] جبکہ اردو نے مقامی ہندوستانی بولی کھڑ بولی کی گرامر اور بنیادی ہند آریائی الفاظ کو برقرار رکھا، اس نے نستعلیق تحریری نظام کو اپنایا [77] [78] – جسے فارسی خطاطی کے انداز کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ [79]

دیگر تاریخی نام

اردو زبان کی پوری تاریخ میں، اردو کو کئی دوسرے ناموں سے بھی جانا گیا ہے: ہندی، ہندوی، ریختہ، اردو-ملا، دکھینی، مورس اور دہلوی وغیرہ۔ 1773 میں سوئس فرانسیسی سپاہی اینٹون پولیئر نے نوٹ کیا کہ انگریزوں نے اردو کے لیے "مورس" کا نام استعمال کرنا پسند کیا:[80]

مجھے ہندوستان کی عام زبان کے بارے میں گہرا علم ہے، جسے انگریز مورس کہتے ہیں اور اس سرزمین کے باشندے ہیں ۔

اشرف جہانگیر سمنانی جیسے صوفی مصنفین کی کئی تخلیقات نے اردو زبان کے لیے اسی طرح کے نام استعمال کیے ہیں۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری پہلے شخص تھے جنھوں نے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا۔ [81] شاہ جہاں کے زمانے میں دار الحکومت کو دہلی منتقل کر دیا گیا اور اس کا نام شاہجہان آباد رکھا گیا اور اس قصبے کے بازار کا نام اردوئے معلیٰ رکھا گیا۔[82] [83]

نوآبادیاتی دور میں اردو

نوآبادیاتی انتظامیہ میں اردو کو معیاری بنانے سے پہلے، برطانوی افسران اکثر اس زبان کو "مُور" کہتے تھے۔ جان گلکرسٹ برطانوی ہندوستان میں پہلے شخص تھے جنھوں نے اردو پر ایک منظم مطالعہ شروع کیا اور "ہندوستانی" کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی جسے یورپیوں کی اکثریت "مُور" کہتی تھی۔[84]

بعد میں برطانوی پالیسیوں کے ذریعے نوآبادیاتی ہندوستان میں اردو کو فروغ دیا گیا تاکہ فارسی پر سابقہ زور کا مقابلہ کیا جا سکے۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں، "انیسویں صدی میں متحدہ صوبوں میں عام مسلمان اور ہندو یکساں طور پر ایک ہی زبان بولتے تھے، یعنی ہندوستانی، خواہ اس نام سے پکارا جائے یا ہندی، اردو یا برج یا اودھی جیسی علاقائی بولیوں میں سے ایک۔" [85] مسلم برادریوں کے اشراف کے ساتھ ساتھ ہندو اشراف کی ایک اقلیت، جیسا کہ ہندو نسل کے منشی،[86] نے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں فارسی عربی رسم الخط میں زبان لکھی، حالانکہ ہندو بعض ادبیات میں دیوناگری رسم الخط کو استعمال کرتے رہے۔ اور مذہبی سیاق و سباق۔ [85] [87] انیسویں صدی کے آخر تک، لوگ اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طور پر نہیں دیکھتے تھے، حالانکہ شہری علاقوں میں، معیاری ہندستانی زبان کو تیزی سے اردو کہا جاتا تھا اور فارسی عربی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ اردو اور انگریزی نے 1837ء میں ہندوستان کے شمالی حصوں میں فارسی کو سرکاری زبانوں کے طور پر بدل دیا [88] نوآبادیاتی ہندوستانی اسلامی اسکولوں میں، مسلمانوں کو ہند اسلامی تہذیب کی زبانوں کے طور پر فارسی اور عربی پڑھائی جاتی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں خواندگی کو فروغ دینے اور انھیں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے ان سرکاری تعلیمی اداروں میں فارسی عربی رسم الخط میں لکھی ہوئی اردو پڑھانا شروع کی اور اس وقت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں اردو کو بطور خاص نظر آنے لگا۔ [85] شمال مغربی ہندوستان میں ہندوؤں نے، آریہ سماج کے تحت فارسی عربی رسم الخط کے استعمال کے خلاف احتجاج کیا اور دلیل دی کہ زبان کو مقامی دیوناگری رسم الخط میں لکھا جانا چاہیے، [89] جس نے دیوناگری میں لکھی گئی ہندی کے استعمال کو جنم دیا۔ انجمن اسلامیہ لاہور [89] دیوناگری رسم الخط میں ہندی اور فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی گئی اردو نے مسلمانوں کے لیے "اردو" اور ہندوؤں کے لیے "ہندی" کی فرقہ وارانہ تقسیم قائم کی، یہ تقسیم نوآبادیاتی ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں تقسیم ہو گئی۔ پاکستان کی آزادی کے بعد (حالانکہ ایسے ہندو شاعر ہیں جو اردو میں لکھتے رہتے ہیں، جن میں گوپی چند نارنگ اور گلزار ) تھے۔ [90] [91]

تقسیم کے بعد

متحدہ عرب امارات میں عربی ، انگریزی اور اردو میں سہ زبانی سائن بورڈ ۔ اردو جملہ انگریزی کا براہ راست ترجمہ نہیں ہے ("آپ کا خوبصورت شہر آپ کو اسے محفوظ رکھنے کی دعوت دیتا ہے۔" ) یہ کہتا ہے، "اپنی شہر کی خوشصورتی کو برقرار رکھیے یا "براہ کرم اپنے شہر کی خوبصورتی کو محفوظ رکھیں۔"

