برسر عام رضاعت

برسر عام رضاعت ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت بچوں کی رضاعت کو کسی عوامی یا نیم عوام جگہ پر کی جائے جس میں اس عمل کا عوام الناس مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس عمل پر سماج کا رد عمل اور قانونی تحفظ کافی مختلف ہے۔ کئی ممالک میں، جن میں عالمی جنوب اور کئی مغربی ممالک شامل ہیں، برسر عام رضاعت کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان ممالک میں رضاعت کو تحفظ فراہم کرنے والے کئی قوانین موجود ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں جن میں ریاستہائے متحدہ امریکا اور یورپ کے مقامات اور کچھ یشیائی ممالک شامل ہیں، خواتین کو واضح قانونی حق حاصل ہے کہ وہ عوامی جگہ اور کام کی جگہ پر بچوں کو دودھ پلائے۔ کچھ ممالک جیسے کہ سعودی عرب میں خواتین کو پستانوں کے عوام کے رو بہ رو افشا پر روک ہے، بھلے وہ محض دودھ پلانے ہی کے لیے نہ ہو۔

بین الاقوامی رضاعت کی علامت تاکہ علاقے کو نجی رضاعت کا علاقہ قرار دیا جائے۔
بھارت میں رضاعت کے لیے ایک عوامی پارک میں فراہم کردہ الگ کمرا

حالانکہ یہ عادت قانونًا درست یا سماجی رو سے قابل قبول کیوں نہ بن چکی ہے، کچھ ماؤں میں عوام الناس کے آگے پستانوں کے رضاعت کے دوران افشا میں جھجک کی کیفیت ہو سکتی ہے۔[1][2] دوسرے لوگوں کے واقعی یا امکانی اعتراضات، منفی تبصروں یا ہراسانی کے پیش نظر یہ اندازہ کیا گیا ہے کہ پوری دنیا کی 63% ماؤں نے عوامی طور پر دودھ پلایا ہے۔[3] [4] ذرائع ابلاغ سے ایسی کئی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن میں ساتھی کام کرنے والوں یا عوام کے ارکان نے عورتوں کے دودھ پلانے پر اعتراض کیا ہے یا اسے روکا ہے۔[5] کچھ مائیں منفی توجہ سے بچتی ہیں اور دوسری جگہوں پر جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ مگر کچھ ماؤں نے اپنے ساتھ روا سلوک کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور جہاں اس عمل کو قانونی تحفظ حاصل ہے، ان عورتوں نے قانونی کارروائی کے اقدامات کیے یا احتجاجی مظاہرے کیے۔[6] احتجاجوں میں خاطی تجارتی ادارے کا عوامی بائیکاٹ، بطور خاص کسی مقام پر دودھ پلانے کا پروگرام منظم کرنا، وغیرہ شامل ہے۔ اس کی جوابی کارروائی میں کچھ کمپنیوں نے معذرت خواہی کی ہے اور اپنے ملازمت کو متعلقہ امور کی تربیت دینے سے اتفاق کیا یے۔

بہت سارے ممالک میں عوامی دباؤ کے زیر اثر رضاعت یاماں کے دودھ کی غیر معمولی اہمیت پر زور دیا جانے لگا ہے۔ بلکہ بہت سارے ممالک میں تو عوامی مقامات پر ماؤں کے دودھ پلانے کے لیے قانون سازی بھی کی گئی ہے جس کے تحت ماں کو دودھ پلانے کے دوران تحفظ فراہم کیا جاسکے گا۔اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت اور بہت ساری غیر سرکاری تنظیموں نے مل کر کام کیا ہے ۔ اس کے تحت ماؤں کے دودھ پلانے کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ اس کے فوائد کے بارے میں آگہی بھی دی جاتی ہے۔ خاص طور پر 25 سال سے کم عمر ماوں کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔[7] یہ کوششیں اپنے طور پر کام یاب بھی ہو رہی ہیں اور کئی خواتین کسی جھجک کے بغیر اپنے نو نہالوں کو دودھ پلانے کی جانب راغب بھی ہو رہی ہیں۔


