عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار فارسی زبان میں لکھی گئی ایک مشہور کتاب ہے۔ جسے میر حامد حسین موسوی نے 20 جلدوں میں لکھا ہے۔
اس کتاب کا موضوع علم کلام ہے۔ اس میں حضرت علی (ع) کی امامت کو قرآن اور حدیث سے ثابت کیا گیا ہے۔
عبد العزیز محدث دہلوی نے اہل تشیع کے عقائد کی رد میں فارسی میں کتاب تحفۂ اثنا عشریہ لکھی ،۔ اکثر شیعہ علما نے اس کتاب کے ہر باب کا الگ الگ کتاب کی صورت میں رد کیا۔ آیت الله سید دلدار علی نقوی ؒ نے شیعہ عقیدہ توحید ، نبوت ، امامت و آخرت کے خلاف لکھے گئے ابواب پنجم ،ششم، ہفتم و ہشتم کے رد میں "الصَّوارمُ الإلهیّات فی قَطْع شُبَهات عابدی العُزّی و اللّات" ، "حِسامُ الاسلام و سَهامُ المَلام"، " خاتِمَةُ الصَّوارم" ،"ذو الفقار"اور"اِحْیاءُ السُّنّة و اماتَةُ الْبِدْعَة بِطَعْنِ الأسِنَّة" لکھیں۔ علامہ سید محمد قلی موسوی ؒنے تحفہ اثنا عشریہ کے پہلے، دوسرے، ساتویں، دسویں اور گیارہویں ابواب کا الگ الگ جواب دیا اور ان کتب کا مجموعہ "الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ" کے عنوان سے شائع ہوا۔ مولانا خیر الدین محمد الہ آبادی ؒ نے باب چہارم کے جواب میں "هدایة العزیز " لکھی۔ ان کے علاوہ بھی کئی علما نے تحفہ اثنا عشریہ کے ابواب کے رد میں کتب تصنیف کیں جن میں شیعہمکتب فکر کا موقف واضح کیا گیا- البتہ بعض علما نے اس کے تمام ابواب کے جواب میں ایک ہی کتاب لکھی جن میں سے علامہ سید محمّد کمال دہلوی ؒنے" نزھۃ اثنا عشریۃ" اور مرزا محمد ہادی رسواؒ نے اردو میں "تحفۃ السنۃ " لکھیں۔ نزھہ اثنا عشریہکی اشاعت تو تحفہ اثنا عشریہ کی پہلی اشاعت کے تین سال بعد ہی ہو گئی تھی اور اس وجہ سے ریاست جھاجھڑ کے سنی راجا نے علامہ سید محمّد کامل دہلویؒ کو بطور طبیب علاج کروانے کے بہانے سے بلوایا اور دھوکے سے زہر پلا کر قتل کر دیا۔ ان جوابات کی اشاعت کے نتیجے میں شاہ عبد العزیز کے شاگرد سید قمر الدین حسینی، جن کے لیے انھوں نے" اجالہ نافعہ "کے عنوان سے علم حدیث کا ایک رسالہ لکھا تھا، نے شیعہ مسلک اختیار کر لیا[1]۔ تحفہ اثنا عشریہ کی رد میں لکھی گئی کتب میں سب سے زیادہ شہرت جس کتاب کو نصیب ہوئی وہ [[سید حامد حسین موسوی میر سید حامد حسینؒ اور ان کی اولاد کی لکھی گئی بیس جلدوں پر مشتمل کتاب "عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار" ہے جو تحفہ اثنا عشریہ کے ساتویں باب کے رد میں لکھی گئی تھی، یہ کتاب شیعہ عقیدہ امامت پر لکھی گئی جامع ترین کتاب ہے۔۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ آیت الله میلانی نے کیا اور اردو ترجمه مولانا سید شجاعت حسین گوپالپوری نے کیا جو نورالانوار ترجمه عبقات الانوار (حدیث ثقلین)دو جلد میں شائع ہوئی . [2]
مؤلف نے ابتدا میں احادیث کی سند کو صرف اہل سنت کے ہاں متواتر اور قطعی الصدور ہونے کی حیثیت سے بحث کی ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے اہل سنت کے ہاں معتبر ترین مدارک کے ذریعے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے سے لے کر خود دہلوی کے زمانے تک پہلے بلا واسطہ راویوں کی صحابہ کے ذریعے توثیق اور تعدیل کی ہے پھر اس توثیق کرنے والے صحابہ کی تابعین کے ذریعے توثیق کی ہے اس کے بعد غیر مستقیم راویوں کی تا خود دہلوی کے زمانے تک توثیق کو کتب رجال اور تراجم اور جوامع حدیثی کے ذریعے توثیق کی ہے۔ اس کے بعد حدیث کے مضامین کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے انھیں شیعہ نظریے کے ساتھ مطابقت رکھنے اور اس پر دلالت کرنے کی کیفیت کو بیان فرمایا ہے۔ اور آخر میں اہل سنت کی طرف سے وارد تمام اعتراضات کو ایک ایک کرکے نقل کرتے ہوئے سب کا مدلل جواب دیا ہے اور چہ بسا ان جوابات کے لیے بھی خود اہل سنت کی کتابوں سے دلائل پیش کیے ہیں۔
پہلا حصہ 1251 صفحات پر مشتمل ایک جلد میں مرتب کیا ہے جبکہ دوسرا حصہ ہزار صفحات کے دو جلدوں پر مشتمل ہے اور خود مؤلف کے زمانے میں ہی چاپ سنگی کے ساتھ منظر عام پر آگئی تھی اور یہ تینوں مجلدات "غلام رضا مولانا بروجردی" کے تحقیق کے ساتھ دس جلدوں میں قم المقدس میں منظر عام پر آگئی ہے۔ اس حصے کا خلاصہ فیض القدیر کے نام سے شیخ عباس قمی نے 462 صفحات میں منتشر کیا ہے۔
اس طرح اس مجموعے کے مباحث کا تحقیقی اور مفید خلاصہ نفحات الأزہار فی خلاصۃ عبقات الأنوار کے نام سے عربی زبان میں سید علی میلانی کے قلم سے 20 جلدوں میں قم میں منتشر ہوئی ہے[3]۔
درج بالا مجموعے کے پانچ حصے مرحوم سید میرحامد حسین، تین حصے ان کے بیٹے سید ناصر حسین اور دو حصے سید محمد سعید فرزند سید ناصر حسین نے اسی روش اور اسلوب کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچائے جسے سید میر حامد حسین نے اپنایا تھا-
مؤلف کی قدرت علمی، وسعت مطالعہ اور موضوع پر خارق العادہ احاطے کو اس کتاب کے تمام مجلدات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلا ایک جگہ پر حدیث ثقلین کی شیعہ مدعا پر دلالت کو 66 طریقوں سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ اس حدیث کی شیعہ مطلوب پر دلالت کے بارے میں ابن جوزی کے اشتباہات کو 165 نقض اور تالی فاسد کے ساتھ جواب دیا ہے اور کتاب تحفہ کے مؤلف کا یہ دعوا کہ عترت کے معنی تمام اقارب ہیں اور اس کا لازمہ تمام رشتہ داروں کی اطاعت کا واجب ہونا ہے نہ فقط اہل بیت کی، اس دعوا کو باطل کرنے کے لیے 51 نقض اور اعتراض وارد کیا ہے۔
اسی طرح انھوں نے جس مطلب یا بحث کو بھی چھیڑا ہے اس کے تمام قابل بحث جوانب کو مد نظر رکھتے ہوئے اس موضوع کے بارے کما حقہ تحقیقات کو اس کے انتہائی درجہ تک پہنچایا ہے اور قارئین کے لیے اس کتاب کے مطالعے کے بعد دوبارہ کسی منابع کی طرف رجوع کرنے کے حوالے سے بے نیاز کیا ہے۔
صاحب عبقات دوسرے شیعہ علما کی طرح اہل سنت علما کے ساتھ مناظرہ اور بحث و مباحثہ کرتے وقت مناظرہ اور گفتگو کے آداب اور قواعد کی رعایت کرتے تھے جبکہ طرف مقابل اگرچہ یہ ادعا کرتے تھے لکین عملا اس پر پابند نہیں رہتے تھے۔
