آپریشن طوفان الاقصیٰ


7 اکتوبر 2023 کو، حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، غزہ-اسرائیل رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اور غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہو گئے۔ حماس نے اسے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں یہ پہلا براہ راست تنازع ہے۔[48][49] جنگ کا آغاز صبح سویرے اسرائیل کے خلاف راکٹوں اور گاڑیوں کے ذریعے اسرائیلی سرزمین میں داخلے کے ساتھ کیا گیا تھا، جس میں ارد گرد کے اسرائیلی شہری علاقے اور اسرائیلی فوجی اڈوں پر کئی حملے کیے گئے تھے۔ بعض مبصرین نے ان واقعات کو تیسری فلسطینی انتفاضہ کا آغاز قرار دیا ہے۔ 1973ء کی جنگ یوم کپور کے بعد پہلی بار اسرائیل نے باضابطہ طور پر جنگ کا اعلان کیا۔[50] اسرائیل نے اپنے جوابی عمل کو آپریشن آہنی تلوار کا نام دیا ہے۔[51]

آپریشن طوفان الاقصی
سلسلہ عرب اسرائیل تنازع
Map of the Gaza Strip and part of Israel. The part of Israel surrounding the Strip is marked as evacuated. Some parts of the Strip is marked as under Israeli control, and the remainder is marked as under Hamas control.
  اسرائیل کے اندر علاقے خالی کرائے گئے۔

سرخ لائینیں: حماس کی پیش قدمی کی زیادہ سے زیادہ حد

نیلی لائینیں: اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے اندر کے علاقوں کو خالی کرنے کا حکم دے دیا۔
تاریخ7 اکتوبر 2023 – تاحال
(لوا خطا ماڈیول:Age میں 521 سطر پر: attempt to concatenate local 'last' (a nil value)۔)
مقاماسرائیل، فلسطینی علاقہ جات، لبنان[5] اور سوریہ[7]
حیثیتجاری
  • فلسطینی عسکریت پسند غزہ-اسرائیل رکاوٹ کو توڑ کر اسرائیل کے جنوبی ضلع پر حملہ کر رہے ہیں۔
  • 212 اسرائیلی اور غیر ملکی فلسطینی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے۔
  • اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی میں فضائی حملے کیے اور مکمل ناکہ بندی کر دی۔
  • اسرائیل نے غزہ سمیت شمالی غزہ کو خالی کرنے کا حکم دے دیا۔
مُحارِب
 اسرائیل[1]
کمان دار اور رہنما
  • حماس کا پرچم اسماعیل ہانیہ
  • حماس کا پرچم یحییٰ سنور
  • حماس کا پرچم محمّد ضيف
  • حماس کا پرچم ابو عبیدہ
  • حماس کا پرچم مراد ابو مراد  
  • فائل:Flag of the Islamic Jihad Movement in Palestine.svg زیاد النخلہ
  • فائل:Flag of the Islamic Jihad Movement in Palestine.svg ابو حمزہ
  • نایف حوتمہ
  • حزب اللہ کا پرچم حسن نصر اللہ
  • اسرائیل کا پرچم بنیامین نیتن یاہو
  • اسرائیل کا پرچم بینی گانٹز
  • اسرائیل کا پرچم یواو گیلنٹ
  • اسرائیل کا پرچم ہرزل حلوی
  • اسرائیل کا پرچم یول سٹرک
  • اسرائیل کا پرچم ٹومر بار
  • اسرائیل کا پرچم یعقوف شبطائی
  • اسرائیل کا پرچم رونن بار
شریک دستے
طاقت
القسام بریگیڈز: 40,000[13]
2,500 اسرائیل میں دراندازی [ا]
529,500 آئی ڈی ایف کی کل طاقت[ب]
ہلاکتیں اور نقصانات

غزہ کی پٹی:[پ]

  • 33,037+ اموات [ت]
  • 75,668+ زخمی[ٹ]
  • 8,000+ غائب[ث]

اسرائیل کے اندر (اسرائیلی دعویٰ) ::[ج]

مغربی کنارہ:[چ]


Spillover:

اسرائیل:[ج]

حماس میں:

  • 335 armored vehicles destroyed/damaged[44]

