صحیح بخاری

حدیث کی سب سے افضل کتاب

صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، [1] اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔[2] اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، [3] اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔[ح 1][6][7] اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔[8]

صحیح بخاری
مصنفمحمد بن اسماعیل بخاری
زبانعربی
سلسلہصحاح ستہ
موضوعحدیث
صنفتدوین حدیث
تاریخ اشاعت
انیسویں صدی عیسوی

اس کتاب نے امام بخاری کی زندگی ہی میں بڑی شہرت و مقبولیت حاصل کر لی تھی، بیان کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کو تقریباً ستر ہزار سے زائد لوگوں نے ان سے پڑھا اور سماعت کی، [9] اس کی شہرت اس زمانہ میں عام ہو گئی تھی، ہر چہار جانب خصوصاً اس زمانے کے علما میں اس کتاب کو توجہ اور مقبولیت حاصل ہو گئی تھی، چنانچہ بے شمار کتابیں اس کی شرح، مختصر، تعلیق، مستدرک، تخریج اور علومِ حدیث وغیرہ پر بھی لکھی گئیں، یہاں تک کہ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس کی شروحات کی تعداد بیاسی (82) سے زیادہ ہو گئی تھی۔[10]

مؤلف

امام محمد بن اسماعیل بخاری مصنّف الجامع الصحیح

پورا نام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بَرْدِزبَہ[ح 2] جعفی بخاری۔ اہل سنت والجماعت کے مشہور محدث، رجال حدیث، جرح و تعدیل اور علل کے امام[13] اور بڑے حافظ حدیث[ح 3] اور فقیہ[16] ہیں۔ بخارا میں جمعہ کی رات 13 شوال سنہ 194 ہجری مطابق 20 جولائی سنہ 810 عیسوی میں پیدا ہوئے، [17][18] علمی گھرانہ میں پرورش پائی جہاں ان کے والد خود حدیث کے بڑے عالم تھے، [19] والد امام بخاری کے بچپن ہی میں وفات پا گئے اور امام بخاری نے یتیمی کی حالت میں ماں کی کفالت و تربیت میں پروان چڑھے، [20][21] بچپن ہی سے طلب علم میں مشغول ہوئے، چنانچہ بچپن ہی میں قرآن مجید اور اس زمانہ کی امہات الکتب کو حفظ کر لیا، یہاں تک کہ جب عمر دس سال ہوئی تو حدیث حفظ کرنا شروع کیا، شیوخ اور علما کے پاس آنے جانے لگے، دورس حدیث کے حلقوں میں شریک ہونے لگے، [22] اور سولہ برس کی عمر میں عبد اللہ بن مبارک اور وکیع بن جراح کی کتابوں کو حفظ کر لیا۔[23] طلب حدیث اور شیوخ سے ملاقات کی غرض سے اسلامی دنیا کے اکثر ملکوں اور شہروں کا سفر کیا، وہاں کے تقریباً ایک ہزار علما و شیوخ سے استفادہ کیا[24] اور تقریباً چھ لاکھ احادیث کو جمع کیا۔[2]

امام بخاری نے خوب شہرت و مقبولیت حاصل کی، ان کے ہم عصروں حتی کہ ان کے شیوخ تک نے ان کا اعتراف کیا، ان کے بعد کے علما نے حدیث و علوم حدیث میں ان امامت کا لوہا مانا، [25] یہاں تک کہ انھیں امیر المومنین فی الحدیث کے لقب سے یاد کیا گیا۔[ح 4][28][29] امام بخاری سے بہت سے کبار علما و محدثین نے علم حاصل کیا، مثلا: مسلم، ابن خزیمہ، ترمذی اور دوسرے ائمہ محدثین۔ اس کے علاوہ طلاب علم، روات اور محدثین کی ایک بڑی تعداد نے ان سے سماعت اور استفادہ کیا۔ امام بخاری کی صحیح بخاری کے علاوہ دیگر کئی تصنیفات ہیں، جس میں سب سے مشہور التاریخ الکبیر، الادب المفرد، رفع الیدین فی الصلاۃ اور قرات خلف الامام وغیرہ ہے۔ اخیر عمر میں امام بخاری پر آزمائش کا آغاز ہوا، ان پر بہت ظلم ڈھایا گیا، یہاں تک کہ انھیں نیشاپور اور بخارا سے شہر بدر کر دیا گیا، چنانچہ وہاں سے سمرقند کے ایک دیہات میں چلے گئے، وہیں آخری سانس تک بیماری کی حالت میں مقیم رہے اور عید الفطر کی رات سنیچر کے دن 256 ہجری مطابق 1 ستمبر 870 عیسوی میں وفات ہو گئی۔[30]