اردو کو بمبئی پریزیڈنسی ، بنگال ، صوبہ اڑیسہ ، [92] اور ریاست حیدرآباد کے نوآبادیاتی ہندوستانی مصنفین کے لیے بطور ادبی ذریعہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ [93] 1973 میں، اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ [94] 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے اور اس کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد کے بعد جو کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، [95] نے بھی ہندی-اردو میں عبور حاصل کر لیا ۔ ہندوستانی میڈیا خاص طور پر ہندی-اردو بالی ووڈ فلمیں اور گانے اردو زبان میں ہوتے ہیں۔ [96] [97] اردو کو پراکرت اور سنسکرت کے مقامی الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہندی کو فارسی کے الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے - نئی لغت بنیادی طور پر فارسی اور عربی سے اردو کے لیے اور سنسکرت سے ہندی سے نکالی گئی ہے۔ [98] [99] انگریزی نے ایک مشترکہ سرکاری زبان کے طور پر دونوں پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ بروس (2021ء) کے مطابق، اٹھارویں صدی سے اردو نے انگریزی الفاظ کو ڈھال لیا ہے۔[100] پاکستان میں 1947ء میں اپنی آزادی کے بعد سے ایک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی طرف ایک تحریک ابھری جو ہندوستان میں ابھرنے والی ہائپر سنسکرت زدہ ہندی کی طرح "مصنوعی" ہے۔ [101] ہندی کے بڑھتے ہوئے سنسکرتائزیشن سے کچھ حد تک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ [102] پاکستان میں روزمرہ کی بنیاد پر بولی جانے والی اردو کا انداز غیر جانبدار ہندستانی کے مشابہ ہے جو برصغیر کے شمالی حصے کی زبان ہے۔ [103] [104]

1977 کے بعد سے، [105] صحافی خشونت سنگھ جیسے کچھ مبصرین نے اردو کو "مرتی ہوئی زبان" قرار دیا ہے، حالانکہ دیگر، جیسے کہ ہندوستانی شاعر اور مصنف گلزار (جو دونوں ممالک میں مقبول ہیں، نے اس تشخیص سے اختلاف کیا اور کہا کہ اردو ہندوستان میں "سب سے زندہ زبان ہے اور وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے"۔ [106] [107] [108] [105] [109] [110] [111] یہ رجحان دیگر زبانوں کے بولنے والوں کے مقابلے میں مقامی اردو بولنے والوں کی نسبتاً اور مطلق تعداد میں کمی سے متعلق ہے۔[112][113] اردو کے فارسی عربی رسم الخط، اردو ذخیرہ الفاظ اور گرامر کے بارے میں کم ہوتی ہوئی (جدید) علم؛ [112] [114] اردو سے اور ادب کے ترجمے اور نقل کا کردار۔ [112] اردو کی بدلتی ثقافتی تصویر اور اردو بولنے والوں کے ساتھ منسلک سماجی و اقتصادی حیثیت (جس سے دونوں ممالک میں خاص طور پر ان کے روزگار کے مواقع پر منفی اثر پڑتا ہے)، [114] [112] اردو کی قانونی حیثیت اور حقیقی سیاسی حیثیت، [114] اردو کو تعلیم کی زبان کے طور پر کتنا استعمال کیا جاتا ہے اور طلبہ نے اعلیٰ تعلیم میں اس کا انتخاب کیا ہے، [114] [112] [113] [111] اور کس طرح اردو کی دیکھ بھال اور ترقی کو حکومتوں اور این جی اوز کی مالی اور ادارہ جاتی مدد حاصل ہے۔ [114] [112] ہندوستان میں، اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کے ذریعہ استعمال نہیں کی جاتی ہے اور نہ کبھی ہوتی ہے (اور ہندی کبھی بھی خصوصی طور پر ہندوؤں کے ذریعہ نہیں)، [111] [115] جاری ہندی-اردو تنازعہ اور دونوں مذاہب کے ساتھ ہر زبان کی جدید ثقافتی وابستگی کی وجہ سے بہت کم اضافہ ہوا ہے۔ ہندو اردو استعمال کرتے ہیں۔ [111] [115] 20ویں صدی میں، ہندوستانی مسلمانوں نے بتدریج اجتماعی طور پر اردو کو اپنانا شروع کیا [115] (مثال کے طور پر، ' بہار کی آزادی کے بعد کی مسلم سیاست نے اردو زبان کے ارد گرد ایک متحرک دیکھا جو اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے آلے کے طور پر خاص طور پر کمزور سماجی و اقتصادی پس منظر سے آنے والی ہے'۔ [112] )، لیکن 21 ویں صدی کے اوائل میں ہندوستانی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے سماجی و اقتصادی عوامل کی وجہ سے ہندی کو تبدیل کرنا شروع کیا، جیسے کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں اردو کو تدریسی زبان کے طور پر چھوڑ دیا گیا، [113] [112] [111] ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 2001ء اور 2011ء کے درمیان 1.5 فیصد کم ہوئی (اس وقت 5.08 ملین اردو بولنے والے تھے)، خاص طور پر سب سے زیادہ اردو بولنے والی ریاستوں اتر پردیش (c. 8% سے 5%) اور بہار (c. 11.5% سے 8.5%)، حالانکہ ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔ [113] اگرچہ 21 ویں صدی کے اوائل کے ہندوستانی پاپ کلچر میں اردو اب بھی بہت نمایاں ہے، بالی ووڈ [110] سے لے کر سوشل میڈیا تک، اردو رسم الخط اور اردو میں کتابوں کی اشاعت میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ [112] چونکہ پاکستانی حکومت نے تقسیم کے وقت اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا، اس لیے ہندوستانی ریاست اور کچھ مذہبی قوم پرستوں نے جزوی طور پر اردو کو ایک 'غیر ملکی' زبان کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔ [109] ہندوستان میں اردو کے حامی اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ اسے دیوناگری اور لاطینی رسم الخط ( رومن اردو ) میں لکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔[111] [116][112]

وولہ بھائی آفتاب نے دلیل دی کہ اردو اصل میں روشن خیالی، ترقی اور آزادی کی ایک بہترین اشرافیہ زبان ہے، جس نے تحریک آزادی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ [117] لیکن 1947ء کی تقسیم کے بعد، جب اسے پاکستان کی قومی زبان کے طور پر منتخب کیا گیا، تو اسے بنیادی طور پر بنگالی سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا (جو کل آبادی کا 56 فیصد بولی جاتی ہے، زیادہ تر مشرقی پاکستان میں۔ آزادی کے حامی دونوں اشرافیہ جنھوں نے پاکستان میں مسلم لیگ اور ہندوستان میں ہندو اکثریتی کانگریس پارٹی کی قیادت کی تھی، برطانوی نوآبادیاتی دور میں انگریزی میں تعلیم حاصل کی گئی تھی اور انگریزی میں کام کرتے رہے اور اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں بھیجتے رہے۔ [117] اگرچہ پاکستان میں اشرافیہ نے مختلف درجات کے ساتھ تعلیم کی اردوائزیشن کی کوششیں کی ہیں، لیکن سیاست، قانونی نظام، فوج اور معیشت کو اردو میں کرنے کے لیے کوئی بھی کامیاب کوشش نہیں کی گئی۔ [117] یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت (1977-1988)، جو ایک متوسط پنجابی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی طور پر پاکستانی معاشرے کی تیز اور مکمل اردوائزیشن کی بھرپور حمایت کرتے تھے (انھیں 'سرپرست اردو' کا اعزازی خطاب دیا گیا تھا۔ [117] 1960ء کی دہائی سے، اردو پاکستان میں اردو زبان مذہبی اسلام پسندی اور سیاسی قومی قدامت پرستی (اور آخر کار نچلے اور نچلے متوسط طبقے، علاقائی زبانوں جیسے کہ پنجابی، سندھی اور بلوچی) کے ساتھ منسلک رہی ہے، جبکہ انگریزی۔ بین الاقوامی سطح پر سیکولر اور ترقی پسند بائیں بازو (اور آخر کار بالائی اور اعلیٰ متوسط طبقے) سے وابستہ رہی۔ [117]

آبادیاتی اور جغرافیائی تقسیم

ہندوستان اور پاکستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 50.8 ملین تھی (کل آبادی کا 4.34%)۔ [118] [119] 2006 میں پاکستان میں تقریباً 16 ملین [120] برطانیہ، سعودی عرب، امریکا اور بنگلہ دیش میں بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم، اردو زبان بہت وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے، جو دنیا میں مینڈارن چینی اور انگریزی کے بعد تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ [121] نحو (گرامر)، اردو اور ہندی کے بنیادی الفاظ بنیادی طور پر یکساں ہیں - اس طرح ماہر لسانیات انھیں عام طور پر ایک زبان کے طور پر شمار کرتے ہیں، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ انھیں سماجی و سیاسی وجوہات کی بنا پر دو مختلف زبانوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ [122] دوسری زبانوں کے ساتھ تعامل کی وجہ سے، اردو جہاں کہیں بھی بولی جاتی ہے، بشمول پاکستان میں مقامی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اردو میں تبدیلیاں آئی ہیں اور اس نے علاقائی زبانوں کے بہت سے الفاظ کو شامل کیا ہے۔ اسی طرح، ہندوستان میں بولی جانے والی اردو کو کئی بولیوں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے جیسے کہ لکھنؤ اور دہلی کی معیاری اردو کے ساتھ ساتھ جنوبی ہندوستان کی دکنی بولی وغیرہ۔ [123] [124] اردو کی ہندی سے مماثلت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔[125]

پاکستان میں اردو

پاکستان کی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ہر پاکستانی ضلع میں ان کی مادری زبان اردو والے لوگوں کا تناسب

اردو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، [126] لیکن پاکستان کی صرف 7 فیصد آبادی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر بولتی ہے۔ [127] پاکستان میں پچیس سال سے زائد عرصے تک رہنے والے مختلف نسلی (جیسے پشتون ، تاجک ، ازبک ، ہزاروی اور ترکمان ) کے تقریباً تیس لاکھ افغان مہاجرین میں سے زیادہ تر اردو زبان بولتے ہیں۔ [128][129] یہ مدرسوں میں اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے ایسے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کر دیے ہیں، جن کی مادری زبان پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، براہوی، سرائیکی اور چترالی وغیرہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو میں بہت سے اخبارات شائع ہوتے ہیں جن میں روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ ملت شامل ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا ویب سائٹس جیسا کہ ڈیلی پاکستان اور اردو پوائنٹ اردو زبان میں مواد فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی خطہ اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال نہیں کرتا۔ پاکستان کی پنجابی اشرافیہ نے اردو کو مادری زبان کے طور پر اپنایا ہے اور وہ اردو بولنے والے کے ساتھ ساتھ پنجابی شناخت دونوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ [130] [131] اردو کو 1947ء میں پاکستان کی نئی ریاست کے لیے اتحاد کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ یہ پاکستان کے تمام صوبوں/علاقوں میں لکھی، بولی اور استعمال کی جاتی ہے۔ [132] انگریزی اور اردو دونوں میڈیم اسکولوں میں ہائر سیکنڈری اسکول تک اردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس نے لاکھوں دوسری زبان کے بولنے والوں کو اردو سکھائی۔ [133] جبکہ کچھ اردو الفاظ کو پاکستان کی علاقائی زبانوں نے بھی ضم کر لیا ہے۔ [134] [135] 8 ستمبر 2015ء بروز منگل کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے متعلقہ حکام کو فوری طور پر سرکاری دفاتر میں اردو بطور سرکاری زبان کے نفاذ کے لیے حکم دے رکھا ہے۔ [136]

