غزالی

حجۃ الاسلام، مجتہد، فقیہ، صوفی

ابو حامد غزالی اسلام کے مشہور مفکر اور متکلم تھے۔

حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد بن محمد الغزالی
(عربی میں: أبو حامد محمد بن محمد الغزالي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حجۃ الاسلام امام غزالی

معلومات شخصیت
پیدائشسنہ 1058ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طوس [3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات14 جمادی الثانی 505ھ / 19 دسمبر 1111ء
(عمر: 55 سال قمری، 53 سال شمسی)
طوس [3]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفنمشہد   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائشنیشاپور
بغداد
دمشق
یروشلم   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلجوقی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسلایرانی
مذہباسلام
فرقہسنی اشعری
فقہی مسلکشافعی
بہن/بھائی
عملی زندگی
استاذامام الحرمین جوینی [3]،  ابو علی فارمدی [4]  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاصابو بکر ابن العربی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہفلسفی ،  متکلم ،  آپ بیتی نگار ،  الٰہیات دان ،  شاعر ،  فقیہ ،  صحافی [5][6]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبانفارسی [3]،  عربی [7][8][9]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عملاسلامی فلسفہ ،  الٰہیات ،  تصوف ،  علم کلام ،  اخلاق اسلامی   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمتمدرسہ نظامیہ (بغداد)   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاںکیمیائے سعادت ،  تہافت الفلاسفہ ،  احيا علوم الدين   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثرابن ادریس شافعی، جوینی، ابو طالب مکی، جنید بغدادی، حارث محاسبی، بایزید بسطامی
طوس میں قائم ہارونیہ کی عمارت، اس کے قریب ہی امام غزالی کا مقبرہ ہے

پیدائش

نام محمد اور ابو حامد کنیت تھی جبکہ لقب زین الدین تھا۔ ان کی ولادت 450ھ کو طوس میں ہوئی۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں ہوئی۔

آپ نے ابتدائی تعلیم طُوس(صوبہ خراسان، ایران) میں حاصل کی، اس کے بعد نیشاپور(ایران) کا قصد کیا جہاں امام الحرمین عبدالملک بن عبداللہ جُوَینی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی سے اکتسابِ علم کیا۔[10] آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی پوری زندگی مختلف علوم حاصل کرنے، انھیں پھیلانے اور اُمّت ِ مسلمہ کی اصلاح میں گذری۔

عملی زندگی

نیشا پور سے وزیر سلاجقہ نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے اور 484ھ میں مدرسہ بغداد میں مدرس کی حیثیت سے مامور ہوئے۔ جب نظام الملک اور ملک شاہ کو باطنی فدائیوں نے قتل کر دیا تو انھوں نے باطنیہ، اسماعیلیہ اور امامیہ مذاہب کے خلاف متعدد کتابیں لکھیں۔ اس وقت وہ زیادہ تر فلسفہ کے مطالعہ میں مصروف رہے جس کی وجہ سے عقائد مذہبی سے بالکل منحرف ہو چکے تھے۔ ان کا یہ دور کئی سال تک قائم رہا۔ لیکن آخر کار جب علوم ظاہری سے ان کی تشفی نہ ہوئی تو تصوف کی طرف مائل ہوئے اور پھر خدا ،رسول، حشر و نشر تمام باتوں کے قائل ہو گئے۔

488ھ میں بغداد چھوڑ کر تلاش حق میں نکل پڑے اور مختلف ممالک کا دورہ کیے۔ یہاں تک کہ ان میں ایک کیفیت سکونی پیدا ہو گئی اور اشعری نے جس فلسفہ مذہب کی ابتدا کی تھی۔ انھوں نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔ ان کی کتاب’’ المنقذ من الضلال‘‘ ان کے تجربات کی آئینہ دار ہے۔ اسی زمانہ میں سیاسی انقلابات نے ان کے ذہن کو بہت متاثر کیا اور یہ دو سال تک شام میں گوشہ نشین رہے۔ پھر حج کرنے چلے گئے۔ اور آخر عمر طوس میں گوشہ نشینی میں گزاری۔

ان کی دیگر مشہور تصانیف احیاء العلوم، تحافتہ الفلاسفہ، کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب ہیں۔ ان کا انتقال 505ھ کو طوس میں ہوا۔

ذہبی لکھتے ہیں کہ: ”غزالی، بہت بڑے شیخ، بحرِ بے کنار امام، حجۃ الاسلام، اپنے زمانے کے یگانہ روزگار جن کا لقب زین الدین، کنیت ابو حامد اور نسب محمد بن محمد بن محمد بن احمد طوسی شافعی غزالی ہے، آپ کی متعدد تصانیف ہیں، آپ انتہائی زیرک فہم کے مالک تھے، ابتدائی طور پر اپنے علاقے میں ہی فقہی علوم حاصل کیے، اس کے بعد اپنے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ نیشاپور منتقل ہو گئے، وہاں انھوں نے امام الحرمین کی شاگردی اختیار کی اور فقہ میں تھوڑی سی مدت کے دوران ہی اپنی مہارت کا لوہا منوایا، پھر علم کلام، علم جدل میں بھی مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ مناظرین کی آنکھوں کا مرکز بن گئے۔“[11]

تصانیف

امام غزالی نے سلطان سنجر کو لکھے خط میں یہ بتایا تھا کہ آپ کی تصانیف تقریباً دو سو ہیں ۔[12] لیکن یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ آپ کی تصانیف کی تعداد 400 سے زیادہ ہے۔ لیکن مغربی سکالرز نے تحقیقات کرکے طے کیا ہے کہ ذیل کی فہرست آپ کی تصانیف ہیں۔ ان میں عربی اور فارسی زبانوں میں لکھی گی تصانیف ہیں۔

آخر کار ایک مصری سکالر نے بھی ایک فہرست بنائی جن میں 457 کتابوں کا ذکر ہے، جس میں 1 تا 72 مکمل طور پر امام غزالی کی تصنیفات ہیں۔ اور 73 تا 95 تک کے تصانیف پر شک ہے کہ یہ تصانیف امام غزالی کی ہیں ۔

صوفی طریقہ

فلسفہ

شریعت

وفات

14 جمادی الثانی 505ھ / 19 دسمبر 1111ءکو بعمر 55 سال (قمری، 53 سال شمسی) بمقام طوس وفات پائی۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات