لوط (اسلام)

 مضمون مکمل

پیغمبر
لوط علیہ السلام
لوط
Lut

معلومات شخصیت
پیدائش1800 ق م
قدیم عراق ، سکونت سدوم
قدیم عراق
مقام وفاتفلسطین
اولادموآب ، عمون
والدینحاران
عملی زندگی
پیشہنبی ، واعظ

لوط علیہ السلام ایک نبی کا نام ہے جن کا ذکر قرآن مجید میں اور بائبل کے عہدنامہ قدیم کی کتابِ پیدائش میں آیا ہے۔حضرت لوط علیہ السلام کا شہر سَدُوم(قرآن الحاقۃ:9 میں اسے اُلٹ پلٹ ہوجانے والا شہر کہا گیا)ہے۔ جو ملک شام میں صوبہ حِمْصْ کا ایک مشہور شہر ہے۔حضرت لوط علیہ السلام بن ہاران بن تارخ، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔ یہ لوگ عراق میں شہر بابل کے باشندہ تھے پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں سے ہجرت کر کے فلسطین تشریف لے گئے اور حضرت لوط علیہ السلام ملک شام کے ایک شہر اُردن میں مقیم ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرما کر سدوم والوں کی ہدایت کے لیے بھیج دیا۔مدائن صالح اور دمشق کے درمیان بحیرہ لوط جو سی سالٹ کہلاتی ہے اس کے نزدیک آپ کی قوم آباد تھی ۔لوط علیہ السلام کی امت جن بستیوں میں راہتی تھی وہ بڑی شاداب اور سرسبز بسیتاں تھیں غیر بستیوں کے لوگ شادابی کے سبب سے قوم لوط کی بستیوں میں اکثر آجایا کرتے تھے جس کی وجہ سے قوم لوط کو طرح طرح کی تکلیف ہوتی تھی شیطان نے قوم لوط کو بہکایا کہ غیر بستیوں کے لوگ جو آویں ان کے ساتھ جتنے نو عمر لڑکے ہوں ان لڑکوں سے بدفعلی کی جاوے تو غیر لوگ تمھاری بستیوں میں ہر گر نہ آویں شیطان کے بہکانے سے اور خوب صورت لڑکا بن کر ان کو ورغلانے سے انھوں نے ویساہی کیا اور پھر ان میں وہ عادت جم گئی حضرت لوط ( علیہ السلام) نے ہرچند سمجھایا مگر انھوں نے نہ مانا آخر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس قدر ٹکڑا زمین کا کھڑا کر اللہ کے حکم سے الٹ دیا اور ان لوگوں پر پتھروں کا مینہ برسا جن پتھروں میں آگ کے شعلے بھی تھے اور سب لوگ ہلاک ہو گئے[1]

لوط و ابراہیم (علیہا السلام)

حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زادہ ہیں ‘ ان کے والد کا نام ہاران تھا ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) کا بچپن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے زیرسایہ گذرا اور ان کی نشو و نما حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہی آغوش تربیت کی رہین منت تھی۔ اسی لیے وہ اور حضرت سارہ (علیہا السلام) ” ملت ابراہیمی “ کے پہلے مسلم اور ” السابقون الاولون “ میں داخل ہیں۔
{ فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌم وَ قَالَ اِنِّیْ مُھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ } [2]
” پس ایمان لایا لوط ابراہیم (کے دین) پر اور کہا میں ہجرت کرنے والا ہوں ١ ؎ اپنے رب کی جانب۔ “
یہ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بی بی ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرتوں میں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مصر میں تھے تو اس وقت بھی یہ ہم سفر تھے۔
توراۃ میں ہے کہ مصر کے قیام میں چونکہ دونوں کے پاس کافی سازوسامان تھا اور مویشیوں کے بڑے بڑے ریوڑ تھے اس لیے ان کے چرواہوں اور محافظوں کے درمیان بہت زیادہ کشمکش رہتی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چرواہے چاہتے تھے کہ اس چراگاہ اور سبزہ زار سے پہلے ہمارے ریوڑ فائدہ اٹھائیں اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے چرواہوں کی خواہش ہوتی کہ اول ہمارا حق سمجھا جائے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس صورت حال کا اندازہ کرکے حضرت لوط (علیہ السلام) سے مشورہ کیا ‘ اور دونوں کی صلاح سے یہ طے پایا کہ باہمی تعلقات کی خوشگواری اور دائمی محبت و الفت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) مصر سے ہجرت کرکے شرق اردن کے علاقہ سدوم اور عامورہ چلے جائیں اور وہاں رہ کر دین حنیف کی تبلیغ کرتے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی رسالت کا پیغام حق سناتے رہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پھر واپس فلسطین چلے جائیں اور وہاں رہ کر اسلام کی تعلیم و تبلیغ کو سر بلند کریں۔

سدوم

اردن کی وہ جانب جہاں آج بحر میت یا بحر لوط واقع ہے یہی وہ جگہ ہے جس میں سدوم اور عامورہ کی بستیاں آباد تھیں ‘ اس کے قریب بسنے والوں کا یہ اعتقاد ہے کہ پہلے یہ تمام حصہ جو اب سمندر نظر آتا ہے کسی زمانہ میں خشک زمین تھی اور اس پر شہر آباد تھے ‘ سدوم و عامورہ کی آبادیاں اسی مقام پر تھیں۔ یہ مقام شروع سے سمندر نہیں تھا بلکہ جب قوم لوط پر عذاب آیا اور اس سر زمین کا تختہ الٹ دیا گیا اور سخت زلزلے اور بھونچال آئے تب یہ زمین تقریباً چار سو میٹر سمندر سے نیچے چلی گئی اور پانی ابھرآیا ‘ اسی لیے اس کا نام بحر میت اور بحر لوط ہے۔ [3]
یہ صحیح ہو یا غلط بہرحال یہ مسئلہ حقیقت رکھتا ہے کہ اسی بحر میت کے ساحل پر وہ حادثہ رونما ہوا جو قوم لوط کے عذاب سے موسوم ہے١ ؎ آیت مُھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ میں وطنی اور روحانی دونوں قسم کی ہجرتیں مراد ہیں ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ خدا کے دین کی خاطر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا وطنی ہجرت ہے اور باپ دادا کے قدیم مذہب (مظاہر پرستی) کو چھوڑ کر ملت حنیفی کو اختیار کرلینا روحانی ہجرت ہے۔
اور جو گذشتہ سالوں کی اثری تحقیق نے بحر میت کے ساحل پر لوط (علیہ السلام) کی بستیوں کے بعض تباہ شدہ آثار ہویدا کرکے اس علم و یقین کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے جس کا اعلان ساڑھے تیرہ سو سال قبل قرآن عزیز نے کر دیا تھا۔

