عبد اللہ بن ابی

عبد اللہ بن ابی کا مکمل نام اپنی ماں کی نسبت سے، عبد اللہ بن ابی بن سلول، بتایا جاتا ہے۔

عبد اللہ بن ابی
(عربی میں: عبد الله بن أبي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش6ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفاتجنوری631ء (30–31 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولادعبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات

اسلامی تاریخ کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد سے قبل اہل مدینہ میں اس کی حیثیت اثر اور مرتبہ سب سے ممتاز تھا اور ہجرت سے کچھ روز قبل اہل مدینہ کے تمام قبائل نے اسے متفقہ طور پر اپنا سردار مقرر کر لیا تھا اور اس کی باقاعدہ رسم تاج پوشی کے لیے دن اور بھی تیہ کر لی گئی تھی۔ لیکن عین اسی وقت محمد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے بے تاج بادشاہ کے طور پر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے اپنا پہلا منصوبہ ترک کرکے اپنے تمام معاملات کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپرد کر دیا۔ اس صورت حال کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی کے سینے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ذاتی بغض اور عناد پیدا ہو گیا اور وہ دل ہی دل میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جلنے کڑھنے لگا۔ کیونکہ اہل مدینہ کے تمام قبائل کی ہمدردیاں شمع رسالت کے ساتھ تھیں اس لیے وہ ان کی کھلم کھلا مخالفت نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اس نے منافقت کی راہ اپنائی۔

اسلام

عبد اللہ بن ابی نے بظاہر اسلام قبول کر لیا اور ظاہری اعتبار سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام احکامات کی پاپندی شروع کردی لیکن اندر ہی اندر وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بغض اور عناد کی عاد میں جل رہا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا اس نے اسلام کی جڑ کاٹنے کے لیے یہودیوں اور مشرکین مکہ سے رابطے استوار رکھے اور غزوہ بدر اور احد میں نہ خود حصہ نہیں لیا بلکہ اندر ہی اندر صحابہ کو بھی جہاد پہ جانے سے روکتا رہا۔ یہی منافق شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی عائشہ بنت ابی بکر پر تہمت لگانے میں بھی پیش پیش رہا۔

تفرقات

اسلامی تاریخ اور بطور خاص مسلمانوں میں تفرقات پیدا ہونے کے ابتدائی ماحول اور محرکات کے سلسلے میں عبد اللہ بن ابی کا نام اولین شخصیات میں لیا جاتا ہے۔،[1] اسی وجہ سے اسلام میں اس کو رأس النفاق اور رئیس المنافقین کہا گيا۔

وفات

اس کی وفات پر [[عمر ابن الخطاب] نے اس کا واضح طور پر اظہار بھی کیا تھا کہ یہ شخص منافق تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں۔لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے عمر ابن خطاب کو جھڑک دیا اور فرمایا مجھے اس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے دی ہے، جس پر عمر ابن خطاب خاموش ہوگئے[2][3] جس کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے مسلمان بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی کی دلجوئی کے لیے کمال رحم اور عفو در گذر سے کام لیتے ہوئے اس کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے گئے اور کفنانے کے لیے اپنا کرتا عنایت فرمایا نہ صرف اس کی نماز جنازہ ادا کی بلکہ عبداللّٰہ ابن ابی کے لیے 70 سے زائد بار دعائے مغفرت بھی فرمائی۔ (صحیح بخاری۔ حدیث نمبر 1366)

(صحیح بخاری حدیث نمبر 2691)

حوالہ جات