سید غافر رضوی چھولسی

مفکرین، محققین، مصنفین، مترجمین، ادباء، اردو شعرا اور شیعہ عالم دین
بارہ امامی شیعہ عالم
سید غافر رضوی چھولسی
معلومات شخصیت
پیدائش2 جنوری 1983(1983-01-02)
چھولس، دادری گوتم بدھ نگر، بھارت
تاریخ وفاتباحیات
رہائشدہلی، "دارالحکومتہندوستان
قومیت
عرفیتفلکؔ چھولسی ، ضیاء الافاضل
نسلبھارتی
مذہباسلام
فرقہاثناعشری شیعہ
عملی زندگی
تعليماسلامی فقہ و اصول فقہ
پیشہعالم ؛ اسلامک اسکالر
ویب سائٹ
ویب سائٹ(ساغر علم)- Saghar-e-iLm

اجمالی خاکہ

چھولس کے افق پر پندرہویں صدی ہجری کا چمکتا ستارہ

مولانا موصوف کا نام نامی اسم گرامی: حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید غافر حسن رضوی صاحب قبلہ۔ ( मौलाना ग़ाफ़िर रिज़वी छौलसी - Maulana Ghafir Rizvi Sb. Qibla) خطاب: "ضیاء الافاضل"۔ تخلص: "فلکؔ چھولسی"۔ والد گرامی کا نام: سید احسن رضا رضوی۔ وطن: ہندوستان کے دار السلطنت "دہلی" سے پینتالیس یا پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر سادات کی بستی "। چھولس سادات । छौलस सादात । Chholas Sadat" کے نام سے معروف ہے[1]۔ موصوف کے آباؤ و اجداد ایران کے سبزہ زار شہر "سبزوار" سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے اور ان کو چھولس کا مقام پسند آیا اور اس بستی میں رہائش اختیار کی۔ موصوف کا سلسلہ نسب امام رضا علیہ السلام تک پہنچتا ہے اسی لیے ان کا فیملی نام "رضوی" ہے۔[2]۔ آپ مذہبی ادارہ پیام اسلام فاؤنڈیشن کے سیکریٹری ہیں، یہ ادارہ آپ کے بڑے بھائی مولانا سید ذاکر رضا چھولسی صاحب قبلہ نے ترویج و تشہیر انسانیت کے پیش نظر قائم کیا ہے۔تاریخ ولادت: مولانا موصوف نے چھولس "Chholas Sadat" نامی سادات کی بستی میں عید کی خوشیوں کے موقع پر 21/شوال المکرم 1406ہجری (بمطابق: 02/01/1983) میں آنکھیں کھولیں۔ اس زمانہ میں چھولس کا ضلع "غازی آباد" تھا اور حال حاضر میں اس بستی کو ضلع گوتم بدھ نگر "جس کا شارٹ کٹ جی بی نگر ہوتا ہے" یعنی نوئیڈا یا گریٹر نوئیڈا میں شمار کیا جاتا ہے۔[3] مولانا موصوف کے والدین کے بقول: مولانا کی زندگی کے ابتدائی ایام بہت نازک حالات سے گذرے اور امید زندگی کی لو مدھم پڑ چکی تھی لیکن چونکہ خداوندعالم کو ان کی ذات سے اسلام کی تبلیغ درکار تھی لہٰذا ہوا نے فانوس بن کر چراغ کی حفاظت کا ثبوت دیا۔[4]۔ اور حاضر میں مولانا میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا بھر میں انسانیت کی ترویج کر رہے ہیں، مولانا کے خدمات کو ویب سائٹس، یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام، ٹیلیگرام، واٹسیپ گروپس، ویب لاگز، ٹیوٹر وغیرہ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔[5] [6] [7] [8]

