صقلیہ

صقلیہ
عمومی معلومات
علاقہ کا صدر مقامپالیرمو
صدر علاقہسالواتورے کوفارو (Raffaele Lombardo)
صوبوں کی تعداد9
کمونے کی تعداد390
رقبہ25,708 مربع کلومیٹر(پہلا ۔ 8.5 %)
آبادی5,017,212 (چوتھا ۔ 8.5 %)
علامت


صقلیہ یا سسلی (انگریزی: Sicily،اطالوی: Siclia، ہسپانوی: Sicilian، عربی: صقلیہ) اٹلی کا ایک خود مختار علاقہ اور بحیرہ روم کا سب سے بڑا جزیرہ ہے، جس کا رقبہ 25 ہزار 700 مربع کلومیٹر اور آبادی 50 لاکھ ہے۔ سب سے بڑا شہر پالیرمو کہلاتا ہے جہاں پانچ مختلف تہذیبوں کے آثار ملتے ہیں۔

جغرافیہ

صقلیہ مشرق میں آبنائے مسینا کے ذریعے اٹلی سے کٹا ہوا ہے۔ جزیرے پر واقع آتش فشاں پہاڑ ایٹنا 3 ہزار 320 میٹر (10 ہزار 900 فٹ) بلند ہے جو یورپ کا سب سے بلند آتش فشاں ہے۔ یہ دنیا کے متحرک ترین آتش فشانوں میں سے ایک ہے۔

تاریخ

قبل مسیح میں صقلیہ یونانی اور کارتھیج سلطنتوں کے درمیان کشمکش کا مرکز رہا اور یہ کئی صدیوں تک رومی سلطنت کا صوبہ رہا۔ 552ء میں اسے بازنطینیوں نے فتح کر لیا اور 827ء تک یہ بازنطینی سلطنت کا حصہ رہا۔ 827ء تا 902ء تک مسلم عربوں نے صقلیہ کو فتح کر لیا اور آل کلبی نے امارت صقلیہ قائم کرکے پالرمو کو اپنا دارالحکومت بنایا جو آج تک صقلیہ کا دار الحکومت ہے۔ مسلم صقلیہ کا نام غیر مسلموں سے بہترین سلوک کے باعث تاریخ میں اندلس کی طرح روشن ہے۔ صقلیہ میں مسلمانوں کے ڈھائی سو سالہ اقتدار کا خاتمہ نارمن اقوام کے ہاتھوں ہوا جنھوں نے 1060ء سے 1090ء کے دوران صقلیہ کو اپنی حکومت میں شامل کیا۔

صلیبی جنگوں کے دوران جزیرے پر مسلم اور مسیحی آبادی کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے بعد 1224ء میں مسیحی حکمرانوں نے تمام مسلمانوں کو جزیرے سے بے دخل کر دیا۔

انتظامی تقسیم

سسلی میں اٹلی کے 9 صوبے واقع ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

نمبر شمارصوبہآبادیرقبہ (مربع کلومیٹر)کمونے
1آگریجینتو (ایگریجینتو)447,6843,04243
2کالتانعیسیتہ (کالتانیسیتا)275,2212,12822
3کتانیہ (کاتانیا)1,073,8813,55258
4اینا (Enna)176,9592,56220
5میسینہ (میسینا)662,4503,247108
6پالیرمو (پالیرمو)1.235.9234.99282
7راگوسہ (Ragusa)295,2461,61412
8سیراکوزا (Syracusa)396,1752,10921
9تراپانی (Trapani)4250672,46024

بانگ درا میں ذکر

حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنے مجموعہ کلام "بانگ درا" میں "صقلیہ (جزیرۂ سسلی)" نامی درج ذیل نظم لکھی ہے:

رولے اے دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے
بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے
اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور
کھاگئی عصر کہن کوجن کی تیغ ناصبور
مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا
آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا
غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟
آہ اے سسلی! سمندر کی ہے تجھ سے آبرو
رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو
زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے
تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے
ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام
موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام
تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا
حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا
نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہان آباد پر
آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے انداز بیاں
درد اپنا مجھ سے کہہ، میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی تو منزل تھا، میں اس کارواں کی گرد ہوں
رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلادے مجھے
قصبہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپادے مجھے
میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا
خود یہاں روتا ہوں، اوروں کو وہاں رلواؤں گا

مزید پڑھیے

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