رویہ ملکوں اور بر اعظموں کے لحاظ سے

افریقا

کبالا، سیرالیون، مغربی افریقہ میں ایک زچہ ماں کھلے میں دودھ پلا رہی ہے۔

افریقا کے کئی حصوں میں برسر عام رضاعت معمول ہے۔ یہاں بچے ماں کے کندھے سے جڑے کپڑے سے باندھ کر لائے جاتے ہیں اور بڑی مشکل سے کوئی آگے کے مقام پر دودھ پلانے کے کیے لے کر جاتی ہیں۔ دودھ پلانے والی مائیں بچوں کو دودھ پینے کے منظر کے آگے کسی آڑ کو رکھ سکتی ہیں، مگر عمومًا ایسی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے کہ بچے کو یا ماں کے پستانوں کو عوامی نظروں میں آنے سے روکا جائے۔ جب ایک بچہ عوام کے آگے روتا ہے، تب یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ بچے کے ساتھ موجود عورت اس کی ماں نہیں ہے، کیوں کہ یہ عام خیال ہے کہ اگر وہ ماں ہوتی تو اسے فورًا دودھ پلاتی۔[8]

مراکش

یہاں برسر عام رضاعت قانونی ہے اور اسے وسیع طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔[9]

سیرالیون

سیرالیون میں دنیا کی سب سے زیادہ نومولودوں کی اموات دیکھی گئی ہیں۔ اس ملک میں ایک خیر سگالی کے دورے کے دوران ہالی وڈ کی اداکارہ سلمی ہایک نے کیمرا کے رو بہ رو ایک ایسے بچے کو خود اپنے پستانوں سے دودھ پلایا جس کی ماں اسے دودھ نہیں پلا پا رہی تھی۔[10] سلمٰی نے یہ اس بات کے پیش نطر کیا کہ اس ملک میں رضاعت سے جڑا بد نما داغ دور ہو اور لوگ بچوں کی تغذیہ پر توجہ دے سکیں۔[11]

ایشیا

انڈونیشیائی خاتون برسر عام دودھ پلاتے ہوئے۔

چین

چین میں برسر عام رضاعت روایتی طور پر غیر متنازع رہی ہے اور اس پر اعتراضات 2010ء تک نہیں سنے گئے۔ اس کے بعد کے کچھ اعتراضات کے واقعات غالبًا سماجی میڈیا کی اس جانب توجہ کی وجہ سے ہوئے ہیں۔

شنگھائی میں برسر عام رضاعت کو کچھ لوگ شرم ساری کا سبب سمجھتے ہیں، مگر اسے کئی لوگ ایک عام بات کے طور بھی قبول کرتے ہیں۔ یہ مطالبات کیے گئے ہیں کہ عوامی جگہوں پر بچوں کی دیکھ ریکھ کے مراکز قائم کیے جائیں۔[12][13]

بھارت

بھارت میں ایسی کوئی قانونی گنجائش نہیں ہے جو رضاعت کا احاطہ کرتی ہو۔ اس کی موجودگی اور سماجی قبولیت ہر جگہ مختلف ہے۔[حوالہ درکار]

دیہاتی بھارت میں یہ بالکلیہ تسلیم شدہ ہے۔ برسر عام رضاعت سماج کے اونچے طبقوں میں کم ہی دیکھی گئی ہے، مگر یہ معاشی طور پر پسماندہ طبقوں میں عام ہے۔

تاہم برسر عام رضاعت پر بھارت میں تنازعات بھی ہوتے ہیں۔ ملیایم رسالہ "گرہ لکشمی" کے سر ورق پر نوزائدہ بچے کو دودھ پلاتی ایک اداکارہ کی تصویر کو لے کر کیرلا کے کولم میں واقع سی جے ایم کورٹ میں کیس درج کیا گیاہے۔دراصل اس اشاعت کے وقت ملیایم ماڈل ،اداکارہ گلو جوسیف کی ایک تصویر گرہ لکشمی میں شائع ہوئی تھی۔جس میں وہ ایک نوزائیدہ کو وہ دودھ پلاتی نظر آ رہی ہیں۔ تصویر میں گلو کے پستان بھی دکھائی دیے۔ اس تصویر کے ساتھ سر ورق پر رضاعت کے دوران گھورنے والوں کو دئے گئے پیغام میں کہا گیا ہے۔"مہربانی کرکے گھوریے نہیں ہمیں ہمیں بچوں کو دودھ پلانا ہے"۔ حالانکہ اس رسالے کے خلاف عرضی دائر کرنے والے وکیل ونود میتھیو ولسن کا کہنا ہے کہ یہ تصویر اس طرح سے صحیح نہیں ہے اور خواتین کے ضمیر کم تر ظاہر کرتی ہے۔اپنی عرضی میں انھوں نے کہا ہے کہ "خواتین کے فحش فوٹو (روک تھام)ذیلی قواعد 1986 کی دفعہ 3اور 4 کے تحت یہ ایک جرم ہے"۔[14] اس طرح سے بھارت میں لوگ برسر عام رضاعت کو فروغ دینے والی ایک تصویر ہی کو فحش اور عریانیت سے تعبیر کرتے ہوئے عدالت سے رجوع ہو چکے ہیں۔ جب کہ فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک میں نہ صرف ایسی تصاویر کثرت سے چھپتی ہیں، ان میں لوگ کوئی فحاشی کا عنصر بھی نہیں دیکھتے۔

ملائیشیا

ملائیشیا میں بلا تکلف عوامی مقامات پر رضاعت پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ہے۔[15]

نیپال

نیپال میں برسر عام رضاعت سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ برسر عام رضاعت عام بات ہے اور اسے وسیع طور پر قبول کیا گیا ہے۔[16]

یہ کسی بھی طرح سے نیپال میں عجیب و غریب بات نہیں ہے کہ اس ملک میں مائیں اپنے بچوں کو کئی عوامی مقامات جیسے کہ بس، پارک، ریستوراں، ہسپتال وغیرہ میں دودھ پلاتی ہیں۔ ملک کے عوام میں ماں کا دودھ پلانا فریضہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہ مائیں جو دودھ نہیں پلاتی ہیں یا پلا نہیں سکتی ہیں 'بوکشی' - 'جادوگرنی' سمجھی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ کافی عوامی بدنامی جڑی ہے۔

فلپائن

فلپائن میں رضاعت کو مختلف قوانین کا تحفظ حاصل ہے، جیسے کہ 2009ء کا توسیع شدہ رضاعت کا فروغ قانون (Expanded Breastfeeding Promotion Act of 2009)[17] اور فلپائن کا دودھ کوڈ (سرکاری حکم 51) (Milk Code of the Philippines - Executive Order 51)[18]

یہاں ماؤں کو سب کے سامنے دودھ پلانے کی اجازت ہے۔ آجرین پر لازم ہے کہ وہ دودھ پلانے والی ماؤں کو رضاعت کے لیے یا اپنے پستانوں کے دودھ کو خارج کرنے کے لیے وقفے دیں۔ یہ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ ایسے وقفے ہر آٹھ گھنٹے کے کام کے دور میں چالیس منٹ سے کم نہیں ہونے چاہیے۔[19] دفاتر، عوامی تاسیسات جیسے کہ شاپنگ مال، اسکول اور سرکاری ادارہ جات پر لازم ہے کہ وہ الگ رضاعت گاہوں کو بنائیں جو بیت الخلاء سے الگ ہوں، جہاں پر کہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلا سکیں یا اسے خارج کر سکیں۔ دودھ کا کوڈ اس بات کی ممانعت کرتا ہے کہ دو سال سے کم عمر بچوں کے لیے کوئی شیر خوار بچے کی خوراک یا دودھ کی بوتل کے دہانے کا کوئی اشتہار تیار ہو۔[20]

سعودی عرب

حالانکہ سعودی عرب میں خواتین اپنے جسم کے کسی حصے کی نمائش نہیں کر سکتی ہیں، دودھ پلانا ایک استثنائی کیفیت ہے۔ جدید دور میں یہ بات بہت عام ہو چکی ہے کہ عورتیں شاپنگ مال اور پارک میں بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں اور اس بات کو سعودی عوام میں قبولیت حاصل ہو چکی ہے۔[21]

تائیوان

نومبر 2010ء سے عوامی رضاعت قانون (Public Breastfeeding Act) برسر عام رضاعت کے حق کو تحفظ فراہم کرتے آیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دودھ پلانے کے کمرے بھی بنائے گئے ہیں تاکہ نجی نوعیت برقرار رکھی جا سکے اور گرم پانی اور بجلی کی سربراہی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ماں کے بچوں کو دودھ پلانے کے حق میں مداخلت کی صورت میں جرمانے بھی متعین کیے گئے ہیں۔[22] قومی محل عجائب گھر سے ایک دودھ پلانے والی ماں کو 18 جولائی 2012ء کو باہر نکالنے کے بعد کئی تائیوانی مصنفین غضبناک ہو گئے تھے،[23] مبینہ طور پر بے عزت کرنے والا ملازم اور اس کے آجر، دونوں پر 6000 نئے تائیوانی ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا ہو تقریبًا 200 ریاستہائے متحدہ کا ڈالر کے مساوی تھا، جیسا کہ محکمہ صحت، تائپے شہری حکومت نے دعوٰی کیا تھا۔ مگر عجائب گھر نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی۔[24]