آل لوط

آل لوط سے لوط علیہ السلام اور ان کے پیروکار مراد ہیں۔ یہ قرآن میں چار مرتبہ آیا ہے۔

  • إِلاَّ آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ
  • فَلَمَّا جَاء آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ
  • فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ
  • إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ نَّجَّيْنَاهُم بِسَحَرٍ

آل لوط سے مراد خود حضرت لوط علیہ الصلا ۃ و السلام اور ان پر ایمان لانے والے لوگ ہیں جن میں حضرت لوط علیہ الصلاۃ و السلام کی بیوی شامل نہیں، کیونکہ وہ مومنہ نہیں تھی، البتہ لوط علیہ الصلاۃ و السلام کی دوبیٹیاں ان کے ساتھ جن کو نجات دی گئی۔[4]
آل لوط سے یہاں پر مراد حضرت لوط کی صرف صلبی اولاد نہیں بلکہ آپ کی معنوی اولاد بھی اس میں داخل ہے، یعنی آپ کے اتباع اور پیروکار کہ ان سب ہی کو اس نجات سے سرفراز فرمایا گیا[5]
آل لوط سے مراد ان پر ایمان لانے والے تھے، اسی لیے لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے بارے میں فورًا ہی کہا گیا کہ وہ کافروں کے ساتھ رہ جائے گی اور ضرور ہلاک کی جائے گی، اس لیے کہ وہ ایمان نہیں لائی تھی۔[6]آپ كى قوم نہایت مغرور، بے حس اور نافرمان تھى.اور ان كا سب سے بڑا گناہ یہ تھا كہ ان ميں مرد عورتوں كى بجائے مرد سے ہى اپنى جسمانى حاجت پورى كرتے زیادتی کرتےشہر سدوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت سرسبز و شاداب تھیں اور وہاں طرح طرح کے اناج اور قسم قسم کے پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے۔ شہر کی خوش حالی کی وجہ سے اکثر جابجا کے لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آیا کرتے تھے اور شہر کے لوگوں کو ان مہمانوں کی مہمان نوازی کا بار اٹھانا پڑتا تھا۔ اس لیے اس شہر کے لوگ مہمانوں کی آمد سے بہت ہی کبیدہ خاطر اور تنگ ہو چکے تھے۔ مگر مہمانوں کو روکنے اور بھگانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس ماحول میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا۔ اور ان لوگوں سے کہنے لگا کہ اگر تم لوگ مہمانوں کی آمد سے نجات چاہتے ہو تو اس کی یہ تدبیر ہے کہ جب بھی کوئی مہمان تمھاری بستی میں آئے تو تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ بدفعلی کرو۔ چنانچہ سب سے پہلے ابلیس خود ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں مہمان بن کر اس بستی میں داخل ہوا۔ اور ان لوگوں سے خوب بدفعلی کرائی اس طرح یہ فعلِ بد ان لوگوں نے شیطان سے سیکھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرنے لگے اورزیادتی کرنے لگے۔

