مرثیہ

مرثیہ عربی لفظ”رثا“ سے بنا ہے جس کے معنی مردے کو رونے اور اس کی خوبیاں بیان کرنے کے ہیں۔ یعنی مرنے والے کو رونا اور اس کی خوبیاں بیان کرنا مرثیہ کہلاتا ہے۔
مرثیہ کی صنف عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں آئی۔ لیکن اردو اور فارسی میں مرثیہ کی صنف زیادہ تر اہل بیت یا واقعہ کربلا کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی عظیم شخصیات کے مرثیے لکھے گئے ہیں۔

مراثی اور میراثی میں فرق

میراثی برصغیر کی ایک مشہور قوم ہے جو شعرا کے لکھے گئے کلام منظوم انداز میں بیان کرتی ہے ۔ جبکہ مراثی مرثیہ کی جمع ہے ۔

اردو میں مرثیہ کی ابتدا

اُردو میں مرثیہ کی ابتدا دکن سے ہوئی۔ دکن میں عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں کے بانی امامیہ مذہب کے پیروکار تھے اور وہ اپنے ہاں امام باڑوں میں مرثیہ خوانی کرواتے تھے۔ اردو کا سب سے پہلا مرثیہ گو دکنی شاعر ملا وجہی تھا۔ لکھنؤ میں اس صنف کو مزید ترقی ملی اور میر انیس اور میر دبیر جیسے شعرا نے مرثیہ کو اعلٰی مقام عطا کیا۔ مرثیہ کا زیادہ استعمال واقعہ کربلا کو بیان کرنے میں ہوتا ہے۔
جدید تنقیدی بصیرت کی رُو سے مرثیہ گوئی کو فن شاعری کا سب سے حساس اور کٹھن عمل قرار دیا گیا ہے۔ باریک بین افراد جانتے ہیں کہ کئی اصنافِ سخن پر فنی گرفت رکھے بغیر ایک فکر انگیز اور جاندار مرثیہ نہیں کہا جا سکتا۔ شعر پر فنی گرفت کے ہمراہ جتنی فصاحتِ کلام، بلاغت، حسّاسیت اور علمی وفکری مواد پر دسترس کی ایک کامیاب مرثیہ نگار کو ضرورت ہوتی ہے اتنی سعی ٔ نقد کسی اور صنفِ سخن میں مطلوب نہیں ہوتی۔

مرثیہ کے اجزاء

بنیادی طور پر ایک روایتی مرثیہ اپنی ترکیب میں مندرجہ ذیل اجزاء کا حامل ہوتا ہے۔ تاہم جدید مرثیہ میں قدرے مختلف ترکیبی تجربات بھی سامنے لائے گئے ہیں۔

تمہیدچہرہسراپا 4۔ رخصت 5۔ آمد 6۔ رَجَز 7۔ جنگشہادتدعا

مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے جو"رِثا" سے نکلا ہے۔اس طرح اس لفظ کا مطلب مرنے والے پر آہوازاری کرنے کے ہیں۔عام طور پر اردو میں مرثیہ نگاری اس نظم کو کہا جاتا ہے جس میں حضرت حسین رضی اللہ تعالی اور ان کے رفقا کی شہادت کے احوال بیان کیے جائیں۔اس کے علاوہ کسی المنک خادثے، کسی ملک یا شہر کی بربادی و تباہی،کسی دور حکومت کے خاتمے میں کسی عظیم ہستی کے انتقال، حق و باطل کے درمیان کشمکش ،غرذ زندگی کے تمام المنک پہلووٓں پر جو اظہار غم والم کیا جاےٓ گا وہ بھی مرثیہ کہلاتا ہے۔

مرثیہ کے اجزا

مرژیہ کے درج ذیل اجزایے ترکیبی قرار پائے ہیں:

چہرہ، سراپا، رخصت، آمد، رجز، رزم/جنگ، شہادت اور  بین۔

چہرہ

مرثیہ کا ابتدائی حصہ چہرہ کہلاتا ہے۔ چہرہ دراصل مرثیہ کی تمہید ہے۔ اس میں مختلف موضوع دیکھنے کو ملتے ہیں مثلاً مناظر فطرت، قلم یا شعر کی تعریف، شاعرانہ تعلی ، صبح و شام کا بیان۔ انیس نے اپنے ایک مرثیہ کا آغاز یوں کیا ہے۔

چلنا وہ باد صبح کے جھونکوں کا دم بہ دممرغان باغ کی وہ خوش الحانیاں بہم
وہ آب و تاب نہر، وہ موجوں کا پیچ و خمسردی ہوامیں، پر نہ زیادہ بہت نہ کم

کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہواتھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا

سراپا

مرثیہ کے جس حصہ میں شاعر ہیرو کا تذکرہ کرتا ہے اسے سراپا کہتے ہیں۔ سراپا میں ہیرو کی خصوصیات بھی بیان کی جاتی ہیں مثلاً اس کے خد و خال، قد و قامت اور شان و شوکت وغیرہ۔

پیشانیاں خورشید جہاں تاب سے بہتررخسارہ رنگین گل شاداب سے بہتر
دانتوں کی صفا، گوہر نایاب سے بہترچہروں کا عرق موتیوں کی آب سے بہتر
ابرو نہیں پیشانی ذی قدر سے نیچےہیں دو مہ نوبال سے اک بدر کے نیچے

