مریخ پر پانی

سیارہ مریخ پر پانی متعلقہ تحقیق

دور حاضر میں اگرچہ مریخ پر پانی کی تھوڑی سی مقدار کرۂ فضائی میں بطور آبی بخارات موجود ہے تاہم یہاں پر زیادہ تر پانی صرف برف کی صورت ہی میں پایا جاتا ہے[1] جبکہ کبھی کبھار تھوڑے سے نمکین پانی کی مقدار مریخ کی مٹی میں کم گہرائی پر بھی پائی جاتی ہے۔[2] وہ واحد جگہ جہاں پر پانی کی برف سطح پر دکھائی دے سکتی ہے وہ شمالی قطبی برفیلی ٹوپی ہے۔[3] پانی کی برف کی فراواں مقدار مریخ کے جنوبی قطب پر سدا بہار کاربن ڈائی آکسائڈ کی برفیلی ٹوپی کے نیچے اور معتدل عرض البلد میں سطح زمین سے قریب موجود ہے۔[4][5][6][7] پچاس لاکھ مکعب کلومیٹر سے زیادہ برف کا سراغ مریخ کی سطح پر یا اس کے قریب لگایا جا چکا ہے۔ یہ مقدار اس قدر ہے کہ پورے سیارے کی سطح کو 35 میٹر کی گہرائی میں ڈبو سکتی ہے۔[8] بلکہ سطح سے نیچے اور گہرائی میں مزید برف کی موجودگی کا امکان ہے۔[9]

ارضیاتی اعداد و شمار کی بنیاد پر قدیمی مریخ کس طرح  کا نظر آتا ہوگا، ایک مصور کا تخیل۔

دور حاضر میں کچھ مائع پانی مریخ کی سطح پر عارضی طور پر نمودار ہو سکتا ہے تاہم ایسا صرف مخصوص حالات کے زیر اثر ہی ہوتا ہے۔[10][11][12] مریخ کی سطح پر مائع پانی کےکھڑے بڑے ذخیرے اس لیے وجود نہیں رکھتے کیونکہ سطح پر موجود فضائی دباؤ کی اوسط 600 پاسکل (0.087 psi) – یعنی زمین کے سطح سمندر کے دباؤ کا صرف 0.6 فیصد ہے – اور کیونکہ سیاروی درجہ حرارت بہت ہی کم ((210K (-63 °C ) ہے لہٰذا اس کی وجہ سے یا تو تیز رفتار تبخیر (عمل تصعید) یا تیز رفتار انجماد وقوع پزیر ہو جاتا ہے۔ آج سے لگ بھگ 3 ارب 80 کروڑ برس پہلے، مریخ کا کرۂ فضائی کافی کثیف اور درجہ حرارت کافی بلند تھا [13][14] جس کی وجہ سے سطح پر پانی کی وسیع مقدار موجود تھی [15][16][17] گمان ہے کہ مریخ پر اس دور میں ایک بڑا سمندر بھی ہوگا[18][19][20][21] جس نے سیارے کے ایک تہائی حصّے کو گھیرا ہوا ہوگا۔[22][23][24] بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مریخ کے ماضی قریب میں پانی سطح پر مختلف ادوار میں مختصر طور پر بہتا رہا ہے۔[25][26][27] 9 دسمبر 2013ء کو ناسا نے کیوریوسٹی جہاں گرد کی تحقیق سے حاصل کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر بتایا کہ ایولس پالس، گیل شہابی گڑھے میں قدیمی تازہ پانی کی جھیلیں موجود ہیں جو خرد حیات کے لیے مہمان نواز ماحول مہیا کر سکتی تھیں۔[28][29]

مریخ پر پانی کی  کثیر مقدار اور سیارے کی ارضیاتی تاریخ میں اس کے اہم کردار کے بارے میں  کافی ثبوت ملے ہیں۔[30][31] دور حاضر میں مریخ کے پانی کے ذخائر کا اندازہ خلائی جہاز سے حاصل کردہ تصاویر، دور حساسی تیکنیک ( طیف پیمائی، [32][33] ریڈار، [34] وغیرہ) اور خلائی گاڑیوں اور جہاں گردوں کی تفتیش سے لگایا جا سکتا ہے۔[35][36] ماضی کے پانی سے متعلق ارضیاتی ثبوتوں کے سراغ میں مریخ کی سطح پر آنے والے سیلابوں سے تراشی ہوئی شاندار بہنے والی نہریں، [37] قدیمی دریائی وادیوں کے جال، [38][39] ڈیلٹا اور جھیلوں کی تہیں، [40][41][42][43] اورمائع پانی سے بننے والی سطح پر موجود چٹانیں اور معدنیات شامل ہیں۔[44] اکثر سطحی خدوخال زمینی برف (زیر سطحی مستقلاً جمی ہوئی زمین)، [45] اور برفانی تودوں میں ہونے والی برف کی حرکت کے بارے میں ماضی قریب[46][47][48][49] اور عصر حاضر [50] میں اشارہ دیتے ہیں۔ عمودی چوٹیوں اور شہابی گڑھوں کی دیواروں کے ساتھ نالیاں اور ڈھلوانی نالیاں بتاتی ہیں کہ پانی نے مریخ کی سطح کی تراش خراش کو جاری رکھا ہے، ہرچند کہ یہ عمل قدیمی ماضی کی نسبت اب حد درجہ کم ہو گیا ہے۔

اگرچہ مریخ کی سطح ماضی میں مختلف ادوار میں مرطوب رہی ہے اور امکان ہے کہ یہ ارب ہا برس پہلے خرد حیات کے لیے مہربان بھی رہی ہوگی، [51] تاہم سطح پر موجود حالیہ ماحول خشک اور جما دینے والا ہے، شاید یہ ماحول خرد حیات کے لیے ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ ہے۔ مزید براں مریخ میں کثیف کرۂ فضائی، اوزون کی تہ اور مقناطیسی میدان بھی موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے شمسی اور کائناتی اشعاع بغیر کسی رکاوٹ کے اس کی سطح سے ٹکراتی ہیں۔ سطح پر موجود خلیاتی ساخت رکھنے والی حیات کے زندہ رہنے کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ ان پر پڑنے والی آئن زدہ تابکاری کا تباہ کر دینے والا اثر ہے۔[52][53] لہٰذا مریخ پر حیات کو پروان چڑھانے کے لیے سب سے بہترین جگہ زیر سطح ماحول ہی ہو سکتا ہے۔[54][55][56]

واریگو  ویلس کے قریب خشک نالے

مریخ پر پانی کے بارے میں علم، سیارے کی حیات کو سہارا دینے کی تفہیم اور مستقبل کی انسانی کھوج کے لیے وسائل کو مہیا کرنے کی صلاحیت کی جانچ کے لیے انتہائی اہم و ضروری ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں "پانی کے پیچھے چلو"کا نعرہ ناسا کے مریخ کھوجی پروگرام کا رہا ہے۔ 2001ء مریخی مہمات، مریخی کھوجی جہاں گرد، مریخی پڑتال گر مدار گرد اور مریخی فینکس خلائی گاڑی یہ تمام کے تمام مریخ پر پانی کی فراوانی اور تقسیم کے بارے میں اہم سوالات کے جواب دینے کے لیے کھوج کر چکے ہیں۔ ای ایس اے کا مریخی ایکسپریس مدار گرد نے بھی اس مہم جوئی کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی ہے۔[57] مریخی مہم، مریخی ایکسپریس، آپرچونیٹی جہاں گرد، ایم آر او اور مریخی سائنس خلائی گاڑی کیوریوسٹی جہاں گرد اب بھی مریخ سے معلومات کو بھیج رہے ہیں اور دریافتوں نے ہونا اب بھی جاری رکھا ہوا ہے۔

تاریخی پس منظر 

مریخ پر پانی کا قیاس خلائی دور شروع ہونے سے بھی سینکڑوں برس پہلے سے رہا ہے۔ دوربین سے ابتدائی مشاہدہ کرنے والوں نے انتہائی درستی سے سفید قطبی ٹوپیوں اور بادلوں کو پانی کی موجودگی کے نشان کے طور پرشناخت کر لیا تھا۔ کافی برسوں تک مریخ کی سطح پر موجود تاریک حصّوں کو سمندرسمجھا جاتا رہا۔[58] ان مشاہدات نے اس حقیقت کے ساتھ مل کر کہ مریخ پر بھی دن 24 گھنٹے کا ہوتا ہے، فلکیات دان ولیم ہرشل کو1784ء اس بات کا اعلان کرنے کی راہ دکھائی کہ شاید مریخ اپنے رہائشیوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جوزمین سے کافی حد تک مشابہ ہے۔ [59]

مریخ کا تاریخی نقشہ از طرف جیووانی شیاپیریلی۔
مریخی نہروں کے فلکیات دان پرسیول لوویل کے 1898ء میں بنائے گئے خاکے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں اکثر فلکیات دانوں نے یہ دریافت کر لیا تھا کہ مریخ زمین سے زیادہ سرد و خشک ہے۔ سمندروں کے وجود کو اب تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، لہٰذا مریخ کی تصویر تبدیل ہو کر ایک ایسے "دم توڑتے" ہوئے سیارے کی ہو گئی تھی جس میں پانی کی انتہائی قلیل مقدار تھی۔ وہ تاریک علاقے جو موسم کے ساتھ بدلتے تھے اب ان کو سبزہ روئیدگی سمجھا جانے لگا تھا۔[60] وہ آدمی جس نے مریخ کے اس چہرہ کو قبول عام بنانے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا تھا وہ پرسیول لوویل (1855–1916) تھا، جس نے یہ تصور کیا تھا کہ مریخ پر نہروں کے جال کو بنانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور ان نہروں کے ذریعہ مریخ کے استوائی خطے کے لوگ پانی کو قطبین سے لاتے ہوں گے۔ ہرچند کہ اس نے عوام الناس میں انتہائی جوش و خروش بھر دیا تھا، تاہم لوویل کا خیال اکثر فلکیات دانوں نے رد کر دیا تھا۔ اس دور میں سائنسی حقیقت پر سب سے زیادہ لوگوں کو جس شخص نے قائل کیا وہ انگریز فلکیات دان ایڈورڈ والٹر مونڈر (1851–1928) تھے جنھوں نے مریخ کے ماحول کوآرکٹک جزیرے پر موجود بیس ہزار فٹ کی چوٹی سے ملایا تھا [61] اس طرح کے ماحول میں صرف کائی کے باقی رہنے کی امید کی جا سکتی ہے۔

