عامر بن فہیرہ

عامر بن فہیرہ کو ابوبکر صدیق نے خرید کر آزاد کیا یہ قبیلہ ازد کے مولدین (عربی النسل)میں سے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابقون الاولون میں ہیں۔آپ نے ابتدا ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا ۔ہجرت مدینہ کے بعد آپ نے غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شرکت کی ۔ واقعہ بئر معونہ میں ستر قراء صحابہ کے ساتھ آپ شہید ہوئے ۔[1]

عامر بن فہیرہ
(عربی میں: عامر بن فهيرة‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائشسنہ 586ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفاتسنہ 625ء (38–39 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بئر معونہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہگلہ بان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانعربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیںغزوۂ بدر ،  غزوہ احد ،  سریہ منذر بن عمرو   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

عامرنام، ابوعمرو کنیت ،والد کا نام فہیرہ تھا، یہ طفیل بن عبد اللہ کے غلام تھے جو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اخیافی (والدہ کی طرف) بھائی اور قبیلہ ازد کے ایک ممبر تھے۔[2][3]

اسلام

عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت ابتدا ہی میں دعوتِ توحید کو قبول کیا تھا، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک ارقم بن ابی الارقم کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے، غلامانہ بے بسی کے ساتھ اس حق پسندی نے قدرت ان کو سخت سے سخت مصائب میں مبتلا کیا، طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں، لیکن آخر وقت تک استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا، یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستِ کرم نے قید غلامی سے نجات دلائی۔[4]

ہجرت

ہجرت کے موقع پر جب آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکرصدیق غارِ ثور میں پوشیدہ ہوئے تو عامر بن فہیرہ کے متعلق یہ خدمت تھی کہ وہ دن بھر مکہ کی چراگاہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بکریاں چراتے، شام کو غار کے پاس لے آتے، یہاں ان کا دودھ دوہ کر استعمال کیا جاتا، صبح کے وقت عبد اللہ بن ابی بکر جو عموماً شب کے وقت حاضر ہوکر مکہ کی سرگزشت سنایا کرتے تھے، واپس جاتے تو بکریوں کو ان کے نشانِ قدم پر لے چلتے کہ مشرکین کو کچھ شبہ نہ ہو،[5] غرض جب یہ قافلہ غارثور سے آگے بڑھا تو ابوبکر نے ان کو اپنے پیچھے بٹھا لیا مدینہ پہنچ کر وہ سعد بن خثیمہ کے مہمان ہوئے اور حارث بن اوس ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے۔[6]ابتداً مدینہ کی آب وہوا جن لوگوں کو راس نہ آئی ان میں سے ایک حضرت عامر بن فہیرہؓ بھی تھے، یہ اس قدر سخت بیمار ہوئے کہ زندگی سے یاس ہو گئی، شدتِ بحران کے وقت یہ اشعار ورد زبان ہوتے تھے:[7]انی وجدک الموت قبل ذوقہ ان الجبان حتفہ من فوقہمیں نے موت سے پہلے اس کا مزہ چکھ لیا، بے شک بزدل کی موت اوپر ہی سے ہےکل امرء مجاھد بطوتہ کالثوریحمی انفہ بروقہہر شخص اپنی طاقت سے کوشش کرتا ہے ، جس طرح بیل اپنی ناک کو سینگ سے محفوظ رکھتا ہے۔آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب مہاجرین کرام ؓ کی علالت کی خبر ملی تو آپ نے دعا فرمائی:"اے خدا تو مدینہ منورہ کو مکہ مکرمہ کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ہمارے لیے پسندیدہ بنا اور اس کو بیماریوں سے پاک کر"دعا مقبول ہوئی عامر بن فہیرہ ؓ بسترِ علالت سے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔[8][9]

غزوات میں شرکت

غزوۂ بدر و غزوہ احد میں شریک تھے، میں رسول اللہ نے ستر قاریوں کی ایک جماعت کو مشرکین بئر معونہ کی تبلیغ و تلقین پر مامور فرمایا، عامر بن فہیرہ بھی اس میں شامل تھے قبائل ذکوان وغیرہ نے غداری کے ساتھ اس تمام جماعت کو شہید کر دیا، صرف عمرو بن امیہ ضمری زندہ گرفتار ہوئے، عامر بن طفیل نے ان سے ایک لاش کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ بولے" عامر بن فہیرہؓ " اس نے کہا میں نے ان کو مقتول ہونے کے بعد دیکھا کہ آسمان کی طرف اٹھا لیے گئے، یہاں تک کہ آسمان و زمین کے درمیان بالکل معلق نظر آئے، پھر زمین پر رکھ دیے گئے۔[10][11]

عجیب شہادت

عامر بن فہیرہ کے سینہ سے جس وقت جبار بن سلمی کا نیز ہ پار ہوا تو بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا"خدا کی قسم میں کامیاب ہو گیا"لاش تڑپ کر آسمان کی طرف بلند ہوئی، ملائکہ نے تجہیز وتکفین کی اور روح اقدس کے لیے اعلی علیین کے دروازے کھول دیے گئے، جبار بن سلمی کو اس کرشمہ قدرت نے سخت متعجب کیا اور وہ متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔[12][13]

اخلاق

حضرت عامر بن فہیرہؓ صورت ظاہری کے لحاظ سے گو سیاہ فام حبشی تھے، ذاتی وجاہت کا یہ حال تھا کہ 34 سالہ زندگی کا بڑا حصہ ستم پیشہ آقاؤں کی غلامی میں بسر ہوا ، لیکن فطری جوہر اخلاق ان ظاہری فریب آرائیشوں کا محتاج نہیں، وہ غریبی اور امیری میں ہمیشہ یکساں اپنی چمک دکھاتا ہے، انھوں نے گو ناگوں مصائب و مظالم کے مقابلہ میں جس طرح استقلال و استقامت کا اظہار فرمایا وہ یقینا ًان کے دستارِ فضل کاایک نہایت خوش نما طرہ ہے۔رازداری کا یہ حال ہے کہ خود رسول اللہ نے نازک سے نازک موقع پر ان کو اپنا معتمد علیہ بنایا، شوقِ شہادت نے ان کو دنیا سے بے نیاز کر دیا تھا ،چنانچہ غزوۂ بیرِ معونہ میں جب برچھی جگر سے پار ہو گئی تو یہ کلمہ زبان پر تھا:فزت واللہ یعنی خدا کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔[14][15]

حوالہ جات