ابراہم ایچ میزلو

ابراہم ایچ میزلو(Abraham H Maslow) نفسیات میں بیسویں صدی کی اہم شخصیات میں شامل ہے۔ اپنے نظریات اور مثبت سوچ کی وجہ سے اس نے انسانی سوچ کو پچھلی صدی میں بہت زیادہ متاثر کیا۔

ابراہم ایچ میزلو
(انگریزی میں: Abraham Maslow ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش1 اپریل 1908ء [1][2][3][4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیویارک شہر [6]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات8 جون 1970ء (62 سال)[1][2][3][4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مینلو پارک، کیلیفورنیا [7]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفاتدورۂ قلب [8]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفاتطبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ریاستہائے متحدہ امریکا   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہبالحاد [9]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمییونیورسٹی آف وسکونسن–میڈیسن [10]
کورنیل یونیورسٹی
نیویارک سٹی کالج   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیمنفسیات   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسنادبی اے [10]،  ایم اے [10]،  پی ایچ ڈی [10]  ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہاستاد جامعہ ،  ماہرِ عمرانیات ،  ماہر نفسیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانامریکی انگریزی ،  انگریزی [11]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عملنفسیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمتجامعہ برینڈائس [10]،  بروکلین کالج [10]  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میزلو کا ضروریات کا نظام

ابتدائی زندگی

میزلو 1906ء میں نیویارک، امریکہ میں ایک ان پڑھ خاندان میں پیدا ہوا۔ وہ سات بچوں میں سب سے بڑا تھا۔ وہ زہین لیکن شرمیلا تھا۔ اسنے نفسیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اپنی ایک رشتہ دار برتھا سے اسنے شادی کی۔ 1937ء سے 1951ء تک وہ بروکلائن کالج میں پڑھاتا رہا۔ دوسرے ماہرین نفسیات سے بھی متاثرہوا۔

وہ (Humanistic Psychology) کا بہت بڑا مغترف تھا۔ دوسرے ماہرین نفسیات کے برعکس جو بیماروں کا مطالعہ کرتے تھے میزلو نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں صحت مند لوگوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس وقت نفسیات کی دنیا میں فرآئڑ کا نظریہ شحصیت اور نظریہ کرداریت کا چلن تھا۔میزلو کی (Humanistic Psychology) ایک تیسری قوت کے طور پر سامنے آئی۔ اس کی نفسیات اس کے(Theory of Motivation) تحریکی نظرئے کے گرد گھومتی ہے۔

میزلو کا تحریکی نظریہ

وہ عمل جس میں ایک شخص بنیادی ضروریات سے اعلیٰ ضروریات تک جاتا ہے اور اپنی ذات کی شناخت کر لیتا ہے۔ اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پا لیتا ہے۔ اور وہ جو کچھ چاہتا ہے بن جاتا ہے۔ یہ میزلو کا تحریکی نظریہ کہلاتا ہے۔

میزلو نے انسانی ضروریات کو ایک سیڑھی کی ترتیب میں دیکھا۔ اس نے واضح کیا کہ انسانی ضروریات ایک ترتیب میں پوری ہوتی ہیں۔

اس نے محسوس کیا کہ اگر نچلے درجے والی ضروریات مثلا جسمانی ضروریات پوری نہ ہوں تو یہ اس شخص کو اعلیٰ درجے کی طرف جانے سے روک دیں گیں۔ وہ اپنی پیاس بھول جائے گا اگر اسے آکسیجن نہ ملی۔

جسمانی ضروریات

ان میں ہوا، خوراک، پانی، گھر اور مناسب درجہ حرارت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں حرکت کرنے، آرام کرنے، فضلات سے علیحدگی اور درد سے بچنے کی ضروریات شامل ہیں۔ میزلو اس پہ یقین رکھتا تھا اور اس کی تحقیقات نے ثابت بھی کیا کہ یہ سب انفرادی ضروریات ہیں۔ اگر یہ ضروریات پوری نہ ہـوں تو انسان ہر چیز بھول جائے گا اور انھیں حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایک شخص جو خطرناک حد تک بھوکا ہے وہ صرف کھانے کے خواب دیکھے گا، کھانے کو یاد رکھے گا، کھانے کے بارے میں سوچے گا اور اسے صرف کھانا چاہیے۔ لیکن انسان کی خواہشات کو کیا ہوتا ہے جب اس کے پاس کھانے کو بہت کچھہ ہو اور اس کا پیٹ ہمیشہ بھرا رہتا ہو؟ اچانک دوسری اور اونچی اور ضروریات ابھرتی ہیں اور بجائے بھوک کہ یہ انسان پر حاوی ہو جاتی ہیں۔

