حرب الفجار

زمانہ جاہلیت کی لڑائی جو 15 عام الفیل میں قریش اور بنی قیس کے درمیان میں ہوئی۔ یہ جنگ ان دنوں میں ہوئی جن میں لڑنا منع ہے۔ اس لیے اسے حرب فجار کہتے ہیں۔ یہ لڑائی ماہ محرم میں ہوئیاس جنگ کا سبب یہ تھا کہ نعمان بن منذر شاه حیرہہر سال اپنا تجارتی مال بازار عکاظ میں فروخت ہونے کے لیے بھیجتے تھےاس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شریک ہوئے۔ اگرچہ قریش سچائی پر تھے مگر آپ نے کشت و خون میں حصہ نہیں لیا۔ صرف دشمن کے پھینکے ہوئے تیر اٹھا اٹھا کر اپنے چچاؤں کو دیتے تھے۔ یہ جنگ صلح پر منتج ہوئی۔ آپس میں یہ معاہدہ کیا گیا کہ ملک میں ہر طرح سے امن قائم رکھا جائے گا اور مسافروں، غریبوں اور مظلوموں کی خواہ وہ کسی قبیلے کے ہوں، مدد کی جائے گی۔ رسول پاک عہد رسالت میں بھی اس معاہدے پر فخر فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ اس قسم کے معاہدے کے لیے میں اب بھی حاضر ہوں اس معاہدے کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔ کیونکہ معاہدے پر آمادہ کرنے والے تین سرداروں کے نام میں لفظ فضل مشترک تھا۔

حرب فجار زمانۂ جاہلیت کی جنگوں میں سب سے زیادہ مشہور لڑائی سمجھی جاتی ہے۔ روایت ہے کہ حرب فجار کی تعداد چار ہے اور یہ لڑائی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شرکت کی چوتھی اور آخری تھی۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ابتدائی زندگی کی پہلی جنگ تھی جس میں آپ نے شرکت کی تھی۔

جب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بیس سال ہوئی،تو ذی القعدہ کے مہینے میں عکاظ کے بازار میں ایک لڑائی درپیش ہوئی۔ جس میں ایک طرف قریش اور کنانہ کے قبائل تھے اور دوسری طرف قیس عیلان کے قبائل تھے۔ دونوں میں گھمسان کا رن پڑا اور فریقین کے کئی کئی آدمی قتل ہوئے۔ لیکن پھر انھوں نے صلح کیا کہ دونوں فریق کے مردے گنے جائے ،جس کے زیادہ مقتولین ہو ان کو بدلے میں زیادہ خون بہا دیا جائے گا۔ اس کے بعد جنگ ختم ہوئی اور باہمی شر ع عداوت مٹادیا گیا۔
حضرت محمد صلى الله عليه وسلم اس جنگ میں اپنے چچاؤں کے ہمراہ تھے اور آپﷺ دشمنوں کی جانب سے آنے والے تیر یکجا کرتے تھے۔ اس جنگ کو جنگِ فجار یا حربِ فجار اس لیے کہاگیا؛ کیونکہ یہ جنگ محترم مہینوں میں ہوئی۔ فجار نام کے واقعات چار مرتبہ پیش آئے اور مذکورہ واقعہ چوتھا واقعہ ہے،اس سے پہلے جو تین واقعات درپیش ہوئے تھے وہ چھوٹے چھوٹے واقعات تھے ،ان میں سب سے بڑی لڑائی چوتھی تھی جو ذکر کی گئی ہے۔

حوالہ جات