عامر بن شراحیل شعبی

(عامر بن شراحيل شعبی سے رجوع مکرر)

امام شعبی ،صحاح ستہ کے ثقہ راوی اور عظیم محدثین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عامر بن شراحیل الشعبی کو ہی امام شعبی کہا جاتا ہے۔آپ نے 109ھ میں وفات پائی۔

عامر بن شراحیل شعبی
 

معلومات شخصیت
پیدائشسنہ 641ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفاتسنہ 723ء (81–82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
قاضی   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
717  – 720 
درکوفہ  
ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری  
عبد الملک بن عمیر  
عملی زندگی
استادعبد اللہ بن مسعود ،  انس بن مالک ،  ابو عبدالرحمٰن السلمی کوفی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگردقتادہ بن دعامہ ،  ابو اسحاق شیبانی ،  توبہ عنبری ،  ابو حنیفہ   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہفقیہ ،  مورخ ،  قاضی ،  سفیر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عملشریعت   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

عامر نام، ابو عمر کنیت ، شعبی قبیلہ کی نسبت ہے لیکن شہرت کی وجہ سے اس نسبت نے لقب کی حیثیت اختیار کر لی ہے، یمن کے نامور حمیری خاندان میں حبان بن عمرو ایک مشہور اور تاریخی شخص گذرا ہے، یہ شخص یمن کی ایک پہاڑی ذوالشعبین میں پیدا ہوا تھا اور مرنے کے بعد یہیں دفن ہوا، اس لیے وہ خود ذوالشعبین مشہور ہو گیا، اس کے بعد اس کی نسل میں بھی یہ نسبت قائم رہی، اس کی نسل کی ایک شاخ فتوحات اسلامی سے قبل سے ہمدان میں آباد تھی، پھر اسلامی عہد میں کوفہ میں بس گئی، یہ شاخ شعبی کہلاتی تھی،عامر بن شراحیل اسی شاخ سے تھے، حسان بن عمرو کے اوپر اس خاندان کا نسب نامہ یہ ہے، بنی حسان بن عمرو بن قیس بن معاویہ بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن غوث بن قطن بن عرب بن زبیر بن ایمن بن ہمیسع بن حمیر۔

پیدائش

ان کی ولادت عمر فاروق کے دور خلافت21ھ میں کوفہ میں ہوئی۔ اس لحاظ سے آپ تابعی تھے خود فرماتے کہ ’’میں نے پانچ سو صحابہ کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی‘‘۔عامر الشعبی کے سنہ ولادت کے بارہ میں مختلف روایات ہیں،خود ان کا بیان ہے کہ وہ جنگ جلولاء کے سال پیدا ہوئے، [1] ایک بیان یہ بھی ہے کہ ان کی ماں جلولاء کے قیدیوں میں تھیں جو ان کے والد شراحیل کے حصہ میں آئی تھیں، اس حساب سے ان کی پیدائش سنہ 14ھ میں ہوئی۔

تعلیم

عامر کے ہوش سنبھالنے کے وقت صحابہ کرام کی بہت بڑی جماعت موجود تھی اور ان کی بو د وباش بھی ایسے مرکزی مقام پر تھی، جہاں بہت سے صحابہ اقامت پزیر تھے اور ان کی آمد ورفت رہتی تھی،اس لیے انھیں پانچ سو صحابہ کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا، ان میں اڑتالیس سے فیض اٹھایا تھا [2] حبرالامۃ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آٹھ دس مہینہ مستقل قیام کرکے ان کے کمالات سے فیض یاب ہوئے تھے [3] ان بزرگوں کے فیض نے ان کو امام عصر بنا دیا۔

مشائخ و اساتذہ

امام شعبی احادیث نبوی کے جلیل القدر حافظ تھے۔ صحابہ کرام کی شاگردی سے بھی مالا مال فرما دیا۔ جن حضرات سے آپ نے روایت حدیث کی، ان میں سے چند ایک کے اسماء گرامی یہ ہیں:

وسعت علم

  • مَا سَمِعْتُ مُنْذُ عِشْرِيْنَ سَنَةً رَجُلاً يُحَدِّثُ بِحَدِيْثٍ إِلاَّ أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْهُ ،[5] یعنی میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی کہ اس سے بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں۔
  • امام ابن ابی لیلیٰ ، امام شعبی اور ابراہیم نخعی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
  • كَانَ إِبْرَاهِيْمُ صَاحِبَ قِيَاسٍ، وَالشَّعْبِيُّ صَاحِبَ آثَارٍ ،[5] کہ امام شعبی محدث ہیں اور ابراہیم نخعی مجتہد ہیں۔
  • علم حدیث کے علاوہ دوسرے علوم پر بھی امام شعبی کو دسترس حاصل تھی۔ قرآن مجید کے اتنے زبردست قاری تھے کہ ”زعیم القراء“ کہلاتے تھے۔
  • امام شعبی کا قوت حافظہ باکمال تھا۔ چنانچہ آپ کا اپنا بیان ہے۔
  • مَا كَتَبْتُ سَوْدَاءَ فِي بَيْضَاءَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، وَلاَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ بِحَدِيْثٍ قَطُّ إِلاَّ حَفِظْتُهُ [6]: کہ میں نے آج تک کاغذ پر کچھ نہیں لکھا، جب کوئی شخص مجھے کوئی حدیث سناتا تو مجھے حفظ ہو جاتی تھی، مجھے کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ وہ اسے میرے سامنے دوبارہ پڑھے۔