تعلیمی مراحل

مولانا غافر رضوی - تعلیمی مراحل سے گزرتے ہوئے

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن "چھولس سادات" میں حاصل کی؛ مولانا کی ذہنیت قابل داد و تحسین ہے کہ آپ درجہ اطفال سے پانچویں کلاس تک ہمیشہ ممتاز کا درجہ حاصل کرتے رہے۔ قابل ذکر ہے کہ مولانا کو بچپن سے ہی تعلیم سے لگاؤ رہا ہے۔ مکتب امامیہ سے فارغ ہونے کے بعد "چھولس سادات" میں موجود جامعہ رضویہ میں اپنی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ 2 فروری سنہ 2000ء میں عازم ایران ہوئے اور 4 فروری 2000ء میں قم المقدسہ ایران کی پاکیزہ سرزمین پر نزول اجلال فرمایا۔ یہ بات بھی قابل بیان ہے کہ مولنا تقریباً سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایران تشریف لے گئے تھے؛ ایران میں رہتے ہوئے فارسی اور عربی زبان سے بی اے اور ایم اے فائنل کر کے اکتوبر 2017ء میں واپس اپنے وطن پلٹ آئے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جب تک مولانا ایران میں رہے تو اس وقت تک اپنے تعلیمی سلسلہ کے ساتھ تحقیقی کاوشوں میں بھی مشغول رہے اور ان کی تحقیقی کاوشیں ویب سائٹس اور ہندوستان کے مشہور و معروف اخباروں میں قابل دید ہیں۔ مولانا سید غافر رضوی چھولسی دور حاضر کے صحافیوں کے درمیان ایک با صلاحیت اور اچھے صحافی شمار کیے جاتے ہیں، تحقیقی کاوشوں کے علاوہ زمانہ کے تقاضوں کے پیش نظر مولانا نے ٹیلیگرام چینل پر فارسی زبان کی کلاسیں بھی رکھیں جس میں کامیابی نے قدم چومے۔ مولانا نے ایران میں رہتے ہوئے تحقیقی کاوشوں کی بابت اسناد بھی حاصل کیں۔[9] مولانا کے ایران جانے کا تذکرہ چھولس سادات سے متعلق لکھی جانے والی کتاب یادوں کی بارات میں بھی موجود ہے جس میں ان کو "غافر رضا" کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[10] البتہ مولانا سے گفتگو کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ یہ انہی کا تذکرہ ہے لیکن ان کا اصلی نام "غافر حسن رضوی" ہے اور اس کتاب میں غلطی سے "رضوی" کی جگہ "رضا" لکھ دیا گیا ہے؛ اس غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ مولانا کے برادر بزرگ کا نام "مولانا ذاکر رضا رضوی" ہے تو اسی اعتبار سے "ذاکر رضا" کے پیش نظر "غافر رضا" لکھ دیا گیا ہے۔[11]



تبلیغی سرگرمیاں

مولانا غافر رضوی - تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف

یوں تو موصوف منبر سے وعظ و نصیحت میں بھی اپنی مثال آپ ہیں لیکن منبر کے علاوہ بھی ان کا جذبہ یہ ہے کہ بشریت کو زیادہ سے زیادہ راہ راست پر لایا جائے اور جو لوگ راہ ہدایت پر ہیں ان کو اسی راہ پر گامزن رکھا جائے نیز ان کو بھٹکنے نہ دیا جائے؛ اسی مقصد کے پیشِ نظر آپ نے پیام اسلام فاؤنڈیشن کی نگرانی قبول کرتے ہوئے اسی کے ذریعہ اپنی وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری کیا مولانا کی کلیپس آپ کے یوٹیوب چینل پر دستیاب ہیں، آپ کی ایک کلیپ اتحاد کا حقیقی مفہوم،[12]۔ ایک کلیپ ہفتہ وحدت کے عنوان سے،[13]۔ اور ایک کلیپ معجزہ کا حقیقی مفہوم،[14]۔ جیسے عناوین سرفہرست ہیں اس کے علاوہ عزاداری کے متعلق متعدد کلیپس اسی چینل پر دستیاب ہیں۔[15]




تقریری میدان

حجۃ الاسلام مولانا سید غافر رضوی چھولسی اسلامک اسکالر مسجد باب العلم اوکھلا وہار نئی دہلی؛ تقریر کی ایک جھلک

