بکر بن عبد اللہ مزنی

(بکر بن عبداللہ مزنی سے رجوع مکرر)

بکر بن عبد اللہ مزانی (وفات: 108ھ ) آپ ایک ثقہ تابعی ، محدث ثقہ اور حدیث کے راوی ہیں۔ محدثین کے گروہ نے ان سے روایات بیان کی ہیں۔

بکر بن عبد اللہ مزنی
معلومات شخصیت
رہائشبصرہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیتأبو عبد الله
لقبالمزنى البصرى
عملی زندگی
طبقہمن التابعين، طبقة الحسن البصري
ابن حجر کی رائےثقة ثبت جليل
استادحسن بصری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہمحدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

بکر نام،باپ کا نام عبد اللہ تھا،نسبی تعلق قبیلہ مزینہ سے تھا۔

سیرت

آپ کا نام بکر بن عبد اللہ المزانی ہے ،آپ کی کنیت ابو عبد اللہ بصری ہے اور آپ عبد اللہ بن بکر کے والد ہیں، حامید طول نے کہا: "بکر مستجاب الدعوات تھے آپ کی دعا قبول ہوتی تھی۔" وہ بصرہ میں رہتے تھے اور فقیہ تھے۔ آپ کی وفات سنہ 108 ہجری میں ہوئی۔

روایت حدیث

انس بن مالک، جبیر بن حیا ثقفی، حسن البصری، حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ، صفوان بن مہریز، عبد اللہ بن رباح انصاری، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ ، عبد اللہ بن عمر بن الخطاب، عدی بن ارتضیٰ الفزاری اور عروہ بن مغیرہ بن شعبہ، علقمہ بن عبد اللہ المزانی، مغیرہ بن شعبہ، نضر بن انس بن مالک، یوسف بن زبیر، ابو تمیمہ حجیمی، ابو رافع الصیغ، ابو العالیہ الریحی اور ابو المتوکل الناجی۔ اس کی سند سے روایت ہے: ابراہیم بن عیسیٰ یشکری، اشعث بن عبد الملک الحمرانی، بکر بن رستم العنک، ثابت البنانی، ابو الاشہب جعفر بن حیان التردی، حبیب بن العطاردی۔ شاہد، حبیب ابو محمد العجمی، حامد التاویل، داؤد بن ابی ہند دینار قشیری اور ابو عمرو زیاد بن ابی مسلم،[1]

جراح اور تعدیل

امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں اس کا تذکرہ کیا ہے، یحییٰ بن معین اور نسائی نے کہا: ثقہ ہے۔ ابو زرعہ الرازی نے کہا: ثقہ ہے۔ محمد بن سعد البغدادی نے کہا: "وہ ثقہ، قابل اعتماد، ثقہ، ثبوت اور فقیہ تھے۔" عجلی نے کہا: "بصری، ایک قابل اعتماد تابعی ہے۔" امام علی بن المدینی نے کہا: اس کے پاس پچاس کے قریب احادیث ہیں۔[2]

فضل وکمال

بکر علمائے بصرہ میں تھے اوران کے علمی کمالات کی وجہ سے شیخ البصرہ حضرت حسن کے مقابلہ میں ان کا لقب فتی البصرہ تھا۔[3]

حدیث

حدیث کے ممتاز حفاظ میں تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں وكان ثقة ثبتا مأمونا كثير الحديث حجة ،[4] صحابہ میں انھوں نے عبد اللہ بن عمرؓ،عبد اللہ بن عباس اورمغیرہ بن شعبہؓ اورتابعین میں ابو رافع،صائغ،ابو تمیمہ جحمی وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا ثابت البنائی سلیما ن تیمی ،قتادہ،غالب القطان،عاصم الاحول،سعید بن عبد اللہ اور رمطرالوراق ان کے تلامذہ میں ہیں ان کی مرویات کی تعداد پچاس تک پہنچتی ہے۔[5]

فقہ

فقہ میں بھی درک تھا،علامہ ابن سعد ان کے حفظ حدیث کے ساتھ انھیں فقیہ بھی لکھتے ہیں۔[6]

عہدہ قضاء کی پیشکش سے انکار

ان کے فقہی کمال کی بنا پر عہدہ قضاء ان کے سامنے پیش کیا گیا مگر یہ اس کی ذمہ داریوں سے بہت گھبراتے تھے،اس لیے قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے اوریہ معقول منطقی دلیل پیش کی کہ خدائے وحدہ لاشریک کی قسم مجھے قضا میں کوئی درک نہیں ہے اگر میں سچ کہتا ہوں تو ظاہر ہے کہ اس عہدہ کااہل نہیں اور اگر غلط کہتا ہوں تو جھوٹا شخص قاضی بنائے جانے کے لائق نہیں۔[7]

مبتدعانہ عقائد سے نفرت

عقائد میں بکر صحابہ کرام کے صاف اورسادہ عقیدہ کے پابند تھے،عقلی موشگافیوں کو سخت ناپسند اور جدت طرازیوں سے سخت نفرت کرتے تھے،اس زمانہ میں قدر کا مسئلہ چھڑ چکا تھا،اگر بکر کبھی اس کا ذکر بھی سن لیتے تو اس کے کفارہ میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔[8]

بارگاہ ایزدی میں الحاح

اس فراغت واطمینان کی حالت میں بھی وہ اپنے کو خدا کی بارگاہ کا ایک گدائے بے نوا سمجھتے تھے اورہمیشہ اس کے فضل وکرم کے طالب رہا کرتے تھے؛چنانچہ دعا کیا کرتے تھے،خدا یا مجھے اپنے فضل وکرم سے رزق عطا فرماتا کہ میں اورزیادہ شکر گزار ہوں ،صرف تیری ہی احتیاج ہے،تیرے ماسوا سے استغنا ہے، خدایا نہ میری امیدیں اورآرزوئیں میرے اختیار میں ہیں اور نہ پسندیدہ باتوں کا روکنا میرے بس میں ہے،میرے تمام معاملات کسی اور کے ہاتھ میں ہیں، دنیا میں کوئی محتاج مجھ سے زیادہ محتاج نہیں،یہ دعاکرکے فرماتے اے ابن آدم ایسی امید وآرزو نہ کر جو خدا کی نیرنگی سے بے خوف کر دے اورنہ ایسا خوف وہراس طاری کر جو خدا کی رحمت سے مایوس کر دے۔[9]

شرط رفاقت

آپ کے بعض اصول ہر انسان کے لیے لائق عمل ہیں،شرط رفاقت کے سلسلہ میں فرماتے تھے کہ اگر تمھارے ساتھی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے اور تم اس کا اتنا بھی انتظار نہ کرو کہ وہ اپنا تسمہ درست کرلے،یا وہ پیشاب کے لیے بیٹھے،اورتم اس کے فارغ ہونے کا انتظار نہ کرو تو تم اس کے ساتھ نہیں ہو۔[10]

زیادہ باتیں مضر ہیں

فرماتے تھے زیادہ باتیں نہ کیا کرو،اگر تم نے صحیح اوردرست باتیں کیں تو اس کا کوئی اجر نہ ملے گا اوراگر غلط کیں تو تم سے ان کا مواخذہ ہوگا۔[11]

وفات

180ھ میں بصرہ میں وفات پائی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جنازہ پر خلقت ٹوٹ پڑتی تھی۔[12]

حوالہ جات