قوم لوط

لوط (علیہ السلام) نے جب سدوم میں آکر قیام کیا تو دیکھا کہ یہاں کے باشندے فواحش اور معصیتوں میں اس قدر مبتلا ہیں کہ الامان ‘ الحفیظ ‘ دنیا کی کوئی برائی ایسی نہیں تھی جو ان میں موجود نہ ہو اور کوئی خوبی ایسی نہیں تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو ‘ دنیا کی سرکش ‘ متمرد اور بداخلاق و بداطوار اقوام کے دوسرے عیوب و فواحش کے علاوہ یہ قوم ایک خبیث عمل کی موجد تھی ‘ یعنی اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے وہ عورتوں کی بجائے امرد لڑکوں سے اختلاط رکھتے تھے دنیا کی قوموں میں اس عمل کا اس وقت تک قطعاً کوئی رواج نہ تھا ‘ یہی بدبخت قوم ہے جس نے اس ناپاک عمل کی ایجاد کی ‘ اس عمل کا نام ” لواطت “ مشہو رہے۔
اور اس سے بھی زیادہ شرارت ‘ خباثت اور بے حیائی یہ تھی کہ وہ اپنی اس بد کرداری کو عیب نہیں سمجھتے تھے ‘ اور علی الاعلان فخر و مباہات کے ساتھ اس کو کرتے رہتے تھے۔
{ وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآئِط بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ } [7]
” اور (یادکرو) لوط (علیہ السلام) کا واقعہ جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسے فحش کام میں مشغول ہو جس کو دنیا میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا ‘ یہ کہ بلاشبہ تم عورتوں کی بجائے اپنی شہوت کو مردوں سے پوری کرتے ہو یقیناتم حد سے گزرنے والے ہو۔ “
عبد الوہاب نجار کہتے ہیں کہ میں نے عبرانی ادب کی ایک کتاب میں ان کی بعض بداعمالیوں کا حال پڑھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل سدوم کی یہ بھی عادت تھی کہ وہ باہر سے آنے والے تاجروں اور سوداگروں کے مال کو ایک نئے اور اچھوتے انداز سے لوٹ لیا کرتے تھے ‘ چنانچہ ان کا یہ طریقہ تھا کہ جب کوئی سوداگر باہر سے آ کر سدوم میں مقیم ہوتا تو اس کے مال کو دیکھنے کے بہانے سے ہر شخص تھوڑی تھوڑی چیزیں اٹھاتا اور لے کر چل دیتا اور تاجر بے چارہ حیران و پریشان ہو کر رہ جاتا اب اگر اس نے اپنے ضیاع مال کا شکوہ کیا اور رونے دھونے لگا تو ان لٹیروں میں سے ایک آتا اور لوٹی ہوئی دو ایک چیزیں دکھلا کر کہنے لگتا کہ بھائی میں تو یہ لے گیا تھا ‘ اور تمھاری یہ چیز موجود ہے ‘وہ رنجیدہ آواز میں کہتا کہ میں اس کو لے کر کیا کروں گا جہاں میرا سا را مال لٹ گیا وہاں یہ بھی سہی ‘ جا تو ہی اپنے پاس رکھ ‘ جب یہ معاملہ ختم ہوجاتا تو اب دوسرا آتا اور وہ بھی اسی طرح کوئی معمولی سی چیز دکھا کر وہی کہتا جو پہلے نے کہا تھا اور سودا گر رنج و غم اور غصہ میں اس سے بھی پہلی بات لوٹا کر کہہ دیتا ۔ اسی طرح سب اس کا مال ہضم کر جاتے اور سوداگر کو لوٹ کھسوٹ کر بھگا دیتے ۔
اسی کتاب میں یہ عجیب قصہ بھی نقل کیا ہے کہ ابراہیم اور سارہ (علیہا السلام) نے ایک مرتبہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی عافیت و خیریت معلوم کرنے کے لیے اپنے خانہ زاد الیعزر دمشقی کو سدوم بھیجا ‘ یہ جب بستی کے قریب پہنچا تو اجنبی سمجھ کر ایک سدومی نے اس کے سر پر پتھر کھینچ مارا الیعزر کے سر سے خون جاری ہو گیا ‘ تب آگے بڑھ کر سدومی کہنے لگا کہ میرے پتھر کی وجہ سے یہ تیرا سرسرخ ہوا ہے لہٰذا مجھے اس کا معاوضہ ادا کر ‘ اور اس مطالبہ کے لیے کھینچتا ہوا سدوم کی عدالت میں لے گیا حاکم سدوم نے مدعی کا بیان سن کر کہا کہ بیشک الیعزر کو سدومی کے پتھر مارنے کی اجرت دینی چاہیے ‘ الیعزر یہ سن کر غصہ میں آگیا اور ایک پتھر اٹھا کر حاکم کے سرپر دے مارا اور کہنے لگا کہ میرے پتھر مارنے کی جو اجرت ہے وہ تو اس سدومی کو دے دینا اور یہ کہہ کر وہاں سے بھاگ گیا ۔
یہ واقعات صحیح ہوں یا غلط لیکن ان سے یہ روشنی ضر ور پڑتی ہے کہ اہل سدوم اس قدرظلم ‘ فحش ‘ بے حیائی ‘ بد اخلاقی اور فسق و فجور میں مبتلا تھے کہ اس زمانہ کی قوموں میں ان کی جانب اس قسم کے واقعات عام طور پر منسوب کیے جاتے تھے۔

حضرت لوط (علیہ السلام) اور تبلیغ حق

ان حالات میں حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو ان کی بے حیائیوں اور خباثتوں پر ملامت کی اور شرافت و طہارت کی زندگی کی رغبت دلائی ‘ اور حسن خطابت ‘ لطافت اور نرمی کے ساتھ جو ممکن طریقے سمجھانے کے ہو سکتے تھے ان کو سمجھایا اور موعظت و نصیحت کی اور گذشتہ اقوام کی بد اعمالیوں کے نتائج وثمرات بتا کر عبرت دلائی ‘ مگر ان بدبختوں پر مطلق اثر نہ پڑا بلکہ اس کا یہ الٹا اثر ہوا کہ کہنے لگے :
{ وَ مَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ قَرْیَتِکُمْج اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ } [8]
” اور اس (لوط) کی قوم کا جواب اس کے سوائے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے ان (لوط اور اس کے خاندان) کو اپنے شہر سے نکال دو ‘ یہ بیشک بہت ہی پاک لوگ ہیں۔ “
” بیشک یہ پاک لوگ ہیں “ قوم لوط کا یہ مذاقیہ فقرہ تھا ‘ گویا حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے خاندان پر طنز کرتے اور ان کا ٹھٹھا اڑاتے تھے کہ بڑے پاکباز ہیں ان کا ہماری بستی میں کیا کام یا نا صح مشفق کی مربیانہ نصیحت سے غیظ و غضب میں آکر کہتے تھے کہ اگر ہم ناپاک اور بے حیا ہیں اور وہ بڑے پاکباز ہیں تو ان کا ہماری بستی سے کیا واسطہ ان کو یہاں سے نکالو۔
حضرت لوط (علیہ السلام) نے پھر ایک مرتبہ بھری محفل میں ان کو نصیحت کی اور فرمایا : تم کو اتنا بھی احساس نہیں رہا ہے کہ یہ سمجھ سکو کہ مردوں کے ساتھ بے حیائی کا تعلق ‘ لوٹ مار ‘ اور اسی قسم کی بد اخلاقیاں بہت برے اعمال ہیں ‘ تم یہ سب کچھ کرتے ہو اور بھری محفلوں اور مجلسوں میں کرتے ہو اور شرمندہ ہونے کی بجائے بعد میں ان کا ذکر اس طرح سناتے ہو کہ گویا یہ کار نمایاں ہیں جو تم نے انجام دیے ہیں۔
{ اَئِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ٥ لا وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ } [9]
” کیا تم ہی وہ نہیں ہو کہ تم مردوں سے بدعملی کرتے ہو ‘ لوگوں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں اور اہل و عیال کے روبروفواحش کرتے ہو۔ “
قوم نے اس نصیحت کو سنا تو غم و غصہ سے تلملا اٹھی اور کہنے لگی :
لوط بس یہ نصیحتیں اور عبرتیں ختم کر اور اگر ہمارے ان اعمال سے تیرا خدا ناراض ہے تو وہ عذاب لا کر دکھا جس کا ذکر کرکے بار بار ہم کو ڈراتا ہے اور اگر تو واقعی اپنے قول میں سچا ہے تو ہمارا تیرا فیصلہ ہوجانا ہی اب ضروری ہے۔
{ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ } [10]
” پس اس (لوط) کی قوم کا جواب اس کے سوائے کچھ نہ تھا کہ وہ کہنے لگے تو ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ ‘ اگر تو سچا ہے۔ “