موصوف اردو زبان میں بہترین تقریر کرتے ہیں، متعدد بار تقریر سننے کا موقع فراہم ہوا؛ ایک مرتبہ مسجد باب العلم اوکھلا وہار (نئی دہلی) میں موصوف نے ایک نہایت عمدہ تقریر کی جس میں آپ نے فرمایا:"دہشت گردی کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے؛ ہر مذہب دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے؛ جو لوگ دہشت گرد ہیں ان کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ خداوند عالم نے سب کے لیے قوانین نافذ فرمائے ہیں لہذا ہم سب کو اس کے فرامین پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ موصوف کی مجالس اور تقاریر میں تبلیغ اسلام اور حقیقی اسلام کی شناخت کو لوگوں میں رائج کرنا، مختلف عناوین کے ساتھ ملاحظہ کیا جاتا ہے، مولانا موصوف کو داد و تحسین کی کوئی چاہت اور خواہش نہیں رہتی بلکہ ان کا اصلی مقصد لوگوں کو راہ راست دکھانا اور ان تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔مولانا موصوف کا ماننا ہے کہ منبر کا حق، بیان حق ہے؛ اگر ہم منبر سے حق بیانی نہیں کریں گے تو پھر کون سی جگہ سے حق بیانی ہوگی؟ یہ بات مولانا موصوف کے دہن مبارک سے چند بار مجلس خطاب کرتے ہوئے سنی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا موصوف اپنی ہر مجلس میں تبلیغی پہلوؤں پر زیادہ زور دیتے ہیں یہاں تک کہ اگر فضائل کی مجلس بھی پڑھیں تو اس سے تبلیغی گوشے نکالتے ہیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ ہماری کوئی سی مجلس ایسی نہیں جس میں فضائل اور تبلیغ دونوں گوشے نہ پائے جاتے ہوں لہٰذا ہر تبلیغ میں فضائل کے گوشے اور ہر فضیلت میں تبلیغ کے گوشے موجود ہیں۔ مولانا موصوف مزید بر آن اپنے کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ہمیں اپنی مجالس میں صرف ایک پہلو پر زور نہیں دینا چاہیے یعنی اگر ہم جنگیں پڑھ رہے ہیں تو خالی جنگوں کے واقعات نہ پڑھیں بلکہ ان میں فضائل اور تبلیغ کے گوشے بھی شامل کریں۔ اگر ہم تبلیغی مجلس پڑھ رہے ہیں تو اس میں مولا علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کی جنگوں کا تذکرہ نیز فضائل کے گوشوں پر دھیان دیں۔ اسی طرح اگر ہم فضائل کی مجلس پڑھ رہے ہیں تو خالص فضائل ہی نہیں بلکہ اس میں تبلیغ اور میدان کارزار کا ذکر بھی شامل ہونا چاہیے۔ [16]


اسناد و دستاویزات

موصوف نے جامعہ اردو علی گڑھ سے اردو ادب کی تمام ڈگریاں حاصل کیں یعنی ادیب سے لے کر معلم تک کی تمام اسناد لیں؛ اسی طرح الہ آباد عربی فارسی بورڈ سے آپ نے مولوی سے لے کر فاضل تک کی اسناد حاصل کیں۔ موصوف نے کون سے سنہ میں کون سی سند دریافت کی اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

عربی فارسی بورڈ الہ آبادسالجامعہ اردو علی گڑھسالجامعۃ المصطفیٰ (ایران)سالجامعہ رضویہسالجامعہ ملیہ دہلیسال
مولوی1996ءادیب1996ءکارشناسی (بی اے فارسی)2010ءکلاس پنجم و تحتانیہ2000ءایم اے فارسی2018ء
منشی1997ءادیب ماہر1997ءارشد (ایم اے فارسی)2017ء
عالم1998ءادیب کامل1998ءعربی مکالمہ2012ء
فاضل فقہ2005ءمعلم2015ء

۔[17]

یہ تو مولانا کی علمی صلاحیتوں کا آشکار نمونہ ہے، مزید برآن آپ نے تحقیقی میدان میں بھی کافی اسناد حاصل کی ہیں جن میں سے جشنوارہ شیخ طوسی نامی قم المقدسہ ایران میں منعقد ہونے والا سمینار اور جامعہ ہمدرد دہلی میں معنقد ہونے والا امام رضا علیہ السلام موضوع پر عالمی سیمینار سر فہرست ہیں۔[18]

