سورہ الجن

قرآن مجید کی 72 ویں سورت

قرآن مجید کی 72 ویں سورت جس کے دو رکوع میں 28 آیات ہیں۔

الجن
دور نزولمکی
اعداد و شمار
عددِ سورت72
عددِ پارہ29
تعداد آیات28

نام

الجن اس سورت کا نام بھی ہے اور اس کے مضامین کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں جنوں کے قرآن سن کر جانے اور اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ کرنے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ بازارِ عکاظ تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں نخلہ کے مقام پر آپ نے صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت جنوں کا ایک گروہ ادھر سے گذر رہا تھا، تلاوت کی آواز سن کر ٹھہر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا۔ اسی واقعے کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔

اکثر مفسرین نے اس روایت کی بنا پر یہ سمجھا ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور سفر طائف کا واقعہ ہے جو ہجرت سے تین سال پہلے 10 نبوی میں پیش آیا تھا لیکن یہ قیاس متعدد وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ طائف کے اس سفر میں جنوں کے قرآن سننے کا جو واقعہ پیش آیا تھا اس کا قصہ سورۂ احقاف آیات 29 – 32 میں بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس موقع پر جو جن قرآن مجید سن کر ایمان لائے تھے وہ پہلے سے حضرت موسٰی اور سابق کتب آسمانی پر ایمان رکھتے تھے۔ اس کے برعکس اس سورت کی آیات 2 – 7 میں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس موقع پر قرآن سننے والے جن مشرکین اور منکرینِ آخرت و رسالت میں سے تھے۔ پھر یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ طائف کے اس سفر میں حضرت زید بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے سوا اور کوئی حضور کے ساتھ نہ تھا۔ بخلاف اس کے اس سفر کے متعلق ابن عباس فرما رہے ہیں کہ اس میں چند صحابہ آپ کے ساتھ تھے۔ مزید برآں روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اُس سفر میں جنوں نے قرآن اس وقت سنا تھا جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طائف سے مکہ واپس تشریف لاتے ہوئے نخلہ میں ٹھیرے تھے۔ اور اِس سفر میں ابن عباس کی روایت کے مطابق جنوں کے قرآں سننے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ مکہ سے عکاظ تشریف لے جا رہے تھے۔ ان وجوہ سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورۂ احقاف اور سورۂ جن میں ایک ہی واقعہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ دو الگ واقعات تھے جو دو مختلف سفروں میں پیش آئے تھے۔

جہاں تک سورۂ احقاف کا تعلق ہے، اس میں جس واقعے کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں روایات متفق ہیں کہ وہ 10 نبوی میں سفر طائف میں پیش آیا تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دوسرا واقعہ کس زمانے میں پیش آیا، اس کا کوئی جواب ہمیں ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت سے نہیں ملتا، نہ کسی اور تاریخی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ عکاظ کے بازار میں کب تشریف لے گئے تھے۔ البتہ اس سورت کی آیات 8 – 10 پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ نبوت کے ابتدائی دور کا واقعہ ہی ہو سکتا ہے۔ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے پہلے جن عالم بالا کی خبریں معلوم کرنے کے لیے آسمان میں سن گن لینے کا کوئی نہ کوئی موقع پا لیتے تھے، مگر اس کے بعد یکایک انھوں نے دیکھا کہ ہر طرف فرشتوں کے سخت پہرے لگ گئے ہیں اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کہیں ان کو ایسی جگہ نہیں ملتی جہاں ٹھہر کر وہ کوئی بھنک پا سکیں۔ اس سے ان کو یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ زمین میں ایسا کیا واقعہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کے لیے یہ سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ غالباً اسی وقت سے جنوں کے بہت سے گروہ اس تلاش میں پھرتے رہے ہوں گے اور ان میں سے ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن سن کر یہ رائے قائم کی ہوگی کہ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر جنوں پر عالم بالا کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔

جن کی حقیقت

اس سورت کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ جنوں کی حقیقت کیا ہے تاکہ ذہن کسی الجھن کا شکار نہ ہوں۔ موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جن کسی حقیقی چیز کا نام نہیں ہے بلکہ یہ بھی پرانے زمانے کے اوہام اور خرافات میں سے ایک بے بنیاد خیال ہے۔ یہ رائے انھوں نے کچھ اس بنا پر قائم نہیں کی ہے کہ کائنات کی ساری حقیقتوں کو وہ جان چکے ہیں اور انھیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ جن کہیں موجود نہیں ہیں۔ ایسے علم کا دعویٰ وہ خود بھی نہیں کر سکتے مگر انھوں نے بلا دلیل یہ فرض کر لیا ہے کہ کائنات میں بس وہی کچھ موجود ہے جو ان کو محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ انسان کے محسوسات کا دائرہ اس عظیم کائنات کی وسعت کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہیں رکھتا جو سمندر کے مقابلے میں قطرے کی نسبت ہے۔ یہاں جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ محسوس نہیں ہے وہ موجود نہیں ہے اور جو موجود ہے اسے لازماً محسوس ہونا چاہیے، وہ دراصل خود اپنے ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے۔ یہ طرزِ فکر اختیار کر لیا جائے تو ایک جن ہی کیا، انسان کسی ایسی حقیقت کو بھی نہیں مان سکتا جو براہ راست اس کے تجربے اور مشاہدے میں نہ آتی ہو اور اس کے لیے خدا تک کا وجود قابل تسلیم نہیں ہے کجا کہ وہ کسی اور غیر محسوس حقیقت کو تسلیم کرے۔

مسلمانوں میں جو لوگ اس طرز فکر سے متاثر ہیں، مگر قرآن کا انکار بھی نہیں کر سکتے، انھوں نے جن اور ابلیس اور شیطان کے متعلق قرآن کے صاف صاف بیانات کو طرح طرح کی تاویلات کا تختۂ مشق بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی ایسی پوشیدہ مخلوق نہیں ہے جو اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہو، بلکہ کہیں تو اس سے مراد انسان کی اپنی بہیمی قوتیں ہیں جنہیں شیطان کہا گیا ہے اور کہیں اس سے مراد وحشی اور جنگلی اور پہاڑی قومیں ہیں اور کہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو چھپ چھپ کر قرآن سنا کرتے تھے۔ لیکن قرآن مجید کے ارشادات اس معاملے میں اس قدر صاف اور صریح ہیں کہ ان تاویلات کے لیے ان کے اندر کوئی ادنٰی سی گنجائش بھی موجود نہیں ہے۔

قرآن میں ایک جگہ نہیں، بکثرت مقامات پر جن اور انسان کا ذکر اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ دو الگ الگ قسم کی مخلوقات ہیں۔ سورہ اعراف آیت 38، ہود آیت 119، حم السجدہ آیات 25 – 29، الاحقاف آیت 18، الذاریات آیت 56، الناس آیت 6 اور سورہ رحمان تو پوری کی پوری اس پر ایسی صریح شہادت دیتی ہے کہ جنوں کو انسانوں کی کوئی قسم سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی۔

سورۂ اعراف آیت 12، سورۂ حجر آیات 26 – 27 اور سورۂ رحمان آیات 14 – 15 میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ انسان کا مادۂ تخلیق مٹی ہے اور جنوں کا مادۂ تخلیق آگ۔

سورۂ حجر آیت 27 میں صراحت کی گئی ہے کہ جن انسان سے پہلے پیدا کیے گئے تھے۔ اسی بات پر قصۂ آدم و ابلیس شہادت دیتا ہے جو قرآن میں سات مقامات پر بیان ہوا ہے اور ہر جگہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے وقت ابلیس موجود تھا۔ نیز سورۂ کہف آیت 50 میں بتایا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے ہے۔

سورۂ اعراف آیت 27 میں بالفاظ صریح یہ کہا گیا ہے کہ جن انسانوں کو دیکھتے ہیں مگر انسان ان کو نہیں دیکھتے۔

سورۂ حجر آیات 16 – 17، سورۂ صافات آیات 6 – 10 اور سورۂ ملک آیت 5 میں بتایا گیا ہے کہ جن اگرچہ عالم بالا کی طرف پرواز کر سکتے ہیں، مگر ایک حد سے آگے نہیں جا سکتے۔ اس سے اوپر جانے کی کوشش کریں اور ملاء اعلٰی کی باتیں سننا چاہیں تو انھیں روک دیا جاتا ہے۔ چوری چھپے سن گن لیں تو شہاب ثاقب ان کو مار بھگاتے ہیں۔ اس سے مشرکین عرب کے اس خیال کی تردید کی گئی ہے کہ جن غیب کا علم رکھتے ہیں یا خدائی کے اسرار تک انھیں کوئی رسائی حاصل ہے۔ اسی غلط خیال کی تردید سورۂ سبا آیت 14 میں بھی کی گئی ہے۔

سورۂ بقرہ آیات 30 – 34 اور سورۂ کہف آیت 50 سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی خلافت اللہ تعالٰی نے انسان کو دی ہے اور انسان جنوں سے افضل مخلوق ہے۔ اگرچہ بعض غیر معمولی طاقتیں جنوں کو بھی بخشی گئی ہیں جن کی ایک مثال ہمیں سورۂ نمل آیت 7 میں ملتی ہے، لیکن اسی طرح بعض طاقتیں حیوانات کو بھی انسان سے زیادہ ملی ہیں اور وہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہیں کہ جانوروں کو انسان پر فضیلت حاصل ہے۔

قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جن انسان کی طرح ایک با اختیار مخلوق ہے اور اس کو طاعت و معصیت اور کفر و ایمان کا ویسا ہی اختیار دیا گیا ہے جیسا انسان کو دیا گیا ہے۔ اس پر ابلیس کا قصہ اور سورۂ احقاف اور سورۂ جن میں بعض جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ صریح دلالت کرتا ہے۔

قرآن میں بیسیوں مقامات پر یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ ابلیس نے تخلیق آدم کے وقت ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ نوع انسانی کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اسی وقت سے شیاطینِ جن انسان کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں، مگر وہ اس پر مسلط ہو کر زبردستی اس سے کوئی کام کرا لینے کی طاقت نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں، اس کو بہکاتے ہیں اور بدی و گمراہی کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات: النساء 117 تا 120، الاعراف 11 تا 17، براہیم 22، الحجر 30 تا 42، النحل 98 تا 100، بنی اسرائیل 61 تا 65۔

قرآں مجید میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مشرکین عرب زمانۂ جاہلیت میں جنوں کو خدا کا شریک ٹھیراتے تھے، ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کا نسب خدا سے ملاتے تھے۔ ملاحظہ ہو الانعام، آیت 100، سبا آیات 40 – 41، الصافات 158۔

ان تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جن اپنا ایک مستقل خارجی وجود رکھتے ہیں اور وہ انسان سے الگ ایک دوسری ہی نوع کی پوشیدہ مخلوق ہے۔ ان کی پراسرار صفات کی وجہ سے جاہل لوگوں نے ان کی ہستی اور ان کی طاقتوں کے متعلق بڑے مبالغہ آمیز تصورات قائم کر رکھے ہیں، حتٰی کہ ان کی پرستش تک کر ڈالی گئی، مگر قرآن نے ان کی اصل حقیقت پوری طرح کھول کر بیان کر دی ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔

موضوع اور مباحث

اس سورت میں پہلی آیت سے لے کر آیت 15 تک یہ بتایا گیا ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن مجید سن کر اس کا کیا اثر لیا اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کے دوسرے جنوں سے کیا کیا باتیں کہیں۔ اس سلسلے میں اللہ تعالٰی نے ان کی ساری گفتگو نقل نہیں کی ہے، بلکہ صرف وہ خاص خاص باتیں نقل فرمائی ہیں جو قابل ذکر ہیں۔ اسی لیے طرز بیان ایک مسلسل گفتگو کا سا نہیں ہے، بلکہ ان کے مختلف فقروں کو اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے یہ کہا اور یہ کہا۔ جنوں کی زبان سے نکلے ہوئے ان فقروں کو اگر آدمی بغور پڑھے تو با آسانی یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ان کے ایمان لانے کے اس واقعے اور اپنی قوم کے ساتھ ان کی اس گفتگو کا ذکر قرآن میں کس غرض کے لیے کیا گیا ہے۔

اس کے بعد آیت 16 سے 18 تک لوگوں کو فہمائش کی گئی ہے کہ وہ شرک سے باز آ جائیں اور راہ راست پر ثابت قدمی کے ساتھ چلیں تو ان پر نعمتوں کی بارش ہوگی ورنہ اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت سے منہ موڑنے کا انجام یہ ہوگا کہ وہ سخت عذاب سے دوچار ہوں گے۔ پھر آیت 19 سے 23 تک کفار مکہ کو اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ جب اللہ کا رسول دعوت الی اللہ کی آواز بلند کرتا ہے تو وہ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، حالانکہ رسول کا کام صرف اللہ کے پیغامات پہنچا دینا ہے، وہ اس بات کا مدعی نہیں ہے کہ لوگوں کو نفع یا نقصان پہنچا دینا اس کے اختیار میں ہے۔ پھر آیات 24 – 25 میں کفار کو متنبہ کیا گیا ہے کہ آج وہ رسول کو بے یار و مددگار دیکھ کر اسے دبا لینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایک وقت آئے گا جب انھیں معلوم ہو جائے گا کہ اصل میں بے یار و مددگار کون ہے۔ وہ وقت دور ہے یا قریب، رسول کو اس کا علم نہیں ہے، مگر بہرحال اسے آنا ضرور ہے۔ آخر میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالٰی ہے۔ رسول کو صرف وہ علم حاصل ہے جو اللہ اسے دینا چاہتا ہے۔ یہ علم ان امور سے متعلق ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی انجام دہی کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور یہ علم ایسے محفوظ طریقے سے دیا جاتا ہے جس میں کسی بیرونی مداخلت کا امکان نہیں ہوتا۔