عکرمہ بن ابوجہل

(عکرمہ بن ابی جہل سے رجوع مکرر)

عکرمہ بن عمرو عکرمہ بن ابو جہل عمرو بنِ ہشام المخزومی یہ ابوجہل کے بیٹے ہیں جو بعد کو اسلام لائے۔

عکرمہ بن عمرو/عكرمہ بن ابی جہل
عكرمہ بن عمرو بن ہشام بن مغیرہ

معلومات شخصیت
پیدائشسنہ 598ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفاتسنہ 636ء (37–38 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دریائے یرموک   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہام حکیم بنت حارث بن ہشام بن مغیرہ
رشتے داروالد: عمرو بن ہشام بن مغیرہ
والدہ: ام مجالد من بنی ہلال بن عامر بن صعصعہ
بھائی: زرارة، تممی
عملی زندگی
نسبمخزومی قرشی
تاریخ قبول اسلام8 ہجری (يوم فتح مكہ)
پیشہعسکری قائد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیںغزوۂ بدر ،  جنگ یرموک   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

عکرمہ نام، باپ کا نام ابو جہل تھا، نسب نامہ یہ ہے ،عکرمہ بن ابی جہل بن ہشام ابن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمرو بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ بن کعب بن لوئی قرشی مخزومیان کا لقب الراکب المہاجر تھا

قبل از اسلام

عکرمہ مشہور دشمن اسلام ابو جہل کے بیٹے ہیں، باپ کی طرح انھوں نے بھی اسلام اورمسلمانوں کے خلاف بڑی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا،اس معرکہ میں ان کا باپ معوذ اورمعاذ دو نوجوان کے ہاتھوں سے مارا گیا، باپ کو خاک وخون میں تڑپتا دیکھ کر عکرمہ نے اس کے قاتل معاذ پر ایسا وار کیا کہ معاذ کا ہاتھ لٹک گیابدر کے بعد جن لوگوں نے ابو سفیان کو مقتولین بدر کے انتقام لینے پرآمادہ کیا تھا،ان میں ایک عکرمہ بھی تھے، احد میں یہ اور خالد مشرکین کی کمان کرتے تھے، 5ھ میں جب تمام مشرکین عرب نے اپنے قبیلوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی تو عکرمہ بھی بنی کنانہ کو لے کر مسلمانوں کے استیصال کے لیے گئے فتح مکہ میں اہل مکہ نے بغیر کسی مقابلہ کے سپر ڈال دی تھی،لیکن بعضوں نے جن میں عصبیت زیادہ تھی مزاحمت کی، ان میں ایک عکرمہ بھی تھے غرض شروع سے آخر تک انھوں نے ہر موقع پر اپنی اسلام دشمنی کا پورا ثبوت دیا۔[1]یہ بھاگ کر یمن چلے گئے لیکن ان کی بیوی اُمِ حکیم جو ابوجہل کی بھتیجی تھیں انھوں نے اسلام قبول کرلیااوراپنے شوہر عکرمہ کے لیے بارگاہ رسالت میں معافی کی درخواست پیش کی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے معاف فرمادیا۔ اُمِ حکیم خود یمن گئیں اور معافی کا حال بیان کیا۔ عکرمہ حیران رہ گئے اور انتہائی تعجب کے ساتھ کہا کہ کیا مجھ کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاف کر دیا! بہرحال اپنی بیوی کے ساتھ بارگاہ رسالت میں مسلمان ہوکر حاضر ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور اس تیزی سے ان کی طرف بڑھے کہ جسم اطہر سے چادر گر پڑی۔ اور ملتے ہوئے فرمایا(مَرْحَباً بِالرَّاكِبِ المُهَاجِرِ) اے ہجرت کرنے والے سوار مرحبا پھر عکرمہ نے خوشی خوشی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت اسلام کی۔ (موطا امام مالک کتاب النکاح وغیرہ)[2][3]

شام کی فوج کشی

فتنہ ارتداد فروہونے کے بعد شام کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور تادمِ آخر نہایت جانفروشی سے لڑتے رہے، فحل کے معرکہ میں اس بہادری اور شجاعت سے لڑے کہ بے محابا دشمنوں کی صفوں میں گھستے چلے جاتے تھے،ایک مرتبہ لڑتے مارتے ہوئے صفوں کے اندر گھس گئے،سر اور سینہ زخموں سے چور ہو گیا، لوگوں نے کہا، عکرمہ! خدا سے ڈرو، اس طرح اپنے کوہلاک نہ کرو، ذرا نرمی سے کام لو، جواب دیا میں لات و عزیٰ کے لیے تو جان پر کھیلا کرتا تھا اورآج خدا اور رسول کے لیے جان بچاؤں ،خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔[4]شام کی تمام معرکہ آرائیوں میں یرموک کا معرکہ نہایت اہم شمار کیا جاتا ہے، اس میں خالد بن ولید نے ان کو ایک دستہ کا افسر بنایا تھا، عکرمہ نے افسری کا پورا حق ادا کیا، دوران جنگ میں ایک مرتبہ رومیوں کا ریلا اتنا زبردست ہوا کہ مسلمانوں کے قدم ڈگمگا گئے،عکرمہ نے للکار کر کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کتنی لڑائیاں لڑچکے ہیں اور آج تمھارے مقابلہ میں بھاگ نکلیں گے؟ اورآواز دی کہ کون موت پر بیعت کرتا ہے؟ اس آواز پر چار سو مسلمان ان کے ساتھ جان دینے کے لیے آمادہ ہو گئے،ان کو لے کر عکرمہ خالد ؓبن ولید کے خیمہ کے سامنے اس پامردی سے لڑے کہ چار سو آدمیوں میں سے اکثروں نے جامِ شہادت پیا، جو بچے وہ بھی زخموں سے بالکل چور تھے،عکرمہ اور ان کے دولڑکے زخموں سے چور چور ہو گئے،لڑکوں کی حالت زیادہ نازک تھی،خالد بن ولید انھیں دیکھنے کے لیے آئے اوران کے سروں کو زانو پر رکھ کر سہلاتے جاتے تھے اورحلق میں پانی ٹپکاتے جاتے تھے۔(طبری:215)

غزوات

عکرمہ کو گذشتہ اسلام دشمنی کی تلافی کی بڑی فکر تھی؛چنانچہ وہ قبول اسلام کے بعد ہمہ تن اس کی تلافی میں لگ گئے اورآنحضرتﷺ کی حیات میں جو موقع بھی اس قسم کا پیش آیا، اس کو انھوں نے نہ چھوڑا،حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں، کان عکرمۃ محمراً فی قتل المشرکین مع المسلمین۔[5]