الف: بحث و گفتگو کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ جب انسان کسی موضوع کے بارے میں کسی کا کلام نقل کرے تو امانت کی رعایت کرتے ہوئے بغیر کمی و زیادتی کے پورا کلام نقل کرے پھر محل اشکال اور اعتراض کو مشخص کرکے اس کا نقضی یا حلی جواب دے۔ اس صورت میں سننے یا دیکھنے والا طرفین کے مدعا اور دلائل کو سننے کے بعد صحیح فیصلہ کرتے ہوئے درست اور صحیح نظریے کا انتخاب کر سکے۔
میر حامد حسین کتاب عبقات میں خطبہ کے بعد دہلوی (صاحب تحفہ) کی عین عبارت کو بغیر کسی کمی و زیادتی کے نقل کرتے ہیں یہاں تک کہ کتاب کے حاشیے میں اس نے خود یا کسی اور نے کوئی اضافہ کیا ہو تو اسے بھی من و عن نقل کرتے ہیں پھر ان کا جواب دیتے ہیں۔ جبکہ دہلوی اس اصول کی رعایت نہیں کرتا مثلا حدیث ثقلین کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے: "یہ حدیث بھی پچھلے احادیث کے مطابق شیعہ مدعا کے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھتی" یہ کہ کر اس حدیث کے بارے میں شیعہ استدلال کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا اسی طرح حدیث نور کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : "یہ حدیث بھی مدعا پر دلالت نہیں کرتی" لیکن اس حوالے سے شیعوں کے دلائل کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔
ب: گفتگو اور مناظرہ کے دیگر آداب میں سے ایک یہ ہے کہ مناظرے میں ایک ایسی چیز سے احتجاج کرے جسے طرف مقابل قبول کرت ہو اور ان کے ہاں یہ چیز حجت ہو نہ یہ کہ خود ہمارے ہاں حجت ہو۔
صاحب عبقات جس مسئلے میں بھی وارد ہوتے ہیں خود اہل سنت کی کتابوں سے احتجاج کرتے ہیں اور خود انہی کے حفاظ اور علما و مشاہیر کے اقوال کے ذریعے ان پر استدلال کرتے ہیں۔ لیکن دہلوی اس قاعدے اور اصول پر بھی عملی طور پر ملتزم نہیں رہتا اسی لیے دیکھتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے مقابلے میں حدیث "" سے تمسک کرتے ہیس حالنکہ اس حدیث کو فقط اہل سنت نقل کرتے ہیں شیعہ اسے اصلا نقل ہی نہیں کرتے۔
ج: مناظرہ کے دیگر اصول میں سے ایک یہ ہے کہ انسان احتجاج اور رد کرتے وقت حقیقت کا اعتراف کرے۔ صاحب عبقات اگر کسی حدیث سے استدلال کرنا چاہتے ہیں تو اسے اہل سنت طرق سے استناد کرتے ہیں اور طرف مقابل نے جن جن واسطوں سے اسے استناد کیا ہے ان سب کو ذکر کرتے ہیں اور اس حوالے سے صرف ایک یا دو نفر کے نقل کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے ہیں بلکہ تمام اسناد کو نقل کرتے ہیں اس حوالے سے بطور نمونہ حدیث "" کے حوالے سے صاحب عبقات کا رویہ دیکھ سکتے ہیں جسے اہل سنت نے حدیث "طیر" کے مقابلے میں نقل کرتے ہیں۔ لیکن ان کے مقابلے میں دہلوی جب "حدیث ثقلین" کو نقل کرتا ہے تو فقط زید بن ارقم کے توسط سے نقل کرتے ہیں حالنکہ اس حدیث کو 20 سے زیادہ افراد نے صحابہ سے نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ کہ حدیث کو ناقص نقل کیا ہے جملہ "" کو جسے مسند احمد اور صحیح ترمذی نے نقل کیا ہے اس سے حذف کیا ہے۔
