بھارت میں مردم شماری، 2011ء

15ویں بھارتی مردم شماری دو مرحلوں میں منعقد کی گئی تھی، خانہ شماری اور مردم شماری۔ خانہ (عمارت) شماری کا آغاز 1 اپریل، 2010ء کو ہوا اور اس میں تمام عماراتوں کی معلومات جمع کی گئیں۔ معلومات برائے قومی آبادی رجسٹر پہلے مرحلے میں جمع کی گئیں، جو تمام مندرج بھارتی رہائشی شہریوں کو 12 ہندوسوں پر مشتمل آدھار (یو آئی ڈی اے آئی) شناختی کارڈ جاری کرنے کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ دوسرے مرحلے میں 9 سے 28 فروری 2011ء کے درمیان میں آبادی کی گنتی کی گئی۔ 1872ء کے بعد سے بھارت میں مردم شماریاں ہو رہی ہیں اور 2011ء میں، پہلی بار بایو میٹرک معلومات جمع کی گئی تھیں۔ 31 مارچ، 2011ء کو جاری کردہ رپورٹوں کے مطابق، بھارت کی کل آبادی 121 کروڑ ہو چکی ہے جو ہر دس سال میں 17.64% بڑھ رہی ہے۔[2] آبادی میں شرح خواندگی 74.04% جس میں ہر سال میں 9.21% اضافہ ہو رہا ہے۔ مردم شماری 2011ء کا نعرہ تھا، 'ہماری مردم شماری، ہمارا مستقبل'۔

بھارت کی 15 ویں
مردم شماری
عمومی معلومات
ملک بھارت
تاریخ شماری2010–2011
کل آبادی1,210,193,422
فیصد تبدیلیIncrease 17.70%[1]
سب سے زیادہ آباداتر پردیش (199,812,341)
سب سے کم آبادسکم (610,577)

مردم وخانہ شماری کا یہ عمل 28 ریاستوں[ا] اور 7 عملداریوں کے 640 اضلاع، 5,924 ذیلی اضلاع، 7,935 قصبوں اور 6 لاکھ سے زیادہ گاؤں پر پھیلا ہوا تھا۔ مجموعی طور پر 27 لاکھ اہلکاروں نے 7،935 شہروں میں گھروں کا دورہ کیا اور 6 لاکھ گاؤں، آبادی کی درجہ بندی جنس، مذہب، تعلیم اور پیشہ کے مطابق کی گئی۔[3] اس سارے عمل پر کل خرچ تقریباً 2,200 کروڑ (امریکی $310 ملین)[4] – یہ فی فرد $0.50 سے کم خرچ بنتا ہے، باقی دنیا میں اس کام پر اندازہ $4.60 فی فرد خرچ ہوتا ہے۔[3] ہر 10 سال بعد ہونے والی بھارت کے وسیع علاقوں میں مردم شماری نے بھارت میں کئی چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔ ثقافتوں کا تنوع اور افرادی قوت نے اس میں مخالف کی ہے۔

ذاتوں کی معلومات کو مندرجہ ذیل حکمران اتحادی رہنماؤں کی طرف سے مردم شماری میں شامل کیا گیا بشمول لالو پرساد یادو، شرد یادو اور ملائم سنگھ یادو جن کو حزب مخالف کی جماعتوں بھارتیہ جنتا پارٹی، شرومنی اکالی دل، شیو سینا اور انا دراود منیتر کڑگم کی حمایت بھی حاصل تھی۔[5] ذاتوں کی شماریات اس سے پہلے آخری بار برطانوی دور میں 1931ء میں جمع کی گئیں۔ ابتدا میں مردم شماری میں لوگوں نے اپنی سماجی حیثیت کے فروغ کے لیے ذات بتانے میں مبالغہ کیا البتہ اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ کئی لوگ ذات کو پست بتا کر حکومتی سہولیات حاصل کرتے ہیں۔[6] قیاس آرائی موجود تھی کہ 2011ء میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری ہو گی، 80 سال کے بعد (آخری بار 1931ء میں ہوئی)، جس سے بھارت میں "دیگر پسماندہ طبقات" کی درست ترین تعداد کا علم ہو سکے گا۔[7][8][9][10] بعد میں اس کو قبول کیا گیا تھا اور معاشرتی اقتصادی اور ذاتوں کی شماری بندی 2011ء منعقد کی گئی جس کے نتائج پہلی بار 3 جولائی 2015ء کو مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پیش کیے۔[11] 1980ء میں مینڈل کمیشن کے مطابق دیگر پسماندہ طبقات کی آبادی 52% تھی، نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن نے اگرچہ (این ایس ایس او) 2006ء میں ایک سروے کے بعد دیگر پسماندہ طبقات کی آبادی 41%بتائی تھی[12]