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ملائکۃ اللہ

ادھر یہ ہو رہا تھا اور دوسری جانب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جنگل میں سیر کر رہے تھے انھوں نے دیکھا کہ تین اشخاص سامنے کھڑے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہایت متواضع اور مہمان نواز تھے اور ہمیشہ ان کا دسترخوان مہمانوں کے لیے وسیع تھا ‘ اس لیے تینوں کو دیکھ کر وہ بے حد مسرور ہوئے اور ان کو اپنے گھر لے گئے اور بچھڑا ذبح کرکے تکے بنائے اور بھون کر مہمانوں کے سامنے پیش کیے مگر انھوں نے کھانے سے انکار کیا یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سمجھا کہ یہ کوئی دشمن ہیں جو حسب دستور کھانے سے انکار کر رہے ہیں اور کچھ خائف ہوئے کہ آخر یہ کون ہیں ؟
مہمانوں نے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اضطراب دیکھا تو ان سے ہنس کر کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ہم خدا کے فرشتے ہیں اور قوم لوط کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں اس لیے سدوم جا رہے ہیں۔
جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اطمینان ہو گیا کہ یہ دشمن نہیں ہیں بلکہ ملائکۃ اللہ ہیں تو اب ان کی رقت قلب ‘ جذبہ ہمددری اور محبت و شفقت کی فراوانی غالب آئی اور انھوں نے قوم لوط کی جانب سے جھگڑنا شروع کر دیا اور فرمانے لگے کہ تم اس قوم کو کیسے برباد کرنے جا رہے ہو جس میں لوط جیسا خدا کا برگزیدہ نبی موجود ہے اور وہ میرا برادر زادہ بھی ہے ‘ اور ملت حنیف کا پیرو بھی ‘ فرشتوں نے کہا :
ہم یہ سب کچھ جانتے ہیں مگر خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ قوم لوط اپنی سرکشی ‘ بدعملی ‘ بے حیائی اور فواحش پر اصرار کی وجہ سے ضرور ہلاک کی جائے گی ‘ اور لوط (علیہ السلام) اور اس کا خاندان اس عذاب سے محفوظ رہے گا البتہ لوط کی بیوی قوم کی حمایت اور ان کی بداعمالیوں اور بدعقیدگیوں میں شرکت کی وجہ سے قوم لوط ہی کے ساتھ عذاب پائے گی۔
{ فَلَمَّا ذَھَبَ عَنْ اِبْرٰھِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآئَتْہُ الْبُشْرٰی یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ یٰٓاِبْرٰھِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَاج اِنَّہٗ قَدْ جَآئَ اَمْرُ رَبِّکَج وَ اِنَّھُمْ اٰ تِیْھِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ } [11]
” پھر جب ابراہیم سے خوف جاتا رہا اور اس کو ہماری بشارت (ولادت اسحاق کی) پہنچ گئی تو وہ ہم سے قوم لوط کے متعلق جھگڑنے لگا ‘ بیشک ابراہیم بردبار ‘ غمخوار ‘ رحیم تھا ‘ اے ابراہیم اس معاملہ میں نہ پڑ ‘ بلاشبہ تیرے رب کا حکم آچکا ہے اور بلاشبہ ان پر عذاب آنے والا ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا “{ قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّہَا الْمُرْسَلُوْنَ قَالُوْا اِنَّا اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ لِنُرْسِلَ عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِینٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِینَ } [12]
” (ابراہیم نے) کہا ” اے خدا کے بھیجے ہوئے فرشتو تم کس لیے آئے ہو ؟ “ انھوں نے کہا ” ہم مجرم قوم کی جانب بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم ان پر پتھروں کی بارش کریں یہ نشان کر دیا گیا ہے تیرے رب کی جانب سے حد سے گزرنے والوں کے لیے۔ “
{ وَ لَمَّا جَآئَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰیلا قَالُوْٓا اِنَّا مُھْلِکُوْٓا اَھْلِ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِج اِنَّ اَھْلَھَا کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ قَالَ اِنَّ فِیْھَا لُوْطًاط قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْھَاز وقفہ لَنُنَجِّیَنَّہٗ وَ اَھْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗق ز کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ }[13]
” اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے کہنے لگے بیشک ہم ہلاک کرنے والے ہیں اس (سدوم) قریہ کے بسنے والوں کو بلاشبہ اس کے باشندے ظالم ہیں ابراہیم نے کہا کہ اس بستی میں تو لوط ہے فرشتوں نے کہا ہمیں خوب معلوم ہے جو اس بستی میں آباد ہیں ‘ ہم البتہ لوط کو اور اس کے خاندان کو نجات دیں گے مگر اس کی بی بی کو نہیں کہ وہ بھی بستی میں رہ جانے والوں کے ساتھ ہے۔ “