الف: طرف مقابل کا پورا کلام نقل کرنا: جیسا کہ پہلے اشارہ ہوا کہ آپ دہلوی کا پورا کلام بغیر کسی کمی و بیشی کے نقل کرتے تھے حتی اسے نقل بہ معنی ہم نہیں کرتے بلکہ عین اس کی عبارات کو نقل کرتے تھے۔
ب: موضوع کے تمام جوانب کا مطالعہ کرنا: آپ جس موضوع پر بھی بحث کرتے اس کے تمام جوانب کا دقیق بررسی اور تحقیق کرتے تھے۔ لہذا جب اپنے مد مقابل کی بات کو رد کرنا چاہتے ہیں تو صرف ایک دو دلیل پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ اس قدر دلائل اور شواہد پیش کرتے کہ مد مقابل کی بات سرے سے ہی کعدم ہوکر رہ جاتی۔ بطور نمونہ جب حدیث ثقلین کے بارے میں جب ابن جوزی کی بات کو رد کرنا چاہتا ہے تو 156 طریقوں سے اسے رد کرتے ہیں۔
ج: مکمل تحقیق: میر حامد حسین مرحوم جب بھی کسی موضوع پر بحث کرنا شروع کرتے تو اس موضوع کے متعلق تمام اقوال کو نقل کرتے پھر ان سب کا ایک ایک کر کے جواب دیتے یہاں تک کہ اس موضوع کے بارے میں امکانی اقوال کو بھی نقل کرکے ان کا بھی جواب دیتے تھے۔ اسی لیے دہلوی کی بات کو رد کرتے وقت نصراللہ کابلی، ابن حجر اور طبری وغیرہ کے اقوال کو بھی نقل کرکے ان کا بھی جواب دیتے تھے۔ مثلا جب دہلوی حدیث سفینہ کو پیش کرتے ہیں اور اس حدیث کی امام علی(ع) کی امامت پر دلالت کا انکار کرتے ہیں لیکن اس کے سند وغیرہ سے بحث نہیں کرتے۔ لیکن صاحب عبقات شروع میں اس حدیث کو نقل کرنے والے 92 افرد کا ذکر کرتے ہیں (کیونکہ آپ کی نظر میں سند سے بحث دلالت سے بحث پر مقدم ہے) اور اس کے اسناد کو ذکر کرنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ ابن تیمیہ اس حدیث کو بے سند قرار دیتے ہوئے اس کے سند کا انکار کرتا ہے، اس کے بعد آپ اس حدیث کو ذکر کرنے والے معتبر کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
د: بحث کی ریشہ یابی: ایک اصول جسے صاحب عبقات اپنے مد مقابل کی بات کو رد کرنے میں ہمیشہ مد نظر رکھتے ہیں وہ اس بارے میں مطرح اقوال کی ریشہ یابی ہے۔ اس کام سے آپ کو درج ذیل اہداف کو حاصل کرنا چاہتے تھے:
جیسا کہ ملاحظہ فرمایا اہل خبر کے اجماع کو یہاں پر کابلی نے اضافہ کیا ہے لیکن اب جوزی نے جس چیز کو کتاب "موضوعات" میں کہا ہے وہ کسی اور حدیث کے بارے میں ہے نہ اس حدیث کے بارے میں۔ "... قال رسول اللّہ(ص) :
آپ متعدد مقامات پر دہلوی کی طرف سے گتفتگو اور مناظرہ کے اصولوں کی رعایت نہ کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں جن کے بارے میں خود دہلوی نے رعایت کرنے کا وعدہ دیا تھا۔ مثلا خود دہلوی ان قوانین کو اپنے اوپر ملزم قرار دیتے ہیں:
لیکن عملا دیکھا جائے تو متعدد مقامات پر دہلوی نے مذکورہ باتوں کے خلاف عمل کیا ہے اور صاحب عبقات نے ان موارد کی طرف نشان دہی کی ہے۔
صاحب عبقات دہلوی کے مطالب کو رد کرنے کے لیے کبھی کبھار خود انہی کے کلمات یا ان کے والد یا دوسرے اہل سنت علما کے کلمات سے بھی استفادہ کرتے تھے۔ ز: بررسی احادیث از همه جوانب صاحب عبقات زمانی که وارد بحث از احادیث میشود آن را از نظر سند، شأن صدور و متن حدیث مورد بررسی قرار میدهد و در هر قسمت با کارشناسی دقیق مباحث لازم را مطرح میکند.