آزادی کے بعد، ذات شماری کی یہ پہلی مثال ہے۔ آزادی کے بعد انفرادی طور پر صرف ریاست کیرلا میں 1968ء میں ای ایم ایس نمبوتیری پاڈ نے مختلف سماجی و معاشی کمزور ذاتوں سے متعلق ایک سروے کروایا تھا اور یہ کیرلا سماجی و اقتصادی جائزہ 1968ء میں مکمل ہوا اور اور 1971ء میں کیرلا گزیٹر میں اس کے نتائج شائع ہوئے۔۔[13]

مردم شماری

سی چندرامولی رجسٹرار جنرل اور 2011ہ بھارت مردم شماری کے مردم شماری کمشنر تھے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کو 16 زبانوں میں جمع کیا گیا تھا اور تربیتی نصاب 18 زبانوں میں تیار کیا گیا تھا۔ 2011ء میں، بھارت اور بنگلہ دیش نے اپنی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں میں مل کر پہلی بار مردم شماری کی۔[14][15] مردم شماری دو مرحلے میں منعقد کی گئی تھی۔ پہلے میں خانہ شماری ہوئی، جو 1 اپریل 2010ء کو شروع ہوئی اور تمام عمارتوں اور آباد مکانات سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے گئے۔[16] پہلے مرحلے میں قومی آبادی رجسٹر بھی جمع کیا گیا تھا۔ دوسرے مرحلے میں، ملکبھر کی آبادی کی شمار بندی ہوئی، یہ کام 9 سے 28 فروری 2011ء کے دوران میں ہوا۔

معلومات

اندراج تعمیرات

گھر (یا تعمیر کوئی بھی) کے لیے 35 سوال تھے۔[17]

Building number
Census house number
Predominant material of floor, wall and roof of the census house
Ascertain use of actual house
Condition of the census house
Household number
Total number of persons in the household
Name of the head of the household
Sex of the head
Caste status (SC or ST or others)
Ownership status of the house
Number of dwelling rooms
Number of married couple the household
Main source of drinking water
Availability of drinking water source
Main source of lighting
Latrine within the premises
Type of latrine facility
Waste water outlet connection
Bathing facility within the premises
باورچی خانے کی دستیابی
کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن
ریڈیو/ٹرانسسٹر
ٹیلی ویژن
کمپیوٹر/لیپ ٹاپ
ٹیلی فون/موبائل فون
بائیسکل
سکوٹر/موٹر سائیکل/موپڈ
کار/جیپ/وین
بینک خدمات لینے کی معلومات۔

آبادی کی گنتی

آبادی کی گنلتی کے رجسٹر میں کل 30 سوالات تھے۔[18][19]

فرد کا نام
سربراہ سے رشتہ
جنس
تاریخ پیدائش اور عمر
موجودہ ازدواجی حیثیت
شادی کی عمر
مذہب
ذات/درج قبیلہ
معذوری
مادری زبان
جو دیگر زبانیں جانتا ہے
تعلیمی حیثیت
حاضری کی کیفیت (تعلیم)
اعلیٰ ترین تعلیمی قابلیت
گذشتہ سالوں کے دوران میں جو کام کیا
معاشی سرگرمیوں کا زمرہ
کاروبار کی نوعیت
تجارت یا خدمت
مزدور کی کلاس
غیر معاشی سرگرمی
حصول یا کام کے لیے دستیاب
کام کے مقام کا فاصلہ
مقام پیدائش
گذشتہ رہائش گاہ کا مقام
منتقلی کی وجہ
منتقلی کی جگہ میں قیام کی مدت
زندہ بچے
ابک تک پیدا ہونے والے بچے
آخری سال پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد

قومی آبادی رجسٹر

قومی آبادی کے رجسٹر میں رہائشیوں سے 9 سوالات کیے گئے تھے۔[20]