بھارت

بھارت اور پاکستان میں اردو بولنے والے علاقے۔
  علاقے جہاں اردو سرکاری یا علاقائی سرکاری زبان سے مشترکہ سرکاری زبان ہے۔
  (دیگر) علاقے جہاں صوبائی زبان سرکاری زبان ہے۔

بھارت میں، اردو ان جگہوں پر بولی جاتی ہے جہاں بڑی مسلم اقلیتیں یا شہر ہیں جو ماضی میں مسلم سلطنتوں کے علاقے تھے۔ ان میں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، بہار، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا (مراٹھواڑہ اور کونکنی)، کرناٹک اور حیدرآباد، لکھنؤ، دہلی، ملیرکوٹلہ، بریلی، میرٹھ، سہارنپور، مظفر نگر، روڑکی، مورا آباد، اعظم گڑھ، بجنور، نجیب آباد، رام پور، علی گڑھ، الہ آباد، گورکھپور، آگرہ، فیروز آباد، کانپور، بدایوں، بھوپال، حیدرآباد، اورنگ آباد، سمستی پور،[137] بنگلور، کولکاتا، میسور، پٹنہ، دربھنگہ، مدھوا، سمبھوانی، گانو پور سہرسہ، سپول، مظفر پور، نالندہ، مونگیر، بھاگلپور، ارریہ، گلبرگہ، پربھنی، ناندیڑ، مالیگاؤں، بیدر، اجمیر اور احمد آباد جیسے شہر شامل ہیں۔[138] بھارت کے تقریباً 800 اضلاع میں ایک بہت بڑی تعداد میں اردو بولنے والی اقلیت میں ہیں۔ ارریہ ضلع، بہار میں، اردو بولنے والوں کی کثرت ہے اور حیدرآباد ضلع، تلنگانہ (43.35 فیصد تلگو بولنے والے اور 43.24 فیصد اردو بولنے والے) میں تقریباً کثرت ہے۔

کچھ بھارتی مسلم اسکول (مدرسہ) اردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں اور ان کا اپنا نصاب اور امتحانات ہوتے ہیں۔ درحقیقت بالی ووڈ فلموں کی زبان میں فارسی اور عربی الفاظ کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے اور اس طرح اسے ایک لحاظ سے "اردو" سمجھا جاتا ہے،[139] خاص طور پر گانوں میں۔ [140] بھارت میں 3,000 سے زیادہ اردو اشاعتیں ہیں جن میں 405 روزانہ اردو اخبارات بھی شامل ہیں۔ [141] اخبارات جیسے کہ نشاط نیوز اردو، سہارا اردو، روزنامہ سالار، ہندوستان ایکسپریس، روزنامہ پاسبان، روزنامہ سیاست، روزنامہ منصف اور انقلاب بنگلور، مالیگاؤں، میسور، حیدرآباد اور ممبئی میں شائع اور تقسیم کیے جاتے ہیں۔[142]

دیگر ممالک

جنوبی ایشیا سے باہر، یہ خلیج فارس کے ممالک کے بڑے شہری مراکز میں نقل مکانی کرنے والے جنوب ایشیائی کارکنوں کی بڑی تعداد کے ذریعہ بولی جاتی ہے۔ برطانیہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا، جرمنی، نیوزی لینڈ، ناروے اور آسٹریلیا کے بڑے شہری مراکز میں بڑی تعداد میں تارکین وطن اور ان کے بچے بھی اردو بولتے ہیں۔ [143] عربی کے ساتھ ساتھ، کاتالونیا میں سب سے زیادہ بولنے والے تارکین وطن کی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔[144]

سرکاری حیثیت

پاکستان میں

پاکستان ریلویز صدر دفتر کے اوپر لکھی ہو اردو تحریر

اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ تعلیم، اَدب، دفتر، عدالت، وسیط اور دینی اِداروں میں مستعمل ہے۔ یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ ہے۔

اردو پاکستان میں واحد قومی زبان ہے اور پاکستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک (انگریزی کے ساتھ)۔[145] یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، جبکہ ریاستی زبانیں (مختلف خطوں میں بولی جانے والی زبانیں) صوبائی زبانیں ہیں، حالانکہ صرف 7.57 فیصد پاکستانی اپنی پہلی زبان کے طور پر اردو بولتے ہیں۔[146] اس کی سرکاری حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ اردو دوسری یا تیسری زبان کے طور پر پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ یہ تعلیم، ادب، دفتر اور عدالت کے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے،[147] حالانکہ عملی طور پر حکومت کے اعلیٰ عہدوں میں اردو کی بجائے انگریزی استعمال ہوتی ہے۔[148] پاکستانی آئین کے آرٹیکل 251(1) میں کہا گیا ہے کہ اردو کو حکومت کی واحد زبان کے طور پر لاگو کیا جائے، حالانکہ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر انگریزی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے۔ [149]

بھارت میں

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن میں ہمہ زبانوں میں لکھا ہوا بورڈ۔

اردو بھارت میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے اور اسے بھارتی ریاستوں آندھرا پردیش، اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، تلنگانہ اور قومی دار الحکومت دہلی میں "اضافی سرکاری زبان" کا درجہ بھی حاصل ہے۔[150] جموں و کشمیر کی پانچ سرکاری زبانوں میں سے ایک کے طور پر بھی ہے۔[151]