قوم لوط پر عذاب

غرض حضرت لوط (علیہ السلام) کے ابلاغ حق ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قوم پر مطلق کچھ اثرنہ ہوا اور وہ اپنی بد اخلاقیوں پر اسی طرح قائم رہی حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہاں تک غیرت دلائی کہ تم اس بات کو نہیں سوچتے کہ میں رات دن جو اسلام اور صراط مستقیم کی دعوت و پیغام کے لیے تمھارے ساتھ حیران و سرگرداں ہوں کیا کبھی میں نے تم سے اس سعی و کوشش کا ثمرہ طلب کیا ؟ کیا کوئی اجرت مانگی ؟ کسی نذر و نیاز کا طالب ہوا ؟ میرے پیش نظر تو تمھاری دینی و دنیوی سعادت و فلاح کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے مگر تم ہو کہ مطلق توجہ نہیں کرتے۔
{ کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ نِ الْمُرْسَلِیْنَ اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلاَ تَتَّقُوْنَ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِیْ وَمَا اَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍج اِنْ اَجْرِی اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [14]
” جھٹلایا قوم لوط نے پیغمبروں کو جب کہ کہا ان کے بھائی لوط (علیہ السلام) نے کیا تم نہیں ڈرتے بیشک میں تمھارے لیے پیغامبر ہوں امانت والا پس اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو اور میں تم سے (اس نصیحت پر) اجرت نہیں مانگتا ‘ میرا اجر اللہ رب العٰلمین کے سوائے کسی کے پاس نہیں ہے۔ “
مگر ان کے تاریک دلوں پر اس کہنے کا بھی مطلق کچھ اثر نہ ہوا اور وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو ” اخراج “ اور ” سنگساری “ کی دھمکیاں دیتے رہے ‘ جب نوبت یہاں تک پہنچی اور ان کی سیاہ بختی نے کسی طرح اخلاقی زندگی پر آمادہ نہ ہونے دیا ‘ تب ان کو بھی وہی پیش آیا جو خدا کے بنائے ہوئے قانون جزا کا یقینی اور حتمی فیصلہ ہے یعنی بدکرداریوں پر اصرار کی سزا بربادی و ہلاکت ‘ غرض ملائکۃ اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے روانہ ہو کر سدوم پہنچے اور لوط (علیہ السلام) کے یہاں مہمان ہوئے یہ اپنی شکل و صورت میں حسین و خوبصورت اور عمر میں نوجوان لڑکوں کی شکل و صورت میں تھے ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان مہمانوں کو دیکھا تو گھبرا گئے اور ڈرے کہ بدبخت قوم میرے ان مہمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی ‘ کیونکہ ابھی تک ان کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ خدا کے پاک فرشتے ہیں۔ابھی حضرت لوط (علیہ السلام) اسی حیص و بیص میں تھے کہ قوم کو خبر لگ گئی اور لوط (علیہ السلام) کے مکان پر چڑھ آئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ تم ان کو ہمارے حوالہ کرو ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا اور کہا کیا تم میں کوئی بھی سلیم فطرت انسان ” رجل رشید “ نہیں ہے کہ وہ انسانیت کو برتے اور حق کو سمجھے ؟ تم کیوں اس لعنت میں گرفتار ہو ‘ اور خواہشات نفس کے ایفاء کے لیے فطری طریق عمل کو چھوڑ کر اور حلال طریقہ سے عورتوں کو رفیقہ حیات بنانے کی جگہ اس ملعون بے حیائی کے درپے ہو ‘ اے کاش میں ” رکن شدید “ کی زبردست حمایت حاصل کرسکتا۔حضرت لوط (علیہ السلام) کی اس پریشانی کو دیکھ کر فرشتوں نے کہا ‘ آپ ہماری ظاہری صورتوں کو دیکھ کر گھبرائیے نہیں ہم ملائکہ عذاب ہیں اور خدا کے قانون ” جزائے اعمال “ کا فیصلہ ان کے حق میں اٹل ہے وہ اب ان کے سر سے ٹلنے والا نہیں ‘ آپ اور آپ کا خاندان عذاب سے محفوظ رہے گا مگر آپ کی بیوی ان ہی بے حیاؤں کی رفاقت میں رہے گی اور آپ کا ساتھ نہ دے گی۔
آخر عذاب الٰہی کا وقت آپہنچا ابتدائے شب ہوئی تو ملائکہ کے اشارہ پر حضرت لوط (علیہ السلام) اپنے خاندان سمیت دوسری جانب سے نکل کر سدوم سے رخصت ہو گئے اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکار کر دیا اور راستہ ہی سے لوٹ کر سدوم واپس آگئی ‘ آخر شب ہوئی تو اول ایک ہیبت ناک چیخ نے اہل سدوم کو تہ و بالاکر دیا اور پھر آبادی کا تختہ اوپر اٹھا کر الٹ دیا گیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا اور وہی ہوا جو گذشتہ اقوام کی نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہو چکا ہے۔
{ فَلَمَّا جَآئَ اٰلَ لُوْطِ نِ الْمُرْسَلُوْنَ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ قَالُوْا بَلْ جِئْنٰکَ بِمَا کَانُوْا فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ وَ اَتَیْنٰکَ بِالْحَقِّ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ اتَّبِعْ اَدْبَارَھُمْ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ وَّ امْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ وَ قَضَیْنَآ اِلَیْہِ ذٰلِکَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ ھٰٓؤُ لَآئِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ وَ جَآئَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ یَسْتَبْشِرُوْنَ قَالَ اِنَّ ھٰٓؤُ لَآئِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخْزُوْنِ قَالُوْٓا اَوَلَمْ نَنْھَکَ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ ھٰٓؤُلَآئِ بَنٰتِیْٓ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ لَعَمْرُکَ اِنَّھُمْ لَفِیْ سَکْرَتِھِمْ یَعْمَھُوْنَ فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ مُشْرِقِیْنَ فَجَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ } [15]
