نصیر الدین ہاشمی

اردو زبان کے مصنف، مورخ، سوانح نگار، فہرست ساز، محقق، ماہر دکنیات، سفرنامہ نگار

نصیر الدین ہاشمی (پیدائش: 15 مارچ 1895ء - وفات:26 ستمبر 1964ء) اردو زبان کے نامور مصنف، مورخ، محقق اور ماہر دکنیات تھے۔ دکنی ادب و ثقافت کا شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہوگا جس پر نصیر الدین ہاشمی نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ دکن میں اردو اور یورپ میں دکھنی مخطوطات شاہکار تصانیف مانی جاتی ہیں۔

نصیر الدین ہاشمی

معلومات شخصیت
پیدائش15 مارچ 1895ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریاست حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات26 ستمبر 1964ء (69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفاتسرطان   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفاتطبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمیجامعہ مدراس
جامعہ عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذامجد حیدر آبادی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہمورخ ،  محقق ،  سوانح نگار ،  سفرنامہ نگار ،  محافظ دستاویزات ،  فہرست ساز   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زباناردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمتریاست حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

سوانح

پیدائش اور خاندان

نصیر الدین ہاشمی 17 رمضان 1312ھ مطابق 15 مارچ 1895ء کو ریاست حیدرآباد کے محلہ ترپ بازار میں پیدا ہوئے[1]۔ ان کا اصل نام محمد نصیر الدین عبد الباری تھا، لیکن نصیر الدین ہاشمی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ دو بہنوں اور پانچ بھائیوں میں وہ چوتھے نمبر پر تھے۔ ان کے والد مولوی عبد القادر ریاست حیدرآباد کے سرشتہ عدالت میں منصف اور رجسٹرار بلدہ تھے۔

تعلیم

والد کے انتقال کے وقت نصیر الدین کی عمر صرف بارہ برس تھی، تب تک گھر پر ہی تعلیم حاصل کی۔ ان کی قرآن، دینیات، اردو، فارسی، ریاضی اور خطاطی کی تعلیم کے لیے استاد مقرر کیے گئے تھے۔والد کے انتقال کے بعد نانا کے یہاں قیام رہا۔ تین برس بعد نانا بھی انتقال کر گئے۔ مزید تعلیم کے لیے مدرسہ دار العلوم میں داخلہ لیا اور منشی اور مولوی عالم کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ مدرسہ دار العلوم میں امجد حیدر آبادی کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان سے تاریخ، فلسفہ، ریاضی اور عربی کا درس لیا کرتے تھے۔ امجد حیدر آبادی سے ان کا تعلق تمام عمر قائم رہا۔ پھر خانگی طور سے مدراس یونیورسٹی سے منشی فاضل کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ پھر جامعہ عثمانیہ سے انگریزی کے ساتھ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں ادبی سرگرمیوں سے بھی دلچسپی تھی، چنانچہ وہ انجمن ثمرة الادب کے سیکریٹری کے فراض انجام دیا کرتے تھے۔ انھیں بچپن ہی سے مطالعہ کابے حد شوق تھا۔ ناول، سفرنامے، تاریخ اور سوانح کی سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ملک میں قحط کے باعث تعلیم ترک کر دی اور عارضی ملازمت حاصل کی۔ انھوں نے تیس سال ملازمت کی۔ پہلے دس سال نان گزیٹڈ ملازم کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر دوسرے دس سال تک دفتر دیوانی و مال (ریکارڈ آفس) میں نائب مددگار رہے اور گزیٹڈ ملازم ہو گئے۔ آخری دس سال سرشتہ رجسٹریشن و اسٹامپ میں مددگار ناظم رہے۔ رجسٹرار بلدہ مقرر ہوئے اور ناظم رجسٹریشن کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ یہاں تاریخی کاغذات اور دستاویزات کو جو منتشر اور لاپروائی کے ساتھ رکھے ہوئے تھے انھیں یکجا کیا اور ان کے مطالعہ سے خاصہ تاریخی مواد بھی بھی اپنی تصانیف کے لیے اِکٹھا کیا۔[2] یہ دفتر ہسٹاریکل ریکارڈ آفس کہلاتا تھا۔ نصیر الدین ہاشمی کی تصنیف تاریخ عطیات آصفی اسی زمانے کی یادگار ہے۔ ملازمت کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے نصیر الدین ہاشمی کی کتاب دکن میں اردو شائع ہوئی۔ جس کے بعد ایک سال کے لیے انھیں انگلستان روانہ کیا گیا تاکہ وہاں دکھنی ادب کا مزید مواد فراہم کر سکیں۔ انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور فرانس کے مختلف شہروں میں ایک سال قیام کیا اور وہاں سے دکھنی مواد اِکٹھا کر کے لانے اور ریکارڈ کے کام کا تجربہ بھی حاصل کیا۔ اب نصیر الدین ہاشمی گزیٹڈ افسر بن گئے اور دفتر کا اہم ترین صیغہ یعنی تصدیقِ اسناد ان کے ماتحت کر دیا گیا۔ انھیں اس صیغہ کی نگرانی کرتے ہوئے آٹھ سال ہو گئے تھے اور اس عرصہ میں زیادہ مشاہرہ والی نئی پوسٹ سرکار کی جانب سے منظور ہوئی۔ سنیارٹی اور کارگزاری کے لحاظ سے نصیر الدین ہاشمی اس پوسٹ کے زیادہ مستحق تھے مگر انھیں محروم کر دیا گیا۔ معتمد فنانس اور وزیر اعلیٰ نصیر الدین ہاشمی کی تائید میں تھے مگر ناظمِ سرشتہ ان کے مخالف ہو گئے اور دوسرے صاحب کی تائید کر دی۔یوں نصیر الدین الدین ہاشمی دل برداشتہ ہو گئے، دو ماہ کی رخصت لے لی اور جب واپس آئے توایک دوسرا صیغہ (محکمہ) ان کے ماتحت کر دیا گیا۔ غرض دفتر دیوانی و مال (سینٹرل ریکارڈ آفس) کی بیس سالہ ملازمت کے بعد سرشتہ رجسٹریشن و اسٹامپ میں ان کا تبادلہ ہو گیا۔ رجسٹرار بلدہ کی ذمہ داری نصیر الدین ہاشمی کے لیے ایک نیا کام تھا۔اس لیے ابتدائی چند دن اس نئے کام کی نوعیت سمجھنے میں گذر گئے۔ اس کے بعد انھیں صدر دفتر میں مددگار ناظم رجسٹریشن و اسٹامپ مقرر کر دیا گیا۔ جہاں انھوں نے پانچ برس خدمات انجام دیں۔ ناظمِ رجسٹریشن کے قام مقام کی حیثیت سے انھیں مختلف مقامات کا دورہ کرنا پڑتا تھا۔انھوں نے ریاست حیدرآباد کے تیرہ اضلاع اور ساٹھ پنسٹھ تعلقہ جات اور پندرہ سولہ جاگیرات کا دورہ کیا۔ دو ڈھائی ماہ کے بعد نئے متعین ناظم نے ان سے جائزہ حاصل کیا اور نصیر الدین ہاشمی ان کے ساتھ تقریباً چھ سات ماہ بحیثیت مددگار کام کرتے رہے۔ نئے ناظم سے اختلافات کی وجہ سے نصیر الدین ہاشمی نے سابقہ خدمت رجسٹرار بلدہ پر واپسی کی درخواست کی، اس طرح رجسٹرار بلدہ کی خدمت پر واپس آ گئے۔ مارچ 1950ء میں پچپن سالہ عمر اور اکتیس سالہ ملازمت کے بعد وہ پنشن حاصل کر کے ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔[3] نصیر الدین ہاشمی کی شادی ان کی ماموں زاد سے 11 شوال 1341ھ کو ہوئی۔ ان سے ایک فرزند ڈاکٹر ظہیر الدین اور چار دختر پیدا ہوئیں۔[4]

وفات

نصیر الدین ہاشمی کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر 26 ستمبر 1964ء حیدرآباد، بھارت میں وفات کر گئے۔ وہ درگاہ حضرت سید احمد بادپاد احمد نگر، حیدرآباد میں مدفون ہیں۔ [5]