عُنوان و موضوعات

کتاب کو کئی بڑے اور بہت سے چھوٹے حِصّوں میں موضوع وار ترتیب دیا گیا۔ بڑے حصوں کو کتاب اور چھوٹے حصوں کو باب کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ بڑے موضوعات مندرجۂ ذیل ہیں۔

  1. کتاب الایمان
  2. کتاب العلم
  3. کتاب الوضو
  4. کتاب الغسل
  5. کتاب الحیض
  6. کتاب التّیمم
  7. کتاب الصّلٰوۃ
  8. کتاب مواقیت الصّلٰوۃ
  9. کتاب الاذان
  10. کتاب صفۃ الصّلٰوۃ
  11. کتاب الجُمعۃ
  12. کتاب صلوۃ الخوف
  13. کتاب العیدین
  14. کتاب الوتر
  15. کتاب الاستسقاء
  16. کتاب الکسوف
  17. کتاب سجود القران
  18. کتاب ِ تقصیر الصلوٰۃ
  19. کتاب تہجد
  20. کتاب الجنائز
  21. کتاب الزکاۃ
  22. کتاب الحج
  23. کتاب العمرۃ
  24. کتاب فضائل المدینہ
  25. کتاب الصّیام
  26. کتاب صلٰوۃ التراویح
  27. کتاب لیلۃ القدر
  28. کتاب الاعتکاف
  29. کتاب البیوع
  30. کتاب السّلم
  31. کتاب الشُفعہ
  32. کتاب الُاجارہ
  33. کتاب الحوالۃ
  34. کتاب الکفالہ
  35. کتاب الوکالہ
  36. کتاب الحرث والمزارعہ
  37. کتاب المساقات
  38. کتاب الاستقراض
  39. کتاب الخصومات
  40. کتاب اللقطہ
  41. کتاب المظالم
  42. کتاب الشرکہ
  43. كتاب الرهن
  44. كتاب العتق
  45. كتاب الهبہ وفضلها
  46. كتاب الشهادات
  47. كتاب الصلح
  48. كتاب الشروط
  49. كتاب الوصایا
  50. كتاب الجهاد والسیر
  51. مزید 50 ابواب ہیں۔۔۔

احادیث کی تعداد

🎄امام بخآری رحمۃ اللہ کے پاس کل چھ لاکھ احادیث مبارکہ کا مجموعہ تھا ۔

جن میں سے انھوں نے احادیث کا چناؤ (Selection)کرکے صحیح بخآری مرتب کی جن میں احادیث مبارکہ کی تفاصیل اس طرح سے ہیں۔

🌹 کل احادیث مبارکہ کی تعداد سات ہزار تین سو ستانوے(7397) ہے، جن میں ایک ہی حدیث کبھی

🎇ایک، دو یا تین بار

🎇اور کبھی 10تا 12بار

🎇اور کبھی ایک ہی حدیث کو اکیس /بائیس بار بھی دہرایا گیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخآری رحمۃ اللہ نے مختلف موضوعات اور ابواب قائم کرتے ہوئے ایک ہی حدیث کو

💫 دلائل کے طور پہ

💫 معلقات کے طور پر

💫مطابقات کے طور پر

💫توابع کے طور پر

💫یا شواہدات کے طور پر

استعمال کی ہیں۔🌹اور پھر اگر چھوٹے چھوٹے احادیث مبارکہ کے ٹکڑے بطور جز کے بھی شامل کر لیں تو پھر یہ تعداد نو ہزار بیاسی (9082) بنتی ہے۔

