سنکیانگ کے حراستی کیمپ

سنکیانگ کے حراستی کیمپ ، [note 1] جو سرکاری طور پر پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے مراکز کہلاتے ہیں ( چینی: 职业技能教育培训中心 ) حکومت چین،، [6] [7] [8] سنکیانگ کی حکومت اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی صوبائی اسٹینڈنگ کمیٹی کے زیر انتظام چلنے والے حراستی کیمپ ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ انھیں سنہ 2017ء سے ایغوروں اور دوسرے مسلمانوں کو "دہشت گردی کے خلاف عوامی جنگ" کے ایک حصے کے طور ذہن سازی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، جس کا اعلان سنہ 2014ء میں ایک پالیسی میں کیا تھا۔ [9] کیمپوں پر بہت سے ممالک کی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تنقید کی گئی ہے، جن میں بدسلوکی، عصمت دری اور تشدد شامل ہیں، جبکہ کچھ نے نسل کشی کا الزام بھی لگایا ہے۔ دنیا کے تقریباً 40 ممالک نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایغور برادری کے انسانی حقوق کا احترام کرے، جن میں کینیڈا، جرمنی، ترکی، ہونڈوراس اور جاپان جیسے ممالک شامل ہیں۔ 35 سے زائد ممالک کی حکومتوں نے چین کی حکومت کے لیے حمایت کا اظہار کیا ہے۔ [10] [11] سنکیانگ کے حراستی کیمپوں کو "اویغوروں کے خلاف چین کی غیر انسانی پالیسیوں کی انتہائی مثال" قرار دیا گیا ہے۔ [5]

ژنجیانگ حراستی مراکز
ذہن سازی کیمپ، لیبر کیمپ
فائل:Xinjiang Re-education Camp Lop County.jpg
ژنجیانگ کی لوپ کائونٹی کے کیمپ میں زیر حراست ایغور تقریریں سنتے ہوئے۔ اپریل 2017 ء۔
دیگر نام
  • ووکیشنل اور تعلیمی تربیتی مراکز
  • ژنجیانگ تعلیم نو کیمپ
مقامژنجیانگ، چین
تعمیر ازseچینی کمیونسٹ پارٹی
حکومت چین
منتظم ازژنجیانگ ایغور خود مختارعلاقے کی علاقائی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کی علاقائی کمیٹی
فعال2017–present[1]
قیدیوں کی تعدادUp to 1.8 million (2020 Zenz estimate)[2]

1 million – 3 million over a period of several years (2019 Schriver estimate)[3][4]

Plus ~497,000 minors in special boarding schools (2017 government document estimate)[5]
ژنجیانگ حراستی مراکز
ژنجیانگ تعلیم نو مراکز
سادہ چینی 再教育
روایتی چینی 再教育[1]
اویغور نام
اویغور
قايتا تەربىيەلەش لاگېرلىرى
فنی تعلیم و تربیت کے مراکز
سادہ چینی 职业技能教育培训中心
روایتی چینی 職業技能教育培訓中心
لغوی معنیفنی مہارت تعلیمی تربیتی مراکز

یہ کیمپ سنہ 2017ء میں سی سی پی کے جنرل سیکرٹری شی جن پنگ کی انتظامیہ نے قائم کیے تھے۔ سنہ 2017ء اور 2021ء کے درمیان کارروائیوں کی قیادت چن کوانگو کر رہے تھے، جو پہلے سی سی پی پولٹ بیورو کے رکن اور کمیٹی کے سیکرٹری تھے جنھوں نے خطے کی پارٹی کمیٹی اور حکومت کی قیادت کی۔ [12] مبینہ طور پر یہ کیمپ چینی قانونی نظام سے باہر چلائے جاتے ہیں۔ مبینہ طور پر بہت سے اویغوروں کو بغیر کسی مقدمے کے قید کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا گیا ہے (اور انتظامی حراست میں رکھا گیا ہے)۔ [13] [14] مقامی حکام کے مطابق، انھوں نے مبینہ طور پر ان کیمپوں میں لاکھوں اویغوروں کے ساتھ ساتھ چین میں دیگر نسلی اقلیتی گروہوں کے ارکان کو بھی، [15] انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور سماجی انضمام کو فروغ دینے کے [16] مقصد کے لیے رکھا ہوا ہے۔ [17]

کیمپوں میں اویغوروں اور دیگر ترکستانی مسلمانوں کی نظر بندی دوسری جنگ عظیم کے بعد نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی سب سے بڑی صوابدیدی حراست ہے۔ بمطابق 2020 ء میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ چینی حکام نے تقریبا اٹھارہ لاکھ لوگوں کو جو زیادہ تر ایغور نسل سے تعلق رکھتے ہیں، مگر قازق، کرغیز اور دوسرے ترکستانی نسل کے مسلمانوں اور عیسائیوں اور کچھ غیر ملکی قازقستانی شہریوں کو ان خفیہ حراستی مراکز میں رکھا ہوا ہے جو پورے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کیمپوں کے بارے میں ایک بڑے محقق، ایڈرین زینز کے مطابق، سنہ 2018ء میں قیدیوں کی تعداد عروج پر پہنچ گئی تھی، مگر اب کچھ حد تک کم ہو گئی ہے اور حکام جبری مشقت کے پروگراموں کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے دیگر کارکنوں اور امریکی حکام نے بھی کیمپوں سے افراد کی باقاعدہ تعزیری نظام میں منتقلی کو نوٹ کیا ہے۔ [18]

مئی 2018ء میں، رینڈل شریور، امریکی معاون وزیر دفاع برائے ہند-بحرالکاہل سیکورٹی امور نے کہا کہ "کم از کم دس لاکھ لیکن ممکنہ طور پر تیس لاکھ کے قریب شہری" حراستی مراکز میں قید ہیں، جنہیں انھوں نے "نازی ارتکازی کیمپوں" سے تشبیہ دی ہے۔ اگست 2018ء میں، نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی کمیٹی میں امریکی نمائندے گے میک ڈوگل نے کہا کہ کمیٹی کو بہت سی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ چین میں 10 لاکھ ایغوروں کو "دوبارہ تعلیم کے کیمپوں" میں رکھا گیا ہے۔ سنکیانگ کے حراستی کیمپوں کا چینی ثقافتی انقلاب کے دوران ہونے والے جبر سے موازنہ کیا گیا ہے۔ [19] [20] [21]

سنہ 2019ء میں اقوام متحدہ میں چین سمیت 54 ممالک نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے سنکیانگ میں چینی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کی۔ [22] ایک اور خط میں، 23 ممالک نے کمیٹی کی رپورٹوں پر خدشات کا اظہار کیا اور چین سے انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ [23] ستمبر 2020ء میں، آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ASPI) نے اپنے سنکیانگ ڈیٹا پروجیکٹ میں رپورٹ کیا کہ کیمپوں کی تعمیر حکومتی دعووں کہ ان کا کام ختم ہو رہا ہے، کے باوجود جاری ہے ۔ اکتوبر 2020ء میں، یہ بتایا گیا کہ چین کی مذمت کرنے والے ممالک کی کل تعداد بڑھ کر 39 ہو گئی، جبکہ چین کا دفاع کرنے والے ممالک کی کل تعداد کم ہو کر 45 ہو گئی۔ سنہ 2019ء میں چین کا دفاع کرنے والے سولہ ممالک نے 2020ء میں ایسا نہیں کیا۔ [24]

حوالہ جات