نفلى حج
جس شخص پر حج فرض ہو یا اس نے حج کی نذر مانی ہو اور وہ خود حج کرنے پر قادر ہو، اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا فرض حج یا نذر مانا ہوا حج کسی سے گرائے اور نفلی حج کی دو صورتیں ہیں :
- اس نے حجۃ الاسلام نہیں کیا توہ وہ نہ خود نفلی حج کر سکتا ہے نہ کسی سے نفلی حج کرا سکتا ہے۔
- اس نے حجۃ الاسلام کر لیا ہے تو وہ کسی سے نفلی حج کراسکتا ہے خواہ وہ حج کر سکتاہو یا عاجز ہو۔ امام ابو حنیفہ کا بھی یہی مذہب ہے۔[1]
آزاد بالغ آدمی کی طرف سے نفلی حج کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ فرض حج ادا کر چکا ہو، کیونکہ فرض حج مقدَّم ہے پھراس حج کی قضاء ہے جسے حالتِ وقوف میں فاسد کیا ہو، پھر نذر کا حج، پھر دوسرے کی نیابت میں حج کرنا اور اس کے بعد نفلی ہے۔ یہ ترتیب ضروری ہے اور حج اسی ترتیب سے واقع ہوگا اگرچہ اس کے خلاف نیت کرے ۔
حوالہ جات
🔥 Top keywords: صفحۂ اولخاص:تلاشانا لله و انا الیه راجعونمحمد بن عبد اللہحق نواز جھنگویسید احمد خانپاکستاناردوغزوہ بدرمحمد اقبالجنت البقیععلی ابن ابی طالبقرآنعمر بن خطابانہدام قبرستان بقیعحریم شاہغزوہ احداردو حروف تہجیاردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریاتابوبکر صدیقاسلاممحمد بن اسماعیل بخاریکوسغزوہ خندقخاص:حالیہ تبدیلیاںاسماء اللہ الحسنیٰجناح کے چودہ نکاتفلسطینموسی ابن عمراندجالمیری انطونیامتضاد الفاظمرزا غالبآدم (اسلام)پریم چندفاطمہ زہراصحیح بخاریجنگ آزادی ہند 1857ءضمنی انتخابات