اسی دوران میں کئی فلکیات دان سیاروی طیف بینی کے آلات کو مزید بہتر کرنے میں لگے ہوئے تھے تاکہ مریخی ماحول کے اجزاء کا تعین کرسکیں۔ 1925ء تا 1943ء کے درمیان ماؤنٹ ولسن رصدگاہ کے والٹر ایڈمزاور تھیوڈور ڈنہم مریخ کے ماحول میں آکسیجن اور پانی کے بخارات کو ڈھونڈنے کی کوشش کی، جس کے نتائج کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہ تھے۔ مریخی ماحول میں جس جز کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا تھا وہ صرف کاربن ڈائی آکسائڈ تھا جس کی شاخت جیرارڈ کائیپر نے طیف بینی کرکے 1947ء میں کی تھی۔[62] مریخ پر 1963ءسے پہلے تک پانی کے بخارات کا واضح طور پر سراغ نہیں لگایا گیا تھا۔ [63]

مرینیر چارم سے حاصل کردہ اس تصویر میں ایک ویران سیارہ دکھائی دیتا ہے (1965ء)

کیسینی (1666ء) کے دور سے قطبی ٹوپیوں کے اجزائے ترکیبی میں پانی کو فرض کیا جاتا رہا تھا، اس پر 1800ء کے دور کے کچھ سائنس دانوں نے اعتراض اٹھائے جو وہاں پر کاربن ڈائی آکسائڈ ہونے کے حق میں تھے کیونکہ اس کی وجہ ان کی نظر میں سیارے کا بحیثیت مجموعی درجہ حرارت اور پانی کی قابل ذکر مقدار کی کمی تھی۔ 1966ء میں اس مفروضے کی تصدیق رابرٹ لیٹن اور بروس مررے نے کی۔[64] آج ہم جانتے ہیں کہ دونوں قطب کی سرد ٹوپیاں بنیادی طور پر کاربن ڈائی آکسائڈ کی برف سے بنی ہوئی ہیں، تاہم ایک دائمی (یا سدا بہار) پانی کی برف کی ٹوپی شمالی قطب پر موسم گرما کے دوران موجود رہتی ہے۔ جنوبی قطب پر موسم گرما کے دوران میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی برف رہتی ہے، تاہم اس ٹوپی کے نیچے بھی پانی کی برف موجود ہے۔

مریخ کے ماحول کے معمے کا آخری حصّے مرینیر چہارم نے 1965ء میں دیا۔ خلائی جہاز سے حاصل کردہ دانے دار ٹیلی ویژن کی تصویروں میں معلوم ہوا کہ سطح پر شہابی گڑھوں کا غلبہ ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ سطح کافی پرانی ہے اور اس نے کٹاؤ اور ساختمائی کے عمل کا سامنا نہیں کیا ہے جس طرح سے زمین پر ہوتا ہے۔ کم کٹاؤ کا مطلب یہ تھا کہ مائع پانی نے شاید سیارے کی شکلی ارضیات میں ارب ہا برس سے کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا ہے۔[65] مزید براں جب خلائی جہاز سیارے کے پیچھے سے گزرتا ہے تو اس سے حاصل کردہ ریڈیائی اشاروں میں تغیرات سائنس دانوں کو اس قابل کرتے ہیں کہ وہ کرۂ فضائی کی کثافت کو ناپ سکیں۔ نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ زمین کے سطح سمندر کے دباؤ کا 1 فیصد سے بھی کم وہاں کا ماحولیاتی دباؤ ہے جو لامحالہ طور پر مائع پانی کے وجود کا انکار کرتا ہے کیونکہ اتنے کم دباؤ کی وجہ سے پانی تیزی سے ابلے گا یا پھر جم جائے گا۔[66] مریخ ایک ایسی دنیا کے طور پر ابھرا جو چاند کی طرح کی ہے تاہم اس کا لچھے دار کرۂ فضائی اتنا ہے کہ ارد گرد کی دھول کو اڑا دیتا ہے۔ مریخ کی یہ تصویر اس وقت تک مزید ایک دہائی تک باقی رہی جب تک مرینیر نہم نے مریخ کی زیادہ متحرک تصویر نہیں دکھائی جس میں اس نے اشارہ دیا کہ سیارے کا ماضی اس کے حال کے ماحول سے کافی حلیم و مہمان نواز تھا۔

24 جنوری 2014ء میں ناسا نے بتایا کہ کیوریوسٹی اور آپرچونیٹی جہاں گردوں کے ذریعہ مریخ پر کی جانے والی حالیہ تحقیق قدیمی حیات کے ثبوتوں کی تلاش کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ اس حیاتی کرہ کی بھی تلاش کریں گے جس کی بنیاد خود پرور، جرثوموں اور / یا کیمیائی سنگی خود پرور خرد حیاتیات ہوتی ہے۔ مزید براں اس نے قدیمی پانی کے ساتھ یخ تودوں کے تالابی ماحول (میدان جن کا تعلق قدیمی دریاؤں یا جھیلوں سے ہے) اور قابل مسکن جگہوں کو بھی تلاش کرنا ہے۔[67] [68][69][70]

کئی برسوں تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ سیلابوں کی باقیات کے مشاہدات کی وجوہات سیاروی پانی کے جدول سے نکلنے والا پانی ہے، تاہم 2015ء میں ہونے والی تحقیق نے 45 کروڑ برس پہلے مقامی رسوبی چٹانوں کے ذخیرے اور دھری ہوئی برف کو اس کا ماخذ بتایا ہے۔[71] دریاؤں اور تودوں کے پگھلنے سے رسوبی ذخائر نے قدیمی سمندروں کے نیچے موجود دیو ہیکل گھاٹیوں کو بھر دیا ہے جو سیارے کے شمالی نچلے میدانوں میں موجود ہیں۔ یہ وہ پانی تھا جو ان گھاٹیوں کی رسوبی چٹانوں میں جمع تھا جو بعد میں عظیم سیلابوں کی صورت میں نکلا جس کا اثر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

چٹانوں اور معدنیات سے حاصل کردہ ثبوت 

آج اس بات کو کافی حد تک تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مریخ کی ابتدائی تاریخ میں وہاں پانی کی کافی فراوانی تھی، [72][73] تاہم اس دور کے پانی کے تمام بڑے علاقے آج غائب ہو چکے ہیں۔ ابتدائی مریخ کے دور کے پانی کا کچھ حصّے عصرحاضر کے مریخ میں اب بھی موجود ہے کیونکہ برف اور پانی سے لبریز مادّوں کی ساخت بشمول مٹی والی معدنیات (سیلیکٹ) اور گندھک کے نمک میں قید ہے۔[74][75][76][77][78] ہائیڈروجن کے ہم جاؤں کی تحقیق بتاتی ہے کہ مریخ سے 2.5 فلکی اکائیوں کے فاصلے پر موجود سیارچوں اور دم دار تاروں نے مریخ کو پانی دیا، جس کی مقدار زمین کے حالیہ سمندروں کا 6 تا 27 فیصد بنتی ہے۔[79]

مریخ پر پانی کی تاریخ  اعدادپہلے کے  ارب ہا برسوں کو ظاہر کر رہے ہیں

پانی ماحولیاتی مصنوعات میں (آبی معدنیات)

مریخ کی سطح پر بنیادی پتھر کی قسم سنگ سیاہ ہے۔ یہ ایک لطیف دانے دار آتشیں چٹان ہوتی ہے جو زیادہ تر مافک سیلیکٹ زبر جد، پیروکسن اور پلاجیوکلاس فلسپار(بلوری قلموں پر مُشتمل فلسپار معدنیات کے سلسلے) پر مشتمل ہوتی ہے۔[80] جب پانی اور فضائی گیسوں سے اس کا سامنا ہوتا ہے تو یہ معدنیات کیمیائی موسم میں ایک نئی (ذیلی) معدنیات میں بدل جاتے ہیں، جس میں سے کچھ اپنی قلمی ساخت میں پانی کو بھی شامل کر لیتے ہیں، چاہیے وہ پانی ہو یا ہائیڈروکسل(ایک ہائیڈروجن ایٹم ایک آکسیجن ایٹم سے مزدوج) کی صورت ہو۔ آبیدہ معدنیات کی مثالوں میں آئرن ہائیڈ روآکسائیڈز گوتھائٹ (میدانی مٹی کا ایک عام جز)؛ تبخیر ہوئے معدنیات، جپسم اور کیسیرائیٹ؛ اپلائن سیلیکا اور سنگی سیلی کیٹ (جس کو مٹی کی معدن بھی کہتے ہیں)، جیسا کہ گل چینی اور مونٹ موریلونائیٹ شامل ہیں۔ [81]

کیمیائی ماحول کا ایک براہ راست اثر پانی اور دوسرے تعاملی کیمیائی عناصر کا استعمال ہے، جس کو وہ چلتے پھرتے ذخیروں مثلاً کرۂ فضائی اور آبی کرہ سے حاصل کرتا ہے اور اس کو جدا کرکے چٹانوں اور معدنیات میں ڈال دیتا ہے۔[82] مریخی پرت نے آبیدہ معدنیات میں پانی کی کتنی مقدار کو ذخیرہ کیا ہے اس کا فی الوقت معلوم نہیں ہے تاہم اندازہ ہے کہ یہ کافی بڑی مقدار ہوگی۔[83] مثال کے طور پر مریڈیانی پلانم پر آپرچونیٹی جہاں گرد میں لگے ہوئے آلات سے کی گئی سطح سے نکلی ہوئی چٹان کے معدنیاتی نمونے کی جانچ سے معلوم ہوا کہ وہاں پر موجود گندھک کے نمک کے ذخیرے اپنے وزن کا 22 فیصد تک پانی پر مشتمل ہوتے ہیں۔[84]

زمین پر تمام کیمیائی موسمی تعاملات میں پانی کسی حد تک شامل ہوتا ہے۔[85] لہٰذا کافی ذیلی معدن اصل میں پانی کو اپنے اندر ذخیرہ نہیں کرتے بلکہ ان کو بننے کے لیے پانی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ نابیدہ ذیلی معدن کی مثالوں میں کاربونیٹ، کچھ گندھک کے نمکیات (جیسا کہ نابیدہ کیلشیم سلفیٹ) اور دھاتی آکسائڈز جیسا کہ آئرن آکسائڈ معدن قلمی کچا لوہا شامل ہیں۔ مریخ پراس طرح کی کچھ موسمی پیدوار نظری طور پر پانی کے بغیر یا قلیل مقدار کی موجود برف یا مہین سالماتی پیمانے کی فلموں (یک سالمی تہ) میں بھی بن سکتی ہیں۔[86][87] مریخ پر جاری رہنے والے اس عجیب موسم کے دائرہ کار کے بارے میں اب بھی ہم قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ان معدنیات کو جو پانی کو شامل کرتی ہیں یا پانی کی موجودگی میں بنتی ہیں، عام طور سے "آبیدہ معدنیات" کہتے ہیں۔