تصانیف

  • 1923ء - دکن میں اردو (تحقیق، تاریخ اردو)
  • 1924ء - نجم الثاقب بچوں کے لیے شافعی فقہ)
  • 1930ء - رہبر سفر یورپ (انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور فرانس کا سفرنامہ)
  • 1932ء - یورپ میں دکھنی مخطوطات (تحقیق، انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور فرانس کے کتب خانوں موجود دکنی مخطوطات کی فہرست)
  • 1933ء - ذکر نبیؐ (سیرت النبی)
  • 1934ء - حضرت امجد کی شاعری (امجد حیدر آبادی کی شاعری پر دہلی کے رسالہ ’ماضی‘ کے چار نمبروں میں شائع مضمون کی کتابی شکل)
  • 1936ء - خواتین عہد عثمانی (تاریخ)
  • 1938ء - خیابان نسواں (ادبی رسائل میں شائع تحقیقی و ادبی مضامین کا مجموعہ)
  • 1938ء - مدراس میں اردو (تاریخ اردو)
  • 1939ء - مقالات ہاشمی (دکنی شعرا اور ادیبوں کے کارناموں پر مشتمل مضامین کا مجموعہ)
  • 1940ء - خوتین دکن کی اردو خدمات (دکن کی اہلِ قلم خواتین پر تحقیق)
  • 1940ء - فلم نما (فلم کے متعلق اصلاحی اور تنقیدی مضامین)
  • 1942ء - تذکرہ دار العلوم (اس کتاب میں دار العلوم ریاست حیدرآباد دکن کے قیام، صدور، اساتذہ اور اس کے قدیم اور فارغ التحصیل طلبہ کاتذکرہ شامل ہے)
  • 1942ء - تاریخ عطیات آصفی (سرشتہ عطیات آصفی کی تاریخ)
  • 1944ء - حیدرآباد کی نسوانی دنیا (خواتین کے بارے میں پانچ مطبوعہ مضامین کامجموعہ)
  • 1944ء - مکتوبات امجد (امجد حیدر آبادی کے خطوط کا مجموعہ)
  • 1945ء - تذکرہ مرتضٰی (نصیر الدین ہاشمی کے پھوپھی زاد بھائی مولوی مرتضٰی کے حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات پر مشتمل)
  • 1946ء - عہد آصفی کی قدیم تعلیم (ریاست حیدرآباد کی قدیم تعلیم، بہمنی اور قطب شاہی سلطنت کے مدارس کا تذکرہ اور اُمرائے سلطنت کی علمی خدمات پر مشتمل)
  • 1953ء - آج کا حیدرآباد (گولکنڈہ اور حیدرآباد کے تمام محلہ کی تاریخ و تمدن، آثار قدیمہ اور سیرگاہوں کی تفصیل)
  • 1954ء - تذکرہ ملکہ حیات بخشی بیگم (قطب شاہی دور کی ادبی شخصیات حیات بخشی بیگم کی سوانح، ناشر: ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد)
  • 1956ء - دکھنی ہندو اور اردو (دکن کے اردو ادب سے وابستہ ہندو شاعروں، نثر نگاروں اور ایڈیٹروں کے مختصر حالات اور نمونہ کلام درج ہیں)
  • 1957ء - کتب خانہ سالار جنگ کی وضاحتی فہرست (کتب خانہ سالار جنگ کی اردو قلمی کتابوں کی وضاحتی فہرست)
  • 1961ء - کتب خانہ آصفیہ اسٹیٹ سینٹرل لائبریری کے اردو مخطوطات (1300 سے زائد مخطوطات کی فہرست دو جلدوں میں)
  • 1963ء - دکھنی قدیم اردو کے چند تحقیقی مضامین (آٹھ تحقیقی مضامین پر مشتمل، آزاد کتاب گھر دہلی کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی)
  • 1963ء - دکھنی کلچر (دکن کی تہذیب، تمدن اور ثقافت پر مبنی مضامین کا مجموعہ۔یہ کتاب مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کی)
  • 1963ء - مولوی عبد القادر (نصیر الدین الدین ہاشمی کے والد گرامی کی سوانح)

حوالہ جات