یزید بن ابی حبیب

یزید بن ابی حبیبؒ تابعین میں سے ہیں۔آپ نے 118ھ میں وفات پائی ۔

یزید بن ابی حبیب
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائشسنہ 673ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفاتسنہ 745ء (71–72 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائشمصر   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیتابو رجاء
لقبمولى شريک بن طفيل
عملی زندگی
طبقہالطبقة الخامسة
ابن حجر کی رائےثقة فقيه وكان يرسل
ذہبی کی رائےثقة من العلماء الحكماء الأتقياء، عالم أهل مصر
استادجعفر بن عبد اللہ بن حکم انصاری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہمحدث ،  فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

یزید نام، ابورجاء کنیت، قریش کی شاخ بنی عامر بن لوئی کے غلام تھے۔ ان کے والد ابوحبیب (اسود) نوبی تھے، ان کا وطن ونقلہ تھا۔

پیدائش

یزید 53ھ میں پیدا ہوئے اور مصر میں ان کی نشو و نما ہوئی۔[1]

فضل وکمال

فضل وکمال کے لحاظ سے مصر کے ائمہ تابعین میں تھے،حافظ ذہبی انھیں امام الکبیر لکھتے ہیں ، مصر میں ان ہی کی ذات سے دینی علوم کا صحیح ذوق پیدا ہوا، ابن یونس کا بیان ہے کہ وہ پہلے شخص ہیں جن کی ذات سے مصر میں علم ظاہر ہوا اور حلال و حرام کے مسائل کا آغاز ہوا، ان سے پہلے اہل مصر کا علم محض ترغیب اور ملاحم و فتن تک محدود تھا۔[2]

حدیث

وہ مصر کے ممتاز حفاظِ حدیث میں تھے، علامہ ابن سعد ثقہ اور کثیر الحدیث اور حافظ ذہبی حجۃ اور حافظِ حدیث لکھتے ہیں۔[3]حدیث میں انھوں نے عبداللہ بن حارث زبیدی، ابو الطفیل ،اسلم بن یزید، ابی عمران، ابراہیم بن یزید نخعی عبداللہ بن حنین، خیر بن نعیم حضرمی، سوید بن قیس، عبد الرحمن بن شماسہ مہری، عبد العزیز ابن ابی الصعبہ، عطاء بن ابی رباح ، عراک بن مالک اور امام زہری وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ان سے فیض یاب ہونے والوں میں سلیمان التیمی، محمد بن اسحٰق ، زید بن انیسہ، عمرو بن الحارث، عبد الحمید بن جعفر، ابن لہیعہ اور لیث بن سعد لائق ذکر ہیں۔[4]

فقہ

فقہ میں انھیں بڑی دستگاہ حاصل تھی، حافظ ذہبی ان کو فقیہ لکھتے ہیں [5] عمر بن عبدالعزیز نے مصر میں تین آدمیوں کو افتا کے منصب پر ممتاز کیا تھا، ان میں سے ایک یزید بھی تھے۔ [6] انہی کی وجہ سے مصر میں فقہ کا مذاق پیدا ہوا۔

علمائے معاصرین کی رائے

ان کے کمالات کے متعلق ان کے عہد کے علما کی یہ رائے تھی، لیث بن سعد کہتے تھے کہ یزید ہمارے عالم اور ہمارے سردار ہیں [7]ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لیث اُن کے اور عبید اللہ بن جعفر کے متعلق کہتے تھے کہ یہ دونوں ملک کے جوہر ہیں ، عمرو بن حارث سے کسی نے سوال کیا کہ یزید افضل ہیں یا عبد اللہ بن جعفر، انھوں نے جواب دیا اگر وہ دونوں ترازو میں تولے جائیں تو کسی کا پلہ بھاری نہ ہوگا۔[8]

احتیاط

محتاط تابعین کی طرح وہ بھی اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ جب ان کے پاس سائلین کی کثرت ہو گئی تو انھوں نے خانہ نشینی اختیار کر لی۔[9]

علم کی عظمت

علم کا بڑا وقار قائم رکھتے تھے اور اس سلسلہ میں کسی امیر کے آستانہ پر جانا گوارا نہیں تھا، جس کو ضرورت ہوتی اس کو خود یہاں بلاتے تھے، ایک مرتبہ ریان بن عبد العزیز نے آپ کے پاس کہلا بھیجا کہ آپ میرے پاس آئیے ،میں آپ سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں، آپ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ تم خود میرے پاس آؤ میرے پاس آنا تمھارے لیے زینت اور میرا تمھارے پاس جانا تمھارے لیے عیب دار ہے۔[10]

صاف گوئی

امرا کو مطلق خاطر میں نہ لاتے، ان کے منہ پر ان کی برائیاں بیان کرتے، ایک مرتبہ آپ بیمار پڑے، حوثرہ بن سہیل امیر مصر آپ کی عیادت کے لیے آیا اور پوچھا جس کپڑے میں مچھر کا خون لگا ہو،اس میں نماز پڑھنے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، یہ سوال سُن کر آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اس سے گفتگو بند کردی، یہ دیکھ کر حوثرہ اٹھ گیا، آپ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ روزانہ خلق اللہ کا خون کرتے ہو اور مجھ سے مچھر کے خون کے متعلق پوچھتے ہو۔[11]

وفات

مروان کے عہد حکومت 118ھ میں وفات پائی۔[12]

بعض خاص اوصاف

عقل و دانش اور حلم اور تحمل کے زیور سے آراستہ تھے۔ کان حلیماً عاقلاً

حوالہ جات