” اور پھر جب ایسا ہوا کہ بھیجے ہوئے (فرشتے) خاندانِ لوط کے پاس پہنچے تو انھوں نے کہا تم لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہو انھوں نے کہا نہیں یہ بات نہیں ہے بلکہ ہم تمھارے پاس وہ بات لے کر آئے ہیں ‘ جس میں لوگ شک کیا کرتے تھے (یعنی ہلاکت کے ظہور کی خبر جس کا لوگوں کو یقین نہ تھا) ہمارا آنا ایک امر حق کے لیے ہے اور ہم اپنے بیان میں سچے ہیں پس چاہیے کہ کچھ رات رہے اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر نکل جاؤ اور ان کے پیچھے قدم اٹھاؤ ‘ اور اس بات کا خیال رکھو کہ کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے جہاں جانے کا حکم دیا گیا ہے (اُسی طرف رخ کیے چلے جائیں) غرض کہ ہم نے لوط پر حقیقت حال واضح کردی کہ ہلاکت کا ظہور ہونے والا ہے اور باشندگان شہر کی بیخ و بنیاد صبح ہوتے ہوتے اکھڑ جانے والی ہے اور اس (اثناء میں ایسا ہوا کہ ) شہر کے لوگ خوشیاں مناتے ہوئے آپہنچے ‘ لوط نے کہا دیکھو یہ (نئے آدمی) میرے مہمان ہیں تم میری فضیحت نہ کرو ‘ اللہ سے ڈرو ‘ تم میری رسوائی کے کیوں درپے ہو گئے ہو ؟ انھوں نے کہا کیا ہم نے تجھے اس بات سے نہیں روک دیا تھا کہ کسی قوم کا آدمی ہو لیکن اپنے یہاں نہ ٹھہراؤ ‘ لوط نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو دیکھو یہ میری بیٹیاں (کھڑی) ہیں (یعنی باشندگان شہر کی بیویاں جن کی طرف وہ ملتفت نہیں ہوتے تھے ) ان کی طرف ملتفت ہو (تب فرشتوں نے لوط سے کہا ) تمھاری زندگی کی قسم ‘ یہ لوگ تو اپنی بد مستیوں میں کھو گئے ہیں (تمھاری باتیں ماننے والے نہیں ) غرض کہ سورج نکلتے نکلتے ایک ہول ناک آواز نے انھیں آلیا ‘ پس ہم نے وہ بستی زیروزبر کر ڈالی اور پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی ان پر بارش کی بلاشبہ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں جو (حقیقت کی) پہچان رکھنے والے ہیں۔ “
{ وَ لَمَّا جَآئَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓئَ بِھِمْ وَ ضَاقَ بِھِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ وَجَآئَہٗ قَوْمُہٗ یُھْرَعُوْنَ اِلَیْہِ وَ مِنْ قَبْلُ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ قَالَ یٰقَوْمِ ھٰٓؤُلَآئِ بَنَاتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُلَکُمْ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِیْ بَنٰتِکَ مِنْ حَقٍّ وَ اِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیْدُ قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَکَ اِنَّہٗ مُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ اِنَّ مَوْعِدَھُمُ الصُّبْحُ اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ فَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ٥ لا مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَ مَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ } [16]
” اور پھر جب ایسا ہوا کہ ہمارے فرستادے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کے آنے سے خوش نہ ہوا اور ان کی موجودگی نے اسے پریشان کر دیا وہ بولا آج کا دن تو بڑی مصیبت کا دن ہیــ‘ اور اس کی قوم کے لوگ (اجنبیوں کے آنے کی خبر سن کر) دوڑتے ہوئے آئے وہ پہلے سے برے کاموں کے عادی ہو رہے تھے لوط نے ان سے کہا ” لوگو یہ میری بیٹیاں ہیں (یعنی بستی کی عورتیں جنھیں وہ اپنی بیٹیوں کی جگہ سمجھتا تھا اور جنھیں لوگوں نے چھوڑ رکھا تھا ) یہ تمھارے لیے جائز اور پاک ہیں ‘ پس (ان کی طرف ملتفت ہو ‘ دوسری بات کا قصدنہ کرو اور) اللہ سے ڈرو ‘ میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے رسوا نہ کرو ‘ کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں ؟ــ“ ان لوگوں نے کہا ” تجھے معلوم ہو چکا ہے کہ تیری ان بیٹیوں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں اور تو اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں “ لوط نے کہا ” کاش تمھارے مقابلہ کی مجھے طاقت ہوتی یا کوئی اور سہارا ہوتا جس کا آسرا پکڑ سکتا “ (تب) مہمانوں نے کہا ” اے لوط ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں (گھبرانے کی کوئی بات نہیں) یہ لوگ کبھی تجھ پر قابو نہ پاسکیں گے تو یوں کر کہ جب رات کا ایک حصہ گذر جائے تو اپنے گھر کے آدمیوں کو ساتھ لے کر نکل چل اور تم میں سے کوئی ادھر ادھر نہ دیکھے (یعنی کسی بات کی فکر نہ کرے ) مگر ہاں تیری بیوی (ساتھ دینے والی نہیں ‘ وہ پیچھے رہ جائے گی ‘ اور) جو کچھ ان لوگوں پر گذرنا ہے وہ اس پر بھی گذرے گا ‘ ان لوگوں کے لیے عذاب کا مقررہ وقت صبح کا ہے اور صبح کے آنے میں کچھ دیر نہیں “ پھر جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی ) بات کا وقت آپہنچا تو (اے پیغمبر ) ہم نے اس (بستی) کی تمام بلندیاں پستی میں بدل دیں (یعنی بستی کو الٹ دیا اور زمین کے برابر کر دیا ) اور اس پر آگ میں پکے ہوئے پتھر لگاتار برسائے کہ تیرے پروردگار کے حضور (اس غرض سے) نشانی کیے ہوئے تھے ‘ یہ (بستی) ان ظالموں سے (یعنی اشرار مکہ سے ) کچھ دور نہیں ہے۔ (یہ اپنی سیروسیاحت میں وہاں سے گزرتے رہتے ہیں اور اگر چاہیں تو اس سے عبرت پکڑ سکتے ہیں) “{ فَنَجَّیْنَاہُ وَاَہْلَہٗ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغَابِرِیْنَ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًاج فَسَائَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃًط وَمَا کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ } [17]
” پھر بچا دیا ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو سب کو مگر ایک بڑھیا رہ گئی رہنے والوں میں ‘ پھر اٹھا مارا ہم نے ان دوسروں کو اور برسایا ان پر ایک برساؤ ‘ سو کیا برا برساؤ تھا ان ڈرائے ہوؤں کا البتہ اس بات میں نشانی ہے ‘ اور ان میں بہت لوگ نہیں تھے ماننے والے اور تیرا رب وہی ہے زبردست رحم والا۔ “
{ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَـلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَۃَ نُوحٍ وَّامْرَاَۃَ لُوْطٍط کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ } [18]
” اللہ نے بتلائی ایک مثال منکروں کے واسطے عورت نوح کی اور عورت لوط کی ‘ گھر میں تھیں دونوں دو نیک بندوں کے ہمارے نیک بندوں میں سے پھر انھوں نے ان سے خیانت کی پھر وہ کام نہ آئے ان کے اللہ کے ہاتھ سے کچھ بھی ‘ اور حکم ہوا کہ چلی جاؤ دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ ۔ “

