نظامی گنجوی

شاعر ایرانی

نظامی گنجوی ایرانی شاعر ہے جو چھٹی صدہجری میں شہر گنجہ میں پیدا ہوئے ان کی تاریخ ولادت 520 ہجری سے 525 ہجری قمری تک بتائی گئی ہے۔ ان کا نام الیاس اور کنیت ابو محمد؛ لقب نظام الدین اور تخلص نظامی تھا ۔[3] نظامی کی وجہ شہرت ان کی مثنویاں ہیں جن میں مخزن الاسرار، خسرو شیریں اور لیلیٰ مجنوں نمایاں ہیں۔ وہ اپنے زمانے کے رائج علوم میں عبور رکھتے تھے شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں حکیم کا لقب دیا گیا ہے وہ علم نجوم اور فارسی، عربی اور دیگر زبانوں پر کامل عبور رکھتے تھے انھوں نے تاریخ یہود و نصاری اور پہلوی کا مطالعہ کیاتھا ان علوم کے علاوہ انھیں طب سے سب سے زیادہ لگاؤ تھا شاید اسی لگاؤ کی وجہ سے ان کے اشعارمیں طب کی اصطلاحات اور دواؤں نیز امراض کے نام دیکھنے کو ملتے ہیں ان کے اشعار کا مجموعہ پنج گنج نظامی یا خمسہ نظامی کے نام سے موجود ہے ۔

نظامی گنجوی
(فارسی میں: نظامی گنجوی ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نظامی گنجوی کی قالین پر بنی تصویر (1939). گنجا عجائب گھر, آذربائیجان.

معلومات شخصیت
پیدائش1141 (اندازہً) (قریب ترتاریخ 1130ء کے ارد گرد بھی ذکر کی گئی ہے)
گنجہ (ابھی آذربائیجان)
وفات1209
گنجا
مدفنگنجہ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریتسلجوق خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسلایرانی
عملی زندگی
پیشہشاعر [1]،  مصنف [2]،  فلسفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبانفارسی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانفارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثرفردوسی, فخرالدین اسد گرگانی, ضیغم الدين رزاق علی گیلانی, سنائی, اسدی توسی, خاقانی
متاثرسعدی, امیر خسرو, رومی, حافظ, خواجہ کرمانی, جامی, واشی بافقی, مکتبی شیرازی, سلمان ساوجی, حاتیفی, جمالی, حافظ نواب علی, علی شیر نوی, فضولی, احمد خانی اور بعد کے مشرقی اسلامی دنیا شعرا۔

ابتدائی حالات

نظامی آذربائیجان کے نواح میں گنجا یا گنجہ نامی دیہات میں پیدا ہوئے۔ نظامی کا ابھی بچپن ہی تھا کہ والد کا وصال ہو گیا۔ اس غم کا اثر نظامی پر آخر عمر تک رہا۔ شہر گنجہ سرزمین ایران کا مشہور شہر تھا یہ شہر دریائے ارس اور دریائے کر کے درمیان واقع تھا یہ علاقہ دنیاے اسلام اور مسیحی خطے کے درمیان سرحد مانا جاتا تھا اسی وجہ سے عالم اسلام کے مجاھدین اپنی مقدس سرزمین کا دفاع کرنے کے لیے یہاں پر جمع ہوتے تھے یہاں کے باشندوں کو ارانی کہا جاتا تھا ان کی زبان ایرانی اور لہجہ ارانی تھا ارانی لہجہ اس زمانے میں رائج آذری لہجے سے ملتا جلتا تھا۔ شاعری کے ماحول میں تربیت پائی، اس لیے جلد ہی خود شعر کہنے لگے۔

