انتونی لائرنٹ لاوئزر

علمِ کیمیا کی ترقی میں عظیم فرانسیسی سائنس دان انتونیو لائرنٹ لاوئزر کا نام بہت اہم ہے۔26 اگست 1743ء میں وہ پیرس میں پیدا ہوا۔

انتونی لائرنٹ لاوئزر
(فرانسیسی میں: Antoine Laurent Lavoisier ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش26 اگست 1743ء [1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیرس [1][8][9][10]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات8 مئی 1794ء (51 سال)[1][2][3][4][5][7][11]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پلیس دے لا کونکارد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفاتسر قلم [12]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفاتسزائے موت [10][1]  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت فرانس (26 اگست 1743–21 ستمبر 1792)
فرانسیسی جمہوریہ اول (22 ستمبر 1792–8 مئی 1794)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکنرائل سوسائٹی [13]،  فرانسیسی اکادمی برائے سائنس [14]،  امریکن فلوسوفیکل سوسائٹی [15]  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمیپیرس لا فیکلٹی (1761–1764)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسنادlicence اور licentiate degree in law   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہکیمیادان [16]،  ماہر معاشیات ،  ماہر حیاتیات ،  طبیعیات دان ،  اکیڈمک ،  وکیل ،  ماہر فلکیات ،  مصنف [17]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانفرانسیسی [18][19]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عملکیمیا   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاںقانون بقائے مادہ   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
طلائی تمغا (1766)
رائل سوسائٹی فیلو    ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 

علمِ کیمیا کی قلت

اس دور میں علمِ کیمیا دوسرے علوم جیسے طبیعیات,ریاضیات اور علمِ ہیئت کی نسبت بہت کم تر حالت میں تھا۔ کیمیا دانوں نے متعدد انفرادی شواہد دریافت کیے تھے۔ لیکن کوئی ایسا مناسب نظریاتی ڈھانچہ موجود نہ تھا جن میں ان جداگانہ معلومات کو ترتیب دیا جا سکے۔ اس دور میں یہ غلط عقیدہ عام تھا کہ ہوا اور پانی کائنات کے بنیادی عناصر ہیں۔ بد ترین بات یہ تھی کہ آگ کی ہیئت سے متعلق ہنوز غلط فہمیاں عام تھیں۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ تمام آتش گیر مادوں میں ایک مفروضاتی آتشی عنصر موجود ہوتا ہے اور یہ کہ افروختگی کے دوران آتش گیر مادہ اِسی آتشی عنصر کو ہوا میں چھوڑتا ہے۔

گذشتہ کیمیا دانوں کے نظریے

1754ء سے 1774ء کے درمیانی عرصہ میں قابل کیمیا دان جیسے جوزف بلیک, جوزف پریسلے, ہنری کاوینڈش اور دیگر نے آکسیجن, ہائڈروجن, نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیسیں الگ کر لیں تھیں۔لیکن چونکہ یہ لوگ "آتشی عنصر" والے نظریے کو تسلیم کرتے تھے۔ وہ ان کیمیائی عناصر کی نوعیت اور افادیت کے فہم کے یکسر نا اہل تھے۔ جو انھوں نے دریافت کیے تھے۔ مثال کے طور پر آکسیجن کو رد آتشی عنصر قرار دیا گیا تھا۔یعنی وہ ہوا جو تمام آتشی عنصر سے منزہ ہوتی ہے۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ جب تک ان تمام بنیادی نظریات کی اصلاح نہ ہو جاتی۔ کیمیا میں حقیقی ترقی ممکن ہی نہ تھی۔

لاوئزر کے جدید نظریے

لاوئزر نے ان تمام بے بنیاد نظریات کا رد کیا۔ پہلے پہل اس نے آتشی عنصر والے نظریے کا رد کیا کہ آتشی عنصر نام کے مادے کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اور یہ کہ افروختگی کا عمل جلتے مادے کے آکسیجن کے ساتھ کیمیائی اشتراک پر مبنی ہوتا ہے۔

دوسرا یہ کی پانی بنیادی عنصر ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ تو خود دو عناصر آکسیجن اور ہائیڈروجن کا کیمیائی مرکب ہوتا ہے۔ اور نہ ہی ہوا کوئی بنیادی عنصر ہے۔ بلکہ یہ بھی دو گیسوں آکسیجن اور نائیٹروجن کا آمیزہ ہے۔

ان نظریات کو لاوئزر نے 1789ء میں اپنی کتاب "کیمیا کے عناصر" میں ایسے با جواز دلائل کے ساتھ پیش کیا کہ نئی نوجوان نسل جلد ہی ان سے متفق ہو گئی۔

لاوئزر کا دوری جدول

اپنی کتاب میں لاوئزر نے ان عناصر (جن کو وہ بنیادی عناصر مانتا تھا) کو ایک جدولی صورت میں لکھا۔ اس کا یہ جدول غلطیوں سے پاک تو نہ تھا لیکن آگے چل کر اسی کی سوچ سے فائدہ اٹھا کر "جدید دوری جدول" بنا یا گیا.

اصول تحفظٍ مادہ

لاوئزر ہی وہ پہلا شخص تھاجس نے کیمیائی عمل میں تحفظ مادہ(قانون بقائے مادہ) کے اصول کو صراحت کے ساتھ بیان کیا۔ایک کیمیائی عمل اصل عناصر کو نئے سرے سے ترتیب دے سکتا ہے۔ لیکن اس سے مادہ فنا نہیں ہوتا اور آخری پیداوار بلحاظ وزن اتنی ہی ہوتی ہے جو اصل عناصر کا وزن تھا۔

وکالت سے دوری

لاوئزر نے جوانی میں ہی قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اگرچہ اس نے قانون کی سند حاصل کی اور فرانسیسی وکلا کی انجمن میں شامل ہوا۔ لیکن اس نے عملاً کبھی اس تعلیم کو استعمال نہ کیا۔ وہ انتظامی ذمہ داریاں اور عوامی خدمات انجام دیتا رہا اور "فرنچ رائل اکیڈمی آف سائنس"میں فعال رہا۔

انقلابِ فرانس اور لاوئزر کو سزائے موت

انقلاب فرانس کے بعد لاوئزر انقلابی حکومت کے لیے مشتبہ افراد میں شامل تھا۔ گرفتاری کے بعد اس پر مقدمہ چلا۔ دورانٍ مقدمہ اس کی علم کیمیا کے لیے بے بہا خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک معافی کی درخواست جمع کرائی گئی۔ مگر جج نے یہ کہتے ہوئے یہ درخواست مسترد کر دی کہ جمہوریت کو ایسے ذہین لوگوں کی ضرورت نہیں۔

لاوئزر کے قریبی ساتھی اور عظیم ریاضی داں لاگرینج کا یہ بیان کافی حد تک حق پر مبنی تھا کہ اس سر کو قلم کرنے میں شاید ایک لمحہ بھی صرف نہ ہو مگر ایسا سر دوبارہ پیدا ہونے میں صدیاں لگ جائیں گی۔

8 مئی 1794ء کو اسے پیرس میں پھانسی دے دی گئی۔

حوالہ جات