فرد کا نام اور رہائشی کیفیت
آبادی کے رجسٹر میں درج ہونے والے شخص کا نام
سرپرست سے رشتہ
جنس
تاریخ پیدائش
ازدواجی حیثیت
تعلیمی قابلیت
کاروبار / سرگرمی
باپ، ماں اور بیوی کا نام

پوروں کے نشانات لینے اور تصاویر یہ معلومات ایک بار جمع ہو جانے کے بعد، ملک کے تمام شہریوں کو ایک 12 ہندسوں کا شناختی کارڈ جسے آدھار کارڈ کہا گیا ہے جاری کیا جائے گا، پہلا کارڈ 2011ء میں جاری کیا گیا تھا۔[21][22][23]

مردم شماری رپورٹ

دہائیوں کے حساب سے بھارتی آبادی میں اصافہ (1901ء–2011ء)۔

Prعارضی معلومات (ڈیٹا) 31 مارچ 2011ء کو جاری کی گئیں (اور 20 مئی 2013ء کو ان کو تازہ/اپڈیٹ کیا گیا)۔[24][25][26][27][28] 2011ء میں پہلی بار کی مخنث آبادی کو شمار کیا گیا۔[29][30] 2011ء میں آبادی کا مجموعی جنسی تناسب ہر 1،000 مردوں کے مقابل 943 خواتین ہیں۔[31] بھارت میں تیسری جنس کی سرکاری تعداد 4.9 لاکھ ہے۔[32]

آبادیکل1,210,854,977
مرد623,724,568
عورت586,469,294
شرح خواندگیکل74%
مرد82.10%
خواتین65.50%
کثافت آبادیفی کلومیٹر2382
جنسی تناسبفی 1000 مرد943 عورتیں
بچوں میں جنسی تناسب (0–6 عمر کی حد)فی 1000 مرد919

آبادی

2011ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی 1,210,193,422 تھی۔[33] 2001ء سے 2011ء کے درمیآن میں بھارتی آبادی میں 181.5 ملین کا اضافہ ہوا، جو برازیل کی آبادی سے تھوڑا سا کم ہے۔ بھارت، دنیا کے 2.4% زمینی رقبے پر 17.5% آبادی والا ملک ہے۔ اترپردیش 200 ملین آبادی کے ساتھ سب سے بڑی ہے۔ کل آبادی کی نصف آبادی 6 ریاستوں اترپردیش، مہارشٹر، بہار، مغربی بنگال، آندھرا پردیش اور مدھیہ پردیش میں ہے۔[34] 121 کروڑ بھارتیوں میں سے، 83.3 کروڑ (68.84%) دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جب کہ 37.7 کروڑ شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔[35][36] بھارت میں 45.36 کروڑ لوگ تارکین وطن ہیں، جو مجموعی آبادی کا 37.8 فیصد ہے۔[37][38][39]

بھارت کئی بڑے مذاہب جیسے ہندومت، بدھ مت، سکھ مت اور جین مت کے مقام پیدائش کی حیثیت رکھتا ہے،،جب کہ کئی دیسی عقائد اور قبائلی مذاہب ایسے بھی ہیں جو بڑے مذاہب کی صدیوں کی عملداری کے باموجود اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔مردم شماری کے بعد، مردم شماری میں مذہب سے متعلق لوگوں سے لی گئی معلومات کو جاری کیا گيا ہے۔

