ابو دجانہ

انصاری صحابہ

ابو دجانہ اصل نام سماک بن خرشہ ہے۔ انصاری ہیں۔

ابو دجانہ
(عربی میں: أبو دجانة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائشی نامابو دجانہ ( سماک بن خرشہ)
پیدائشمدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفاتسنہ 634ء [2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیتابو دجانہ
زوجہآمنة بنت عمرو
والدخرشہ
والدہحزمة بنت حرملہ السُلميہ
رشتے دار
عملی زندگی
طبقہالصحابہ
نسباوس خزرج
پیشہفوجی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیںغزوة بدر
غزوة أحد
غزوة خيبر
غزوة حنينحروب الردة دیگر غزوات

نام و نسب

اسماک نام، ابودجانہ کنیت، قبیلۂ ساعدہؓ سے ہیں اور سعد بن عبادہ سردار خزرج کے ابن عم ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے،اسماک بن لوذان بن عبدد بن زید بن ثعلبہ ابن طریف بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج اکبر۔[3]

اسلام

حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت سے قبل مسلمان ہوئے۔

غزوات اور دیگر حالات

آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو عتبہ بن غزوان سے ان کی برادری قائم کی تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔غزوہ احد میں آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تلوار ہاتھ میں لے کر کہا اس کا حق کون ادا کرتا ہے،ابودجانہ بولے میں ادا کروں گا۔ آنحضرت صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تلوار عنایت فرمائی، بعض روایتوں میں ہے کہ انھوں نے دریافت کیا اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ مسلمان کو نہ مارنا اور کافر سے نہ بھاگنا۔[4]حضرت ابودجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسب معمول سرپر سرخ پٹی باندھی اور تنتے اکڑتے صفوں کے درمیان آکر کھڑے ہوئے،آنحضرت نے فرمایا یہ چال اگرچہ خدا کو ناپسند ہے؛ لیکن ایسے موقع پر کچھ حرج نہیں۔[5]معرکہ کارزار میں نہایت پامردی سے مقابلہ کیا اور بہت سے کافر قتل کیے اور رسول اللہ کی حفاظت میں بہت سے زخم کھائے لیکن میدان سے نہ ہٹے تھے۔

آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی اس جانبازی سے نہایت خوش ہوئے مکان تشریف لائے تو حضرت فاطمہؓ سے فرمایا میری تلوار دھوڈالو، حضرت علیؓ نے بھی آکر یہی خواہش کی اورکہا کہ آج میں خوب لڑا۔آنحضرت نے فرمایا!اگر تم خوب لڑے تو سہل بن حنیف اور ابو دجانہؓ بھی خوب لڑے ۔[6]غزوۂ بنو نضیر کا کل مال اور اسباب رسول اللہ کا حصہ تھا،تاہم آپ نے چند مہاجرین اور انصار کو اس میں سے حصہ عنات فرمایا تھا، بودجانہ کو بھی زمین دی تھی جو انہی کے نام سے مال ابن خرشہ مشہور تھی۔[7]غرض تمام معرکوں میں ان ی شرکت یاں تھی، مصنف استیعاب لکھتے ہیں:لہ مقامات محمودۃ فی مغازی رسول اللہ (غزوات نبوی میں ان کو ممتاز درجہ حاصل ہے)[8]

حضرت ابوبکرؓ صدیق کے عہد میں جنگ یمامہ میں نہایت جانبازی دکھائی، مسیلمہ کذاب سے جو مدعی نبوت تھا مقابلہ تھا، وہ اپنے باغ کے اندر سے لڑرہا تھا مسلمان گھسنا چاہتے تھے؛ لیکن دیوار حائل تھی، ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھوڑی دیر تک دیکھتے رہے۔پھر اس کے بعد کہا مسلمانو! مجھ کو ادھر پھینک دو،اس ترکیب سے اگرچہ دیوار پھاند گئے،لیکن پاؤں ٹوٹ گیا، تاہم وہ مشرکین سے دروازہ روکے کھڑے رہے اور جب تک مسلمان باغ میں داخل نہ ہو گئے اپنی جگہ سے نہ ہلے۔[9][10][11]

شہادت

مسلمان اندر پہنچ کر جوش وخروش سے لڑنے لگے گو ابودجانہؓ کا پاؤں ٹوٹ چکا تھا، تاہم وہ مسیلمہ کذاب کو مارنے کے لیے بڑھے اور آخر خود بھی اسی روز شہید ہوئے یہ 12ھ تھی۔ [12] ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہو گئے۔[13]

فضل و کمال

اگرچہ حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیثیں منقول نہیں تاہم ان کی نسبت صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں:وھو من فضلاء الصحابۃ واکابر ہم یعنی وہ فضلائے صحابہ میں تھے اور بڑے رتبہ کے شخص تھے۔[14][15]

اخلاق و عادات

ابو دجانہ کے جوش ایمان کا نظارہ جنگ یمامہ کی جانبازی میں ہو چکا ہے،حب رسول جنگ احد میں ظاہر ہوتی ہے جس وقت تمام مجمع آنحضرت کے پاس سے منتشر ہو گیا اورصرف چند آدمی آپ کے ساتھ رہ گئے تھے ان میں دو آدمی آپ کے سپر بنے ہوئے تھے، مصعب بن عمیر اور ابو دجانہؓ اول الذکر جان دیکر ہٹے اور ابو دجانہ نے کاری زخم کھا کر فدائیت کا ثبوت دیا۔شجاعت کا اندازہ بھی انہی واقعات سے کرنا چاہیے، صاحب استیعاب لکھتے ہیں:کان بھمۃ من الیھم الابطالیعنی ان کا شمار مشہور اور دلیر بہادروں میں تھا۔[16]اسدالغابہ میں ہے کہ وہ لڑائی کے وقت سرپر سرخ پٹی باندھتے تھے اور ناز و تبختر سے چلتے تھے۔[17]،[18]

حوالہ جات