شاہ ولی اللہ

ہندوستانی مسلم عالم (1762-1703)

شاہ ولی اللہ (پیدائش: 1703ء، انتقال:1762ء) برصغیر پاک و ہند میں عہد مغلیہ کے مشہور عالم دین، محدث اور مصنف تھے۔

شاہ ولی اللہ

محدّث دہلوی

 

معلومات شخصیت
پیدائشی نامقطب الدین احمد
پیدائش21 فروری 1703ء[1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضع پھلت، مظفرنگر ضلع، مغلیہ سلطنت،
(موجودہ مظفر نگر، اتر پردیش، بھارت)
وفات20 اگست 1762ء (59 سال)

دہلی، مغلیہ سلطنت، موجودہ بھارت
شہریت مغلیہ سلطنت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسلہندوستانی
اولادشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی[4]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدشاہ عبد الرحیم دہلوی[5][6]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمیمدرسہ رحیمیہ  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہالٰہیات دان،  فلسفی،  محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانعربی[7][4]،  فارسی[5][4][8]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عملعلم حدیث،  فقہ،  اصول فقہ  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاںکتاب  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثرامام مالک، امام محمد بن اسماعیل بخاری
متاثرشاہ عبد العزیز محدث دہلوی، حاجی شریعت اللہ، الشیخ محمد ناصر الدین البانی، اسرار احمد، جاوید احمد غامدی، عبداللہ فراہی

مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا شاہ ولی اللہ نے اس کام کی رفتار اور تیز کردی۔۔

ابتدائی زندگی

21 فروری 1703ء (1114ھ) کو موضع پھلت (ضلع مظفر نگر / اترپردیش) میں شاہ عبد الرحیم دہلوی کے گھر پیدا ہوئے، آبائی علاقہ دہلی تھا ، نسبی اعتبار سے فاروقی ، سکنی لحاظ سے دہلوی اور فقہی اعتبار سے حنفی تھے۔

تعلیم

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے پانچ سال کی عمر میں تعلیم شروع کی اور سات سال کی عمر میں قرآن کریم کی تکمیل فرمائی، ساتویں سال کے آخر میں آپ نے فارسی اور عربی کے ابتدائی رسائل پڑھنا شروع کیے اور ایک سال میں ان کو مکمل کیا، اس کے بعد آپ نے صرف ونحو کی طرف توجہ مبذول فرمائی اور دس سال کی عمر میں نحو کی معرکہ آرا کتاب "شرح جامی” تک پہنچ گئے، صرف و نحو سے فراغت کے بعد علوم عقلیہ اور نقلیہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پندرہ سال کی عمر میں تمام متداول درسی علوم سے فارغ ہو کر درس و تدریس کا آغاز فرمایا، اس عرصے میں آپ نے اکثر و بیشتر کتابیں اپنے والد حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب سے پڑھیں اور انہی سے بیعت ہو کر 17 سال کی عمر میں بیعت و ارشاد کی بھی اجازت حاصل کی اور ١١٤٣ھ تک اپنے والد حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب کی مسند درس وارشادکو سنبھالا اور خلق خدا کو فائدہ پہنچایا [9]1143ه‍ میں جب کہ آپ کی عمر 30 سال کے قریب تھی، حرمین شریفین کی زیارت کی اور وہاں کے مشائخ سے علوم حاصل کیا، شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم کردی مدنی سے "بخاری شریف” کی سماعت فرمائی اور "صحاح ستہ”، موطا امام مالک، مسند دارمی اور امام محمد کی "کتاب الاثار” کے اطراف ان کے سامنے پڑھے اور ان کے علاوہ شیخ عبد اللہ مالکی مکی رحمہ اللہ اور شیخ تاج الدین حنفی رحمہ اللہ سے بھی آپ نے فیض حاصل کیا۔ [10]

درس و تدریس

حرمین شریفین سے واپس آ کر والد کے بنائے مدرسہ رحیمیہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔


۔

اصلاح کا کام

انھوں نے مسلمانوں کو سیاسی حیثیت سے مضبوط بنانے کے لیے بادشاہوں اور امرا سے خط کتابت بھی کی۔ چنانچہ احمد شاہ ابدالی نے اپنا مشہور حملہ شاہ ولی اللہ کے خط پر ہی کیا جس میں اس نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست دی تھی۔

شاہ ولی اللہ نے سماجی اصلاح کا بھی کام کیا۔ مسلمانوں میں ہندوؤں کے اثر کی وجہ سے بیوہ عورتوں کی شادی بری سمجھی جانے لگی تھی۔ شاہ ولی اللہ نے اس رسم کی مخالفت کی اسی طرح انھوں نے بڑے بڑے مہر باندھنے اور خوشی و غم کے موقع پر فضول خرچی سے روکا۔ حضرت شاہ ولی اللہ امت کے کلیدی مسائل کو مستقبل کی نظر سے بھی دیکھتے تھے۔

انھوں نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اس پر زور دیا کہ اختلاف کی صورت میں انتہا پسندی کی جگہ اعتدال سے کام لیا جائے۔