فتنۂ ارتداد

لیکن فتح مکہ کے بعد آنحضرتﷺ کی زندگی میں جہاد کے کم مواقع پیش آئے، اس لیے عکرمہ کو تلافی کا پورا موقع نہ مل سکا، حضرت ابو بکر کے زمانے میں جب ارتداد کا فتنہ اٹھا تو عکرمہ کو تمنا پوری کرنے کا موقع ملا حضرت ابو بکر نے ان کو اور خذیفہ کو قبیلہ ازد کی سرکوبی پر مامور کرکے عمان بھیجا ،انھوں نے اس کے سردار لقیط بن مالک کو قتل کرکے بنی ازد کو دوبارہ اسلام پر قائم کیا اور بہت سے قیدی گرفتار کرکے مدینہ لائے۔ازدکا فتنہ فرو ہونے کے بعد ہی عمان کے دوسرے قبائل میں ارتداد کی وبا پھیل گئی اور وہ سب شہر میں جمع ہوئے،حضرت ابوبکرؓ نے پھر عکرمہ کو بھیجا، انھوں نے ان سب کو شکست دی،ان سے فارغ ہوئے تھے کہ بنی مہرہ مخالفت پر آمادہ ہو گئے،عکرمہ ان کی طرف بڑھے لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی اور بنی مہرہ نے زکوٰۃ ادا کردی۔[6]یمن کے مرتدوں کے مقابلہ پر زیاد بن لبید مامور ہوئے تھے اورانہوں نے بہت سے قبائل کی سرکوبی کرکے انھیں درست کر دیا تھا،لیکن ایک مرتد اشعث بن قیس نے زیاد پر حملہ کرکے ان سے تمام نقد وجنس جو انھوں نے مرتدین سے حاصل کیا تھا اورکل مرتد قیدی چھین لیے ،زیاد نے حضرت ابوبکرؓ کو اس کی اطلاع کی،حضرت ابوبکرؓ نے عکرمہ کو بھیجا، انھوں نے زیاد اور مہاجرین ابی امیہ کے ساتھ مل کر اشعث کے سیکڑوں پیروں کو تلوار کے گھاٹ اتاردیا اور اشعث کو مجبور ہوکر اپنے قبیلہ کے لیے امان طلب کرنی پڑی، لیکن امان نامہ کی تحریر میں اپنا نام لکھنا بھول گیا، عکرمہ نے تحریر پڑھی تو اس میں خود اشعث کانام نہ تھا، اس لیے اس کو پکڑ کے حضرت ابو بکرؓ کے پاس آئے،آپ نے استحساناً چھوڑ دیا۔[7]

شہادت

عکرمہ کی جائے شہادت میں بڑا اختلاف ہے،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فحل میں جامِ شہادت پیا اوربعضوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یرموک میں اور کچھ راوی اجنادین اور مرج صفر بتاتے ہیں،زیادہ صحیح یہ ہے کہ ان کی شہادت خلافت ابوبکر صدیق جنگ یرموک میں ہوئی[8]

عبادت

عکرمہ کو گذشتہ زندگی کے ہر پہلو میں تلافی مافات کی فکر تھی اس لیے قبول اسلام کے بعد اس پیشانی کو جو برسوں لات وعزیٰ کے سامنے سجدہ ریز رہ چکی تھی،خدا ئے قدوس کی رضا کے لیے وقف کر دیا تھا،ارباب سیر لکھتے ہیں،ثم اجتھد فی العبادۃ ،یعنی قبول اسلام کے بعد انھوں نے عبادت میں بڑی مشقت کی [9] قران مجید کے ساتھ والہانہ شغف تھا،اس کو چہرہ پر رکھ کر نہایت بے قراری کے ساتھ کتاب ربی کتاب ربی کہہ کر روتے تھے۔[10]

انفاق فی سبیل اللہ

یاد ہوگا کہ قبولِ اسلام کے بعد انھوں نے آنحضرتﷺ سے کہا تھا کہ جتنی لڑائیاں میں راہِ خدا کی مخالفت میں لڑچکا ہوں، اس کی دونی اس کی راہ میں لڑوں گا اور جتنی دولت اس کی مخالفت میں صرف کرچکا ہوں اس کی دونی اس کی راہ میں صرف کروں گا، اس عہد کو انھوں نے فتنہ ارتداد اور شام کی معرکہ آرائیوں میں پورا کیا اوران کے مصارف کے لیے ایک جبہ بھی بیت المال سے نہیں لیا،جب شام کی فوج کشی کے انتظامات ہونے لگے اورحضرت ابوبکرؓ معائنہ کرنے کے لیے تشریف لائے تو معائنہ کرتے ہوئے ایک خیمہ کے پاس پہنچے اس کے چاروں طرف گھوڑے ،نیزے اورسامانِ جنگ نظر آیا، قریب جاکر دیکھا تو خیمہ میں عکرمہ دکھائی دیے،حضرت ابوبکرؓ نے سلام کیا اوراخراجات ِ جنگ کے لیے کچھ رقم دینی چاہی، عکرمہ نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اورکہا مجھ کو اس کی حاجت نہیں ہے میرے پاس دو ہزار دینار موجود ہیں،یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے ان کے لیے دعائے خیر کی۔[11]

حوالہ جات