سپلائر:
  • مصر:
    • 6 civilians wounded [45]
  • 1,700,000 Palestinians displaced in Gaza[ز]
  • 500,000 Israelis displaced[47]

فلسطینیوں کا حملہ، غزہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بڑی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جنگ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مہینوں کی جھڑپوں کے بعد شروع ہوئی ہے، جن میں جنین اور مسجد اقصی بھی شامل ہے، جس میں تقریباً 250 فلسطینی اور 32 اسرائیلی مارے گئے؛[ژ] حماس نے ان واقعات کو حملے کا جواز بنایا ہے۔ محمد ضیف، حماس کی عسکری شاخ، عزالدین القسام بریگیڈز کے کماندار، نے فلسطینیوں اور عرب اسرائیلیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ "قابضین کو نکال باہر کریں اور گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دیں "۔ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد مغربی کنارے میں ایک ہنگامی اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس نے جنگ کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔[54][55] اسرائیل میں یش عتید کے يائير لپید نے فلسطینی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتحاد کی حکومت کے قیام کی وکالت کی ہے۔[56]

غزہ کی پٹی سے کم از کم 3,000 راکٹ فائر کیے گئے۔ جب حماس کے مجاہد سرحدی رکاوٹوں کو توڑ کر اسرائیل میں داخل ہوئے، جس سے کم از کم 700 اسرائیلی ہلاک ہوئے[57][58] اور اسرائیل کی حکومت کو ہنگامی حالت کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حملوں کے آغاز کے بعد ایک قومی خطاب میں کہا کہ اسرائیل ’جنگ میں ہے‘۔[59][60][61] اسرائیل میں داخل ہونے والے فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب کیبوتس کے ساتھ ساتھ سدیروت شہر کو بھی اپنی عملداری میں کر لیا۔[62] اسرائیل نے سٹریٹجک عمارتوں اور گھروں پر بمباری کرکے حملے کے خلاف جوابی کارروائی کی۔ غزہ میں حماس کی زیر قیادت فلسطینی وزارت صحت نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل نے کم از کم 400 فلسطینیوں کو دوبدو لڑائی اور فضائی حملوں میں شہید کیا ہے، جن میں عام شہری، 78 بچے اور 41 خواتین شامل ہیں۔ فلسطینی اور اسرائیلی میڈیا دونوں ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو، جن میں بچے بھی شامل ہیں، فلسطینی مجاہدین نے جنگی قیدی بنا لیا ہے؛ ان میں سے کئی یرغمالیوں کو مبینہ طور پر غزہ کی پٹی لے جایا گیا ہے۔ حماس کے حملے کے آغاز کے بعد ایک ہسپتال اور ایمبولینس سمیت شہری اہداف پر اسرائیلی بمباری ہوئی جس میں تقریباً 200 افراد مارے گئے۔[63][64][65] [66]

فلسطینی حملہ

راکٹ بیراج

7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے سمر ٹائم (UTC+3) کے لگ بھگ 06:30 بجے،[52] حماس نے "آپریشن طوفان الاقصیٰ" کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل میں 20 منٹ کے اندر اندر 5000 سے زیادہ راکٹ فائر کیے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ سے کم از کم 3000 پروجیکٹائل داغے گئے ہیں۔ راکٹ حملوں میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔[57][67][60][68] دھماکوں کی اطلاع غزہ کے آس پاس کے علاقوں اور سہل شارون کے شہروں بشمول غدیرا، ہرتزیلیا، تل ابیب اور عسقلان میں موصول ہوئی تھی۔[68] بئر سبع، یروشلم، رحوووت، ریشون لصیون اور پاماچیم ایئربیس میں بھی فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے۔[69][70][71] حماس نے جنگ کی کال جاری کی، جس میں اعلیٰ فوجی کماندار محمد ضیف نے "ہر جگہ مسلمانوں کو اسرائیل میں حملہ کرنے کی اپیل کی"۔ فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب اسرائیلی کشتیوں پر بھی فائرنگ کی، جب کہ غزہ کی سرحدی باڑ کے مشرقی حصے میں فلسطینیوں اور آئی ڈی ایف کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ شام کو حماس نے اسرائیل کی طرف تقریباً 150 راکٹوں کا ایک اور بیراج داغ دیا، جس میں یفنہ، جفعاتایم، بت یام، بیت دگان، تل ابیب اور رشون لیزیون میں دھماکوں کی اطلاع ہے۔ اس کے بعد 8 اکتوبر کی صبح ایک اور راکٹ بیراج ہوا، جس میں ایک راکٹ عسقلان کے برزیلائی میڈیکل سینٹر پر گرا۔[72][73] حماس نے سدیروت پر 100 راکٹ بھی فائر کیے ہیں۔ 9 اکتوبر کو حماس نے تل ابیب اور یروشلم کی سمت میں ایک اور بیراج فائر کیا، ایک راکٹ بین گوریون ہوائی اڈے کے ٹرمینل کے قریب گرا۔