آبیدہ معدنیات اپنے بننے کے وقت موجود ماحول کی قسم کا حساس اشارہ دیتی ہیں۔ آبیدہ تعامل کے آسانی سے وقوع پزیر ہونے کا انحصار دباؤ، درجہ حرارت اور قابل حل مادّوں اور گیسوں کے مرتکز ہونے پر ہوتا ہے۔[88] دو اہم خصوصیات pH اور تکسیدی تخفیفی امکان (Eh) ہے۔ مثال کے طور پر سلفیٹ معدن جاروسائٹ صرف کم pH (زبردست تیزابی) پانی میں ہی بنتا ہے۔ سنگی سیلی کیٹ عام طور پر معتدل سے لے کر زیادہ pH (کھارے) میں بنتا ہے۔ Eh آبیدہ نظام میں تکسیدی حالت کو ناپنے کی اکائی ہے۔ Eh اور pH مل کر ان معدنیات کی اقسام کا بتاتے ہیں جن کے حرحرکی طور پر بننے کا امکان مخصوص آبیدہ جزئیات سے ہوتا ہے۔ اس طرح مریخ پر موجود ماضی کی ماحولیاتی شرائط بشمول مائل با حیات کو چٹانوں میں موجود معدنیات کی اقسام سے انبساط کیا جا سکتا ہے۔

گرماہی تغیر 

گرماہی(hydrothermal) سیال کی مساموں اور شگافوں کے ذریعہ ہجرت بھی زیر سطح زمین میں آبیدہ معدن کو بنا سکتے ہیں۔ گرماہی نظام کو چلانے والی توانائی قریبی میگما جسم یا بڑے تصادموں کی باقی مانندہ حرارت سے ملتی ہوگی۔[89] زمینی سمندروں کی تہ میں ہونے والے گرماہی تغیر کی ایک اہم قسم سرپنٹینائیٹ( بل کھائی ہوئی ساخت) ہے، جو اس وقت وقوع پزیر ہوتی ہے جب سمندری پانی بالائے مافک اور سنگ سیاہ کی چٹانوں کے درمیان میں سے ہوتا ہوا ہجرت کرتا ہے۔ پانی کی چٹانوں کا تعامل کا نتیجہ زبرجد اور پیروکسن میں موجود لوہے کی تکسید کی صورت میں نکلتا ہے جس سے آہنی لوہا (جیسا کہ معدن سنگ مقناطیس) بنتا ہے اور ضمنی پیداوار کے طور پر سالماتی ہائیڈروجن کو بناتا ہے۔ اس عمل میں ایک بلند درجے کا کھاری اور تخفیفی (پست Eh) ماحول بنتا ہے۔ یہ ماحول مختلف قسم کی سنگی سیلی کیٹ (بل کھاتی معدن) اور مختلف کاربونیٹ معدنیات کو بنانے کے لیے سازگار ہوتا ہے اور مل کر ایک چٹان کو بناتا ہے جس کو سرپنٹینائیٹ (بل کھائی ہوئی ساخت) کہتے ہیں۔[90] بننے والی ہائیڈروجن گیس کیمیائی تالیفی جانداروں کی توانائی کا اہم ذریعہ ہو سکتی ہے بصورت دیگر یہ کاربن ڈائی آکسائڈ سے تعامل کرکے میتھین گیس کو پیدا کر سکتی ہے، مریخ کے ماحول میں پائی جانے والی میتھین گیس کی کچھ مقدار اس عمل کے ذریعہ بنی ہے جس کو غیر حیاتیاتی ماخذ کے طور پر جانا جاتا ہے۔[91] سرپنٹین معدن بھی کافی پانی کا ذخیرہ (ہائیڈروکسل) کے طور پر اپنی قلمی ساخت میں کر سکتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق دلیل دیتی ہے کہ مریخ کے قدیمی بلند میدانوں کی پرتوں میں قیاسی سرپنٹینائیٹ پانی کی 500 میٹر موٹی سیاروی ہم پلہ تہ تک رکھ سکتی ہے۔[92] ہرچند کہ کچھ سرپنٹینا ئیٹ معدن کا سراغ مریخ پر لگایا جا چکا ہے، دور حساسیوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار اس طرح کے وسیع سطح سے اوپر نکلے ہوئے ثبوت فراہم نہیں کر سکے ہیں۔[93] یہ حقیقت اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتی کہ سرپنٹینائیٹ کی بڑی مقدار مریخی تہ میں مخفی ہو سکتی ہے۔

موسمی شرح 

وہ شرح جس سے بنیادی معدن ذیلی آبیدہ معدن میں تبدیل ہوتی ہے، بدلتی رہتی ہے۔ بنیادی سیلی کیٹ معدن کی قلمیں میگما سے جس دباؤ اور درجہ حرارت میں بنتی ہیں وہ سیارے کی سطح پر موجود ماحول سے وسیع پیمانے پر الگ ہوتا ہے۔ جب یہ سطح کے ماحول کا سامنا کرتے ہیں تو یہ معدنیات توازن کو کھو دیتے ہیں اور دستیاب کیمیائی اجزاء سے متعامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مزید پائیدار معدن بنا سکیں۔ عام طور پر وہ سیلی کیٹ معدن جو اونچے درجہ حرارت والے موسم پر قلم کی شکل انتہائی تیزی سے اختیار کر لیتے ہیں (ٹھنڈے ہوئے میگما میں پہلے ٹھوس ہوتے ہیں)۔[94] زمین اور مریخ دونوں پر سب سے زیادہ عام پایا جانے والا معدن جو اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے زبرجد ہے جو پانی کی موجودگی میں فوراً مٹی والی معدن میں بدلتا ہے۔

زبرجد مریخ پر کافی موجود ہے [95] جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مریخ کی سطح کو پانی نے بہت زیادہ متغیر نہیں کیا؛ کثیر ارضیاتی ثبوت اس کے برخلاف بھی موجود ہیں۔[96][97][98][99][100]

مریخی شہابیے

مریخی شہابیہ  ALH84001

60 سے زائد مریخ سے آنے والے شہابیے دریافت کیے جاچکے ہیں۔[101] ان میں سے کچھ میں ایسے ثبوت موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ جب وہ مریخ پر تھے تو ان کا سامنا پانی سے ہوا تھا۔ کچھ مریخی شہابیے سنگ سیاہ شیرگو ٹایئٹ کہلاتے ہیں، ان کو ( آبیدہ کاربونیٹ اور گندھک کی نمکیات کی موجودگی سے )دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ خلا میں پھینکے جانے سے پہلے اس کا سامنا مائع پانی سے ہوا تھا۔[102][103] ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ شہابیوں کی ایک اور جماعت نخیلائیٹ میں مائع پانی لگ بھگ 62 کروڑ برس پہلے پھیلا تھا اور وہ مریخ سے لگ بھگ ایک کروڑ سات لاکھ پچاس ہزار برس پہلے سیارچوی ٹکر میں وہاں سے ٹوٹ کر نکلا تھا۔ یہ زمین پر پچھلے دس ہزار برس میں گرے ہیں۔ [104]

1996ء میں سائنس دانوں کے ایک گروپ نے مریخ سے آئے ہوئے شہابیے ایلن ہلز 84001 میں خرد رکاز کی ممکنہ موجودگی کا بتایا۔[105] اس پر کی جانے والی اکثر تحقیقات نے رکاز کے معتبر ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔[106][107] یہ پتا لگا کہ سیارچے کا زیادہ تر نامیاتی مادّہ ارضیاتی اصل کا تھا۔[108]

ارض شکلہ ثبوت 

جھیلیں اور دریائی وادیاں 

1971ء کے مرینیر نہم خلائی جہاز نے مریخ پر پانی کے حوالے سے ہمارے تصورات میں انقلاب برپا کر دیا۔ کئی علاقوں میں وسیع دریائی وادیاں پائی گئیں۔ تصاویر بتاتی ہیں کہ پانی کے سیلاب نے ڈیموں کو توڑتے ہوئے گہری وادیاں تراشیں، چکر دار نالیوں کو بہا کر نچلی چٹانوں میں بدل دیا اور ہزارہا کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ جنوبی نصف کرہ میں شاخ دار بہاؤ کے علاقے بتاتے ہیں کہ کبھی وہاں بارش بھی ہوتی تھی۔[109][110][111] وقت گزرنے کے ساتھ شناخت شدہ وادیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ 2010ء میں شایع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ نے مریخ پر 40 ہزار وادیوں کا نقشہ بنایا یعنی یہ تعداد لگ بھگ پہلے جانے جانی والی وادیوں کی تعداد سے چار گنا زیادہ ہے۔ مریخی پانی سے کٹاؤ سے بننے والے خدوخال دو مختلف جماعتوں میں زمرہ بند کیے جا سکتے ہیں: 1) شجر نما (شجرینی)، میدانی پیمانے کے وسیع منقسم، نوایچین دور کے وادیوں کے جال اور 2) غیر معمولی بڑے، لمبے، یک لڑی، الگ، ہیسپیرین دور کے مخرج نالے۔ حالیہ کام بتاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی حالیہ پیچیدہ، چھوٹے، نوجوان ( ایمیزونی ہیسپیرین) نالوں کی جماعت وسط عرض البلد میں بھی موجود ہو، جو ممکنہ طور پر مقامی پگھلی ہوئی برف کے ذخیروں کی وجہ سے بنی ہو۔[112][113]

کیسی ویلز - ایک اہم مخرج نہر - مولا کے ارتفاعی اعداد و شمار میں دیکھا جانے والا۔ بہاؤ نیچے بائیں سے دائیں طرف ہے۔ تصویر لگ بھگ 1600 کلومیٹر حصّے کی ہے۔ یہ نہروں کا نظام اس تصویر کے جنوب میں 1200 کلومیٹر ایکس کھائی تک پھیلا ہوا ہے۔

مریخ کے کچھ حصّے الٹے سطح کے ابھار دکھاتے ہیں۔ ایسا تب ہوتا ہے جب گاد بہاؤ کی تہ میں جمع ہو جاتی ہے اور کٹاؤ سے سیمنٹ کی طرح جڑ کر مزاحمت کرنا شروع کر دیتی ہے۔ بعد میں یہ علاقے دفن ہو جاتے ہیں۔ بالآخر کٹاؤ اوپری سطح کو الگ کرکے بعد الذکر بہاؤ کو سامنے لے آتی ہے کیونکہ یہ کٹاؤ سے مزاحمت کرتے ہیں۔ مریخ آفاقی سرویر نے اس عمل کی کافی مثالیں دیکھی ہیں۔، [114][115] مریخ کے کافی علاقوں میں اس طرح کے الٹی سطح کے ابھار ملے ہیں بطور خاص، میڈوسا مجوف بناوٹ[116] میاموٹو شہابی گڑھے، [117] سہیکی شہابی گڑھے[118] اور جونتا ئے سطح مرتفع میں۔[119][120]