بھارت نے 1969ء میں اردو کے فروغ کے لیے سرکاری بیورو قائم کیا، حالانکہ سنٹرل ہندی ڈائریکٹوریٹ اس سے قبل 1960ء میں قائم کیا گیا تھا اور ہندی کی ترویج کے لیے بہتر مالی امداد اور زیادہ ترقی دی گئی ہے، [152] جب کہ فروغ سے اردو کی حیثیت کو نقصان پہنچا ہے۔[153] اردو کی نجی بھارتی تنظیمیں جیسے انجمنِ طریقت اردو، دینی علمی کونسل اور اردو مصحف دستہ اردو کے استعمال اور تحفظ کو فروغ دیتی ہیں، انجمن نے کامیابی کے ساتھ ایک مہم کا آغاز کیا جس نے 1970ء کی دہائی میں بہار کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو دوبارہ متعارف کرایا۔[152] سابقہ جموں و کشمیر ریاست میں، کشمیر کے آئین کے سیکشن 145 میں کہا گیا ہے: "ریاست کی سرکاری زبان اردو ہوگی لیکن انگریزی زبان جب تک قانون سازی کے ذریعہ دوسری صورت میں فراہم نہیں کرتی، ریاست کے تمام سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہے گی۔ وہ ریاست جس کے لیے اسے آئین کے آغاز سے فوراً پہلے استعمال کیا جا رہا تھا۔[154]

بولیاں

مینار پاکستان پر مختلف زبانوں میں تحریر

اردو میں چند تسلیم شدہ بولیاں ہیں، جن میں دکھنی، ڈھاکیہ، ریختہ اور ماڈرن ورناکولر اردو (دہلی کے علاقے کی کوروی بولی بولی پر مبنی) شامل ہیں۔ دکنی، جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن میں بولی جاتی ہے۔ یہ مراٹھی اور کوکنی زبان کے الفاظ کے مرکب کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور چغتائی کے الفاظ کے مرکب سے الگ ہے جو اردو کی معیاری بولی میں نہیں ملتی۔ دکھنی مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک کے تمام حصوں میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ اردو ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ ان ریاستوں میں اردو کے کئی روزنامے اور کئی ماہانہ رسائل شائع ہوتے ہیں۔

ڈھاکیہ اردو بنگلہ دیش کے پرانے ڈھاکہ شہر کی ایک بولی ہے جو مغل دور سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم، اس کی مقبولیت، یہاں تک کہ مقامی بولنے والوں میں بھی، 20ویں صدی میں بنگالی زبان کی تحریک کے بعد سے بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسے بنگلہ دیش کی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی بولی جانے والی اردو اس بولی سے مختلف ہے۔

اردو کی وہ بولیاں جن کی شناخت کی گئی ہے، یہ ہیں:

  • دکنی - اس کو دکھنی، دیسیا، مرگان نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ زبان دکن بھارت میں بولی جاتی ہے۔ مہاراشٹر میں جائیں تو مراٹھی اور کونکنی زبانوں کا اثر ملے گا، آندھرا پردیش جائیں تو تیلگو کا اثر ملے گا۔
  • ریختہ
  • کھری بولی: (کھڑی بولی)

پاکستان میں اردو پر پشتو، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، سندھی زبانوں کا اثر پایا جاتا ہے، مقامی زبانوں کے اثر کی وجہ سے اردو کے حروف تہجی عربی اور فارسی سے زیادہ ہیں، بنیادی طور پر پاکستان کی اردو پر فارسی اور عربی کا اثر نمایاں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ہندی کے ساتھ موازنہ

ہندوستان میں سڑک کے نشان پر اردو اور ہندی۔ اردو ورژن انگریزی کا براہ راست ترجمہ ہے۔ ہندی ایک حصہ نقل حرفی ہے ("پارسل" اور "ریل") اور جزوی ترجمہ "کاریالے" اور "ارکشن کیندر"

معیاری اردو کا اکثر معیاری ہندی سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ [155] اردو اور ہندی دونوں، جو ایک ہی زبان، ہندوستانی کے بنیادی الفاظ اور گرامر کا اشتراک کرتے ہیں۔[156] [157] [158] [159] مذہبی انجمنوں کے علاوہ، اختلافات زیادہ تر معیاری شکلوں تک ہی محدود ہیں: معیاری اردو روایتی طور پر فارسی حروف تہجی کے نستعلیق انداز میں لکھی جاتی ہے اور فنی اور ادبی الفاظ کے ماخذ کے طور پر فارسی اور عربی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے،[160] جبکہ معیاری ہندی روایتی طور پر دیوناگری میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت سے عبارت ہے۔[161] تاہم، دونوں مقامی سنسکرت اور پراکرت سے ماخوذ الفاظ کی بنیادی ذخیرہ الفاظ اور عربی اور فارسی کے الفاظ کی ایک خاصی مقدار کا اشتراک کرتے ہیں، ماہرین لسانیات کے اتفاق کے ساتھ کہ وہ ایک ہی زبان کی دو معیاری شکلیں ہیں[162] اور فرق پر غور کریں۔ سماجی لسانی ہونا؛[163] کچھ ان کی الگ الگ درجہ بندی کرتے ہیں۔[164] دونوں زبانوں کو اکثر ایک زبان (ہندوستانی یا ہندی-اردو) سمجھا جاتا ہے جس میں فارسی سے لے کر سنسکرت کے الفاظ تک کے تسلسل میں بولی جاتی ہے،[165] لیکن اب وہ سیاست کی وجہ سے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مختلف ہیں۔ [166] پرانی اردو لغات میں سنسکرت کے زیادہ تر الفاظ اب ہندی میں موجود ہیں۔[167] صوتیاتی سطح پر، دونوں زبانوں کے بولنے والے اپنے الفاظ کے انتخاب کی فارسی-عربی یا سنسکرت کی اصل سے اکثر واقف ہوتے ہیں، جو ان الفاظ کے تلفظ کو متاثر کرتا ہے۔[168] اردو بولنے والے اکثر سنسکرت کے الفاظ میں پائے جانے والے حرفوں کے جھرمٹ کو توڑنے کے لیے حرف داخل کرتے ہیں، لیکن عربی اور فارسی کے الفاظ میں ان کا صحیح تلفظ کریں گے۔[169] برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد سے مذہبی قوم پرستی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں، ہندی اور اردو دونوں کے مقامی بولنے والے اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ الگ الگ زبانیں ہیں۔

