عمرو بن شرجیل

عمروبن شرجیلؒ تابعین میں سے ہیں۔

عمرو بن شرجیل
معلومات شخصیت
وجہ وفاتطبعی موت
رہائشکوفہ
شہریتخلافت راشدہ
کنیتابو میسرہ
مذہباسلام
فرقہاہل سنت
عملی زندگی
طبقہ2
ابن حجر کی رائےثقہ
ذہبی کی رائےثقہ
استادحذیفہ بن یمان ، عبد اللہ بن مسعود ، عمر بن خطاب ، علی ابن ابی طالب ، عائشہ بنت ابی بکر
نمایاں شاگردحکم بن عتیبہ ، ابو وائل بن سلمہ ، طلحہ بن مصرف ، ابو اسحاق سبیعی ، مسروق بن اجدع
پیشہمحدث
شعبۂ عملروایت حدیث

نام ونسب

عمرو نام، ابو میسرہ کنیت، نسباقبیلہ ہمدان سے تعلق رکھتے تھے۔

فضل وکمال

علمی اعتبار سے فضلائے تابعین میں تھے، حافظ صفی الدین خزرجی ان الفاظ کے ساتھ ان کا تذکرہ کرتے ہیں عمرو بن شرجیل الھمدانی ابو میسرۃ الکوفی احد الفضلا، ان کے قبیلہ میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا، ابو وائل کہتے تھے کہ ہمدانیوں میں کوئی شخص ابو میسرہ کا مثل نہ تھا، کسی نے کہا مسروق ابو وائل نے جواب مسروق بھی نہیں۔[1]

تفسیر

آیاتِ قرآنی کی تفسیر وتاویل پر پوری نظر تھی اوربعض آیات کی تفسیر میں ان کا خیال مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود سے متوارد ہوجاتا تھا، ایک مرتبہ ابن مسعودؓ نے ان سے پوچھا ا"لخنس الجوار الکنس" کے بارہ میں تمھاری کیا رائے ہے انھوں نے کہا میرے نزدیک نیل گاؤ مراد ہے، ابن مسعودؓ نے کہا میری بھی یہی رائے ہے۔[2]

حدیث

حفظِ حدیث کے لحاظ سے اوسط درجہ کے حفاظ میں شمار تھا، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، حذیفہؓ، سلمانؓ، قیس بن سعد بن عبادہؓ، معقل بن متقرنؓ مزنی، نعمان ابن بشیرؓ، اورام المومنین عائشہ صدیقہؓ وغیرہ اکابر صحابہ سے سماع حدیث کیا تھا۔[3]ابو وائل، ابو اسحٰق سبیعی، ابوعمار ہمدانی، قاسم بن مخیمرہ، محمد بن منتشر اورمسروق وغیرہ ان کے زمرہ تلامذہ میں تھے۔[4]

عبادت وریاضت

علم کے ساتھ اسی درجہ کا عمل بھی تھا، بڑے عابدوزاہد بزرگ تھے ابن حبان لکھتے ہیں کہ وہ عبادت گزار لوگوں میں تھے، نمازوں کی کثرت سے (ان کے جوڑوں پر)اونٹوں کی طرح گھٹے پڑ گئے تھے۔[5]

عبادت میں طہارت کا لحاظ

عبادت میں طہارت اورپاکی کا بڑا لحاظ رکھتے تھے، فرماتے تھے کہ خدا کا ذکر پاک ہی مقام پر کرنا چاہیے۔[6]

صدقات

اپنی حیثیت کے مطابق مخیر اورفیاض بھی تھے، اپنی آمدنی کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور خیرات کرتے تھے، یونس کا بیان ہے کہ جب ان کا وظیفہ ملتا تھا تو اس میں سے وہ خیرات کیا کرتے تھے۔[7]

وفات

63ھ میں وفات پائی [8] مرض الموت میں لوگوں سے فرمایا، میں مرنے کے لیے بالکل آمادہ ہوں پیش آنے والے مرحلہ کے علاوہ اورکسی شے کا خوف دل میں نہیں ہے، نہ میرے پاس مال ودولت ہے(کہ اس کا افسوس ہو)اورنہ مجھ پر کسی کا قرض ہے (کہ اس کی فکر ہو)نہ میرے پاس عبال ہیں (کہ اپنے بعد ان کی فکر ہو)میرے مرنے کی خبر کسی کو نہ دی جائے، جنازہ لے چلنے میں جلدی کرنا، قبر پر ہری شاخ رکھنا کہ مہاجرین اس کو مستحب سمجھتے تھے، قبر اونچی نہ کرنا کہ اس کو وہ ناپسند کرتے تھے، آخر وقت لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنا، ان ہدایات کے بعد وفات پائی قاضی شریح نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔[9]

حوالہ جات