مولانا کے اساتذہ

تحتانیہ اساتذہ کے اسمائے گرامی

* ماسٹر ہادی حسن صاحب* ماسٹر حسن امام صاحب* ماسٹر ناظم حسین صاحب* ماسٹر منوج کمار تیوتیا

فوقانیہ اساتذہ کے اسمائے گرامی

* مولانا شمشاد احمد رضوی صاحب قبلہ* مولانا مظفر حسین صاحب قبلہ* مولانا افضال حسین صاحب قبلہ* مولانا محمد مسلم صاحب قبلہ* مولانا فتحیاب صاحب قبلہ* مولانا عون محمد نقوی صاحب قبلہ
* مولانا بشارت حسین صاحب قبلہ* مولانا علی عباس حمیدی صاحب قبلہ* مولانا سلطان حسین رضوی صاحب قبلہ* مولانا علی عباس خان صاحب قبلہ* مولانا وزیر عباس صاحب قبلہ* مولانا مظاہر حیدری صاحب قبلہ

ایرانی اساتذہ کے اسمائے گرامی

* مولانا مجتہدی صاحب قبلہ* مولانا نوروزی صاحب قبلہ* مولانا لالانی صاحب قبلہ* مولانا سید حسینی صاحب قبلہ (عراقی)* مولانا سید محمد صاحب قبلہ (عراقی)* مولانا ولی زادہ صاحب قبلہ
* مولانا سید جواد نقوی صاحب قبلہ (پاکستانی)* مولانا سید مہدی محمدی صاحب قبلہ* مولانا ربانی صاحب قبلہ* مولانا محمد علی مقدادی صاحب قبلہ* مولانا حسن شکوری صاحب قبلہ* مولانا حائری صاحب قبلہ

مذکورہ اساتذہ کے علاوہ بھی بہت سے اسمائے اساتذہ ہیں جو تحریر میں طول کا سبب قرار پاسکتے ہیں اسی لیے ان سے غض نظر کیا جاتا ہے۔[19]

شاعری

مولانا غافر رضوی - شاعری میں مشغول

مولانا موصوف کی شاعری اپنی مثال آپ ہے؛ آپ نے بے شمار نوحہ جات، قصائد، فضائل، مناقب، نظم، مسدس اور مثنوی تحریر کیے۔[20] مزید بر آن مولانا موصوف کو تغزل اور غزل کے میدان میں بھی استادانہ مہارت حاصل ہے۔[21] موصوف کا ہر شعر لاجواب اور اپنی مثال آپ ہوتا ہے موصوف کی شاعری خود موصوف کی آواز میں بھی دستیاب ہے جس کے بعض ٹائٹلز میں "ادیب زمن" لکھا ہوا ملتا ہے۔[22] ۔ آپ کا شمار پندرہویں صدی ہجری کے بہترین اردو شعرا میں کیا جا سکتا ہے۔ آپ کی شاعری دیگر حضرات کی آواز میں بھی دستیاب ہے۔[23] ۔ نیز ٹیکسٹ کی صورت میں پڑھنا چاہیں تو ٹیکسٹ کی صورت میں بھی دستیاب ہے۔[24]

شاعری سے دلچسپی

مولانا کو 15 سال کی عمر سے شاعری سے بے حد لگاؤ رہا، اسی لگاؤ اور دلچسپی کی تاثیر ان کے کلاموں میں آج بھی نظر آتی ہے؛ کچھ مخلصین کی گزارش کے پیش نظر آپ نے کچھ فارسی مناقب و قصائد کا اردو میں منظوم ترجمہ بھی کیا؛ ان منظوم ترجموں میں سے ایران کے مشہور و معروف منقبت خواں علی فانی کی نظم بطاھا بیاسین کا عین اسی طرز پر ترجمہ کیا جس روش پر علی فانی نے وہ کلام پڑھا؛ اس کلام کے ترجمہ کی ابتدا دسمبر 2014 میں ہوئی اور یہ ترجمہ جنوری 2015 میں مکمل ہو چکا تھا جو حال حاضر میں منظر عام پر آچکا ہے۔[25]

