مالکی

مالکی (عربی: مالكي) اہل سنت میں فقہ کے چار مذاہب میں سے ایک ہے۔[1] آٹھویں صدی عیسوی میں مالک بن انس نے اس کی بنیاد رکھی۔ قرآن اور احادیث مالکی مذہب کے بنیادی مآخذ ہیں۔ دوسرے اسلامی فقہوں کی طرح مالکی مذہب بھی مدینہ کے لوگوں کی رائے کو شریعت کا مستند ذریعہ خیال کرتا ہے۔[2]

مالکی مذہب اہل سنت کے بڑے گروہوں میں سے ایک ہیں، شافعی مذہب اور مالکی مذہب کے پیروکار برابر تعداد میں ہیں، لیکن حنفی مذہب سے تعداد میں کم ہیں۔[3][4] مالکی عقیدے پر مبنی شریعت پر عمل زیادہ تر شمالی امریکا، مغربی افریقا، چاڈ، سوڈان، کویت، بحرین،[5] امارت دبئی (یو اے ای) اور سعودی عرب کے شمال مشرقی حصوں میں کیا جاتا ہے۔[3] ہر وہ ملک جہاں مسلمان رہتے ہیں، وہاں پر کم یا زیادہ چاروں اماموں کے پیروکار موجود ہیں۔

قرون وسطی کے عہد میں مالکی مذہب اسلامی یورپ بالخصوص الاندلس اور امارت صقلیہ میں بھی موجود تھا۔[6] تونس میں مسجد عقبہ انیسویں صدی سے گیارہویں صدی عیسوی تک مالکی تعلیمات کی اہم تاریخی مرکز رہی۔[7][8]

فقہ مالکی کے اصول

دارالاسلام میں فقہ کے مذاہب کا نقشہ۔

امام مالک کے فقہی منہج کا مبدا اہل حجاز کا وہ منہج ہے جس کا آغاز سعید بن مسیب نے کیا تھا۔ نیز اپنی کتب میں بھی اسے اجاگر کیا ہے۔ قاضی عیاض نے ان فقہی اصولوں کی تفصیل دی ہے جن پر امام مالک اعتماد کرتے تھے۔ ان کے نزدیک وہ اجتہاد جس پر عمل ہو سکے اور جو شریعت کے مزاج کے مطابق ہو، کی شرائط، اس کا ماخذ اور اس کے مراتب وغیرہ درج ذیل ہیں:[9]

اجتہاد کرتے وقت اللہ کی کتاب کو اس طرح مقدم رکھنا ہے کہ نصوص سے ہی اس کے مستفید ہونا ہے۔ اور پھر اس کے ظاہر معانی کو لیا جائے پھر اس کے مفہوم کو۔ پھر اسی طرح سنت میں متواتر اور مشہور کی ترتیب سے مستفید ہوا جائے۔ پھر مراتب نصوص کا لحاظ رکھا جائے جن میں ان کے ظواہر اور ان کے مفہوم، جو کتاب اللہ کے مطابق ہوں کو مقدم رکھا جائے۔ پھر اجماع پر انحصار کیا جائے بشرطیکہ وہ مسئلہ کتاب اللہ و سنت متواترہ میں نہ ہو۔ ان تینوں کی عدم موجودگی میں اس مسئلہ پر قیاس بھی کیا جا سکتا ہے اور قیاس سے استنباط بھی۔ کیونکہ کتاب اللہ تو قطعی الثبوت ہے اور متواترسنت بھی (جس کا تعلق سند یا احوال رواۃ سے نہ ہو)، اسی طرح نص بھی قطعی ہوتی ہے تو ان دونوں کو بہر حال مقدم رکھنا واجب ہو گا۔ پھر ان نصوص کے ظواہر اور مفہوم ہیں کیونکہ ان کے معنی کا بھی ان دونوں میں شامل ہونے کا احتمال ہے۔ ان کے بعد اخبار آحاد مقدم ہوں گی جن پر عمل کرنا واجب ہے یہ اس صورت میں جب مسئلہ کتاب و سنت متواترہ میں نہ ہو۔ خبر متواتر قیاس پر مقدم ہوگی۔[10]

مشہور مالکی کتب

یہ وہ کتب ہیں جن پر مالکی مسلک قائم ہے۔

کیفیت نماز

شرائط
نماز سے پہلے مندرجہ ذیل شرائط کا مکمل ہونا ضروری ہے[11]
  • طہارت حدث و خبث کا حامل ہونا
  • نجاستِ صضرٰی سے جسم کپڑوں اور عبادت والی جگہ کا پاک ہوناضروری ہے۔
  • سِترِ عورت
  • قبلہ کی جانب رخ کرنا
  • گفتگو سے پرہیز کرنا
  • غیر ضروری حرکت سے اجتناب کرنا
واجبات

مالکی مسلک میں نماز کے واجبات درج ذیل ہیں:[12][13]

  • نیت کرنا
  • تکبیر تحریمہ
  • فرض نماز کے لیے قیام کرنا
  • امام و مقتدی کا فاتحہ پڑھنا
  • رکوع کرنا اور اس سے اٹھنا
  • پیشانی پر سجدہ کرنا
  • دونوں سجدوں کے درمیان میں بیٹھنا
  • سلام پھیرنا
  • سلام کے لیے بیٹھنا
  • اطمینان کے ساتھ بیٹھنا
  • فرائض کو ترتیب سے کرنا
سنتیں

بہر حال مالکی مذہب میں نماز کی سنتیں، تو یہ ہیں:[12][14]

  • فجر میں، جمعہ میں اور چار اور تین رکعت والی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے بعد سورت پڑھنا۔
  • نماز کے لیے قیام کرنا
  • جہری نمازوں میں جہراً اور سری نمازوں میں سراً قرات کرنا
  • تکبیر تحریمہ کے علاوہ کی تکبیریں کہنا، یعنی ہر تکبیر مستقل سنت ہے اور مستقل رکن ہے۔
  • "سمع اللہ لمن حمدہ" کہنا، یہ رکوع سے اٹھتے وقت امام و مقتدی دونوں کو کہنا ہے۔
  • تشہد پڑھنا، گرچہ سجدہ سہو کا سجدہ کیا ہو۔
  • تشہد کے لیے بیٹھنا
  • آخری تشہد کے پڑھنے کے بعد درود پاک پڑھنا۔
  • دونوں قدم، دونوں ہتھیلیوں اور دونوں گھٹنوں پر سجدہ کرنا۔
  • امام و مقتدی کا سترہ رکھنا، اگر سامنے سے کسی کے گزرنے کا خدشہ ہو۔

حوالہ جات