مسلسل غزل

مسلسل غزل ایک قسم کی شاعری ہے جو ہو بہو غزل کی ہی طرح ہوتی ہے بلکہ یہ غزل کی ہی ایک قسم ہے۔ بس فرق ہی یہ ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک الگ معنی لیے ہوتا ہے۔ اس لیے معنوہ اعتبار سے غزل کا ہر شعر ایک دوسرے سے جدا اور آزاد ہوتا ہے اور اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے۔ مگر مسلسل غزل کا ہر شعر کسی ایک خاص کیفیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ ممتاز شعرا میں میر، نظیر اکبر آبادی، حسرت موہانی، حالی، جوش ملیح آبادی، کلیم عاجز ، اقبال اور فراق گورکھپوری وغیرہ نے مسلسل غزلیں کہی ہیں۔ نمونہ کے طور اقبال، مومن اور حسرت اور کیلم عاجز کی غزلیں پیش ہیں:

اقبال

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیںابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیںیہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پرچمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غممقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیراترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جاکہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میںیہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں۔

مومن

جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی یعنی وعدہ نباہ کا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پرمجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیںوہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفامیں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

حسرت موہانی

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہےہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاقتجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے

بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کااور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرااور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاًاور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

جان کر سوتا تجھے وہ قصد پا بوسی مرااور ترا ٹھکرا کے سر وہ مسکرانا یاد ہے

تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو از راہ لحاظحال دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے

جب سوا میرے تمھارا کوئی دیوانہ نہ تھاسچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے ۔

کلیم عاجز

تم گل تھے ہم نکھار ابھی کل کی بات ہے

ہم سے تھی سب بہار ابھی کل کی بات ہے

بیگانہ کہو غیر کہو اجنبی کہو

اپنوں میں تھا شمار ابھی کل کی بات ہے

آج اپنے پاس سے ہمیں رکھتے ہو دور دور

ہم بن نہ تھا قرار ابھی کل کی بات ہے۔