پشاور اسکول میں قتل عام، 2014ء

پاکستان، پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردانہ حملہ

سانحہ آرمی پبلک اسکول، پشاور ، پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب 16 دسمبر 2014ء کو تحریک طالبان پاکستان کے [7][8] 7 دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ایک سو چوالیس افراد کو دہشت گری کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا ۔ یہ دہشت گرد ایف سی (فرنٹیئر کور) کے لباس میں ملبوس پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پچھلی طرف سے داخل ہو گئے اور اسکول کے ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ کی[9]اس کے بعد کمروں کا رخ کیا اور وہاں پر بچوں کو گولیاں ماریں، سربراہ ادارہ کو آگ لگائی۔ 9 اساتذہ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کل 144 شہادتیں[7][8][10][11] اور 113سے زائد[6] زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں[8][12][13]۔ پاکستانی آرمی نے 950 بچوں و اساتذہ کو اسکول سے باحفاظت نکالا[14]۔ ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ 6 مارے گئے[14]۔

2014 پشاور اسکول حملہ
2014 Peshawar school Attack
اسکول کا مرکزی ہال
مقامآرمی پبلک اسکول، ورسک روڈ، پشاور، خیبر پختونخوا، پاکستان
تاریخ16 دسمبر 2014
11:00  صبح پی ایس ٹی[1] – 19:56 شام پی ایس ٹی[2] (یو ٹی سی+05:00)
نشانہاساتذہ، اسکول طلبہ اور باقی اسکول کا عملہ
حملے کی قسمخودکش[3]، اندھا دھن فائرنگ، اسکولوں میں گولی باری
ہلاکتیں157 (دہشت گردوں کو ملا کر)[4][5]
زخمی114 [6]
متاثرین7
مرتکبینتحریک طالبان پاکستان کے 7 یا 9 افراد[5]
مقصدآپریشن ضرب عضب اور خیبرون کا رد عمل
آرمی پبلک اسکول اور اردگرد کا گوگل نقشہ

یہ پاکستانی تاریخ کا مہلک ترین دہشت گردانہ حملہ تھا، جس نے 2007 کراچی بم دھماکا کے واقعہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا[15]۔ مختلف خبر رساں اداروں اور مبصرین کے مطابق، عسکریت پسندوں کی یہ کارروائی 2004 میں روس میں ہونے والے بیسلان اسکول پر حملے سے ملتی جلتی ہے۔[16][17][18][19][20]

پس منظر

جون 2014 کے بعد سے، شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف پاکستانی سیکورٹی اداروں کی طرف سے مشترکہ کارروائی جاری ہے۔ یہ آپریشن کراچی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ اس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ یہ مسلسل جاری وزیرستان آپریشن کا حصہ ہے، جس کے تحت اب تک 1,200 دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔[21] اور 90٪ وزیرستان شدت پسندوں سے پاک کیا جا چکا ہے۔[22]

ذمہ داری قبول کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے رکن نے کہا ہے کہ یہ آپریشن ضرب عضب اور خیبرون آپریشن کا ردِ عمل ہے۔[23]

آرمی پبلک اسکول وارسک سڑک پر کنٹونمنٹ کے قریب واقع ہے، اس نظام کے تحت پاکستان بھر میں 146 شاخیں ہیں۔[24]

واقعات

بچوں کی یاد میں لندن میں شمعیں جلائيں گئیں۔

حملہ 16 دسمبر کو دن 10:00 بجے اس وقت ہوا جب 7 مسلح افراد[3] پاکستانی فرنٹئیر کور کی وردی میں[7] تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسنداسکول سے ملحقہ قبرستان کے ساتھ اسکول کی دیوار توڑ کر اندر گھس گئے۔ اسکول میں داخل ہونے سے پہلے انھوں نے اس سوزوکی بولان ایس ٹی 41 کو آگ لگا دی[7]، جس میں وہ اسکول تک آئے تھے۔ دہشت گرد خود کار ہتھیاروں سے لیس، سیدھے اسکول کے مرکزی ہال میں داخل ہوئے اور سیدھا فائر کھول دیا، ہال میں اس وقت نویں اور دسویں کلاس کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جا رہی اور تھی۔۔[25] پاکستانی فوج کے ترجمان، میجر جنرل عاصم باجوہ کے مطابق دہشت گرد کسی کو یرغمال بنانے نہیں آئے تھے، بلکہ وہ اسکول کے بچوں کوقتل کرنے کے لیے ہی آئے تھے[26]