انٹونیاڈی شہابی گڑھے میں موجود الٹے بہاؤ والی نہریں۔ مقام سرٹس بڑا چوگوشہ

مریخ میں جھیلوں کے طاس کی مختلف نوع دریافت ہوئی ہیں۔[121] ان میں سے کچھ تو زمین پر موجود بڑی جھیلوں سے مماثلت رکھتی ہے جیسا کہ کیسپین جھیل، بحیرہ مردار اور بیکل جھیل۔ وہ جھیلیں جو وادیوں کے نظام سے بھرتی ہوں گے وہ جنوبی اونچے علاقوں میں پائی گئی ہیں۔ یہاں ایسی جگہیں ہیں جو ان تک جاتی دریائی وادیوں کے ساتھ پچکنے کے قریب ہیں۔ ان علاقوں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں جھیلیں ہوں گی؛ ایک میدانی سیرنم ہے جس کا مخرج مادام ویلس سے گزرتا ہوا گوسف شہابی گڑھے تک جاتا ہے، اس کی چھان بین مریخی کھوجی جہاں گرد اسپرٹ سے کی گئی ہے۔ ایک اور پرانہ ویلس لائیر ویلس میں بھی موجود ہے۔[122] کچھ جھیلوں کے بارے میں خیال ہے کہ یہ عمل تبخیر کے نتیجے میں بنی ہوں گی، جبکہ کچھ زیر زمین پانی کی وجہ سے وجود میں آئی ہوں گی۔ جھیلوں کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ارگیرے طاس، ہیلس طاس[123] اور شاید ویلس مرینیر میں بھی موجود ہوں گی۔[124][125] گمان ہے کہ نوکین میں اکثر بہت سارے شہابی گڑھے جھیلوں کی میزبانی کرتے تھے۔ یہ جھیلیں ٹھنڈی خشک (زمینی معیار کے مطابق) آبیاتی ماحول سے میل کھاتی ہیں جس طرح سے مغربی یو ایس اے کا عظیم طاس آخری تودے کی انتہا کے دور میں تھا۔[126]

2010ء کے بعد سے کی جانے والی تحقیق بتاتی ہے کہ مریخ میں استوائی علاقوں کے کچھ حصّوں میں جھیلیں موجود تھیں۔ ہرچند کہ پہلی ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ مریخ کا گرم و مرطوب ابتدائی موسم تھا تاہم وہ عرصہ ہوا ختم ہو کر خشک ہو گیا، یہ جھیلیں ہیسپیرین دور میں موجود تھیں، جو کافی بعد کا دور ہے۔ ناسا کے مریخی پڑتال گر مدارگرد سے حاصل کردہ مفصل تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے، محققین نے اندازہ لگایا ہے ایک دور ایسا ہوگا جس کے دوران مریخ میں آتش فشانی عمل، شہابی ٹکراؤ میں اضافہ یا مریخ کے مدار میں تبدیلی ہوئی ہوگی جس سے مریخ کے ماحول اتنا گرم ہو گیا ہوگا کہ زمین پر موجود کثیر برف کو پگھلا سکے۔ آتش فشانوں نے وہ گیسیں خارج کی ہوں گی جنھوں نے ماحول کو وقتی عرصے کے لیے کثیف کر دیا ہوگا، یوں سورج کی روشنی ماحول میں زیادہ قید ہونے لگی ہوگی اور ماحول کو اس قدر گرما دیا ہوگا کہ مائع پانی اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ اس تحقیق میں وہ نہریں دریافت ہوئی ہیں جو جھیل کے طاسوں کو آپس میں ایرس ویلس میں ملاتی ہیں۔ جب ایک جھیل بہر جاتی، تو اس کا پانی کناروں سے نکلتا اور نچلے علاقوں میں نالیوں کو بناتا چلا جاتا جہاں ایک اور جھیل بن جاتی۔[127][128] یہ خشک جھیلیں ماضی میں موجود حیاتیاتی نقش پا کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے مستقبل میں ہمارا ہدف ہوں گی۔

27 ستمبر 2012ء میں ناسا کے سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ کیوریوسٹی جہاں گرد نے براہ راست قدیمی بہنے والی نہروں کے ثبوت گیل شہابی گڑھے میں دریافت کیے جس سے مریخ کی سطح پر قدیمی زبردست پانی کے بہاؤ کے بارے میں پتا چلتا ہے۔[129][130][131][132] بطور خاص اب سوکھے ہوئے بہتی ہوئی نہروں کے نشانوں کا تجزیہ بتاتا ہے کہ پانی ممکنہ طور پر بلندی سے پستی کی طرف 3.3 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بہتا تھا۔ بہتے ہوئے پانی کا ثبوت گول کنکروں اور بجری کے بکھرے ہوئے حصّوں کی صورت میں موجود ہے، ایسی چیزیں صرف اس وقت بن سکتی ہیں جب مائع بہتے ہوئے پانی کا زبردست بہاؤ موجود ہو۔ ان کی شکل و صورت اور سمت بتاتی ہے کہ وہ کافی لمبا سفر طے کرکے شہابی گڑھے کے کنارے کے اوپر سے آئے ہیں جہاں پر ایک پیس ویلس نام کی نہر الوویل فین کو بھرتی تھی۔

جھیلوں کے ڈیلٹا

ایبرس والڈ شہابی گڑھا

مریخی جھیلوں میں بننے والے ڈیلٹا کی کئی مثالیں محققین کو ملی ہیں۔ ڈیلٹا کا ملنا ایک اہم سراغ اس بات کا ہے کہ مریخ پر کبھی گرم مائع پانی موجود تھا۔ ڈیلٹا بننے کے لیے عموماً لمبے عرصے تک گہرا پانی درکار ہوتا ہے۔ مزید براں پانی کی سطح کو متوازن ہونے کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ گاد کو بہنے سے روک سکے۔ وسیع ارضیاتی پیمانے پر ڈیلٹا ملے ہیں، اگرچہ کچھ اشارے ایسے بھی موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ ڈیلٹا شاید مریخ کے سابقہ قیاسی شمالی سمندر کے کناروں کے گرد مرتکز ہیں۔[133]

زیر زمین پانی

پرتیں شاید بتدریج بلند ہوتے ہوئے پانی کی وجہ سے بنی ہیں۔

1979ء تک ایسا سمجھا جاتا تھا کہ بہتی ہوئی نہریں برف سے بند زیر زمین پانی کے ذخیروں میں کسی ایک آنے والی تباہ کن شکستگی کی وجہ سے بنتی ہیں، جس کے نتیجے میں عظیم پانی کی مقدار مریخ کے خشک سطح پر نکلتی تھی۔[134][135] مزید براں بھاری یا تباہ کن سیلاب کے ثبوت ایتھابسکا ویلس کی دیوہیکل لہروں میں پائے گئے ہیں۔[136][137] بہتی ہوئی اکثر نہریں کسی تباہی یا کھائی کا نتیجہ ہیں جس سے وہ ثبوت ملتا ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ پھٹاؤ نے زیر زمین برف کے بند کو توڑ دیا ہوگا۔

مریخ پر وادیوں کے جال کی شاخیں زیر زمین پانی کے اچانک نکلنے کی وجہ سے بننے والی نہروں سے، نہ تو اپنی شجر نما صورت سے جو کسی ایک بہتے ہوئی نقطہ سے نہیں بن سکتی اور نہ ہی پانی کے نکلنے کی صورت میں جو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ہی بہا، میل کھاتی ہیں۔[138] اس کی بجائے کچھ مصنفین دلائل دیتے ہیں کہ یہ زیر زمین پانی کے سست رفتار اچھل کر نکلنے والے اخراج سے رس کر بنی ہیں۔[139] اپنی اس دلیل کے ثبوت کے طور پر وہ بتاتے ہیں کہ اس طرح کے جال میں اکثر وادیوں کے اوپری بہاؤ کے کونے ڈبے والی کھائی یا بیضوی کھاڑی کے سر سے شروع ہوتی ہیں، زمین پر اس طرح کی چیزیں عام طور پر زمینی پانی کے رساؤ سے ہی بنتی ہیں۔ بہتر پیمانے کی نہروں یا نہروں کے سوتوں پر موجود وادیوں کے بارے میں بھی ثبوت انتہائی کم ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بجائے سطح پر بتدریج پانی کے جمع ہونے کے پانی کی قابل ذکر مقدار اچانک سے زیر زمین سے نکل کر بہتی ہوئی لگتی ہے۔ کچھ لوگ وادیوں کی بیضوی کھاڑی کے سر اور زیر زمین پانی سے بننے والی ساختوں کی ارضیاتی مثال کو نہیں مانتے، [140] اور دلیل دیتے ہیں کہ وادیوں کے جال میں بہتر پیمانے کی نہروں کی کمی کی وجہ موسمی اور تصادمی پھلواڑی ہے۔

اکثر مصنفین مانتے ہیں کہ اکثر وادیوں کے جال کم از کم جزوی طور پر زیر زمین پانی کے رساؤ کے عمل کی وجہ سے بنے ہیں۔

اینڈیورینس شہابی گڑھے کی برنس عمودی پہاڑی کے ہوائی ٹیلے کی طبقات شناسی کے محفوظ اور سیمنٹ کی طرح جڑے رہنے کی وجہ اتھلے زیر زمین پانی کے بہاؤ کو سمجھا جاتا ہے۔[141]

مریخ پر زیر زمین پانی وسیع پیمانے کی تہ نشینی کے نمونوں اور عمل کا انتظام سنبھالنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔[142] اس مفروضے کے مطابق، زیر زمین پانی حل پزیر معدنیات کے ساتھ سطح پر شہابی گڑھوں اور اس کے آس پاس آیا اور معدنیات کا اضافہ کرکے پرتوں کو بنانے میں مدد دی - بطور خاص سلفیٹ – اور سیمنٹ کی طرح جڑے رہنے والی گاد۔[143][144][145][146][147] بالفاظ دیگر کچھ پرتیں شاید زیر زمین پانی کے اوپر آنے کی وجہ سے بنی جنھوں نے معدنیات کو یہاں جمع کیا اور موجود بکھری ہوئی ہوائی گاد کو جوڑا۔

ساختی پرتیں لامحالہ طور پر کٹاؤ سے زیادہ محفوظ رہی۔ شاید یہ عمل جھیلوں کے اندر پرتوں کے بننے کے عمل کے برخلاف وقوع پزیر ہوا ہوگا۔ 2011ء میں مریخی پڑتال گر مدار گرد سے حاصل کردہ اطلاعات کی روشنی میں ایک تحقیق شایع ہوئی، جس نے بتایا کہ اسی طرح کے گاد بڑے علاقے بشمول عربیہ میدان میں وجود رکھتی ہے۔[148] یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہم دور حساسی سیارچوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجہ میں جانے گئے علاقوں کو گاد سے بنی چٹانوں سے لبریز دیکھتے ہیں یہ وہ علاقے ہیں جو زیر زمین پانی کے علاقائی پیمانے پر اوپر آنے کا مزہ چکھنے کے سب سے بڑے امیدوار ہیں۔[149]