انھوں نے تصوف کی بھی اصلاح کی اور پیری مریدی کے طریقوں کو غلط راستے سے ہٹایا۔

کارنامے

شاہ ولی اللہ کا ایک بڑا کارنامہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ ہے۔ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی علمی زبان فارسی تھی۔ قرآن چونکہ عربی میں ہے اس لیے بہت کم لوگ اس کو سمجھ سکتے تھے۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کرکے اس رکاوٹ کو دور کر دیا۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی تعلیم سے واقف ہونے لگے۔

شاہ ولی اللہ ترجمۂ قرآن کے علاوہ اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ کتابیں علم تفسیر، حدیث،فقہ، تاریخ اور تصوف پر ہیں۔ ان عالمانہ کتابوں کی وجہ سے وہ امام غزالی، ابن حزم اور ابن تیمیہ کی طرح تاریخ اسلام کے سب سے بڑے عالموں اور مصنفوں میں شمار ہوتے ہیں۔

ان کی سب سے مشہور کتاب "حجۃ اللہ البالغہ" ہے۔ امام غزالی کی "احیاء العلوم" کی طرح یہ کتاب یھی دنیا کی ان چند کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی۔ اس کتاب میں شاہ ولی اللہ نے اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی ہے اور دلیلیں دے کر اسلامی احکام اور عقاغد کی صداقت ثابت کی ہے۔ اصل کتاب عربی میں ہے لیکن اس کا اردو میں بھی ترجمہ ہو گیا ہے۔

شاہ ولی اللہ دہلوی رحمت اللہ علیہ نے اسلامی ریاست اور اس کے نظام کے بارے میں ایک انتہائی قیمتی اور منفرد کتاب ازالۃالخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی زبان میں تالیف کی تھی، یہ کتاب دوہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور انتہائی پرمغز ابحاث پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا عبدالشکور فاروقی مجددی نے کیا ہے جو قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی سے شائع ہوا ہے۔ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی مدیر دارالعلم اسلام آباد نے 2013 میں اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ مکمل کر دیا۔ جو مئی 2016ء میں دو ضخیم جلدوں دارالعلم آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد سے شائع ہوا۔

شاہ ولی اللہ اپنی کوششوں کی وجہ سے غزالی، ابن تیمیہ اور مجدد الف ثانی کی طرح اپنی صدی کے مجدد سمجھے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کے بعد جو بیداری پیدا ہوئی اور اس وقت خطے میں اسلامی جو احیائی تحاریک موجودہ ہیں ان کے بانی شاہ ولی اللہ ہی ہیں۔ شاہ ولی اللہ جہاں خود ایک بہت بڑے عالم، مصلح اور رہنما تھے۔ وہاں وہ اس لحاظ سے بھی بڑے خوش قسمت ہیں کہ ان کی اولاد میں ایسے ایسے عالم پیدا ہوئے جنھوں نے ہند و پاک کے مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔

وفات

20 اگست 1762ء بمطابق 1174ھ کو 59 سال کی عمر میں دہلی میں وفات پائی، دہلی کےقبرستان مہندیان (عقب ارون اسپتال دہلی گیٹ)تدفین ہوئی۔

جانشین

شاہ ولی اللہ کے سب سے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز عربی اور فارسی کے انشا پرداز تھے اور 60 سال تک دینی علوم اور احادیث کی تعلیم دیتے رہے۔ وہ ان افراد میں شامل ہیں جن کی وجہ سے برصغیر میں علم حدیث پھیلا۔

دوسرے صاحبزادے شاہ رفیع الدین کا سب سے بڑا کارنامہ اردو میں قرآن مجید کا پہلا ترجمہ ہے۔

تیسرے صاحبزادے شاہ عبد القادر دہلوی کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کی اردو تفسیر ہے جو "موضح القرآن" کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تفسیر آج بھی انتہائی مقبول ہے۔

چوتھے صاحبزادے شاہ عبد الغنی تھے جن کا شمار بھی اپنے زمانے کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔

شاہ ولی اللہ کی اولاد میں شاہ اسماعیل شہید کا مقام بھی بہت بلند ہے۔ آپ شاہ ولی اللہ کے چوتھے صاحبزادے, شاہ عبد الغنی کے بیٹے تھے جن کا شمار بھی اپنے زمانے کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ شاہ صاحب کے کام کو سب سے زیادہ ترقی شاہ اسماعیل نے ہی دی۔ وہ کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں "تقویۃ الایمان" سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔

برصغیر میں غلبہ اسلام اور اسلامی حکومت کے قیام کی کوشش کرنے والی عظیم شخصیت سید احمد بریلوی شہید, شاہ عبد العزیز کے شاگرد اور شاہ اسماعیل شہید کے ساتھی تھے۔ شاہ صاحب نے فک کل نظام کا فتوی دیا جس کا مطلب تمام فرسودہ نظام کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس کی جگہ عادلانہ نظام کا قیام کیا جائے۔

حوالہ جات