رمضان

اسلامی تقویم کا نواں مہینہ

ماہِ رمضان (رمضان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی جمع رمضانات، ارمضاء، ارمضۃ یا رماضین آتی ہے)[6] یہ ہجری تقویم کا نواں مہینہ ہے جو شعبان کے بعد آتا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ مہینہ دیگر ہجری مہینوں کی بہ نسبت بہت خصوصیت اور مقام ومرتبہ والا سمجھا جاتا ہے۔ اس مہینے میں اسلام کا ایک اہم رکن روزہ رکھا جاتا ہے، روزہ کے دنوں میں فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانا پینا منع ہوتا ہے۔اسی ماہ میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید مکمل ہوا۔

رمضان
منامہ میں تاڑ کے درختوں کے اوپر ہلال دیکھا جا سکتا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بحرین میں رمضان کا اسلامی مہینہ شروع ہو گیا ہے۔
منانے والےمسلمان
قسمدینی
تقریباتاجتماعی افطاریاں اور اجتماعی نمازیں (قیام اللیل)
رسومات
آغازشعبان کے مہینے کی آخری رات[1]
اختتامرمضان کے مہینے کی آخری رات[1]
تاریخمتغیر (بہ مطابق اسلامی قمری تقویم)[2][3]
تکرارہر سال (قمری تقویم)
منسلکعید الفطر، لیلۃ القدر

رمضان کے مہینہ کا آغاز 29 شعبان کو چاند دیکھنے کے بعد اور چاند نظر نہ آنے کی صورت میں 30 شعبان کے بعد ہوتا ہے، اگلا دن پہلا رمضان ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح چاند دیکھنے پر 29 یا نہ دیکھے جانے کی صورت میں 30 دن پر مکمل ہوتا یے۔ رمضان کے ختم ہونے کے بعد مسلمان عید الفطر مناتے ہیں۔رمضان کے مہینے کا مسلمانوں کے نزدیک ایک خاص تاریخی مقام و مرتبہ ہے؛ ان کا ماننا ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اسی مہینہ کی شب قدر میں نازل ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد مختلف اوقات میں تھوڑا تھوڑا وحی کی شکل میں محمد پر نازل ہوتا رہا، اس کا آغاز غار حرا میں ہوا، جہاں فرشتہ جبرائیل ان کے پاس قرآن کی پہلی وحی لے کر آیا اور ان سے کہا اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ اور یہ قرآن کی نازل ہونے والی پہلی آیت تھی۔ قرآن پہلی مرتبہ رمضان کے مہینہ کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر مکمل نازل کر دیا گیا اور اسے آسمان دنیا کے بیت العزۃ میں رکھ دیا گیا۔ پھر جبرائیل وہاں سے اوامر و نواہی اور قرآنی احکامات کو تھوڑا تھوڑا بشکل وحی نازل کرتے اور تیئیس سال کی مدت میں مکمل نازل ہو گیا۔

رمضان کے مہینے میں مسلم ممالک اور معاشرہ میں بہت سے دینی شعائر کا اہتمام کیا جاتا ہے، مثلاً: نماز تراویح اور آخری عشرہ میں اعتکاف وغیرہ۔ اسی طرح بہت سے اعمال و رسوم بھی ادا کیے جاتے ہیں، جیسے: افطار کے دسترخوان کا اہتمام اور دوسروں کو افطار کی دعوت وغیرہ۔ اس کے علاوہ بہت سے مظاہر اور روایتی کاموں کا نظم کیا جاتا ہے مثلاً: رمضان میں فانوس، قمقمے سے زیبائش کی جاتی ہے، ماکولات کا روایتی اہتمام خوب کیا جاتا ہے، افطار کے بعد اور سحری میں شیرینی یا میٹھے پکوان کا نظم ہوتا ہے، وغیرہ۔

رمضان کی اصل

رمضان نام یہ صرف اسلام کی ایجاد نہیں ہے، بلکہ یہ نام زمانہ جاہلیت میں موجود تھا اور مہینے کے ہی نام کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ مہینوں کے نام ان کے وقوع اور ان کی نوعیت کی وجہ سے رکھتے تھے؛ جیسے ذو الحجہ کا نام: چونکہ اس مہینے میں حج کا موسم ہوتا تھا اس لیے ذو الحجہ نام رکھا گیا۔ اسی طرح ربیع الاول؛ چونکہ نام رکھتے وقت یہ مہینہ ربیع کے موسم میں تھا۔ اسی طرح دیگر مہینوں کی بھی وجہ تسمیہ ہے۔ بہر حال رمضان کی وجہ تسمیہ؛ رمضان یہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی شدید گرمی کے آتے ہیں، جب اس کا نام رکھا گیا تھا اس وقت سخت گرمی کا موسم تھا اس لیے اس کا نام ہی رمضان رکھ دیا گیا۔ اور یہ نام اس مہینے کے اعتبار سے مسلمانوں کے لیے بہت مناسب ہے، چونکہ روزہ دار کا پیٹ بھوک اور پیاس کی شدت سے بھرا ہوتا ہے۔[7][8]