شجرہ نسب

تارح لقب آزر
ابراہیمؑحارانناہور
اسماعیلؑ و اسحاقؑلوطؑ

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔

قوم کی لاشیں

آپ کی قوم کے اجسام دریائے مردار(the dead sea) میں پائے گئے تھے۔ اس دریا کی خاصیت تھی کہ اس میں نمک کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اگر کوئی بھاری آدمی اس پر لیٹ جائے تو وہ ڈوبے گا نہیں اور فرعون بھی اس دریا میں سے ہی پایا گیا تھا۔

روضہ

آپ کا روضہ اردن میں ہے۔

مسائل

مسطورہ بالا آیات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے یہ مقولے مذکور ہیں ھٰٓـؤُلَائِ بَنٰتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُلَکُمْ ‘ ھٰٓؤُلَائِ بَنٰتِیْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) نے قوم کی مزاحمت اور مہمانوں سے متعلق مطالبہ سے تنگ آ کر یہ فرمایا کہ ” تم ان مہمانوں سے تعرض نہ کرو اگر نفس کی فطری خواہش پوری کرنا چاہتے ہو تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں ‘ یہ تمھارے لیے پاک ہیں “ اس کا کیا مطلب ہے ؟ ایک با عصمت و با عزت انسان اور پھر وہ بھی نبی معصوم کس طرح یہ گوارا کرسکتا ہے کہ وہ اپنی با عصمت لڑکیوں کو ایسے بے حیا اور خبیث انسانوں کے سامنے پیش کرے ؟ اس سوال کے حل میں علمائے محققین نے مختلف جواب دیے ہیں :
1- حضرت لوط (علیہ السلام) نبی ہیں اور ہر ایک نبی اپنی قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے قوم مسلمان ہو کر اس کی اطاعت گزار ثابت ہو ‘ یا انکار کر کے متمردو منحرف ‘ دونوں صورتوں میں وہ اس کی ” امت “ میں داخل ہے اگرچہ پہلی امت ” امت اجابت “ ہے اور دوسری امت ” امت دعوت “ اور اس لیے تمام امت اس کی اولاد ہوتی ہے اور نبی اور رسول اس کا روحانی باپ۔ لہٰذا حضرت لوط (علیہ السلام) کا مطلب یہ تھا کہ بد بختو تمھارے گھروں میں یہ سب میری بیٹیاں تمھاری رفیقہ حیات ہیں اور تمھارے لیے حلال پھر تم ان کو چھوڑ کر اس ملعون اور خبیث کام پر اصرار کرتے ہو ایسا نہ کرو ” العیاذ باللّٰہ “ یہ مقصد نہ تھا کہ وہ اپنی صلبی لڑکیاں ان کو پیش فرما رہے تھے۔
2-توراۃ اور دیگر روایات سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ فرشتے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ” اسحاق “ کی بشارت دے کر قوم لوط کو ہلاک کرنے آئے تھے تین تھے اس لیے یہ ناممکن تھا کہ تین افراد کے لیے پوری بستی خواہش مند ہو جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے بلکہ اصل بات یہ تھی کہ اس قوم میں دو سردار تھے اور انھوں نے ہی لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں کا مطالبہ کیا تھا ‘ باقی قوم اپنی اس عام بدکرداری کی وجہ سے ان کی حمایت میں جمع ہو گئی تھی اور چونکہ حضرت لوط کی دو بیٹیاں کنواری موجود تھیں اس لیے انھوں نے ان دونوں سرداروں کو سمجھایا کہ تم اپنے اس خبیث و شنیع مطالبہ سے باز آجاؤ ‘ اور میں اس کے لیے تیار ہوں کہ اپنی دونوں لڑکیوں کا نکاح تم سے کر دوں مگر انھوں نے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگے ‘ لوط تجھے معلوم ہے کہ ہم عورتوں کی جانب رغبت نہیں رکھتے۔
3-حضرت لوط (علیہ السلام) نے بیشک اپنی بیٹیوں ہی کے متعلق یہ جملہ فرمایا تھا مگر اس کی حیثیت اس بزرگ کے مقولہ کی طرح ہے جو کسی کو ناحق پٹتا ہوا دیکھ کر ظالم مارنے والے سے یہ کہے کہ اس کو نہ مار ‘ اس کے عوض مجھ کو مار لے ‘ حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ کبھی ایسی جرأت نہیں کرسکے گا کیونکہ وہ اس کا چھوٹا ہے یا ماتحت۔