اردو بولنے والے ممالک

درج ذیل فہرست میں کچھ ممالک میں اردو بولنے والوں کی تعداد دکھائی گئی ہے۔

ملکآبادیمقامی زبان بولنے والے%مقامی بولنے والے اور دوسری زبان بولنے والے%
 بھارت1,296,834,042 [170]50,772,631 [171]3.912,151,715 [172]0.9
 پاکستان207,862,518 [173]14,700,000 [174] [175]7164,000,00077%
 سعودی عرب33,091,113 [176]-2.3930,000 [177]-
 نیپال29,717,587 [178]691,546 [179]2.3--
 افغانستان38,347,000 [180]--733,000 [181]-
 بنگلادیش159,453,001 [182]300,000 [183]0.1--
برطانیہ65,105,246 [184]269,0000.4--
 ریاستہائے متحدہ329,256,465 [185]397,502 [186]0.1--
 متحدہ عرب امارات9,890,400300,0003.01,500,00015.1
 کینیڈا35,881,659 [187]243,090 [188]0.6--
 بحرین (اقلیتی)
 فجی (ہندستانی، انگریزی اور فجی کے ساتھ شریک سرکاری زبان)
 موریشس (اقلیتی زبان)
 سلطنت عمان (اقلیتی زبان)
 قطر (اقلیتی زبان)
 جنوبی افریقا (اقلیتی زبان)

ذخیرہ الفاظ

سید احمد دہلوی، انیسویں صدی کے ایک لغت نگار جنھوں نے فرہنگِ آصفیہ[189] اردو لغت مرتب کی، اندازہ لگایا کہ 75% اردو الفاظ کی جڑیں سنسکرت اور پراکرت میں ہیں، [190] [191] [192] اور تقریباً اردو کے 99% فعل کی جڑیں سنسکرت اور پراکرت میں ہیں۔[193] [194] اردو نے فارسی سے الفاظ مستعار لیے ہیں اور کچھ حد تک عربی فارسی کے ذریعے،[195] تقریباً 25% [190] [191] [192] [196] اردو کی ذخیرہ الفاظ کا 30% تک۔[197] چیپل ہل میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے ماہر لسانیات افروز تاج کی طرف سے بیان کردہ جدول اسی طرح ادبی اردو میں سنسکرت سے ماخوذ الفاظ کے فارسی ادھار کی مقدار کو 1:3 کے تناسب پر مشتمل بیان کرتا ہے۔[192]"فارسیائزیشن کی طرف رجحان" 18ویں صدی میں اردو شاعروں کے دہلی اسکول سے شروع ہوا، حالانکہ دیگر مصنفین، جیسے میراجی ، نے زبان کی سنسکرت شکل میں لکھا۔ [198] 1947 کے بعد سے پاکستان میں ہائپر فارسائزیشن کی طرف پیش قدمی جاری ہے، جسے ملک کے بیشتر مصنفین نے اپنایا ہے۔ [199] اس طرح، کچھ اردو عبارتیں 70% فارسی-عربی قرضوں پر مشتمل ہو سکتی ہیں جس طرح کچھ فارسی متن میں 70% عربی الفاظ ہو سکتے ہیں۔[200] کچھ پاکستانی اردو بولنے والوں نے ہندوستانی تفریح کی نمائش کے نتیجے میں ہندی الفاظ کو اپنی تقریر میں شامل کیا ہے۔ ہندوستان میں ہندی سے اردو اتنی نہیں بدل گئی جتنی پاکستان میں ہے۔[201]اردو میں زیادہ تر مستعار الفاظ اسم اور صفت ہیں۔ [202] عربی اصل کے بہت سے الفاظ فارسی کے ذریعے اختیار کیے گئے ہیں، [203] اور عربی کے مقابلے میں مختلف تلفظ اور معنی اور استعمال کی باریکیاں ہیں۔ پرتگالیوں سے ادھار کی تعداد بھی کم ہے۔ اردو میں مستعار پرتگالی الفاظ کے لیے کچھ مثالیں چابی ("chave": key)، گرجا ("igreja": church)، کمرہ ("cámara": room)، قمیض ("camisa": shirt) ہیں۔ [204]

اگرچہ اردو کا لفظ ترکی کے لفظ ordu (army) یا orda سے ماخوذ ہے، جس سے انگریزی horde بھی ماخوذ ہے، [205] اردو میں ترک ادھار کم سے کم ہے[206] اور اردو کا تعلق جینیاتی طور پر بھی ترک زبانوں سے نہیں ہے۔ چغتائی اور عربی سے نکلنے والے اردو الفاظ فارسی سے مستعار لیے گئے تھے اور اس لیے یہ اصل الفاظ کے فارسی نسخے ہیں۔ مثال کے طور پر، عربی ta' marbutaة اس میں تبدیلیاں ( ه> ) یا teت )۔ [207][note 1] بہر حال، عام خیال کے برخلاف، اردو نے ترکی زبان سے نہیں لیا، بلکہ چغتائی سے لیا، جو وسطی ایشیا کی ایک ترک زبان ہے ۔ اردو اور ترکی دونوں عربی اور فارسی سے مستعار ہیں، اس لیے بہت سے اردو اور ترکی الفاظ کے تلفظ میں مماثلت ہے۔