🌹اور پھر اگر🌀بطور اجزاء احادیث مبارکہ یعنی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں جو احادیث ہیں، وہ بھی صرف ایک ہی مرتبہ شامل کریں۔🌀اور جو آثار صحابہ کرام عیلھم ہیں (یعنی وہ اصحابہ علیہم کی باتیں ہیں)بھی بنا تکرار کے شامل کیا جائے۔🌀یا پھرآثار تابعین اکرام کے( فرامین) مذکور ہوئے ہیں، ان کو بھی بغیر تکرار کے صرف ایک ہی مرتبہ شامل کرکے شمار کیا جائے تو پھر کل تعداد چار ہزار (4000)بنتی ہے۔جس میں کسی طرح کا کوئی تکرار یعنی Repetition نہیں ہے

🌹اور اگر🌀تمام تکرار( Repetition)احادیث کو بھی ہٹا دیں۔🌀اور آثار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور آثار تابعین کو بھی ہٹا کر شمار کیا جائے تو یہ تعداد دو ہزار سات سو اکسٹھ (2761) بنتی ہے۔

شروح

بہت سے علماء نے اب تک اس مجموعۂ حدیث کی تشریحات کی ہیں اور تبصرے لکھے ہیں، جیسا کہ:

  • فتح الباری شرح صحیح البخاری مصنف حافظ ابن حجر عسقلانی (وفات:852ھ)
  • الکواکب الدراری فی شرح البخاری مصنف الکرمانی: (وفات:796ھ)
  • عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی جو دار الحائل نے بیروت سے شائع کی[31]
  • ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری تصنیف القسطلانی (وفات:923ھ)۔ یہ شرح صحیح بخاری کی مشہور ترین شروح میں سے ایک ہے[32]
  • التنقیح تصنیف الزرقاشی
  • التوشیح تصنیف جلال الدین سیوطی (وفات:811ھ)
  • شرح ابن کثیر تصنیف ابن کثیر (وفات:744ھ)
  • شرح آلا الدین
  • شرح ابن الملقین
  • شرح البرماوی
  • شرح التلمسانی المالکی
  • شرح البلقینی
  • فتح الباری تصنیف ابن رجب الحنبلی
  • شرح ابن ابی حمزہ الاندلسی
  • شرح ابی البقاء الاحمدی
  • شرح الباکری
  • شرح ابن الرشید
  • حاشية البخاری تصنیف مفتی محمد اختر رضا خان قادری الازہری
  • شرح ابن البطال تصنیف ابو الحسن علی بن خلاف بن عبد المالک
  • المطیری الابواب البخاری تصنیف ناصر الدین بن المنیر
  • نعمت الباری فی شرح صحیح بخاری تصنیف غلام رسول سعیدي

نسخہ

اس وقت پوری دنیا میں صحیح بخاری کا نسخۂ علامہ فربری (متوفی 320ھ) دستیاب ہے۔

علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں کہ فربری کے علاوہ بھی بخاری کے دوسرے رواۃ موجود ہیں۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ صحیح بخاری ہم تک پانچ طریق سے پہنچی ہے، وہ طرق خمسہ مندرجہ ذیل ہیں :

  1. ۔ علامہ فربری (متوفی 320ھ)
  2. ۔ علامہ ابو اسحاق ابراہیم بن معقل بن حجاج نسفی حنفی (متوفی 294ھ)
  3. ۔ ابو محمد حماد بن شاکر نسوی حنفی (متوفی 290ھ و بقولے متوفی 311ھ)
  4. ۔ علامہ ابو طلحہ منصور بن محمد برزوی (متوفی 329ھ)
  5. ۔قاضی حسین بن اسماعیل محاملی (متوفی 330ھ)

متاخرین کی آراء

  • ابن الصلاح (متوفی 643ھ) کہتے ہیں کہ: ’’ اللہ کی کتاب (قرآن) کے بعد صحیح بخاری اور صحیح مسلم سب سے صحیح ترین کتابیں ہیں۔
  • امام نسائی (متوفی 303ھ) نے لکھا ہے کہ: ’’ أجود ھذہ الکتب کتاب البخاری‘‘۔
  • شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی 1176ھ) نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ: ’’ جو شخص اِس کتاب کی عظمت کا قائل نہ ہو، وہ مبتدع ہے اور مسلمانوں کی راہ سے ہٹا ہوا ہے‘‘۔ بعد ازاں قسم اُٹھا کر کہتے ہیں کہ: ’’ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس کتاب کو جو شہرت عطاء فرمائی، اُس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا‘‘۔[33]

حواشی

مزید دیکھیے

حوالہ جات

بیرونی روابط