بھارت کی آبادی بلحاظ ریاست
درجہریاست (ی وٹی)قسمآبادی[40]آبادی ک ا%[41]مردعورتیںجنسی تناسب
[42]
شرح خواندگی (%)شہری[43]
آبادی
دیہی[43]
آبادی
رقبہ[44]
(km²)
کثافت
(/km²)
دس سالہ اضافہ% (2001–2011)
1اتر پردیشریاست199,812,34116.5104,480,51095,331,83193067.68155,111,02244,470,455240,92882820.1%
2مہاراشٹرریاست112,374,3339.2858,243,05654,131,27792982.3461,545,44150,827,531307,71336516.0%
3بہار (بھارت)ریاست104,099,4528.654,278,15749,821,29591861.8092,075,02811,729,60994,1631,10225.1%
4مغربی بنگالریاست91,276,1157.5446,809,02744,467,08895076.2662,213,67629,134,06088,7521,03013.9%
5آندھرا پردیش[ا]ریاست84,580,7776.9942,442,14642,138,63199367.0256,361,70228,219,075275,04530811.1%
6مدھیہ پردیشریاست72,626,8096.0037,612,30635,014,50393169.3252,537,89920,059,666308,24523620.3%
7تمل ناڈوریاست72,147,0305.9636,137,97536,009,05599680.0937,189,22934,949,729130,05855515.6%
8راجستھانریاست68,548,4375.6635,550,99732,997,44092866.1151,540,23617,080,776342,23920121.4%
9کرناٹکریاست61,095,2975.0530,966,65730,128,64097375.3637,552,52923,578,175191,79131915.7%
10گجراتریاست60,439,6924.9931,491,26028,948,43291978.0334,670,81725,712,811196,02430819.2%
11اوڈیشاریاست41,974,2183.4721,212,13620,762,08297972.8734,951,2346,996,124155,70726914.0%
12کیرلاریاست33,406,0612.7616,027,41217,378,6491,08494.0017,445,50615,932,17138,8638594.9%
13جھارکھنڈریاست32,988,1342.7216,930,31516,057,81994866.4125,036,9467,929,29279,71441422.3%
14آسامریاست31,205,5762.5815,939,44315,266,13395872.1926,780,5264,388,75678,43839716.9%
15پنجابریاست27,743,3382.2914,639,46513,103,87389575.8417,316,80010,387,43650,36255013.7%
16چھتیس گڑھریاست25,545,1982.1112,832,89512,712,30399170.2819,603,6585,936,538135,19118922.6%
17ہریانہریاست25,351,4622.0913,494,73411,856,72887975.5516,531,4938,821,58844,21257319.9%
18دہلییوٹی16,787,9411.398,887,3267,800,61586886.21944,72712,905,7801,48411,29721%
19جموں و کشمیرریاست12,541,3021.046,640,6625,900,64088967.169,134,8203,414,106222,2365623.7%
20اتراکھنڈریاست10,086,2920.835,137,7734,948,51996379.637,025,5833,091,16953,48318919.2%
21ہماچل پردیشریاست6,864,6020.573,481,8733,382,72997282.806,167,805688,70455,67312312.8%
22تریپورہریاست3,673,9170.301,874,3761,799,54196087.222,710,051960,98110,48635014.7%
23میگھالیہریاست2,966,8890.251,491,8321,475,05798974.432,368,971595,03622,42913227.8%
24منی پورریاست2,721,7560.211,290,1711,280,21999279.211,899,624822,13222,32712218.7%
25ناگالینڈریاست1,978,5020.161,024,649953,85393179.551,406,861573,74116,579119-0.5%
26گواریاست1,458,5450.12739,140719,40597388.70551,414906,3093,7023948.2%
27اروناچل پردیشریاست1,383,7270.11713,912669,81593865.381,069,165313,44683,7431725.9%
28پدوچیرییوٹی1,247,9530.10612,511635,4421,03785.85394,341850,1234792,59827.7%
29میزورمریاست1,097,2060.09555,339541,86797691.33529,037561,99721,0815222.8%
30چندی گڑھیوٹی1,055,4500.09580,663474,78781886.0529,0041,025,6821149,25217.1%
31سکمریاست610,5770.05323,070287,50789081.42455,962151,7267,0968612.4%
32جزائر انڈمان و نکوباریوٹی380,5810.03202,871177,71087686.63244,411135,5338,249466.7%
33دادرا و نگر حویلییوٹی343,7090.03193,760149,94977476.24183,024159,82949169855.5%
34دمن و دیویوٹی243,2470.02150,30192,94661887.1060,331182,5801122,16953.5%
35لکشادیپیوٹی64,4730.0133,12331,35094691.8514,12150,308322,0136.2%
کلبھارت351,210,854,977 100623,724,248586,469,17494373.00833,087,662377,105,7603,287,24038217.64%