رسمیت

اردو کو اس کے کم باضابطہ رجسٹر میں rek̤h̤tah ( ریختہ ، [reːxtaː] ) کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے "کھردرا مرکب"۔ اردو کے زیادہ باضابطہ رجسٹر کو بعض اوقات zabān-i Urdū-yi muʿallá ( زبانِ اُردُوئے معلّٰى [zəbaːn eː ʊrdu eː moəllaː] )، "بلند کیمپ کی زبان" کہا جاتا ہے، جس کا حوالہ دیتے ہوئے لشکری زبان فوج [208] میں مقامی یا لاشری کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ʃkəɾi ləʃkəɾi: zɑ:bɑ:n ]) [209] یا صرف لشکری۔[210] اردو میں استعمال ہونے والے لفظ کی تشبیہات ، زیادہ تر حصے کے لیے، فیصلہ کرتی ہیں کہ کسی کی بات کتنی شائستہ یا بہتر ہے۔ مثال کے طور پر، اردو بولنے والے پانی اور آب آب کے درمیان فرق کریں گے، دونوں کے معنی "پانی" کے ہیں: سابقہ بول چال میں استعمال ہوتا ہے اور اس کی سنسکرت کی اصل ہے، جب کہ مؤخر الذکر فارسی نژاد ہونے کی وجہ سے رسمی اور شاعرانہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔

اگر کوئی لفظ فارسی یا عربی زبان کا ہو تو تقریر کی سطح زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح، اگر فارسی یا عربی گرامر کی تعمیرات، جیسے کہ اِضافات ، کو اردو میں استعمال کیا جائے، تو تقریر کی سطح بھی زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی لفظ سنسکرت سے وراثت میں ملا ہے تو تقریر کی سطح کو زیادہ بول چال اور ذاتی سمجھا جاتا ہے۔[211]

تحریری نظام

اردو نستعلیق حروف تہجی، دیوناگری اور رومن رسم الخط میں ناموں کے ساتھ

اردو کا تحریری نظام فارسی حروف تہجی کی توسیع ہے جو دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے اور یہ نظام خود عربی حروف تہجی کی توسیع ہے۔ اردو کا تعلق فارسی خطاطی کے نستعلیق طرز سے ہے، جب کہ عربی عام طور پر ناسخ یا رقہ کے انداز میں لکھی جاتی ہے۔ نستعلیق کو ٹائپ سیٹ کرنا بدنام زمانہ مشکل ہے، لہٰذا 1980ء کی دہائی کے آخر تک اردو اخبارات کو خطاطی کے ماہروں کے ہاتھ سے لکھا جاتا تھا، جنہیں کاتب یا خُوش نویس کہا جاتا تھا۔ ایک ہاتھ سے لکھا ہوا اردو اخبار، دی مسلمان ، اب بھی چنئی میں روزانہ شائع ہوتا ہے۔ [212]

ٹیکسلا کے قریب سرکپ کے آثار قدیمہ کے مقام پر انگریزی-اردو دو لسانی نشان۔ اردو کہتی ہے: (دائیں سے بائیں) دو سروں والے عقاب کی شبيہ والا مندر ، dō sarōñ wālé uqāb kī shabīh wāla mandir۔ "دو سروں کے ساتھ عقاب کی تصویر والا مندر۔"

اردو کی ایک انتہائی فارسی اور تکنیکی شکل بنگال اور شمال مغربی صوبوں اور اودھ میں برطانوی انتظامیہ کی قانونی عدالتوں کی زبانی تھی۔ 19ویں صدی کے آخر تک، اردو کے اس رجسٹر میں تمام کارروائیاں اور عدالتی لین دین سرکاری طور پر فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ 1880ء میں، نوآبادیاتی ہندوستان میں بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر سر ایشلے ایڈن نے بنگال کی عدالتوں میں فارسی حروف تہجی کے استعمال کو ختم کر دیا اور اردو اور ہندی دونوں کے لیے استعمال ہونے والی مقبول رسم الخط کیتھی کے خصوصی استعمال کا حکم دیا۔ صوبہ بہار میں عدالتی زبان اردو تھی جو کیتھی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔[213] [214] [215][216] کیتھی کا اردو اور ہندی کے ساتھ تعلق بالآخر ان زبانوں اور ان کے رسم الخط کے درمیان سیاسی مقابلے کے باعث ختم ہو گیا، جس میں فارسی رسم الخط کو یقینی طور پر اردو سے جوڑا گیا تھا۔

حال ہی میں ہندوستان میں، اردو بولنے والوں نے اردو رسالوں کی اشاعت کے لیے دیوناگری کو اپنایا ہے اور دیوناگری میں اردو کو دیوناگری میں ہندی سے الگ نشان زد کرنے کے لیے نئی حکمت عملیوں کو اختراع کیا ہے۔ ایسے ناشرین نے اردو الفاظ کی فارسی عربی تشبیہات کی نمائندگی کرنے کے مقصد سے دیوناگری میں نئی آرتھوگرافک خصوصیات متعارف کروائی ہیں۔ ایک مثال ہندی آرتھوگرافک قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ع ( 'عین ) کے سیاق و سباق کی نقل کرنے کے لیے حرفی علامات کے ساتھ ا (دیوناگری a ) کا استعمال ہے۔ اردو پبلشرز کے لیے، دیوناگری کا استعمال انھیں زیادہ سامعین فراہم کرتا ہے، جب کہ آرتھوگرافک تبدیلیاں انھیں اردو کی ایک الگ شناخت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔

بنگال کے کچھ شاعروں، یعنی قاضی نذر الاسلام ، نے تاریخی طور پر بنگالی رسم الخط کو اردو شاعری لکھنے کے لیے استعمال کیا ہے جیسے پریم نگر کا ٹھکانہ کرلے اور میرا بیٹی کی خیلہ ، نیز دو لسانی بنگالی اردو نظمیں جیسے الگا کورو گو کھوپر بندھن ، جبوکر چھولونا اور میرا دل بیت کیا۔[217] [218] [219] ڈھاکہ اردو اردو کی ایک بول چال کی غیر معیاری بولی ہے جو عام طور پر نہیں لکھی جاتی تھی۔ تاہم، بولی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے والی تنظیموں نے بولی کو بنگالی رسم الخط میں نقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ [note 2] [220]

اردوحروف تہجی

جدول 1: درج ذیل جدول میں حروف تہجی ، قابلِ طق (clickable) ہیں اور متعلقہ ابجد کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ ہر ابجد کے نیچے اسکا انگریزی تلفظ ، غیراردو (یا طالب اردو) صارفین کو مدنظر رکھ کر دیا گیا ہے؛ جبکہ (قوسین) میں موجود انگریزی متبادل ابجدیہ ، بصورت ضرورت لاطینی اردو (roman urdu) تلفظ کی ادائگی میں یکسانیت قائم رکھنے کے مقصد سے درج ہیں۔
ابپتٹثجچح
Alif (a)Bay (b)Pay (p)tey (t)Tey (T)sey (s) Jiim (j)chey (ch)Hey (H)
خدڈذرڑزژس
Khey (Kh)daal (d)Daal (D)zaal (z)rey (r)Rey (R)zey (z)zhey (zh)siin (s)
شصضطظعغفق
shiin (sh)Suad (S)Zuad (Z)toy (t)zoy (z)ain (a)Ghain (Gh)fey (f)qaaf (q)
کگلمنوہیے
kaaf (k)gaaf (g)laam (l)miim (m)noon (n)wao (w,v)hey (h)yei (y)Yei (Y)

ادب

حضرت امیر خسرو کی فارسی شاعری۔ (1253–1325)۔

اردو ادب نے حالیہ صدیوں میں حقیقی مقام پایا، اس سے کئی صدیوں پہلے تک سلاطین دہلی پر فارسی کا غلبہ تھا۔ فارسی کی جگہ اردو نے بڑی آسانی سے پالی اور یہاں تک کہ لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ فارسی کبھی سرکاری زبان تھی بھی کہ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اردو کے مصنفین اور فنکار ہیں۔

نثری ادب

مذہبی

اردو زبان میں اسلامی ادب اور شریعت کی کئی تصانیف ہیں۔ اس میں تفسیر القران، قرآنی تراجم، احادیث، فقہ، تاریخ اسلام، روحانیت اور صوفی طریقہ کے بے شمار کتب دستیاب ہیں۔ عربی اور فارسی کی کئی کلاسیکی کتب کے بھی تراجم اردو میں ہیں۔ ساتھ ساتھ کئی اہم، مقبول، معروف اسلامی ادبی کتب کا خزینہ اردو میں دستیاب ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پنڈت روپ چند جوشی نے اٹھارویں صدی میں ایک کتاب لکھی، جس کا نام لال کتاب ہے۔ اس کا موضوع فالنامہ ہے۔ یہ کتاب برہمنوں کے اُن خاندانوں میں جہاں اردو عام زبان تھی، کافی مشہور کتاب مانی گئی۔

ادبی

میر تقی میر (1723–1810) مغل سلطنت کے دور میں 18 ویں صدی میں اودھ کے نوابی دور کے مشہور شاعر۔

غیر مذہبی ادب کو پھر سے دو اشکال میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک فکشن ہے تو دوسرا غیر فکشن۔

نظم

مرزا غالب کی ایک یادگار تصویر۔
علامہ اقبال۔

ادب کی دوسری قسم نظم ہے۔ نظم کے معنی موتی پرونا ہے۔ یعنی کلام کو ایک ترتیب وار ہیئت کے ساتھ پیش کریں تو وہ صنف نظم کہلاتی ہے۔ اس ادب کو اردو نظمی ادب کہتے ہیں۔ لیکن آج کل اس کو اردو شاعری یا شاعری کے نام سے بھی جانا جانے لگا ہے۔

جنوبی ایشیا میں اردو ایک اہم زبان ہے۔ بالخصوص نظم میں اردو کے مقابلہ میں دوسری زبان نہیں۔ اردو کی روایات میں کئی اصناف ہیں جن میں غزل نمایاں ترین حیثیت کی حامل ہے۔

نظمی اردو (اردو شاعری) میں ذیل کے اصناف ہیں:

  • نظم: مربوط اور مکمل شاعرانہ کلام۔
  • غزل: دو مصرعوں پر مشتمل مکمل، بامعنی اور جداگانہ اشعار کی لڑی
  • مثنوی: ایک لمبی نظم جس میں کوئی قصہ یا داستان کہی گئی ہو۔
  • مرثیہ: شہیدوں کے واقعات کو بیان کرنے والی نظم۔ بالخصوص شہیدانِ کربلا کی شہادت کو بیان کرنے والی نظم۔
  • قصیدہ: قصیدہ اردو نظم کی وہ صنف ہے جسے کسی کی تعریف میں کہی گئی نظمی شکل کہہ سکتے ہیں۔ اس کے چار اقسام ہیں
  • حمد: اللّٰہ کی تعریف میں کہا گیا قصیدہ۔
  • نعت: پیغمبر اسلام حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔
  • منقبت: بزرگوں کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔
  • مدح: بادشاہوں، نوابوں کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔
  • نوحہ: معرکۂ کربلا میں ہوئے شہیدوں کے واقعات کو بیان کرنے والی صنف نوحہ ہے۔ مرثیہ اور نوحہ لکھنے میں شہرت یافتہ شعرا میر ببر علی انیس اور مرزا سلامت علی دبیر ہیں۔

مزید دیکھیے

بیرونی روابط

حوالہ جات