تخلص

شاعری کے میدان میں آپ نے اپنی پہچان " فلکؔ چھولسی" سے بنائی ہے یعنی آپ کے کلاموں میں جو لکھا ہوا ٹائٹل ملتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے "مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی"۔[26] [27] [28] [29] البتہ جیسا کہ آپ سے انٹرویو لیتے ہوئے پتہ چلا کہ آپ نے اپنا تخلص " فلکؔ " 24 ذی الحجہ 1438 ہجری میں معین کیا ہے ورنہ اس سے پہلے آپ کا تخلص " غافرؔ " ہی تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کے بہت سے کلاموں میں " غافرؔ " تخلص پایا جاتا ہے اور بہت سے کلاموں میں " فلکؔ " ملتا ہے۔[30]

تحقیقی کاوشیں

مولانا موصوف کے آثار سے ظاہر ہے کہ آپ ایک عمدہ مؤلف، مترجم اور مقالہ نگار ہیں۔ آپ کے مضامین 2014ء سے 2016/17 تک ہندوستان کے مشہور و معروف اخباروں میں شائع ہوتے رہے ہیں، اب بھی گاہ بہ گاہ نظروں سے گزرتے رہتے ہیں۔ یوں تو موصوف کے مقالات کا شمار خود موصوف ہی کرسکتے ہیں کہ آپ نے ابتدائے شوق سے ابھی تک کتنے مقالات تحریر کیے ہیں! لیکن ان میں سے بعض مقالات کو موصوف کی وبلاگ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔[31] [32] نیز اردو زبان کی بعض سائٹس پر بعض مقالات کا وجود پایا جاتا ہے۔[33] [34] [35] [36]موصوف نے تالیف کے میدان میں کافی حد تک کام کیا ہے، آپ نے متعدد کتابیں تالیف کی ہیں اور بہت سی کتابوں کا فارسی اور عربی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا ہے؛ آپ کی بعض تصنیفات، تالیفات اور ترجمے آن لائن دستیاب ہو سکتے ہیں۔ موصوف کے آثار کو خود موصوف کے نام کے ذریعہ سرچ کر کے تلاش کیا جا سکتا ہے۔[37]

مولانا غافر رضوی - شجرہ چھولس سادات کی رونمائی میں انٹرویو دیتے ہوئے



شجرہ چھولس سادات

مولانا موصوف جہاں ایک بہترین محقق، مفکر، مضمون نگار، مقرر، مؤلف اور مترجم ہیں وہیں آپ ایک بہترین اصلاح اور نظر ثانی کرنے والوں میں بھی شمار ہوتے ہیں؛ آپ نے متعدد لوگوں کی اردو کتابوں اور متعدد فارسی مضامین کی اصلاح فرمائی ہے۔ آپ نے چھولس سادات کے شجرہ "گلستان رضویہ" جو مولانا سید ذاکر رضا چھولسی صاحب قبلہ نے آمادہ کیا ہے اس پر بھی دقت نظر کے ساتھ نظر ثانی کی ہے۔[38] ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہر انسان کو اپنا شجرہ یاد رکھنا ضروری ہے اسی بات کے پیش نظر یہ شجرہ آمادہ کیا گیا ہے۔ اس شجرہ کا ناشر پیام اسلام فاؤنڈیشن نامی ادارہ ہے۔ یہ شجرہ اسی ویکی پیڈیا پر بیرونی روابط میں شجرہ (چھولس سادات ۔ Shajra Chholas Sadat) کے نام سے موجود ہے شجرہ کے شوقین حضرات وہاں کلک کر کے چھولس سادات کے شجرہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔




حوالہ جات

بیرونی روابط

|٭| سوانح عمری مولانا |٭| --|٭| ساغر علم - Saghar-e-iLm |٭| --|٭| مولانا کا یوٹیوب چینل |٭| --|٭| پیام اسلام |٭| --|٭| شجرہ چھولس سادات ۔ Shajra Chholas Sadat |٭| --|٭| افکار ضیاء |٭| --|٭| اخبار ضیاء |٭| --|٭| شعور ولایتآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shaoorewilayat.com (Error: unknown archive URL) |٭|