اسرائیل میں فلسطینی حملہ

تقریباً 1,000 فلسطینی مجاہدین نے ٹرکوں، پک اپ، موٹر سائیکلوں، بلڈوزروں، اسپیڈ بوٹس اور پیرا گلائیڈر کے ذریعے غزہ سے اسرائیل میں دراندازی کی۔ تصاویر اور ویڈیوز میں سیاہ رنگت والے پک اپ ٹرکوں میں ملبوس بھاری مسلح اور نقاب پوش مجاہدین کو دکھایا گیا ہے جنھوں نے سدیروت میں فائرنگ کرتے ہوئے کئی اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ دیگر ویڈیوز میں اسرائیلیوں کو قیدی بناتے اور جلتے ہوئے اسرائیلی ٹینک، کے ساتھ ساتھ مجاہدین کو اسرائیلی فوجی گاڑیوں میں سوار دکھایا گیا ہے۔ اس صبح، ریئم کے قریب ایک آؤٹ ڈور میوزک فیسٹیول میں ایک قتل عام ہوا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے، بہت سے لوگ ابھی تک لاپتہ اور روپوش ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار عسکریت پسند فرار ہونے والے شرکاء پر فائرنگ کر رہے تھے، جو پہلے ہی راکٹ فائر کی وجہ سے منتشر ہو رہے تھے جس سے کچھ شرکاء زخمی ہو گئے تھے۔ کچھ کو یرغمال بھی بنا لیا گیا۔ حملہ آور افواج کو نیر اوز، بیری اور نیتیو ہاسارا میں، نیز غزہ کی پٹی کے ارد گرد کبوتزم میں، بھی دیکھا گیا، جہاں انھوں نے مبینہ طور پر یرغمال بنائے اور گھروں کو آگ لگا دی،۔ نتيف عشرہ حملے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ افکیم میں بھی یرغمال بنائے جانے کی اطلاع ملی، جبکہ سدیروت میں گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ حماس نے کہا کہ اس نے اسرائیل کو اپنے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے مجبور کرنے کے لیے قیدیوں کا سہارا لیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے کافی تعداد میں اسرائیلی قیدی بنائے ہیں۔

وزارت صحت غزہ کا انتباہ

” ہم اپنی محدود حیثیت میں کام کرنے کے لیے جو کر سکتے تھے ہم نے کیا۔ چند گھنٹے بعد سب ہسپتال آوٹ آف سروس ہو جائیں گے۔ “

اسلامی سربراہی کانفرنس  کا ہنگامی اجلاس برائے اسرائیل غزہ تنازع، 2023ء

جنگی جرائم

حماس کے حملے کے بعد

نسل کشی کا الزام

29 دسمبر کو، جنوبی افریقہ نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں ایک مقدمہ پیش کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔[74][75]

مذاکرات اور سفارت کاری

جنگ بندی

کینیڈا کے ٹورنٹو میں ایک ریلی میں "اب جنگ بندی" کا مطالبہ

24 اکتوبر کو، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔[76][77]دسمبر میں، مصر کی ثالثی میں ہونے والے نئے مذاکرات کے نتیجے میں ایک ملٹی فیز پلان کی تجویز پیش کی گئی جس میں یرغمالیوں کی رہائی، غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور ایک ٹیکنوکریٹک فلسطینی حکومت کی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی۔[78] حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد نے مستقل جنگ بندی کی پیشکش کو مسترد کر دیا جس کے تحت حماس اور پی آئی جے غزہ پر اپنا کنٹرول چھوڑ دیں گے اور جمہوری انتخابات کرائیں گے۔[79][80]

حوالہ جات