علی قوشجی
علاء الدین علی قوشجی یا علی ابن محمد سمرقندی (پیدائش: 1403ء — وفات: 16 دسمبر 1474ء) مسلم ریاضی دان، ماہر طبیعیات، ماہر فلکیات اور منجم تھے۔ اُن کا تعلق سمرقند سے تھا۔سمرقند سے وہ استنبول یعنی سلطنت عثمانیہ میں رہائش پزیر ہوئے۔ علی قوشجی الغ بیگ کے شاگرد تھے جو طبیعیات، فلکیات اور طبعی فلسفہ اور تجرباتی دلائل سمیت گردش زمین کے نظریات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ علی قوشجی زیج سلطانی کی تیاری میں الغ بیگ کے ہمراہ فلکیاتی مشاہدات میں شریک رہے۔ یہ شراکت اُن کی رصدگاہ الغ بیگ میں اِقامت کی وجہ سے بھی ہے۔ بعد ازاں علی قوشجی جب استنبول منتقل ہوئے تو وہاں صحن سمنان مدرسہ کی بنیاد رکھی جو سلطنت عثمانیہ کے عہد میں اپنی طرز کا ایک جدید ترین ادارہ تھا جہاں اسلامی روایتی سائنس کے علوم اور فلکیات بالخصوص پڑھائے جاتے تھے۔ علی قوشجی کی وجہ شہرت اُن کی علم فلکیات پر لکھی گئی کتب بھی ہیں۔
علی قوشجی | |
---|---|
(عثمانی ترک میں: علی قوشچی) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1403ء سمرقند |
وفات | 16 دسمبر 1474ء (70–71 سال) قسطنطنیہ ، استنبول |
مدفن | قبرستان ایوب |
شہریت | تیموری سلطنت (1403–1469) سلطنت عثمانیہ (1470–16 دسمبر 1474) |
عملی زندگی | |
پیشہ | ریاضی دان ، ماہر فلکیات ، طبیعیات دان ، منجم ، معلم ، ماہرِ لسانیات |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، عربی ، ترکی |
ملازمت | رصدگاہ الغ بیگ ، آیاصوفیا |
کارہائے نمایاں | زیج سلطانی |
درستی - ترمیم |
سوانح
پیدائش اور ابتدائی حالات
علی قوشجی 1403ء میں سمرقند میں پیدا ہوئے ۔ اُن کا اصل نام علاء الدین علی ابن محمد القوشجی ہے۔ قوشجی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ علی کے والد محمد سلطان الغ بیگ کے شاہی باز بردار تھے اور باز کو ترکی زبان میں قوشچو کہتے ہیں۔[1][2]
ابتدائی تعلیم
علی قوشجی کی ابتدائی تعلیم کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ابتدائی تعلیم قاضی زادہ رومی (متوفی 1436ء)، غیاث الدین مسعود جمشید کاشانی (متوفی 1429ء)، محی الدین کاشی سے حاصل کی۔ قاضی زادہ رومی سے علم ریاضی اور حکمت و فلکیات پڑھا جبکہ غیاث الدین مسعود جمشید کاشانی سے بھی علم فلکیات، حکمت اور علم نجوم پڑھا۔
تحقیق و مشاہدہ
ابتدائی تعلیم کے بعد علی قوشجی کرمان چلے گئے جہاں انھوں نے خلیج عمان کے ساحلوں سے اُٹھنے والے طوفانوں پر تحقیق شروع کی۔ اِسی دوران انھوں نے اپنی تصنیف حال اشکال القمر لکھی جس میں چاند کی مختلف اشکال پر بحث کی گئی تھی اور کرمان میں رہتے ہوئے دوسری کتاب شرح تجرید لکھی۔ 1423ء میں وہ عبدالرحمٰن جامی سے علم کی تحصیل کی خاطر ہرات چلے گئے۔
سلطان الغ بیگ کی ہمراہی
ہرات میں تحصیل علم کے بعد سمرقند واپس آئے اور رصدگاہ الغ بیگ میں سلطان الغ بیگ کے ہمراہ چاند کی حرکت و اشکال پر تحقیق میں شامل ہوئے۔ رصدگاہ الغ بیگ میں علی قوشجی سلطان الغ بیگ کے قتل تک کام کرتے رہے۔ 27 اکتوبر 1449ء کو جب سلطان الغ بیگ کو اُس کے بیٹے عبداللطیف مرزا نے قتل کروا دیا تو رصدگاہ الغ بیگ پر برا وقت آگیا اور منجمین یہاں سے دوسرے ممالک کو منتقل ہونے لگے جن میں علی قوشجی بھی شامل تھے۔[3]
سلطنت عثمانیہ میں رہائش
سلطان الغ بیگ کے قتل کے بعد علی قوشجی ہرات، تاشقند گئے اور آخر میں تبریز پہنچے جہاں وہ 1469ء تک مقیم رہے۔ تبریز اُس وقت آق قویونلو حکمرانوں کا دار الحکومت تھا۔ جب 1469ء میں اوزون حسن نے عثمانی سلطان محمد فاتح کے دربار میں اپنا وفد بھیجا تو علی قوشجی کو بھی اِس وفد میں تبریز سے روانہ کیا تھا۔ استنبول پہنچ کر اُن کی ملاقاتسلطان محمد فاتح سے ہوئی اور اَب علی قوشجی نے ہرات اور تبریز کی بجائے استنبول میں رہائش کو مقدم جانا کیونکہسلاطین عثمانیہ کا رجحان سائنس اور فلکیات کی طرف دوسرے حکمرانوں کی نسبت زیادہ تھا۔ استنبول میں وہ آخر عمر تک مقیم رہے۔[4]
وفات
علی قوشجی نے تقریباً 70 سال کی عمر میں 16 دسمبر 1474ء کو استنبول میں وفات پائی۔ اُن کی تدفین قبرستان ایوب، استنبول میں کی گئی۔
حوالہ جات
ویکی ذخائر پر علی قوشجی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |