ہشام بن عروہ

ہشام ابن عروہ ابن زبیر قرشی مدنی ہیں، مدینہ منورہ کے مشہور تابعی ہیں، بڑے محدث ہیں، بڑے علما سے ہیں

ہشام بن عروہ
(عربی میں: هشام بن عروة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشسنہ 680ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفاتسنہ 763ء (82–83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ
دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدعروہ بن زبیر   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
تلمیذ خاصعبد اللہ ابن مبارک   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہالٰہیات دان ،  محدث ،  فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عملعلم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ہشام نام، ابو عبد اللہ کنیت ،مشہور صحابی حضرت زبیر بن عوام کے پوتے تھے ان کے والد عروہ بھی بڑے جلیل القدر تابعی اور مدینہ کے ساتھ مشہور فقہا میں سے ایک تھے ان کے حالات اوپر گذر چکے ہیں۔اکابر صحابہ میں انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو دیکھا تھا،ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے اور میرے بھائی محمد کو ابن عمرؓ کے پاس بھیجا گیا،انھوں نے گود میں بٹھا کر ہمارا بوسہ لیا [1]غالبا اسی یا کسی اورملاقات میں ابن عمرؓ نے ان کے سرپردستِ شفقت پھیر کر انھیں دعادی۔[2]

ولادت

ہشام کی 61ھ مدینہ میں پیدا ہوئے اکابر صحابہ میں انھوں نے عبد اللہ بن عمرکو دیکھا تھا،ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے اور میرے بھائی محمد کو ابن عمر کے پاس بھیجا گیا،انھوں نے گود میں بٹھا کر ہمارا بوسہ لیا [3] غالبا اسی یا کسی اورملاقات میں ابن عمرنے ان کے سرپردستِ شفقت پھیر کر انھیں دعادی۔[4]

فضل وکمال

ہشام ایک جلیل القدر تابعی کے لڑکے اورایک جلیل القدر صحابی کے پوتے تھے اس لیے علم وعمل کی دولت گویا انھیں وراثۃملی تھی، ان کا شمار ان کے عہد کے علمائے تابعین میں تھا، امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق ،جلالت اورامامت پر سب کا اتفاق ہے۔[5]

حدیث

حدیث کے ممتاز حافظ تھے ،علامہ ابن سعد ان کو ثقۃ ثبت کثیر الحدیث اور حجت اورحافظ ذہبی ،امام،حافظ اورحجت لکھتے ہیں [6] ائمہ فن ان کی وسعتِ علم کے اتنے معترف تھے کہ ابو حاتم رازی ان کو امام حدیث اوروہیب،حسن بصری اورابن سیرین کا درجہ دیتے تھے۔[7]

شیوخ

صحابہ میں انھوں نے صرف اپنے چچا عبد اللہ بن زبیرؓ اوردوسرے علما میں عبد اللہ بن عروہ،عباد بن عبد اللہ،عمروبن خزیمہ عوف بن حارث بن طفیل،ابی سلمہ بن عبد الرحمن،ابن منکدر وہب بن کیسان،صالح بن ابی صالح السمان ،عبد اللہ بن ابی بکر،عبد الرحمن بن سعد اور محمد بن ابراہیم وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔

تلامذہ

ان کے تلامذہ میں یحییٰ بن سعید انصاری،ایوب سختیانی،مالک بن انس،عبید اللہ بن عمر،ابن جریج،سفیان ثوری،لیث بن سعد،سفیان بن عینیہ،یحییٰ بن سعید بن القطان اوروکیع ابن جراح لائق ذکر ہیں۔

فقہ

ان کے والد عروہ مدینہ کے سات مشہور فقہاء میں سے تھے،ان کے تفقہ سے ان کو وافر حصہ ملا تھا،حافظ ذہبی ان کو فقیہ لکھتے ہیں۔[8]

زہد وورع

علم کے ساتھ عمل واخلاق سے بھی آراستہ تھے،ابن حبان ان کو فاضل اورورع لکھتے ہیں۔[9]

تہذیب لسان

نہایت مہذب اورشائستہ تھے،ان کی زبان سے کبھی کوئی بے جا کلمہ نہ نکلتا تھا، منذر بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ میں نے ہشام کی زبان سے ایک مرتبہ کے سوا کبھی کوئی بُرا کلمہ نہیں سُنا۔[10]

فیاضی

نہایت فیاض اورسیر چشم تھے،ان کی فیاضی اعتدال سے اتنی بڑھ گئی تھی کہ ایک لاکھ کے مقروض ہو گئے تھے۔

بغداد کا سفر

اس کی ادائیگی کی فکر میں وہ خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی کے پاس بغداد گئے اس نے بڑا خیر مقدم کیا،انھوں نے اپنی غرض پیش کی،اس نے پوچھا کتنا قرض ہے،فرمایا ایک لاکھ منصور نے کہا آپ اس افضل وکمال کے باوجود اتنا بڑا قرض لے لیتے ہیں،جس کی ادائیگی آپ کے امکان میں نہیں،انھوں نے کہا خاندان کے بہت سے لڑکے جوان ہو گئے تھے مجھے خوف تھا کہ اگر ان کی شادی نہ کردی گئی تو وہ بے خانماں ہوجائیں گے، اس لیے میں نے خدا اورامیر المومنین کے اعتماد پر ان کا گھر بسا کر ان کا ٹھکانہ کر دیا اوران کی جانب سے ولیمہ کیا،یہ سارا قرض اسی کا ہے،ابو جعفر منصور نے حیرت کے لہجہ میں دو مرتبہ ایک لاکھ ایک لاکھ کہا اوردس ہزار روپیہ انھیں دینے کا حکم دیا،انھوں نے کہا امیر المومنین جو کچھ دے رہے ہیں وہ خوش دلی سے دے رہے ہیں (یا جبر سے) میں نے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص خوش دلی سے عطیہ دیتا ہے،تو اس میں دینے والے اورلینے والے دونوں کو برکت ہوتی ہے،منصور نے کہا میں نے خوش دلی سے دیا ہے۔[11]

وفات

بغداد ہی میں 146ھ میں وفات پائی، اتفاق سے اس دن عباسیوں کے ایک بڑے جلیل القدر اورنامور غلام کا بھی انتقال ہو گیا تھا،اس لیے دونوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھائے گئے،لیکن منصورنے ہشام کے رتبہ کی وجہ سے ان کے جنازہ کی نماز پہلے پڑھائی ہارون کی ماں خیز ران کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔[12][13]

حوالہ جات