آپ اکثر مقامات پر مخالفین کے استدلال کو ان سے مشابہ مطالب - جن پر خود مخالفین اعتماد کرتے ہیں - کے ذریعے باطل کرتے تھے۔ مثلا جب دہلوی حدیث غدیر کے جواب میں کہتا ہے کہ: "اگر پیغمبر(ص) کا مقصد مسئلہ امامت و خلافت کو بیان کرنا تھا تو اسے کیوں صراحتا بیان نہیں فرمایا تاکہ کوئی اختلاف پیدا نہ ہوتا؟ "" صاحب عبقات اس کو حدیث "" جو اہل سنت محدثین کو بھی قابل قبول ہے کے ذریعے باطل کرتے ہیں۔
اس طرح ان کے استدلالات کا ان کی اپنی کتابوں میں موجود متضاد مطالب کے ذریعے بھی جواب دیتے ہیں۔
لذا حدیث "" پر دہلوی کے استدلال کو اہل سنت ہی کی کتابوں سے صحابہ کی مذمت میں موجود احادیث سے جواب دیتے ہیں۔
”ھو اجل ما کتب فی ھذا الباب من صدر الاسلام الی الآن“.
یعنی صدر اسلام سے اب تک امامت کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں یہ سب سے عظیم الشان کتاب ہے۔[4]
”عبقات الانوار الذی ما صنف نظیرہ فی جمیع الاعصار“.
یعنی (امامت کے موضوع پر) عبقات الانوار جیسی کتاب اب تک کسی بھی زمانے میں نہیں لکھی گئی۔[5]
” كتاب عبقات الأنوار تصنيف السيد الجليل المحدث العالم نادرۃ الفلك وحسنۃ الھند ومفخرۃ لكھنو وغرۃ العصر خاتم المتكلمين المولوي الأمير حامد حسين المعاصر الھندي اللكھنوي قدس سرہ وضوعف برہ، وإني أدين اللہ بأنہ منذ تأسيس علم الكلام إلی ھذا اليوم حيث أكتب ھذا المختصر، لم يُؤلف في مذہب الشيعۃ مثل ھذا الكتاب المبارك من حيث اتفاق النقل وكثرۃ الاطلاع علی كلمات الأعداء والإحاطۃ بالروايات الواردۃ من طرق الخصوم “. [6]
”وأمّا كتابہ العبقات فقد فاح أريجہ بين لابتي العالم، وطبق حديثہ المشرق والمغرب، وقد عرف من وقف عليہ أنَّہ ذلك الكتاب المعجز المبين الذي لا يأتيہ الباطل من بين يديہ ولا من خلفہ“. [7]
”عبقات الأنوار في إمامۃ الأئمَّۃ الأطھار بالفارسيَّۃ، لم يُكتب مثلہ في بابہ في السلف والخلف“. [8]
لفظ عبقات، عربی زبان میں عبقۃ کی جمع ہے جس کے معنی نکہت اور خوشبو کے ہیں اور انوار یہاں پر نور کی جمع ہے (نون کے زبر کے ساتھ)، جس کے معنی غنچہ اور کلی کے ہیں ،۔ عبقات الانوار یعنی غنچوں کی خوشبوئیں ـ
لفظ انوار یہاں پر نون کے پیش کے ساتھ نور یعنی روشنی کی جمع نہیں ہے ـ [9][10]