یورپ

ایک خاتون اپنے شیر خوار بچے کو ہسپانیہ میں رضاعت کی حمایت میں منعقدہ کانفرنس میں دودھ پلاتے ہوئے۔

فرانس

برسر عام رضاعت قانونًا جائز اور عمومًا تسلیم شدہ ہے۔[حوالہ درکار]

جرمنی

حالانکہ برسر عام رضاعت کو وسیع طور پر منظور نہیں کیا گیا ہے، تاہم 1968ء کی تحریک کے بعد سے جب عوامی "رضاعتی مظاہرے" ((جرمنی: Still-Inns)‏) عام تھے، ایسی کوئی قانون سازی موجود نہیں ہے جو بطور خاص برسر عام رضاعت پر مرکوز ہو۔[25]

بنیادی قانون برائے وفاقی جمہوریہ جرمنی کے دوم پیرا اور دفعہ 6 کی رو سے یہ گنجائش موجود ہے کہ "بچوں کی دیکھ ریکھ اور ان کی پرورش والدین کا بنیادی حق ہے" جب کہ بیرا 4 "گنجائش فراہم کرتا ہے کہ ہر ماں سماج کو تحفظ اور اس کی دیکھ ریکھ کرے"۔[26]

آئس لینڈ

برسر عام رضاعت کافی عام ہے اور غیر متنازع ہے۔[27]

اطالیہ

اطالیہ میں برسر عام رضاعت کافی عام ہے اور اسے کئی لوگ تسلیم کر چکے ہیں۔[حوالہ درکار]

نیدرلینڈز

برسر عام رضاعت نیدرلینڈز میں کئی بار مشاہدے میں دیکھا گیا ہے اور یہ سماجی طور تسلیم شدہ بھی ہے۔ برسر عام رضاعت کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

ڈچ قانون کے مطابق جب ایک ملازمہ اپنے شیر خوار بچے کو دودھ پلانا چاہے، تب آجر پر زچگی کے پہلے نو مہینے کے بعد تک ایک مناسب رضاعتی کمرا فراہم کرنے کا پابند ہے اور اسے ملازمہ کام کا 25% وقت اس طرح بااجرت صرف کرنے کی گنجائش دینا ہو گا کہ دودھ پلانے یا اپنے دودھ کو خارج کرنے کا موقع ملے۔ نو مہینوں کے بعد آجر کو رضاعت کی شرائط کی تکمیل کا ذمے دار ہے (جیسے کہ مقررہ وقفے، رضاعت کے کمرے، محفوظ ماحول، وغیرہ) مگر آجر رضاعت یا دودھ کے خارج کرنے کے وقت کے لیے پیسے دینے کا پابند نہیں ہے۔[28]

ناروے

برسر عام رضاعت عام اور غیر متنازع ہے۔[حوالہ درکار]

ہسپانیہ

برسر عام رضاعت قانونی اور بہت زیادہ قبول کردہ بھی ہے۔[حوالہ درکار]

مملکت متحدہ

برسر عام رضاعت (ریستوران، کیفے، کتب خانے، وغیرہ) کو جنسی امتیاز قانون 1975ء کے تحت تحفظ حاصل ہے ان گنجائشوں کے ساتھ جو اشیا، سہولتات یا خدمات کے تحت مذکور ہیں۔ اگر کوئی بچہ چھ مہینے سے کم عمر کا ہے تو ماں کو 2008ء کی ایک ترمیم کی وجہ سے مزید تحفظ حاصل ہے، جو اس کے مادرانہ حقوق کی پاسپانی کرتا ہے۔ اس قانون پر مساویانہ قانون 2010ء کو فوقیت دی گئی ہے جو یہ واضح کرتا ہے کہ کسی کاروبار کو اس عورت کے ساتھ امتیاز نہیں برتنا چاہیے جو کسی بھی عمر کے بچے کو بر سر عام دودھ پلا رہی ہو۔[29][30] ایک عورت کے ساتھی کو بھی اس قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔

حوالہ جات