مریخی سمندروں کا مفروضہ

مریخ پر سمندروں کی موجودگی کا نظریہ بتاتا ہے کہ وسٹیٹس بوریلس طاس کبھی کسی زمانے میں مائع پانی کے سمندر کی جگہ تھی اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ قریباً مریخ کی ایک تہائی سطح مائع پانی سے سیارے کی ابتدائی ارضیاتی تاریخ میں ڈھکی ہوئی تھی۔[150] یہ سمندر جس کو بوریلس سمندر کہا جاتا ہے اس نے وسٹیٹس طاس کو شمالی نصف کرہ میں بھر دیا ہوگا، یہ علاقہ سیارے کی اوسط اونچائی سے 4تا 5 کلومیٹر نیچے ہے۔ دو نام نہاد ساحلی پٹیوں کے نام بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ ایک بلندی والی ہے جو لگ بھگ 3 ارب 80 کروڑ برس پہلے اونچے میدان کی وادیوں کے جال کے بننے کے ساتھ بنی ہے اور دوسری پستی والی ہے، جو امید ہے کہ نوجوان مخرج نہروں کے ساتھ بنی ہوگی۔ بلندی والی، عربیہ ساحلی پٹی کو پورے مریخ پر دیکھا جا سکتا ہے سوائے تھارسس آتش فشانی علاقے کے۔ پستی والی ڈیوٹرو نیلس وسٹیٹس بوریلس کے ساتھ بنی ہے۔

2010ء میں ہونے والی تحقیق نے نتیجہ اخذ کیا کہ زیادہ قدیمی سمندروں نے مریخ کا 36 فیصد حصّہ ڈھانکا ہوا تھا۔ مریخی مدار گرد لیزر الٹیمیٹر (مولا) سے حاصل کردہ اعداد و شمار جس نے مریخ پر موجود تمام میدانوں کو ناپا ہے، اس کا استعمال 1999ء میں کیا گیا جس نے بتایا کہ کسی ایسے سمندر کا پن دھارے 75 فیصد سیارے کو ڈھانک سکتا ہے۔[151] قدیمی مریخ کو اپنی سطح پر مائع پانی کا وجود برقرار رکھنے کے لیے گرم ماحول اور کثیف کرۂ فضائی کی ضرورت ہوگی۔[152][153] مزید براں بڑی تعداد میں وادیوں کے جال سیارے کے ماضی میں آبی چکر کے امکان کا بھی ظاہر کرتے ہیں۔[154]

قدیمی مریخی سمندروں کی موجودگی سائنس دانوں کے درمیان میں وجہ تنازع بنی ہوئی ہے اور قدیمی ساحلی پٹیوں کی توجیہ کو للکارا گیا ہے۔[155][156] دو ارب برس پرانے قیاسی ساحلی پٹی کے ساتھ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ چپٹی نہیں ہے – یعنی یہ خط مستقل ثقلی سکنہ کی اتباع نہیں کرتا۔ اس کی وجہ مریخ کی کمیت کی تقسیم میں ہونے والا فرق بھی ہو سکتا ہے جو شاید آتش فشانی پھٹاؤ یا شہابی ٹکراؤ کے نتیجے میں وقوع پزیر ہوا ہوگا۔[157] ایلی سیم آتش فشانی صوبہ یا ضخیم یو ٹوپیا طاس جو شمالی میدان کے نیچے دفن ہے اس کو بھی ایسا کرنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

مارچ 2015ء میں سائنس دانوں نے کہا کہ مریخی قدیم سمندر کے ثبوت وجود رکھتے ہیں، جو سیارے کے شمالی نصف کرہ میں زمین کے آرکٹک سمندر کے حجم کے برابر یا لگ بھگ مریخ کی سطح کے 19 فیصد تک کے تھے۔ یہ تلاش حالیہ مریخ کے ماحول میں پانی اور ڈیوٹیریئم میں پائی جانے والی نسبت کا مقابلہ زمینی پر پائے جانے والی نسبت سے لگا کر کیا ہے۔ زمین کے مقابلے میں مریخ پر ڈیوٹیریئم کی مقدار آٹھ گنا زیادہ ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مریخ میں پانی کی سطح اچھی خاصی تھی۔ کیوریوسٹی جہاں گرد سے حاصل کردہ نتائج نے پہلے گیل شہابی گڑھے میں ڈیوٹیریئم کے زیادہ نسبت پائی تھی تاہم یہ اس قدر زیادہ نہیں تھی کہ اس سے کسی سمندر کے وجود کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا۔ دوسرے سائنس دان خبردار کرتے ہیں کہ اس تحقیق کی ابھی تصدیق ہونا باقی ہے اور کہتے ہیں کہ مریخی ماحولیاتی نمونے نے ابھی تک یہ نہیں ظاہر کیا کہ سیارہ ماضی میں اس قدر گرم تھا کہ مائع پانی کے اجسام کو سہارا دے سکے۔[158]

موجودہ پانی کی برف

پانی کی برف کا حصّہ مریخی نچلی سطح (اوپر) اور اوپری سطح (نیچے) کے عرض البلد پر جو حال میں موجود ہے۔ بر حری نیوٹرانی اخراج کی بنیاد پر مقادیر پیما کے ذریعہ لگائے گئے حساب سے شرح فیصد کو حاصل کیا گیا ہے۔ اس بہاؤ کو2001ء مریخی مہم کے خلائی جہاز پر لگے ہوئے نیوٹران کے طیف پیما سے ناپا گیا۔

مریخی مہم نیوٹران طیف پیما اور گیما شعاع طیف پیما سے سیاروی طور پر بڑی تعداد میں ہائیڈروجن کو سطح پر پایا گیا ہے۔[159] یہ سمجھا جاتا ہے کہ برف کی سالمی ساخت میں یہ ہائیڈروجن ضم ہو گئی ہوگی اور مقادیر پیما کے ذریعہ لگائے گئے حساب سے کیے گئے مشاہدے میں بہاؤ کو پانی کی برف میں بدل کر مریخ کے اوپری میٹر میں مرتکز کر دیا گیا۔ اس عمل نے بتایا کہ برف نہ صرف کافی جگہ پھیلی ہوئی ہے بلکہ حالیہ مریخ کی سطح پر کافی فراواں ہے۔60درجہ سے نیچے عرض البلد پر برف کئی علاقوں میں ٹکڑوں میں مرتکز ہے بطور خاص ایلی سیم آتش فشاں، میدانی سبیا اور میدانی سرینم کے شمال مغرب میں اور زیر زمین میں برف 18 فیصد تک مرتکز ہو سکتی ہے۔ 60 درجے سے اوپر کے عرض البلد میں برف کثرت سے ہے۔ پولوارڈ کے 70 درجے عرض البلد پر برف کا ارتکاز ہر جگہ لگ بھگ 25 فیصد کا ہے اور یہ قطبین پر جا کر تو 100 فیصد ہو جاتا ہے۔[160] حال ہی میں شراڈ اور مارسس ریڈار کے صوتی آلات نے اس قابل ہونا شروع کر دیا ہے کہ بتا سکیں کہ سطح کے خدوخال برف سے مالا مال ہیں یا نہیں۔ مریخ کی سطح کی حالیہ صورت میں برف کے غیر استحکام پزیر ہونے کے بارے میں معلوم ہونے کی وجہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ لگ بھگ تمام برف لازمی طور پر چٹان کی پرت یا دھول کی پرت سے ڈھکی ہوئی ہوگی۔

مریخی مہم نیوٹران طیف پیما کے مشاہدات بتاتے ہیں کہ اگر مریخی سطح کے بالا بحر میں موجود تمام برف برابر پھیلی ہوئی ہوگی تو یہ کم از کم 14 سینٹی میٹر کی پانی کی سیاروی سطح کے برابر ہوگی – بالفاظ دیگر یہ اوسطاً مریخی سیاروی سطح لگ بھگ 14 فیصد پانی کا ہے۔[161] دونوں قطبین میں پھنسی ہوئی برف 30 میٹر پانی کی سیاروی سطح کے برابر ہے اور ارضی شکلہ ثبوت ارضیاتی تاریخ کے مقابلے میں کافی بڑی سطح پر موجود پانی کی مقدار کا بتاتے ہیں جس میں 500 میٹر تک کی گہرائی تک کی سیاروی سطح کے برابر پانی کی مقدار ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ماضی کے اس پانی کا کچھ حصّہ زیر زمین گہرائی میں چلا گیا ہے جب کہ کچھ خلا میں ہرچند کہ اس عمل کا مفصل کمیتی توازن اب بھی جاننا جانا باقی ہے۔ موجودہ فضائی پانی کا ذخیرہ بطور آب گذر کے برف کی ایک حصّے سے دوسرے حصّے بتدریج ہجرت موسمی اور لمبے عرصے کے دوران میں بہت اہم ہے۔ مقدار کے حوالے سے یہ بہت معمولی ہے اور 10 مائیکرو میٹر سیاروی سطح کے برابر ہے۔

برفیلے پیوند

28 جولائی 2005ء میں یورپین اسپیس ایجنسی نے ایک ایسے شہابی گڑھے کا اعلان کیا جو جزوی طور پر منجمد پانی سے بھرا ہوا؛[162] کچھ لوگوں نے اس دریافت کو برف کی جھیل سے تعبیر کیا۔[163] یورپی اسپیس ایجنسی کے مریخی ایکسپریس پر لگے ہوئے ہائی ریزولوشن اسٹیریو کیمرے سے لی ہوئی تصاویر واضح طور پر ایک چوڑی برف کی چادر کو ایک بے نام شہابی گڑھے کے تلے میں دکھا رہی ہیں۔ یہ شہابی گڑھا وسٹیٹس بوریلس میں واقع ہے، یہ جگہ ایک ایسا میدان ہے جو مریخ کے شمالی بعید ارض البلد پر تقریباً 70.5° شمال اور103° مشرق پر پھیلا ہوا ہے۔ شہابی گڑھا لگ بھگ 35 کلومیٹر چوڑا اور 2 کلومیٹر گہرا ہے۔ شہابی گڑھے کے فرش اور پانی کی برف کے درمیان میں اونچائی کا فرق لگ بھگ 200 میٹر کا ہے۔ ای ایس اے کے سائنس دان اس اونچائی کے فرق کے زیادہ ذمہ دار برف کے نیچے موجود ٹیلوں کو بتاتے ہیں جن کو جزوی طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ سائنس دان اس پیوند کو "جھیل" نہیں گردانتے، پانی کا برف کا یہ پیوند اپنے حجم اور پورے سال وجود رکھنے کی وجہ سے قابل ذکر ہے۔ پانی کی برف کے ذخیرے اور برف کی پرتیں سیارے کے مختلف مقامات پر پائی گئی ہیں۔

جس طرح سیارے کی سطح کی تصاویر جدید نسل کے مدار گرد حاصل کر رہے ہیں اس سے بتدریج یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ شاید ممکنہ طور پر برف کے مزید پیوند مریخی سطح پر بکھرے ہوئے ہوں گے۔ برف کے یہ نام نہاد پیوند اکثر مریخ کے وسطی عرض البلد (تقریباً استواء کے 30 تا 60° شمال/ جنوب ) میں پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کافی سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان عرض البلد پٹیوں میں پھیلے ہوئے خدوخال کو بطور " عرض البلد پر انحصار کرنے والے غلاف" یا " "میدان میں چپکے ہوئے" سے بیان کیا جاتا ہے جو مٹی و دھول سے اٹے ہوئے برف کے پیوند ہیں اور آہستہ آہستہ انحطاط پزیر ہو رہے ہیں۔ دھول کی ایک چادر، تصویر میں نظر آنے والی مدہم سطح جو برف کی طرح منعکس نہیں ہو رہی اور برف کے پیوندوں کو لمبے عرصے تک مکمل تبخیر ہوئے بغیر، دونوں وجوہات کو بیان کرنے کے لیے درکار ہے۔ یہ پیوند بطور پراسرار نہروں کے بہاؤ جیسے نالوں کے ممکنہ پانی کے وسیلے کے طور پر ان عرض البلد کے علاقوں میں بیان کیے جاتے ہیں۔