ذمہ داران

واقعے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ تنظیم کے مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے چھ حملہ آور اسکول میں داخل ہوئے ہیں‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے جواب میں ہے۔

آرمی پبلک اسکول کا مرکزی ہال

دہشت گردوں کی قومیتی شناخت

پاکستانی انٹیلی جنس کمیونٹی نے دہشت گردوں کی شناخت کے لیے تحقیقات کیں، ایف آئی اے نے تحقیق کے بعد بتایا کہ تمام ہی دہشت گرد غیر ملکی تھے۔ ان میں سے 6 کی شناخت کو ظاہر کیا گیا۔[27]

  • ابو شامل (اسے عبد الرحمان بھی کہا جاتا ہے) — ایک چیچن جنگجو تھا، جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ ان کا سرغنہ تھا۔
  • نعمان شاہ ہلمند — یہ ایک افغانی تھا جو صوبہ ہلمند سے تعلق رکھتا تھا۔ حکومت امریکہ نے اس کے پر 500,000 امریکی ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا۔
  • وسیم عالم ہرات — یہ ایک افغانی جو ہرات سے تھا۔
  • خطیب الزبیدی — عربی بولنے والا، جو مصری شہری تھا۔
  • محمد زاہدی — عربی بولنے والا، جو مراکشی شہری تھا۔
  • جبران السعیدی — ایک عرب جس کی شہریت نامعلوم ہے۔

سم کارڈ جو اس کارروائی میں استعمال کیا گیا، وہ دیہی علاقے حاصل پور، پنجاب کی ایک خاتون کے نام پر تھا۔[27]

رد عمل

یہ میرے بچے ہیں اور یہ میرا نقصان ہوا ہے۔[28]

نواز شریف، وزیراعظم پاکستان

حکومت پاکستان نے تین روز تک سوگ کا اعلان کیا۔ اس دوران پاکستانی پرچم سرنگوں رہے گا[29]۔وزیر اعظم پاکستان نے پاکستان میں پھانسی کی سزا پر عمل درامد کی پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ پابندی صرف دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کے لیے ختم کی گئی ہے۔[30]

صدر پاکستان، ممنون حسین، نے مذمت کی اور کہا: "ایسے بزدلانہ حملے قوم کے حوصلے اور عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے ہیں"۔[31]

رہنماء متحدہ قومی مومنٹ الطاف حسین، پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنماء محمد طاہر القادری نے سانحے کی مذمت کی ہے۔[32]

نوبل امن انعام یافتہ پاکستانی، طالبہ ملالہ یوسفزئی نے مذمت کرتے ہوئے کہا: میں اس بے حس حرکت پر رنجیدہ ہوں، ہم نے اس سے پہلے پشاور میں خون سرد کرنے والا ایسا کوئی واقعہ نہیں دیکھا۔[33]

اس حملے کا سب سے زیادہ اور گہرا رد عمل پاکستان کے باہر بھارت میں دیکھا گیا۔ حملے کے فوری بعد بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے کہنے پر بھارت کے ہر اسکول میں ان متوفی بچوں کے لیے دو منٹ کی خاموشی اور دعائیہ اجتماعات منعقد ہوئے جس میں سبھی بچوں نے بلاتفریق مذہب حصہ لیا اور اپنی انسانیت دوستی کا ثبوت دیا۔ بھارت کے عوام نے اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ یہ بچے پاکستانی تھے یا مسلمان تھے یا پھر یہ کہ پاکستانی فوجیوں کے فرزندان تھے۔[34]

مزید دیکھیے

حوالہ جات