اسلام میں رمضان کی اہمیت

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ

رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ[9]

دین اسلام میں رمضان کے مہینہ کی فضیلت و اہمیت سے متعلق بہت سی قرآنی آیات اور احادیث ہیں۔ چونکہ اس مہینے میں اسلام کا ایک رکن "روزہ" رکھا جاتا ہے جو اسلام میں انتہائی اجر و ثواب کا کام ہے۔ اس کے علاوہ اس مہینے کی فضیلت میں؛ جنت کے دروازوں کا کھول دیا جانا، جہنم کے دروازوں کا بند کر دیا جانا،[10] اور سرکش شیاطین کو قید کرنا وغیرہ ہے۔ مسلمان اس مہینے میں خاص طور سے گناہوں سے بچتے ہیں اور نیکی و خیرات کے کام کرتے ہیں، ان کے نزدیک یہ عبادات و طاعات کے ذریعہ اللہ کی قربت، جنت کی طلب اور جہنم سے دوری کا مہینہ ہے۔[11] ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: «اس مہینے کی پہلی رات میں شیاطین اور سرکش جناتوں کو قید کر لیا جاتا ہے، جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے، اس کا ایک بھی دروازہ نہیں کھلا رہتا۔ اسی طرح جنت کے سارے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے، اس کا ایک بھی دروازہ بند نہیں رہتا۔ ایک منادی آواز لگاتا ہے: ائے خیر کے طلبگاروں! متوجہ ہو جاؤ! اور ائے شر کے خریداروں! اجتناب کرو! اللہ کی طرف سے جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے اور یہ عمل ہر رات ہوتا ہے» (ابن ماجہ)۔ رمضان کے مہینے میں اللہ نے ہر مسلمان بالغ پر روزے کو فرض کیا ہے، اسے گناہوں سے مغفرت، ثواب و رضا، دعاؤں کی قبولیت اور اللہ سے تقرب کا مہینہ قرار دیا ہے۔ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (ترجمہ: رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور فرقان کی دلیل ہے، جو شخص اس ماہ کو پائے، وہ اس میں روزے رکھے اور جو بیمار یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں (قضا) کرے، اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، وہ تمھارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔ مدت کو مکمل کرو، اللہ کی ہدایت کے مطابق اللہ کی بڑائی بیان کرو، تاکہ تم شکر گزار بن سکو۔ اور جب میرے بندے مجھے پکارتے ہیں تو میں قریب ہوتا ہوں اور پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ تو انھیں بھی چاہیے کہ وہ میرے احکامات کو قبول کریں، مجھ پر ایمان رکھیں، تاکہ وہ صحیح راہ پر چل سکیں۔) قرآن مجید رمضان کے مہینے ہی میں سال کی ایک عظیم رات شب قدر میں نازل ہوا ہے، اس کو رات کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے، قرآن میں ہے۔ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (ترجمہ؛ ہم نے اس (کتاب) کو شب قدر میں نازل کیا ہے) سورہ دخان میں ہے: إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ (ترجمہ؛ ہم نے اس کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے، ہم ڈرانے والے ہیں)۔ رمضان کا مہینہ مسلمانوں میں جود و سخا اور احسان و کرم کا مہینہ ہے، مسلمان اس میں قرآن کی خوب تلاوت اور کثرت سے صدقات و خیرات کرتے ہیں، یہ صبر کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے، چونکہ اس میں عبادت کے ساتھ ساتھ روزہ میں صبر کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، مسلمان اپنی خواہشات اور شہوات کو قابو کر کے خدا کے اس فریضہ پر صبر کرتے ہیں، صبر کا بدلہ جنت سمجھا جاتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ (ترجمہ؛ کہہ دیجیے میرے مومن بندوں اپنے رب سے تقوی کرو، جو لوگ اس دنیا میں بھلائی لیے ان کے لیے بھلائی ہوگی، اللہ کی زمین بہت وسیع ہے اور بلا شبہ صبر کرنے والوں کو ان کا بدلہ بلا حساب پورا پورا دیا جائے گا)۔

مسلمانوں پر پہلی مرتبہ سنہ 2ھ (624ء) کو روزہ فرض کیا گیا، مسلمان روزہ کو صرف رسمی عبارت نہیں سمجھتے ہیں،[12] بلکہ اسے اللہ سے تقوی کا ایک بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔[13] زمانہ جاہلیت میں مکہ میں قحط سالی سے بچنے اور گناہوں سے کفارہ کے لیے دسویں محرم کو روزہ رکھا جاتا تھا۔[14] مؤرخ اور محقق فیلپ جینکِنز نے لکھا ہے کہ: رمضان میں روزہ کا اہتمام سریانی کلیسیاؤں کی روزہ کی سخت پابندی کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس موقف کی بہت سے علما اور محققین تائید کرتے ہیں اس میں سے ایک الٰہیات دان پال گورڈن چانڈلر ہیں،[15][16] لیکن بعض دوسرے علما اسی موقف کی مخالفت کرتے ہیں۔[17]