استوائی منجمد سمندر

سطح کے خدوخال جنوبی ایلی سیم پلانیشیا میں دریافت ہوئے موجودہ جمی ہوئی برف سے میل کھاتے ہیں۔30 میٹر سے 30 کلومیٹر کے درمیان میں کی بظاہر نظر آنے والی پرتیں نہروں میں پائی گئی ہیں جو شمالی سمندر جتنے چوڑے اور گہرے سیلابی علاقوں تک جاتی ہیں۔ پرتوں میں ٹوٹ پھوٹ اور گھماؤ کے نشان موجود ہیں جو واضح طور پر ان کو کہیں اور مریخ کی سطح پر پائے جانے والی لاوا کی پرتوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ سیلاب کا ماخذ قریبی ارضیاتی شگاف سر بیرس مجوف سمجھا جاتا ہے جس نے پانی و لاوا کو 20 لاکھ سے ایک کروڑ برس تک کے درمیان میں اگلا تھا۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ پانی سر بیرس مجوف میں موجود تھا اس کے بعد یہ جمع ہو کر نچلے میدانی سطح پر جم گیا اور ہو سکتا ہے کہ وہ جھیلیں اب بھی موجود ہوں۔[164] تمام کے تمام سائنس دان ان نتائج سے متفق نہیں ہیں۔[165][166]

قطبی برفیلی ٹوپیاں

مریخی سیاروی سرویر نے شمالی موسم گرما کے شروع میں مریخی شمالی قطب کی برفیلی ٹوپی کی یہ تصویر حاصل کی ہے۔

دونوں شمالی قطبی ٹوپی (پلانم بوریم) اور جنوبی قطبی ٹوپی (پلانم اوسٹریل) کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان کی موٹائی سردیوں میں بڑھتی ہے جبکہ جزوی طور پر گرمیوں میں ان میں عمل تصعید وقوع پزیر ہوتا ہے۔ 2004ء میں مریخی ایکسپریس سیارچے پر لگے ہوئے مار سس ریڈار آواز پیما نے جنوبی قطبی ٹوپی کو ہدف بنایا اور اس نے وہاں پر 3.7کلومیٹر تک کی گہری برف کی سطح کے نیچے تصدیق کی۔[167] اسی برس اسی جہاں گرد پر لگے ہوئے اومیگا آلے نے بتایا کہ ٹوپی تین مختلف حصّوں میں بٹی ہوئی ہے، جس میں منجمد پانی کی متغیر مقدار عرض البلد کے لحاظ سے موجود ہے۔ تصویر میں دیکھا جانے والا پہلا حصّہ قطبی ٹوپی کا روشن حصّہ ہے، قطب کے درمیان میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی برف 85 فیصد جبکہ 15 فیصد برف پانی کی ہے۔ دوسرے حصّہ کھڑی ڈھلوانوں پر مشتمل ہے جس کو فصیل کے نام سے جانا جاتا ہے، جو لگ بھگ پانی کی برف سے بنی ہے، جو قطب کے آس پاس کے میدانی علاقوں میں حلقہ بناتی ہوئی قطب سے دور جاتی ہے۔ تیسرا حصّہ وسیع دائمی زیر سطحی برف پر مشتمل ہے جو اس فصیل سے دسیوں ہزارہا کلومیٹر دور تک کھینچا ہوا ہے اور اس وقت تک قطب کا حصّہ نہیں سمجھا گیا جب تک سطح کے اجزاء کا تجزیہ نہیں کیا گیا۔[168] ناسا کے سائنس دانوں نے حساب لگایا کہ اگر جنوبی برفیلی ٹوپی میں موجود برف کی مقدار کو پگھلایا جائے تو یہ اتنی ہوگی کہ پورے سیارے کی سطح کو 11 میٹر کی گہرائی تک ڈھانک لے گی۔[169] دونوں قطبین اور سیارے کی وسیع سطح کے مشاہدے بتاتے ہیں کہ اگر اس کی سطح کی تمام برف کو پگھلا دیا جائے تو پانی کی سیاروی سطح کی 35 میٹر گہری تہ بن جائے گی۔

مریخ کے شمالی قطب کی برفیلی ٹوپی کا سیارچے کے آواز پیما ریڈار سے اخذ کردہ عمودی حصّہ۔

جولائی 2008ء میں ناسا نے اعلان کیا کہ فینکس خلائی گاڑی نے پانی کی برف کی موجودگی کی تصدیق اپنے اترنے کی جگہ سے قریب شمالی قطبی ٹوپی (68.2° عرض البلد) پر کی ہے۔ سطح سے حاصل ہونے والا یہ برف کی موجودگی کا پہلا براہ راست ثبوت تھا۔[170] دو برس بعد، مریخی پڑتال گر مدار گرد پر لگے اتھلے ریڈار نے شمالی قطبی ٹوپی کی پیمائش کی اور اندازہ لگایا کہ ٹوپی پر پانی کی برف کل مقدار821٫000 مکعب کلومیٹر (197٫000 مکعب میل) ہے۔ یہ مقدار زمین پر موجود گرین لینڈ کی برف کی چادر کے 30 فیصد کے برابر ہے یا اس قدر ہے کہ مریخ کی سطح کو 5.6 میٹر تک ڈھانپ لے۔[171] دونوں قطبی ٹوپیوں نے کثیر باریک اندرونی پرت کو اس وقت ظاہر کیا جب ان کا تجزیہ ہائیرائز اور مریخی سیاروی سرویر امیجری نے کیا۔ کئی محققین نے اس پرت کا استعمال کرتے ہوئے کوشش کی کہ ٹوپیوں کی ساخت، تاریخ اور بہاؤ کے خصائص کو سمجھ سکیں اگرچہ کہ ان کی توضیح صاف گو نہیں تھی۔[172]

انٹارکٹکا میں واقع جھیل ووستک کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مائع پانی مریخ پر شاید اب بھی وجود رکھتا ہو کیونکہ اگر پانی مریخ پر قطبی برفیلی ٹوپیوں سے پہلے موجود تھا تو یہ ممکن ہے کہ برفیلی ٹوپیوں کے نیچے اب بھی مائع پانی موجود ہو۔[173]

زمینی برف

کئی برسوں سے اکثر سائنس دان رائے دیتے ہیں کہ کچھ مریخی سطح، زمین کے برفیلے تودوں کے آس پاس کے علاقوں جیسی لگتی ہے۔[174] ان میدانی خدوخال سے مشابہت کے ذریعہ یہ دلیل کئی برسوں تک دی جاتی رہی کہ یہ علاقے سطح زمین کے اندر موجود دائمی برف کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ منجمد پانی سطح کے بالکل عین نیچے موجود ہوگا۔ بلند عرض البلد کی نقش دار میدانوں کی ایک عمومی خاصیت کئی صورتوں میں وقوع پزیر ہو سکتی ہے بشمول پٹیوں اور کثیر الزاویہ اشکال کے۔ زمین پر ان صورتوں کے بننے کی وجہ مٹی کا جمنا اور پگھلنا ہوتا ہے۔[175] مریخ کی سطح کے نیچے بڑی مقدار میں جمے ہوئے پانی کے دوسرے ثبوت بھی ہے جیسے کہ نرم زمین، جس کے گول مقامی جغرافیائی خدوخال ہیں۔[176] نظریاتی حساب اور تجزیئے اس بات کے امکان کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ خدوخال زمینی برف کے اثر کی وجہ سے بنے ہیں۔ مریخی مہم کے گیما شعاع کے طیف پیما اور فینکس خلائی گاڑی کی براہ راست پیمائش سے حاصل کردہ ثبوت اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ ان میں سے اکثر خدوخال کا قریبی تعلق زمینی برف کی موجودگی کے ساتھ ہے۔[177]

مریخ کے کچھ علاقے مخروطی اشکال سے ڈھکے ہوئے ہیں جو زمین کے ان علاقوں سے ملتے ہیں جہاں لاوا جمے ہوئی برفیلی زمین کے اوپر بہتا ہے۔ لاوے کی حرارت برف کو پگھلا دیتی ہے اور بدل کر بھاپ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ بھاپ کی طاقت ور قوّت لاوے سے ہوتی ہوئی نکلتی ہے اور اس قسم کی بے جڑ کی مخروطی اشکال کو بناتی ہے۔ مثال کے طور پر ان خدوخال کو اتھابیسکا ویلس میں تلاش کیا جا سکتا ہے جو مخرج نہروں کے ساتھ بہتے ہوئے لاوے سے تعلق رکھتی ہیں۔ بڑی مخروطی اشکال اس وقت بنتی ہیں جب بھاپ موٹی لاوے کی پرت میں سے گزرتی ہے۔[178]

خول نما مقامی جغرافیہ

ہیلس چو گوشہ میں بننے والی خول نما ساختوں کے مراحل

مریخ کے کچھ علاقے خول نما شکل کی بھینچی ہوئی صورت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان بھینچی ہوئی ساختوں کے بارے میں گمان یہ ہے کہ شاید یہ انحطاط پزیر برف سے لبریز غلاف کے ذخیرے کی باقیات ہوں گی۔ جمی ہوئی مٹی میں سے برف کی عمل تصعید کے نتیجے میں یہ خول نما ساختیں وجود میں آتی ہیں۔ ایکارس میں شایع ہونے والی ایک تحقیق میں پتا لگا ہے کہ خول نما مقامی جغرافیائی کے قطعہ زمین کو مریخ کی حالیہ ماحول کی شرائط کے اندر ہونے والی سطح زمین کے اندر موجود پانی کی برف کو عمل تصعید کے نتیجے میں کھونے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے نمونے اسی طرح کی ساختوں کے بارے میں اس وقت بھی پیش گوئی کرتے ہیں جب زمین میں بڑی مقدار میں دسیوں میٹر گہری خالص برف موجود ہو۔[179] یہ غلاف کا مادّہ ممکنہ طور پر کرۂ فضائی سے نکل کر یہاں جمع ہو گیا ہے کیونکہ برف دھول پر اس وقت جمی ہے جب موسم مریخ کے قطب کے جھکاؤ(نیچے برفانی دور کو دیکھیے) میں ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے مختلف ہو گیا تھا۔[180][181] خول نما ساختیں عام طور پر دسیوں میٹر گہری ہوتی ہیں۔ کچھ چند سو سے لے کر چند ہزار میٹر تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ لگ بھگ دائروی یا لمبوتری ہو سکتی ہیں۔ کچھ تو ایسی لگتی ہیں کہ جیسے ایک بڑے بھاری کھڈے والی زمین کی وجہ سے متحد ہو گئی ہوں۔ زمین کو بنانے کا عمل شاید شگاف سے ہونے والی عمل تصعید سے شروع ہوتا ہوگا۔ وہاں اکثر کثیر الاضلاع شگاف موجود ہوتے ہیں جہاں خول نما ساختیں بنتی ہیں اور خول نما جغرافیائی ساختوں کی موجودگی منجمد زمین کے بارے میں عندیہ دیتی ہے۔[177]

یہ خول نما خدوخال سطحی طور پر بے شمار سوراخ والے سوئس پنیر کی طرح کے ہوتے ہیں، جو جنوبی قطبی ٹوپی کے گرد پائے گئے ہیں۔ بے شمار سوراخ والے سوئس پنیر کی طرح کے خدوخال کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بجائے پانی کی برف کے ٹھوس کاربن ڈائی آکسائڈ کی پرت کی سطح پر بننے والے سوراخوں کی وجہ سے بنتی ہیں– ہرچند کہ ان سوراخوں کے فرش میں ممکنہ طور پر پانی کی مقدار کافی ہے۔[182]

برفیلے تودے

5 کلومیٹر چوڑے نظارے میں برفیلے تودوں کی طرح گوشہ کے ذخیرے ڈبے والی گھاٹی میں نیچے سے اوپر کی طرف ہے۔ سطح پر چٹانوں کا ثلجی ملبے کے ذخیرے ہیں جو برفیلے تودوں کی پیش قدمی کو ظاہر کرتے ہیں۔

مریخ کے کچھ بڑے حصّے یا تو بڑے تودوں کی میزبانی کرتے نظر آتے ہیں یا وہ ثبوت رکھتے ہیں جو حال میں ہم دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر بلند عرض البلد کے حصّے بالخصوص اسمینس لاکس چوگوشہ کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب بھی وہ بڑی مقدار میں پانی کی برف رکھتا ہے۔[183][184] حالیہ ثبوت و شواہد نے کافی سیاروی سائنس دنوں کو یہ یقین کرنے پر مجبور کر دیا کہ پانی کی برف اب بھی بطور برف کے تودوں کے مریخ کے وسطی اور بلند عرض البلد میں موجود ہیں جن کی عمل تصعید سے حفاظت غیر حاجز چٹانوں کی پتلی سے تہ یا دھول کرتی ہے۔ جنوری 2009ء میں سائنس دانوں نے ڈیوٹیرو نیلس مینسا کے علاقے میں موجود برف کے تودوں جیسے خصائص جن کو گوشہ دار دھول تہ بند کہتے ہیں، پر کی جانے والی تحقیق ریڈار کی مدد سے کی جس میں انھیں چند میٹرچٹانوں کی دھول کے نیچے جگہ جگہ پھیلی ہوئی برف کے ثبوت ملے ہیں۔ برف کے تودوں کا تعلق منقش میدانوں اور کئی آتش فشانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ محققین نے ہیکاٹس تھولس، [185] عرشیہ مونس، [186] پیوونس مونس [187] اور اولمپس مونس [188] کو برفیلے تودوں کے ذخیرے کے طور پر بیان کیا ہے۔ وسطی اور بلند عرض البلد میں موجود کئی مریخی شہابی گڑھے میں برفیلی تودوں کے ہونے کے بارے میں اطلاعات ہیں۔

رول ویلس دھاری دار فرشی ذخیروں کے ساتھ۔ محل وقوع ہیلس چو گوشہ ہے۔

مریخ پر تودوں جیسے خدوخال کو نقوش کی شکل و صورت، ۔[189] محل وقوع، جس زمین سے اس کا تعلق ہے اور کون سا مصنف اس کی تشریح کر رہا ہے، کی مناسبت سے بطور بہاؤ کے نقوش، مریخی بہاؤ کے نقوش، گوشہ دار دھول تہ بند یا بھری ہوئی دھاری دار وادیوں سے بھی بیان کیا جاتا ہے۔ تمام کے تمام تو نہیں تاہم ان میں سے اکثر برف کے تودے غلاف کے مادّے اورتنگ گھاٹی کی دیواروں میں موجود تنگ گھاٹی سے نسبت رکھتے ہیں۔[190] دھاری دار ذخیرے جن کو بھری ہوئی دھاری دار وادیوں سے بھی جانا جاتا ہے ممکنہ طور پر پتھروں سے ڈھکے ہوئے برفیلے تودے ہیں جو زیادہ تر نہروں کی تہ میں پائے گئے ہیں جو شمالی نصف کرہ میں واقع عربیہ میدان کے منقش میدان میں پائے گئے ہیں۔ ان کی ستہ پر پہاڑیاں اور کھانچے دار مادّہ موجود ہے جو رکاوٹوں کے گرد ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دھاری دار تہ کے ذخیرے گوشہ دار دھول تہ بند سے نسبت رکھتے ہوں جن میں مدار گردریڈار پہلے ہی بڑی مقدار میں برف کے ہونے کی تصدیق کر چکے ہیں۔ کئی برسوں سے محققین یہ تشریح کرتے رہے ہیں کہ نقوش جن کو گوشہ دار دھول تہ بند کہتے ہیں اصل میں برفیلے تودوں کا بہاؤ ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ برف ایک غیر موصل پتھروں کی تہ کے نیچے موجود ہے[191][192] نئے آلات کے اعداد و شمار کے ساتھ اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ گوشہ دار دھول تہ بند میں لگ بھگ خالص برف موجود ہے جس کو چٹان کی ایک پرت نے ڈھانک رکھا ہے۔

الپائن برفیلے تودے کا بچا ہوا ثلجی ملبے کو پہاڑی سمجھا جاتا ہے۔ محل وقوع اسمینس لاکس چو گوشہ

متحرک برف اپنے ساتھ چٹانی مادّہ لے جاتی ہے اور جب برف غائب ہو جاتی ہے تو وہ باقی رہ جاتا ہے۔ عام طور پر ایسا تودے کے کنارے یا تھوتھنی پر ہوتا ہے۔ زمین پر ایسے نقوش ثلجی ملبہ کہلاتے ہیں، تاہم مریخ پر ان کو عموماً ہم ثلجی ملبے جیسے پہاڑ یا خم دار پہاڑی کہتے ہیں۔[193] کیونکہ مریخ میں برف پگھلنے کی بجائے تصعیدی عمل ہوتا ہے اور کیونکہ مریخ کے کم درجہ حرارت کی وجہ سے برف کے تودے ٹھنڈ کی بنیاد (اپنے تختے پر جم کر ہلنے کے قابل نہیں رہتے)پر ہوتے ہیں، تو ان برفیلے تودوں اور پہاڑیوں کی باقیات جو وہ چھوڑتے ہیں بعینہ ایسے نہیں ہوتے جیسا کہ زمین پر موجود عام برف کے تودے چھوڑتے ہیں۔ بطور خاص مریخی ثلجی ملبے نیچے موجود مقامی جغرافیہ سے خم کھائے بغیر ہی جمع ہوئے ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مریخی تودوں میں موجود برف عام طور پر جم کر نیچے بیٹھ جاتی ہے اور ہل نہیں سکتی۔ برف کے تودوں کی سطح پر موجود دھول کی پہاڑیاں برف کی حرکت کا اشارہ دیتی ہیں۔ کچھ تودوں کی سطح پر کھردری بناوٹ دفن ہوئی برف میں تصعیدی عمل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ برف بغیر پگھلے ہی تبخیر ہو جاتی ہے اور اپنے پیچھے خالی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ اوپر موجود مادّہ خالی جگہ میں منہدم ہو جاتا ہے۔[194] کبھی کبھار برف کے ٹکڑے تودے سے گر کر زمین کی سطح پر دفن ہو جاتے ہیں۔ جب وہ پگھلتے ہیں، تو کم و بیش سوراخ جیسی چیز باقی رہ جاتی ہے۔ کیتلی جیسے سوراخوں کو مریخ میں شناخت کیا گیا ہے۔[195]

مریخ پر برفیلے تودوں کے بہاؤ کے مضبوط شواہد کے باوجودبرفیلے تودوں کے کٹاؤ سے بننے والی زمینی تراش کے بارے میں قائل کرنے کے لیے انتہائی کم ثبوت ہیں مثال کے طور پر یو صورت کی وادیاں، گھاٹی اور دم دار پہاڑیاں، ایریٹس، ڈرملنس وغیرہ۔ زمین پر موجود برفیلے تودوں کے علاقوں میں اس طرح کے نقوش عام ہیں، لہذا مریخ پر ان کی غیر موجودگی ایک ثابت معما ہے۔ زمینی تراش کی اس طرح کی کمی کی وجہ مریخ پر موجودہ برفانی تودوں میں موجود برف کی ٹھنڈ کی بنیا د کی ہیئت کو سمجھا جاتا ہے۔ سیارے پر پہنچنے والی شمسی آفتاب زدگی کی وجہ سے کرۂ فضائی کا درجہ حرارت اور کثافت اور زمینی حرارتی گرمی کا بہاؤ تمام کے تمام زمین کی نسبت مریخ پر کم ہیں۔ نمونہ جات بتاتے ہیں کہ برف کے تودے اور اس کے تختے کے درمیان میں درجہ حرارت کا تعامل جمنے سے نیچے رہتا ہے اور برف حقیقت میں زمین سے نیچے جم جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ تختے پر پھسلنے سے بچ جاتی ہے اور اسی کوبرف کی وجہ سے سطح کے کٹاؤ کی قابلیت کو روکنا سمجھا جاتا ہے۔