فضل وکمال

علمی لحاظ سے وہ اپنے عہد کے امام تھے، حافظ ذہبی ان کو امام ، حافظ ذہبی ان کو امام، حافظ ،فقیہ اور متقی [7] اور ابن عماد حنبلی امام البحر العلامہ لکھتے ہیں [8] انھیں جملہ علوم میں یکساں کمال حاصل تھا، ابو اسحق الجبال کا بیان ہے کہ شعبی جملہ علوم میں یگانہ عصر تھے، قرآن ،حدیث، فقہ، مغازی، ریاضی اور ادب و شاعری سب میں انھیں یکساں دستگاہ حاصل تھی۔

قرآن

قرآن کے اتنے ممتاز قاری تھے کہ زعیم القراء کہلاتے تھے [9]تفسیر میں بھی انھیں پورا ادرک تھا، لیکن احتیاط کی وجہ سے انھوں نے مفسر کی حیثیت سے کوئی شہرت نہیں حاصل کی وہ تفسیر قرآن میں بڑے محتاط تھے، ہر شخص کو اس کا مجاز نہیں سمجھتے تھے، زکریا بن ابی زائدہ کا بیان ہے کہ شعبی ابو صالح کے پاس سے گزرتے تو ان کے کان پکڑ کر کہتے کہ تم قرآن نہیں پڑھتے اور اس کی تفسیر بیان کرتے ہو۔ [10]

حدیث

حدیث کے جلیل القدر حافظ ؛بلکہ امام العصر تھے،انھوں نے صحابۂ کرام اور تابعین کی بڑی جماعت سے سماع حدیث کیا تھا، صحابہ میں حضرت علیؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، سعید ابن زیدؓ، زید بن ثابتؓ، قیس بن عبادہؓ، قرظہ بن کعبؓ ،عبادہ بن صامتؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ، ابو مسعود انصاریؓ، ابو ہریرہؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، نعمان بن بشیرؓ، ابو ثعلبہ خشنیؓ ،جریر بن عبداللہ بجلیؓ، بریدہ ابن حصیبؓ، براء بن عازبؓ، امیر معاویہؓ، جابر بن عبداللہؓ، جابر بن سمرہؓ، حارث بن مالکؓ ، حبشی ابن جنادہ، حسین بن علیؓ، زید بن ارقمؓ، ضحاک بن قیسؓ، سمرہ بن جندبؓ، عامر بن شہدؓ، عبداللہ بن عمرؓ، ابن عباسؓ، ابن زبیرؓ، ابن عمرو بن العاصؓ، عبد اللہ بن مطیعؓ، عبدالرحمن بن سمرہؓ، عدی بن حاتمؓ، عروہ بن جعدالعبارقیؓ، عروہ بن مضرسؓ ، عمرو بن امیہؓ، عمرو بن حریث ،عمران بن حصینؓ، عوف بن مالکؓ، عیاض اشعرؓ، کعب بن عجرہؓ، محمد بن سیفیؓ، مقدام بن معدیکربؓ، وابصہ بن معبدؓ، ابی جیرہ بن ضحاکؓ، ابو سریحہ ؓ غفاری، ابو سعید خدریؓ اور صحابیات میں ام سلمہؓ، میمونہ بنت حارثؓ، اسماء بنت انیسؓ،فاطمہ بنت قیسؓ اور ام ہانیؓ وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا،ان میں سے بعض مرسل روایات ہیں، صحابہ کے علاوہ تابعین کی بہت بڑی تعداد سے استفادہ کیا تھا۔[11]

تلاش حدیث میں مشقت

حدیث کا انھیں خاص ذوق تھا اور اس کو انھوں نے بڑی مشقت سے حاصل کیا تھا، ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اتنا علم کہا ں سے حاصل کیا، انھوں نے جواب دیا، غم وا ندوہ کو بھُلا کر ملکوں کی سیاحت کرکے گدھوں کی طاقت، برداشت اور کوؤں کی سحری خیزی کے ذریعہ۔ [12]

