صادق ہدایت

صادق ہدایت audio speaker iconlisten  (17 فروری 1903ء - 4 اپریل 1951ء) ایرانی مصنف، مترجم اور دانشور ہیں جنھوں نے ایرانی ادب میں جدید تکنیک متعارف کرائی۔ انھیں بلاشبہ بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے۔[15]

صادق ہدایت
(فارسی میں: صادق هدایت ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش17 فروری 1903ء [1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تہران [8]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات4 اپریل 1951ء (48 سال)[3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیرس [9]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفاتاختناق   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفنپیئغ لاشئیز قبرستان   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفاتخود کشی   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمیدار الفنون   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہمصنف [7][10]،  مترجم ،  ناول نگار ،  شاعر ،  نثر نگار [7][11]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبانفارسی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانفارسی [12][13][14]،  فرانسیسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

صادق ہدایت 17 فروری 1903ء کو ایران کے دار الحکومت تہران میں اونچے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ہدایت نے ابتدائی تعلیم تہران میں حاصل کی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے جہاں بلجیم میں انجنیئرنگ اور فرانس میں دندان سازی کی تعلیم حاصل کی[15]۔ یہاں انھیں افسانہ نگاری سے لگاؤ پیدا ہوا۔ چنانچہ قیامِ یورپ کے دوران انھوں نے متعدد افسانے لکھے۔ جو بعد میں زندہ بگور اور سہ قطرہِ خون کے نام سے چھپے۔ 1930ء میں وہ تہران واپس آ گئے۔ قدیم ایران سے بے پناہ محبت اور مقامی ماحول سے بے زاری کے نتیجے میں 1936ء میں وہ تہران چھوڑ کر بمبئی پہنچے۔ یہاں انھوں نے فرانسیسی زبان میں دو افسانے لکھے جو بقول ایک فرانسیسی ادیب "پاستوروالری" ان کی بہترین تخلیقات میں سے ہیں۔ بمبئی ہی میں انھوں نے اپنے شاہکار ناول بوف کور کی تکمیل کی جو رضا شاہ پہلوی کی تخت سے دستبردارے کے بعد تہران کے اخبار روزنامہ ایران میں قسط وار اور پھر کتابی صورت میں شائع ہوا۔[16]

مقبرۂ صادق ہدایت، پرلاشز قبرستان پیرس

ہدایت کو فرانس ایک تعلق خاطر تھا چنانچہ 1950ء میں وہ دوبارہ پیرس جا پہنچے۔ ان کے مزاج میں ایک مستقل خلش اور گہری قنوطیت شروع سے تھی۔ زندگی سے نفرت کا جذبہ روز بروز شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا اور غمِ روزگار سے نجات کا راستہ انھیں حقائق سے مردانہ وال مقابلے کی بجائے ہتھیار ڈالنے میں نظر آیا اور اور یہ جاں گسل احساس ان کے افسانوں کا مستقل موضوع بن گیا۔ جبکہ پیرس پہنچنے کے بعد یہ جنون آمیز فلسفہ اس حد تک غالب آ گیا کہ انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ اپنے ہاتھوں سے کر لیا۔[16]

ہدایت نے اپنی تیس سے زیادہ تصانیف چھوڑی ہیں جو ایران کے جدید ادب میں ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ ہدایت نے فارسی افسانے کو ایک نیا شعور اور مزاج دیا۔ انھوں نے عوامی معاشرے کی ترجمانی کی اور ان کے لیے انہی کی زبان کو اپنایا۔ یہ اقدام فارسی نثر میں ایک بہت بڑا انقلاب تھا۔ ہدایت نے عوامی زبان کو وقار بخشا اور قاری کو عمومی کرداروں کی اہمیت کا احساس دلایا۔ آج فارسی افسانے پر ہدایت کا نقش پوری طرح مسلط ہے۔ ہدایت کی زبان اب فارسی افسانے اور ناول کی زبان بن چکی ہے۔[16]

تخلیقات

ناول

افسانوی مجموعے

تراجم

  • پیامِ کافکا
  • میٹافارسس

ڈراما

  • پروین، دخترِ ساسان
  • افسانۂ افرینش

تنقید

سفر نامہ

وفات

صادق ہدایت نے اپنی زندگی سے تنگ آ کر 4 اپریل 1951ء کو پیرس، فرانس میں خودکشی کرلی۔[15][17]

حوالہ جات