رخصت

جنگ میں جانے سے قبل ہیرو اپنے عزیز و اقارب سے ملتا ہے اور اس کے اہل و عیال اسے رخصت کرتے ہیں۔ جس حصہ میں ان واقعات کا بیان ہوتا ہے اسے رخصت کہتے ہیں:

جب سب سے مل چکا تو حر نے کیا کلامامیدوار حرب کی رخصت کا ہے غلام
روکر یہ اس سے کہنے لگے شاہ تشنہ کاممثالاک دم تو گھر میں فاقہ کشوں کے بھی کر قیام
ہم پہلے داغ خویش ق برادر کے دیکھ لیںتو یم کو دیکھ، ہم تجھے جی بھر کے دیکھ لیں

آمد

میدان جنگ میں ہیرو کی آمد ہوتی ہے۔ یہاں مرثیہ میں ایک جوش و خروش نظر آتا ہے اور شاعر جذباتیت کے عروج پر ہوتا ہے۔ اس حصہ کو آمد کہتے ہیں:

حر چلا فوج مخالف اڑا کر توسنجوکڑی بھول گئے جس کی تگا پو سے ہرن
وہ جلال اور وہ شوکت، وہ غضب کی چتونہاتھ میں تیغ، کماں دوش پہ، بر میں جوشن
دوسرے دوش پہ شملے کے جو بل کھاتے تھےکاکل حور کے سب پیچ کھلے جاتے تھے

رجز

آمد کے بعد ہیرو کی زبانی اپنے اپنے ابا و اجداد کے اوصاف و کمالات کا بیان ہوتا ہے جسے رجز کہتے ہیں:

ہم صاحب شمشیر ہیں ہم شیر جری ہیںہم بندہ مقبول ہیں عصیاں سے بری ہیں
ایک ان سے میں آیا ہوں جرات میری دیکھوسن دیکھو مرا اور شجاعت میری دیکھو
کیا دیر ہے منہ پر میری شمشیر کے آؤدیکھوں تو بھلا کچھ ہنر جنگ دکھاؤ


رزم/جنگ

اب شاعر جنگ کے مناظر پیش کرتا ہے۔ اور ہیرو بے جگری سے لڑکر باطل کے خلاف حق کے لیے جان دیکر شہید ہو جاتا ہے۔ یہ حصہ کافی درد و الم کے بیان میں گزرتا ہے۔ شاعر درد و رنج کا ماحول پیدا کرتا ہے:

قاسم نے رن میں لاشے پہ لاشہ گرادیاعباس نے بھی خون کا دریا بہا دیا
اکبر نے دم میں ناموروں کو بھگا دیاانداز ضرب شیر الہی دکھا دیا
تنہا جب اس کے بعد شہ بحر و بر ہوئےتیروں کے سامنے علی اصغر سپر ہوئے

شہادت

مرثیے کا وہ حصہ جس میں ہیرو شہید ہو جاتا ہے۔ یہاں شاعر شدید رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور درد و الم کا ماحول پیدا کرتا ہے۔|

لیتا تھا غش میں، ہچکیاں وہ چودھویں کا ماہجو گرز فرق پاک پہ مارا کس نے، آہ
بیٹھا گلے پہ تیر کہ حالت ہوئی تباہرہوار سے گرا پسر شاہ دیں پناہ
بنت رسول رونے منہ ڈھانپنے لگیتڑپا وہ نوجواں کہ زمیں کانپنے لگی

بین

یہ مرثیہ کا آخری جز ہے جس میں شید کے اقارب اور اہل خانہ گریہ وزاری اور آہوبکا کرتے ہیں:

شبیر نے یہ خیمے کی ڈیوڑھی سے پکارا، مارے گئے اکبر-گھر لٹ گیا ، اے بانوے دلشاد تمھارا، مارے گئے اکبر
ہم بیکس و تنہا ہوئے، وا حسرت و دردا، وا حسرت و درداجینے کا سہارا نہ رہا کوئی، مارے گئے اکب

ہیئتِ مرثیہ

مرثیہ کی صنف کو شعری ہئیت کے لحاظ سے قطعات، مسدّس اور مخمّس کی صورت میں لکھنے کا رواج دبستانِ لکھنؤ کے مشاہیر نے قاِئم کیا تھا۔ 1249 ھ میں میر انیس کی ولادت ( یعنی 1264 ھ) سے پہلے اُن کے والد کے ایک ہم عصر شاعر میر ضمیر کے ایک مسدس میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ مرثیہ کو مروّجہ ہیئت میں لکھنے کی طرح انھوں نے ڈالی۔
دکن میں مرثیہ کی عمومی صورت نوحہ اور مثنوی سے مماثل تھی۔ بعد ازاں ہر دبستان میں مرثیہ برنگِ سلام کہنے کی تحریک بھی نظر آنے لگی۔ قدیم سلام کے بر عکس جدید سلام میں واقعہ نگاری کی جگہ نتائج اور احساساتِ لطیف کو جگہ دی جاتی ہے۔ اسی لیے موجودہ عہد میں سلام نے غزل سے ترکیبی مماثلت کی بنا پر زیادہ کشش کے ساتھ مقبولیت حاصل کی ہے۔

حوالہ جات