مذہبی آبادیات

2011ء کی مردم شماری کی مذہبی معلومات (ڈیٹا) حکومت بھارت نے 25 اگست 2015ء کو جاری کیں۔[45][46][47] اس کے مطابق بھارت میں 79.8% (966.3 ملین) ہندو[48] اور 14.23% (172.2 ملین) مسلمان ہیں۔[49][49][50][51] اور مسیحی 2.30% (28.7 ملین) ہیں۔ 2011ہ کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں 57,264 پارسی ہیں۔[52][53] پہلی بار، 2011ء کی مردم شماری میں "لا مذہب" کا خانہ رکھا گیا۔[54][55] اس مردم شماری کے مطابق 2.87 ملین بھارتیوں نے خود کو کسی مذہب سے وابستہ نہیں کیا۔[56][57] جو 1.21 بلین کی آبادی کا 0.24% بنتا ہے۔[58][59] مندرجہ ذیل کے جھول میں بھارت کی مذہبی آبادی ک وبلحاظ دہائی بیان کیا گیا ہے۔[60][61][62] Tبھارت میں 6 مذاہب کو "قومی اقلیت" کا درجہ کیا گیا ہے، اس میں– مسلم، مسیحی، سکھ، جین، بودھ اور پارسی شامل ہیں۔[63][64] سنی، شیعہ، بوہری، آغا خانی اور احمدیہ کو اسلام کے فرقے مانا گیا ہے۔[65][66][67] 2011 کی مردم شماری کے مطابق، چھ بڑے عقائد- ہندو، مسلم، مسیحی، سکھ، جین اور بدھ بھارت کی 121 کروڑ آبادی کا 99.4% ہیں، جبکہ “دوسرے مذاہب، عقائد” (او آر پی) کی تعداد 82 طے کی گئی۔ دیگر عقائد والوں میں،چھ عقائد- 49.57 لاکھ سرنا دھرم، 10.26 لاکھ گوند، 5.06 لاکھ ساڑی، ڈونیو پولو (3.02 لاکھ) ارونا چل پر دیش میں،ساناماہی (2.22 لاکھ) منی پور میں،کھاسی (1.38 لاکھ) کو میگھالیہ میں اکثریت حاصل ہے۔[68] مہاراشٹر میں 9,652 لادین افراد ہیں، جو ملک بھر میں سب سے بڑی تعداد ہے، اس کے بعد میگھالیہ (9,089) اور کیرلا ہیں۔[69]

بھارت میں بڑے مذہبی گروہوں کی آبادی کے رجحانات (1951ء–2011ء)
مذہبی
گروہ
آبادی
% 1951
آبادی
% 1961
آبادی
% 1971
آبادی
% 1981
آبادی
% 1991
آبادی
% 2001
آبادی
% 2011[70]
ہندومت84.1%83.45%82.73%82.30%81.53%80.46%79.80%
اسلام9.8%10.69%11.21%11.75%12.61%13.43%14.23%
مسیحیت2.3%2.44%2.60%2.44%2.32%2.34%2.30%
سکھ مت1.79%1.79%1.89%1.92%1.94%1.87%1.72%
بدھ مت0.74%0.74%0.70%0.70%0.77%0.77%0.70%
جین مت0.46%0.46%0.48%0.47%0.40%0.41%0.37%
زرتشتیت0.13%0.09%0.09%0.09%0.08%0.06%n/a
دیگر مذاہب / لا مذہب0.43%0.43%0.41%0.42%0.44%0.72%0.9%

شرح خواندگی

7 سال سے بڑی عمر کے ہر فرد کو جو کسی بھی زبان میں لکھنا اور پڑھنا جانتا تھا، اسے خواندہ شمار کیا گیا۔ 1991ء سے بقل کی مردم شماریون مین یہ حد 5 سال تک کے بچوں پر لاگو ہوتی تھی۔ پوری آبادی کی شرح خواندگی کو خام شرح خواندگی قرار دیا جاتا ہے، جب کہ 7 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی شرح خواندگی کو مؤثر شرح خواندگی قرار دیا جاتا ہے۔ مؤثر شرح خواندگی 74.04% تھی، جس میں سے مردوں میں شرح خواندگی 82.14% اور عورتوں میں 65.46% ہے۔[71]

شمار۔سال مردم شماری (%)کل (%)مرد (%)عورتیں (%)
119015.359.830.60
219115.9210.561.05
319217.1612.211.81
419319.5015.592.93
5194116.1024.907.30
6195116.6724.959.45
7196124.0234.4412.95
8197129.4539.4518.69
9198136.2346.8924.82
10199142.8452.7432.17
11200164.8375.2653.67
12201174.0482.1465.46
  • اس جدول میں بھارت کی 1901ء سے 2011ء تک خام شرح خواندگی دی کئی ہے۔

مزید دیکھیے

ملاحظات

حوالہ جات

بیرونی روابط