اہم تاریخیں

ماہ رمضان کا آغاز و اختتام قمری اسلامی تقویم کے مطابق ہوتا ہے۔[3]

آغاز

ہلال (چاند) فلکی اعتبار سے نئے چاند کو عربی میں ہلال کہا جاتا ہے، جو قمری تقویم کے نئے مہینے کے آغاز کی علامت ہوتا ہے، مسلمان بھی ہلال دیکھ کر رمضان کے ماہ کا آغاز و اختتام مناتے ہیں۔[18] عام طور رمضان کا آغاز اطمینان کے ساتھ مان لیا جاتا ہے، تاہم مسلمانوں میں ہلال دیکھنے نہ دیکھنے، مطلع صاف ہونے نہ ہونے اور نکلنے کی گواہی دینے وغیرہ میں علاقوں کے اعتبار سے معمولی اختلاف ہو جاتا ہے اور رویت ہلال کے تعلق سے یہ اختلاف ابتدائی زمانے سے ہوتا آیا ہے۔[19]

شب قدر

شب قدر کا عربی لیلۃ القدر یعنی قدر و منزلت والی رات یا طاقت و قوت والی شب ہے۔[20][21] یہ رات مسلمانوں میں پوری سال کی سب سے مقدس رات مانی جاتی ہے، اس رات کو قرآن کے آسمان دنیا پر نازل ہونے اور پھر اسی رات میں زمین پر بذریعہ وحی محمد پر اترنے کی وجہ سے بے انتہا اہمیت حاصل ہے، اس رات کی عبادت کو ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔جیسا کہ سورہ قدر میں ہے: لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے)۔ یہ رات متعینہ طور پر نامعلوم اور غیر متعین ہے لیکن اس کا عمومی اطلاق رمضان کے آخری عشرے کی راتوں پر ہوتا ہے۔

رمضان اور قرآن

قرآن میں ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ. شَهْرُ رَمَضَانَ رمضان کے مہینہ سے مراد قمری تقویم کا نواں مہینہ ہے، عربی میں مہینہ کو «شَهْر» (شہرت کی وجہ سے) کہا جاتا ہے۔ رمضان نام کی وجہ سے مجاہد کہتے ہیں: «رمضان اللہ کا ایک نام ہے، اس طرح یہ رمضان "اللہ کا مہینہ" بھی کہلاتا ہے»۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ رمضان مہینہ کا نام ہے۔ رمضاء سے بنا ہے جس کے معنی گرم پتھر کے ہوتے ہیں۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ اس میں قرآن نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آسمان دنیا پر اس ماہ میں نازل ہوا، خاص طور سے شب قدر کی رات میں۔ پھر آسمان دنیا سے وقتاً فوقتاً مخلتف ایام و ماہ میں تیئس سال کی مدت میں اس زمیں پر اترا۔

مقسم ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ نے اس قرآن کو لوح محفوظ سے ایک ساتھ رمضان کے مہینے کی شب قدر میں آسمان دنیا کے بیت العزۃ پر اتارا، پھر وہاں سے جبرائیل علیہ السلام بذریعہ وحی تیئیس سال کی مدت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر لائے۔ هُدًى لِّلنَّاسِ یعنی گمراہی سے بچانے والا، وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ یعنی حلال و حرام اور حدود و احکام کی واضح تفصیلات، «فرقان» حق و باطل کے درمیان فارق و فاصل۔[22]

ابن جریر طبری کہتے ہیں: «یہ قرآن لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر ایک ساتھ مکمل رمضان کی شب قدر میں نازل کر دیا گیا، پھر وہاں سے محمد پر جنتا اللہ نے چاہا بذریعہ وحی نازل کیا جاتا رہا۔[23]

قیام رمضان

یہ رمضان کی ایک خاص اضافی نماز ہے، جسے مسلمان بطور نفل اور سنت کے ادا کرتے ہیں، اس کا وقت عشا کی نماز کے بعد سے سحر تک ہوتا ہے۔ دو دو رکعت پر سلام پھیر کر مکمل کی جاتی ہے، پھر اخیر میں وتر کی نماز بھی رمضان میں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ تراویح کی نماز قرآن مجید مکمل پڑھنے اور سننے کو اہمیت دی جاتی ہے، عالم اسلام میں اس نماز کے بعد خصوصی دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام ص سے یہ نماز مستقل ثابت نہیں ہے، البتہ تین دن آپ نے اس کا اہتمام کیا تھا پھر لوگوں کو الگ الگ پڑھنے کا حکم دے دیا تھا کہ کہیں فرض نہ ہو جائے۔ پھر خلیفہ راشد دوم عمر بن خطاب نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو جماعت پر جمع کیا۔[24]

رمضان المبارک کی عبادات

ایک اردو اسلامی کتاب کے مطابق رمضان کے ہر دن کے لیے مختلف عبادات ہیں۔[8]


حوالہ جات