قوت حافظہ

حافظہ اتنا قوی تھا کہ کبھی کاغذ قلم اور دوات کے شرمندۂ احسان نہیں ہوئے ،ایک مرتبہ جو حدیث سن لی وہ ہمشہ کے لیے سینہ میں محفوظ ہو گئی، ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی بیاض کو کتابت سے سیاہ نہیں کیا، یعنی کبھی لکھا نہیں، جب کسی نے کوئی حدیث سنائی تو وہ میرے سینہ میں محفوظ ہو گئی اور اس کے دوبارہ سننے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ [13]

اخذ حدیث میں احتیاط

لیکن دوسروں سے حدیثوں کے لینے میں وہ بڑے محتاط تھے انھی لوگوں سے احادیث لیتے تھے جو علم کے ساتھ عقل و تقوی کے زیور سے آراستہ ہوتے، اس میں ان کا اصول یہ تھا کہ علم اسی شخص سے حاصل کرنا چاہیے ،جس میں زہد و عبادت اور عقل و دانش دونوں جمع ہوں، تنہا عقل یا تنہا تقویٰ رکھنے والا علم کی حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ [14]

حدیث میں وسعت علم

حدیث میں ان کے علم کا دائرہ نہایت وسیع تھا، ان کا بیان ہے کہ میں نے بیس سال کے عرصہ میں کسی سے کوئی ایسی نئی حدیث نہیں سنی جس سے میں بیان کرنے والے سے زیادہ واقف نہ رہا ہوں [15] اہل حجاز، بصرہ اور کوفہ تینوں علمی مرکزوں کے محدثین کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی حافظ نہ تھا [16] سنن کے بھی بڑے عالم تھے، مکحول کابیان ہے کہ میں نے شعبی سے زیادہ سنتِ ماضیہ کا عالم نہیں دیکھا [17] ابن ابی لیلیٰ کہتے تھے کہ شعبی صاحب آثار تھے اور ابراہیم صاحب قیاس۔[18]

احتیاط فی الحدیث

لیکن اس وسعتِ علم کے باوجود وہ خود روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے، زیادہ روایت کرنا پسند نہ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ گذشتہ صلحاء زیادہ حدیثیں بیان کرنا برا سمجھتے تھے،اگر مجھے یہ پہلے سے معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا، تو میں صرف محدثین کی متفقہ حدیثیں بیان کرتا۔ [19]

روایت بالمعنی

لیکن روایت بالمعنی کو خلاف احتیاط نہیں سمجھتے تھے، یعنی روایت میں الفاظ کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے تھے، ابن عون کا بیان ہے کہ شعبی حدیثیں بالمعنی روایت کرتے تھے۔[20]

فقہ

اگرچہ ان کو جملہ علوم وفنون میں یکساں درک حاصل تھا، لیکن ان کا خاص اور امتیازی فن فقہ تھا، اس میں ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے فقیہ سمجھے جاتے تھے،ابو الحسن کہتے تھے کہ میں نے کسی کو شعبی سے بڑا فقیہ نہیں پایا،بعض علما تو انھیں اس عہد کے کل ائمہ پر ترجیح دیتے تھے،ابومجلز کہتے تھے کہ میں سعید بن مسیب، طاؤس ، عطاء حسن بصری اور ابن سیرین کسی کو بھی شعبی سے بلند مرتبہ فقیہ نہیں پایا۔[21]ابراہیم نخعی جو خود بہت بڑے فقیہ تھے،ان کے تفقہ کے اتنے قائل تھے کہ جومسئلہ ان کو نہ معلوم ہوتا اس کے سائل کو شعبی کے پاس بھیج دیتے تھے، ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، انھوں نے لا علمی ظاہر کی،اسی درمیان میں شعبی گزرتے ہوئے دکھائی دیے، ابراہیم نخعی نے مستفتی سے کہا ان شیخ کے پاس جاکر پوچھو اور وہ جو جواب دین اسے مجھے بتاؤ ؛چنانچہ سائل نے جاکر ان سے دریافت کیا،انھوں بھی لا علمی ظاہر کی، نخعی کو یہ جواب معلوم ہوا تو انھوں نے کہا واللہ یہ فقہ ہے۔[22]

ان کا فقہی کمال اتنا مسلم تھا کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں جو علوم نبوی کے حقیقی وارث تھے وہ مسندِ افتا پر بیٹھ گئے تھے،ابوبکر ندلی کا بیان ہے کہ ابن سیرین نے مجھے ہدایت کی تھی کہ شعبی کے دامن سے وابستہ رہو؛کیونکہ وہ صحابہ کی بڑی تعداد کی موجودگی میں فتویٰ دیتے تھے۔[23]

وفات

امام شعبی کی وفات کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔
1: 109ھ، 2: 106ھ، 3: 103ھ[24]

حوالہ جات