حفاظتی ضرورت

جب جسمانی ضروریات زیادہ تر پوری ہوجاتی ہیں تو پھر ضروریات کا ایک اور درجہ چھڑنے کی امنگ جاگتی ہے۔ انسان محفوظ ماحول، استحقام اور اپنی حفاظت میں بہت دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ اس کے اندر تنظیم، قانون اور حدود کی خواہش پیدا ہوتی ہے منفی نقتہ نظر سے اسے دیگھیں تو ایسا انسان اپنی بھوک اور پیاس کی بجائے اپنے خوف اور پریشانیوں کے بارے میں زیادہ سوچتا ہے۔ وہ ایک محفوظ علاقے میں ایک گھر، محفوظ ملازمت، فاتو پیسے اور اپنے بڑھاپے کے لیے کچھہ بچانا چاہے گا۔ بہت سارے لوگ اپنے بچوں کو ہی اپنی حفاظت سمجھتے ہیں۔

تعلقات کی ضروریات

جب جسمانی اور اور حفاظتی ضروریات قریب قریب پوری ہو جائیں تو پھر دوستوں محبت بچوں اور تعلقات کی ضرورت ابھرتی ہے۔ اس ضرورت کی عدم موجودگی تنہائی اور سماجی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔

عزت نفس

اس کے دو حصے ہیں اب انسان میں شہرت، توجہ اور عزت حاصل کرنے کی خوہش جاگتی ہے۔ اعتماد، مقابلہ بازی اور آزادی اب نئی ضروریات ہیں۔ ان میں کامیابی اس کی اپنی ذات میں عزت نفس پیدا کرتی ہے اور یہ پھر ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتی ہے۔

میزلو نے اوپر بیان کئی گئی ضروریات کو انسان کی بنیادی ضروریات قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک بنیادی ضروریات کا پورا ہونے کے لیے کچھہ شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ یہ شرائط بولنے کی آزادی، مرضی کا کام کرنے کی آزادی، علم کو حاصل کرنے کی آزادی، اپنے تحفظ کی آزادی، انصاف، عدل، ایمانداری اور معاشرے میں ترتیب ہیں۔ رازداری، بددیانتی اور بے انصافی بنیادی ضروریات کے لیے تباہ کن ہیں۔

خود شناسی

جب اوپر بیان کی گئی سب ضروریات پوری ہوں تو خود شناسی کی ضرورت ابھرتی ہے۔ میزلو کے نزدیک یہ جینے کا سب سے اوپر والا درجہ ہے۔ میزلو کے نزدیک خود شناسی وہ درجہ ہے جس میں انسان سمجھتا ہے کہ وہ پیدائشی طور پر بنا ہی اس کے لیے تھا میزلو نے مندرجہ ذیل لوگوں کو خود شناس قرار دیا:ابراہم لنکن، تھامس جیفرسن، البرٹ آئن سٹائن، ولیم جیمز اور سپینوزا۔ میزلو کے خیال میں دنیا کی دو فیصد آبادی ہی خود شناس ہے۔

خود شناس لوگوں کی خصوصیات

خود شناس لوگ حقیقت شناس لوگ ہوتے ہیں۔ وہ جعلی اور اصلی جھوٹ اور سچ میں فرق کر سکتے ہیں۔ خود شناس اپنی ذات سے باہر مسائل پر توجہ مرکوز کر سکتے ہيں۔ وہ تحلیقی ہوتے ہیں اور بہت زیادہ سماجی ضوابط کے پابند نہیں ہوتے۔

اس درجہ پر ڈیوٹی لطف ہو جاتی ہے اور کام سے محبت ہو جاتی ہے۔ کام اور چھٹی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اس درجے پر لوگ خالصتن اپنی مرضی سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ وہ اختلافات پر خوف زدہ ہونے کی بجائے مزہ لیتے ہيں۔ وہ اپنے دوستوں کی کامیابیوں پر خوش ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک راستہ بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ منزل وہ اکیلے بھی خوش رہ سکتے ہيں ان کی قدریں جمہوری ہوتی ہیں۔ بہت زیادہ لوگوں سے تعلقات کی بجائے چند لوگوں سے تعلق زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ان کے تجربات و احساسات کی شدت عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جو انھیں زندگی فطرت اور خدا کے قریب لے آتی ہے۔

محمد علی جناح کو بھی ہم خود شناس کہہ سکتے ہیں۔

میزلو کی کتابیں

  • Motivation and Personality