شاعری

  • نظامی نے پہلی مثنوی مخزن الاسرار 1174ء میں لکھی، جس کو بہرام شاہ رومی کے نام معنون کر کے پانچ ہزار دینار سرخ اورایک اونٹ انعام پایا۔ اس میں شاعری کی تعریف کی گئی ہے۔
  • دوسری مثنوی خسرو شریں، ساسانی دور کی ملکہ شیریں اور خسرو پرویز کے عشق کی داستان پر مبنی ہے، اس میں کل چھ ہزار اشعار ہیں۔ یہ مثنوی 1180ء میں لکھی گئی۔ اس مثنوی کو طغرل بن ارسلان سلجوقی کے نام کیا اور اس سے چودہ دیہات جاگیر انعام میں پائے۔
  • شروان شاہ ابو المظفر اخستان بن منوچہر نے ایک بار نظامی سے مشہور عربی قصے لیلیٰ مجنوں کو لکھنے کی فرمائش کی۔ نظامی نے چار ہزار اشعار پر 1188ء میں اس کو مکمل کر کے شروان کے نام معنون کیا۔
  • 1196ء میں نظامی نے ساسانی دور کے قصے ہفت پیکر کو مثنوی کی صورت لکھا اور اسے امیر مراغہ علاءالدین کے نام منسوب کیا۔
  • پانچویں مثنوی جس کو اس نے سکندر نامہ، شرف نامہ، مقبل نامہ اور اقبال نامہ جیسے نام دیے ہیں، اس کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں سکندر یونانی کو فاتح اور دوسرے میں حکیم و پیغمبر بتایا ہے۔ یہ مثنوی نصیرالدین ابو بکر محمد جہاں پہلوان کے نام معنون کی ہے۔ یہ 1200ء میں لکھی گئی۔ امیر خسرو نے اسی سکندر نامہ کے جواب میں مثنوی آئینہ سکندری لکھی تھی۔

انی پانچ مثنویوں کو خمسہ نظامی کہتے ہیں۔ خمسہ نظامی کی مقبولیت سے متاثر ہو کر اور شعرا نے بھی خمسہ لکھیں، مگر صرف امیر خسرو اور جامی کے ہی خمسہ نے مقبولیت حاصل کی۔[4]

نمونہ کلام

بہ مردم درآمیز اگر مردمیکہ به آدمی خوگر است آدمی

تنقید

نظامی کے کلام میں پندگوئی کو اہم مقام حاصل ہے۔ انھوں نے مثنویوں میں اپنے لڑکے محمد نظامی کو نصیحتیں کی ہیں لیکن یہ نصیحتیں ہر نوجوان کے لیے ہو سکتی ہیں۔ ان کا پیرایہ بیان اثر پزیر اور دل نشین ہے۔ نصیحت عموما ناگوار ہوتی ہے لیکن ان کے کہنے کا انداز ایسا ہے کہ تلخی پیدا ہونے نہیں پاتی۔ مثنویوں میں کئی مختصر قصے نظم کیے ہیں اور ان سے اچھے نتائج استخراج کیے ہیں۔ ان کی مثنویاں نہایت سبک، مترنم اور رواں ہیں۔ ان میں نغمگی ہے اور سازوں کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہیں اور پڑھی جاتی ہیں۔ نظامی فن موسیقی سے بھی واقف تھے۔ مثنوی خسرو شیریں میں انھوں نے تیس راگوں کے نام گنائے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مثنویوں میں ان کا لہجہ مترنم ہے۔ انھوں نے اپنی مثنویوں کی ابتدا عموما طلوع آفتاب، تاروں بھری رات یا باد نسیم کے صبح کے ہلکے جھونکوں سے کی ہے۔ ان کی منظر کشی اور عکاسی نہایت دلکش ہے۔ تازہ اور اچھوتے مضامین۔ استعارے ان کے کلام کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ مثنوی روزمرہ میں لکھی جاتی ہے۔ یہ خصوصیت فردوسی کے بعد نظامی میں نظر آتی ہے۔ انھوں نے بعض ایسے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں جو صرف ان کے صوبہ میں بولے جاتے تھے۔ نظامی نے بے جا مدح سرائی نہیں کی۔ چند قصیدے بھی لکھے ہیں اور چند غزلیں بھی۔ چند قطعات بھی ہیں اور رباعیات بھی۔ ان سب اصناف میں نظامی نے اپنے شعر کی عظمت کو قائم رکھا ہے۔ ساقی نامہ لکھنے کی روایت کا آغاز انھیں سے ہوتا ہے۔

وفات

نظامی نے ساری عمر اپنے وطن گنجہ میں ہی گزاری وہ صرف ایک بار ہی شہر سے باہر تبریز گئے۔ نظامی نے 80 سال کی عمر میں وفات پائی انھیں گنجہ میں ہی سپرد خاک کیا گيا۔ شہر باکو کے مرکزی اسکوائر میں نظامی گنجوی کا مجسمہ نصب کیا گيا ہے ۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات