فضل ابن عباس

(فضل بن عباس سے رجوع مکرر)

فضل ابن عباس رضی اللہ عنہ(12ق.ھ / 13ھ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد ہیں، حضور کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثابت قدم رہے حجۃ الوداع میں حضور کے ساتھ تھے حضور کو غسل وفات دینے والوں میں آپ بھی تھے،پھر شام میں جہاد کرتے رہے اردن کے علاقہ میں وفات پائی، اکیس سال عمر ہوئی اپنے بھائی عبداللہ اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایات کرتے ہیں۔[1]حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فضل بن عباس نے آپ کو غسل دیا اور بدھ کی شب جب نصف گذر چکی تھی آپ کو دفن کر دیا گیا اور ایک قول یہ ہے کہ منگل کی شب آپ کو دفن کیا گیا۔[2]علی بن ابی طالب‘ فضل بن عباس اور ان کے بھائی قثم‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام شقران آپ کی قبر میں اترے‘ اوس بن خولی نے حضرت علی سے کہا میں تم کو اللہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمارے تعلق کی قسم دیتا ہوں‘ علی نے ان سے کہا تم بھی اترو‘ شقران نے اس چادر کو لیا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنتے تھے‘ اور اس کو قبر میں رکھ دیا اور کہا خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس چادر کو کوئی نہیں پہنے گا۔[3]عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ وصولی کا عامل بنا دیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے۔ جن کے دل بہلائے جاتے ہیں[4]روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فضل بن عباس کے گلے سے تمیمۃ کو کاٹ دیا۔[5] امام حسین بن مسعود بغوی 516ھ لکھتے ہیں : تمائم ان سیپیوں یا کوڑیوں کو کہتے ہیں جن کو عرب اپنے بچوں کے گلوں میں لٹکاتے تھے، ان کا اعتقاد تھا کہ اس سے نظر نہیں لگتی، شریعت نے اس کو باطل کر دیا۔ابن ابی الدنیا و بیہقی نے فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ گانا زنا کا تعویذ ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 13ھ میں ہوئی ۔

فضل ابن عباس
(عربی میں: فضل بن عباس ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائشسنہ 614ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفاتسنہ 639ء (24–25 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدعباس بن عبد المطلب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہسائنس دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانعربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

فضل نام، ابو محمد کنیت، ہمرکاب رسول لقب، سلسلہ نسب یہ ہے فضل ابن عباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی، ماں کانام لبابہ تھا، آنحضرت کے چچازاد بھائی تھے۔[6]

اسلام

حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر سے قبل مشرف باسلام ہوئے،[7] اس زمانہ میں ان کا پورا گھر اسلام سے منور ہو چکا تھا؛لیکن مشرکین کے خوف سے اعلان نہیں کیا تھا۔[8]

ہجرت

فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح مکہ کے کچھ دنوں پہلے اپنے والد بزرگوار حضرت عباس کے ساتھ ہجرت کی۔[9][10]

غزوات

ہجرت کے بعد غزوۂ فتح ہوا ، آپ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسی غزوہ میں شریک ہوئے،اس کے بعد حنین کا معرکہ پیش آیا، اس میں غیر معمولی جان فروشی دکھائی،اورمسلمانوں کی ابتدائی شکست میں جب فوج کا بڑا حصہ منتشر ہو گیا،ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور بدستور پیکر اقدس کے ساتھ جمے رہے۔[11]

پھر حجۃ الوداع میں آنحضرت کے ساتھ اس شان سے نکلے کہ آپ کی سواری پر سوار تھے، اسی دن سے "ردف رسول" یعنی ہمرکاب رسول لقب ہو گیا ،اسی درمیان میں قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان اورخوبصورت عورت حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے آئی، حج میں منہ چھپانا عورتوں کے لیے درست نہیں، اس لیے اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا، فضل بھی نہایت خوش رو تھے، وہ ان کی طرف گھورنے لگی اور یہ بھی اس کو دیکھنے لگے، آنحضرت باربار ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیتے تھے،مگر یہ پھر اس کی طرف رخ کر دیتے ،آخر میں آپ نے فرمایا "برادر عزیز!آج کے دن جو شخص آنکھ، کان اور زبان پر قابو رکھے گا اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، [12] رمی جمار کے وقت آنحضرت کی پشت پر چادر آڑ کیے ہوئے سایہ کیے کھڑے تھے۔[13][14]

آخری سعادت

فضلؓ بن عباس نے آنحضرت کی آخری خدمت کی سعادت بھی حاصل کی، آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرض الموت میں جو آخری خطبہ دیا تھا، اس کے لیے جن دوسعادت مندوں کے سہارے گھر سے باہر تشریف لائے تھے، ان میں سے ایک حضرت فضل تھے اور ان ہی کے ذریعہ سے مسلمانوں میں خطبہ دینے کا اعلان کرایا تھا، [15] سب سے آخری سعادت جسم اطہر کے غسل کی حاصل ہوئی ؛چنانچہ جن لوگوں نے آپ کو غسل دیا تھا، ان میں ایک فضل بھی تھے، وہ پانی ڈالتے تھے اور حضرت علی ؓ نہلاتے تھے۔[16]

وفات

آپ کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، بعض کہتے ہیں کہ شام میں طاعون عمواس میں وفات پائی، بعض کا خیال ہے کہ جنگ اجنادین کے معرکہ میں شہید ہوئے،دوسری روایت زیادہ مستند ہے،امام بخاری نے بھی اسی پر اعتماد کیا ہے۔[17][18]

حلیہ

نہایت حسین و جمیل تھے۔[19]

اہل و عیال

اولاد میں عبد الرحمن ، مجمد یا احمد اور صرف ایک بٹیی ام کلثوم تھیں، جن کے ساتھ بعد میں حضرت حسنؓ نے شادی کی اور ان کے طلاق کے بعد ابوموسیٰ اشعریؓ کے عقد میں آئیں۔[20]

فضل و کمال

فضل بن عباسؓ سے 24 حدیثیں مروی ہیں، ان میں 3 متفق علیہ ہیں، [21] اکابر صحابہ میں ابن عباسؓ اور ابو ہریرہ اور عام لوگوں معدیکرب ،قثم بن عباس بن عبیداللہ ربیعہ بن حارث ، عمیر، ابوسعید، سلیمان بن یسار ، شعبی ، عطاء بن ابی رباح وغیرہ نے روایتیں کی ہیں۔[22]

حوالہ جات