پس جس طرح اس شخص کا مقصد مارنے والے کو عار اور شرم دلانا ہوتا ہے اسی طرح حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو شرم اور عار دلانے اور اس قبیح فعل پر ذلیل اور نادم کرنے کے لیے یہ جملہ فرمایا اور ان کو یہ یقین تھا کہ نہ یہ بدبخت اس طرف راغب ہوں گے اور نہ وہ عملاً ایسا کریں گے۔امام رازی ‘ اصفہانی اور ابو السعود اسی توجیہ کو پسند فرماتے ہیں اور عبد الوہاب نجار مصری کی بھی یہی رائے ہے مگر میرے نزدیک پہلی توجیہ زیادہ صحیح اور قابل قبول ہے اور علامہ عبد الوہاب کا اس کے متعلق یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ” یہ قول اس لیے کمزور ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) ان کافر عورتوں کے باپ تسلیم کیے جائیں “ اس لیے کہ ہم شروع جواب ہی میں تصریح کرچکے ہیں کہ ” نبی معصوم “ اپنی اس تمام امت کا روحانی باپ ہوتا ہے جس کی جانب اس کو مبعوث کیا گیا ہے یہ جدا بات ہے کہ امت اجابت اس کی عطا کردہ سعادت و فلاح سے مستفید ہوتی ہے اور امت دعوت اس سے محروم رہتی ہے ‘ نیز آج بھی یہ دستور ہے کہ کافر و مسلم کے امتیاز کے بغیر بڑے بوڑھے بستی کی لڑکیوں کو اپنی بیٹیاں کہا کرتے ہیں۔
حضرت لوط (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ قوم ان کے مہمانوں کے ساتھ بداخلاقی پر تلی ہوئی ہے اور کسی طرح ان پر عار دلانے کا اثر ہوتا ہے نہ حیاء و مروت اور اخلاق و انسانیت کے نام پر اپیل کا ‘ تب پریشان خاطر ہو کر فرمایا :
{ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ } [19]
” کاش میرے لیے تم سے (مقابلہ کی) طاقت ہوتی یا پناہ ملتی کسی زبردست قوت پناہ کے ساتھ۔ “
اس ” رکن شدید “ سے کیا مراد ہے ؟ کیا حضرت لوط (علیہ السلام) ” العیاذ باللّٰہ “ خدا کی قدرت پر بھروسا نہیں رکھتے تھے جو کسی ” رکن شدید “ کی پناہ کے طالب تھے ؟
اس مشکل کا حل بخاری کی روایت نے بخوبی کر دیا ہے اس روایت میں ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
( (یغفر اللّٰہ للوط ان کان لیأوی الی رکن شدید ‘ وھو ربہ و خالقہ)) 1
” اللہ تعالیٰ لوط کی بخشش کرے (کہ وہ اس درجہ پریشان کیے گئے) کہ رکن شدید کی پناہ کے طالب ہوئے اور ان کے لیے رکن شدید ان کا پروردگار اور ان کا خالق ہے۔ “
1-(١ ؎ تفسیر کی بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ ” رکن شدید “ میں رکن سے مراد خاندان ہے ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) نے سدوم کے باشندوں کی بے مروتی اور وحشت کو محسوس کیا توبہ تقاضائے بشریت فرمایا ‘ کاش کہ میں خاندان والوں سے وابستہ ہوتا تو یہ پریشانی نہ ہوتی ‘ چنانچہ اس کے بعد حق تعالیٰ نے انبیا و رسل کو ان کے اپنے خاندان اور برادری میں مبعوث کیا ‘ مگر یہ توجیہ مضبوط نہیں ہے اور اپنے اندر کافی سقم رکھتی ہے اس لیے صحیح توجیہ وہی ہے جو صحیح بخاری میں خود ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔حضرت لوط (علیہ السلام) کے اس قول کو سن کر فرشتوں نے کہا :
{ قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ } [20]
” (فرشتوں نے) کہا اے لوط ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں (مجبور انسان نہیں ہیں) یہ تجھ کو ہرگز گزند نہیں پہنچا سکتے۔ “ )
مطلب یہ ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) خدا کو بھول کر کسی اور قوت کی پناہ کے طالب نہ تھے بلکہ وہ اس درجہ قابل رحم حالت میں تھے کہ اس وقت ان کی یہ تمنا ہوئی ‘ کاش کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسی قوت عطا کرتا کہ میں اسی وقت ان سب بدبختوں کو ان کی خباثت کا مزہ چکھا سکتا اور ” رکن شدید “ یعنی ان کے پروردگار نے آخر ان کی مدد کی اور ان پر فرشتوں نے اپنا راز ظاہر کر دیا اور ان کو تسلی اور اطمینان بخشا کہ آپ پریشان نہ ہوں تھوڑا ہی وقت گذرتا ہے کہ یہ اپنی بدکرداری کے عبرتناک انجام کو پہنچ جائیں گے۔
" بعض مفسرین نے بِکُمْ قُوَّۃً میں ” کم “ کا مخاطب فرشتوں کو سمجھا ہے اور مراد یہ لیتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کاش تم اس کثرت سے ہوتے کہ ان کے مقابلہ میں مجھ کو تم سے قوت پہنچتی یا خدا کوئی ایسی صورت پیدا کردیتا کہ میں ان کو سزا دے سکتا ‘ اسی لیے توراۃ میں ہے کہ حضرت لوط مع اپنے خاندان کے سدوم سے ہجرت کرکے ضوغریاضغر کی بستی میں چلے گئے جو سدوم سے قریب ہی آباد تھی۔ ١ ؎ آفتاب نکلنے کے بعد جب انھوں نے سدوم کی جانب دیکھا تو وہاں ہلاکت و بربادی کے نشانات کے سوائے اور کچھ نہ تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے پھر ضغر کو بھی چھوڑ دیا ‘ اور اس کے قریب ایک پہاڑی پر جا آباد ہوئے ‘ اور امن وامان سے رہنے سہنے لگے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔

حوالہ جات