برفانی دور

شمالی قطب میں برف اوردھول کی تہ کے ذخیرے

اپنے حالیہ ماضی قریب میں مریخ نے برف کی مقدار اور تقسیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کو دیکھا ہے۔ زمین پر ایسی تبدیلیوں کو برفانی دور یا برفانی عہد کہا جاتا ہے۔ مریخ کے برفانی دور زمین کے برفانی ادوار سے کافی مختلف ہیں۔ مریخی برفانی دور کے دوران میں قطبین گرم ہو جاتے ہیں، تب پانی کی برف ٹوپیوں کو چھوڑ دیتی ہے اور وسطی عرض البلد میں جا کر ذخیرہ ہو جاتی ہے۔[196] برفیلی ٹوپی سے نمی پست عرض البلد کی طرف پالے یا برف کے گالوں کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ مریخ کے کرۂ فضائی میں بریک مٹی کے زرّات کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، پانی کے بخارات ان زرّات میں تکثیف ہو جاتے ہیں اور پھر پانی کے اضافی وزن کی وجہ سے وہ زمین پر گر جاتے ہیں۔ جب غلافی پرت کے اوپر موجود برف واپس کرۂ فضائی میں جاتی ہے تو یہ اپنے پیچھے دھول چھوڑ دیتی ہے جو باقی بچی ہوئی برف کے لیے بطور حاجز کا کم کرتی ہے۔ برفیلی ٹوپی سے جانے والی پانی کی کل مقدار اس کا صرف کچھ فیصد ہی ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ مقدار اس قدر ہوتی ہے کہ پورے سیارے کی سطح کو ایک میٹر تک ڈھک سکتی ہے۔ برف کی ٹوپیوں کی زیادہ تر نمی کا نتیجہ برف و دھول کے آمیزے سے بنے ہوئے موٹے ہموار غلاف کی صورت میں نکلتا ہے۔[197][198] برف سے لبریز یہ چند میٹر موٹا غلاف پست عرض البلد کی زمین کو ہموار کر دیتا ہے، تاہم اس کی ظاہری صورت ناہموار ہوتی ہے۔ گلیشیر بستگی کے ایک سے زیادہ مراحل وقوع پزیر ہوتے ہیں۔[199] کیونکہ موجود دور کے غلاف میں صرف چند شہابی گڑھے ہی موجود ہیں، لہٰذا اس کو کافی نوجوان سمجھا جاتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ غلاف نسبتاً حال کے برفانی دور کے دروان بچھا ہے۔

برفانی دور مریخ کے مدار اور جھکاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے آتے ہیں، جس کا موازنہ ہم ارضیاتی میلانکووچ چکر سے کر سکتے ہیں۔ مداروی حساب بتاتے ہیں کہ مریخ اپنے محور پر زمین کے مقابلے میں زیادہ ڈگمگاتا ہے۔ زمین کو استحکام اس کے نسبتاً بڑے چاند کی وجہ سے مل جاتا ہے لہٰذا یہ صرف چند درجے تک ڈگمگاتی ہے۔ مریخ اپنا جھکاؤ- جس کو خمیدگی سے جانا جاتا ہے- دسیوں درجے تک بدل سکتا ہے۔ جب یہ خمیدگی زیادہ ہوتی ہے، اس کے قطبین کو زیادہ روشنی اور حرارت براہ راست ملتی ہے؛ اس سے اس کے برفیلی ٹوپیاں گرم ہو جاتی ہیں اور برف کے تصعیدی عمل کی وجہ سے یہ مہین ہو جاتی ہیں۔ ماحول میں تغیر کو بھی اگر جمع کر لیں تو مریخ کے مدار میں یہ انحرافی تبدیلی زمین کے انحراف سے دگنا تک ہو سکتی ہے۔ جب قطب تصعید کے عمل سے گزرتے ہیں تو برف استواء کے قریب دوبارہ جمع ہو جاتی ہے جو ان زیادہ خمیدگی کی نسبت کم شمسی آفتاب زدگی کو پاتی ہیں۔ کمپیوٹر نقول بتاتی ہیں کہ مریخ کے 45 درجے کے جھکاؤ پر برفانی تودوں کو رکھنے والی زمین میں برف کافی جمع ہو جاتی ہے۔[200] 2008ء میں ہونے والی تحقیق ایمیزونی گلیشیر بستگی کے آخری دور کے دوران مریخ کی سرحد کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کی جگہ پر کثیر برفانی مراحل کے بارے میں ثبوت دیتی ہے۔[201]

موجودہ بہاؤ کے شواہد

نیوٹن شہابی گڑھے میں ڈھلوان پر ہونے والے موسم گرما کے بہاؤ۔
شاخ دار آبی درے
گہرے آبی دروں کے گروہ

خالص مائع پانی مستحکم صورت میں مریخ کی ستہ پر اپنے موجودہ فضائی دباؤ اور کم درجہ حرارت کے ساتھ بجز کچھ نچلے علاقوں میں چند گھنٹوں کے نہیں قائم رہ سکتا۔[202] لہذا ارضی معما 2006ء میں اس وقت شروع ہوا جب ناسا پڑتال گر مدار گرد سے حاصل کردہ مشاہدات نے آبی درے کے ذخیروں کو ظاہر کیا جو دس برس پہلے موجود نہیں تھے، ممکنہ طور پر یہ مائع نمکین پانی مریخ کے گرمیوں کے موسم کے دوران میں کبھی بنے تھے۔[203][204][205] یہ تصاویر دو شہابی گڑھوں سیرینم میدان اور قنطورس مونٹیس کی تھیں جس میں بظاھر ایسا نظر آ رہا تھا کہ مریخ میں 1999ء تا 2001ء کے دوران میں کسی وقت مائع پانی سطح پر بہا تھا۔[206][207][208]

سائنس دانوں کے درمیان میں اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا یہ آبی درے مائع پانی سے بنے ہیں یا نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آبی درے ایسے بہاؤ سے بنے ہوں گے جو خشک ہوں گے، [209] یا شاید کاربن ڈائی آکسائڈ سے ہموار ہوئی ہوگی۔[210][211] اگر آبی درے سطح پر بہنے والے پانی سے بنے تو پانی کا اصل ماخذ اور اس حرکت کے پیچھے نظام صحیح طرح سے نہیں سمجھا گیا ہے۔[212]

اگست 2011ء میں ناسا نے جنوبی نصف کرہ میں شہابی گڑھوں کے کنارے چٹانی سطح سے ابھرا ہوئی ساختوں کے نیچے کھڑی ڈھلوانوں پر موجودہ موسمی تبدیلی کا اعلان کیا۔ یہ دریافت نیپالی سند فضیلت حاصل کرنے والے طالبعلم لوجیندرا اوجھا نے کی تھی۔[213] یہ گہری دھاریاں جن کو اب باز گرد ڈھلانی خط کہتے ہیں مریخی موسم گرما کے گرم ترین حصّے میں ڈھلوانوں کے نیچے بنتے ہوئے دیکھی گئی ہیں، اس کے بعد یہ بتدریج سال کے دوسرے حصّے میں غائب ہو جاتی ہیں اور سال کے دوران متوالی ہوتی ہیں۔ محققین کہتے ہیں کہ یہ نشان نمکین پانی سے میل کھاتے ہیں جو ڈھلوانوں پر نیچے کی طرف بہتا ہے اور پھر اڑ جاتا ہے اور شاید کسی قسم کی باقیات اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔[214][215] کرزم طیف پیما آلے نے اس وقت سے آبیدہ نمک کے براہ راست مشاہدات کے ہیں جو اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب یہ متوالی ڈھلوانی خط بنتے ہیں، جس سے 2015ء میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ خط اتھلی مٹی میں سے گزرنے والے مائع نمکین پانی سے ہی بنے ہیں۔ ان خطوط میں آبیدہ کلورائیٹ اور پرکلوریٹ موجود ہے جس میں مائع پانی کے سالمے موجود ہیں۔[216] یہ خطی بہاؤ پہاڑی سے نیچے مریخی موسم گرما میں بہتے ہیں جب درجہ حرارت -23 سیلسیس (-10 فارن ہائیٹ ) سے اوپر ہوتا ہے۔[217] بہرحال پانی کا ماخذ اب بھی نامعلوم ہے۔[218][219]

سکونت پذیری کی جانچ

حیات کے بارے میں جانا جاتا ہے کہ اس کو مائع پانی کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم صرف یہ ایک شرط ہی حیات کے لیے ضروری نہیں ہے۔۔، [220][221][222] حیات کی شرائط کے لیے پانی، توانائی کے ذرائع، خلیات کی نشو و نما کے ضروری مادّے سب کے سب ایک موزوں ماحول کے ساتھ درکار ہیں[223] ماضی میں مریخ کی زمین پر کبھی بہنے والے پانی، غذائیت بخش مادّے اور پہلے سے دریافت کیے گئے ماضی کے مقناطیسی میدان جو سیارے کو کائناتی اور شمسی اشعاع سے محفوظ رکھتے تھے[224][225] یہ تمام کے تمام ثبوت مل کر بتاتے ہیں کہ مریخ میں حیات کو سہارا دینے والا ماحول ہو سکتا تھا۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ مریخ کو ماضی میں قابل سکونت پانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مریخی حیات کبھی وہاں حقیقت میں وجود رکھتی ہو۔

ALH84001شہابیے کے ٹکڑے پر برقی خرد بین سے دیکھنے پر جرثومے کی طرح کی ساخت دکھائی دے رہی ہے۔

جب وہاں پر ایک مقناطیسی میدان ہو تو ماحول شمسی ہوا سے ہونے والے کٹاؤ سے محفوظ رہتا ہے اور کثیف کرۂ فضائی کو باقی رہنے کا بھی یقین دلاتا ہے جو سطح پر مائع پانی کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔[226][227] مریخی سطح پر قابل سکونت ماحول کا اندازہ لگانے کے لیے دو حالیہ ماحولیاتی طریقے 19 یا 20 عوامل کا استعمال کرتے ہیں، جس میں زیادہ زور پانی کی دستیابی، درجہ حرارت، غذائیت بخش اجزاء، توانائی کے ذرائع اور شمسی بالائے بنفشی اشعاع اور کہکشانی کائناتی اشعاع سے محفوظ رکھنے پر دیا گیا ہے۔ بطور خاص خلیاتی ساختوں پر آئن زدہ تابکاری کا تباہ کن اثر ممکنہ فلکی حیاتیاتی رہائشیوں کی زندگی کے باقی رہنے کے لیے سب سے اہم عمل ہے۔ یہاں تک کہ سطح کے 2 میٹر نیچے تک کوئی بھی خرد جرثومہ اونگھتا ہوا، حالیہ جما دینے والے حالات میں منجمد ہو کر محفوظ ہوگا، اس طرح وہ استحالی طور پر غیر عامل ہوگا اور وقوع پزیر خلیاتی انحطاط کو ہونے پر ٹھیک کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔[228]

لہٰذا مریخ میں حیات کی تلاش کی دریافت کی سب سے بہترین جگہ زیر زمین ماحول ہے جس پر ابھی تک تحقیق نہیں کی گئی ہے۔[229][230] ماضی میں وسیع آتش فشانی عمل نے ممکنہ طور پر زیر زمین شگاف اور جوف کو مختلف شکل و صورت میں بنایا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ مائع پانی اس طرح کے زیر زمین جگہوں میں جمع ہوا ہو، جہاں اس نے بڑے نمکین پانی کے ذخیرے بنا دیے ہوں جن میں معدنیات، نامیاتی سالمات اور ارضی حرارتی گرمی بھی شامل ہو- یہ سب مل کر سطح پر موجود شدت کے ماحول سے دور ممکنہ طور پر موجودہ قابل سکونت ماحول مہیا کر سکتے ہیں۔[231][232][233][234]

کھوجیوں سے کی گئی دریافتیں

مرینیر نہم

مرینیر نہم سے دیکھا جانا والااسکامندرویلس میں پیچیدہ راستہ۔ اس طرح کی تصویروں کا مطلب ہوتا ہے کہ بڑی مقدار میں پانی کبھی مریخ کی سطح پر بہتا ہوگا۔

1971ء میں مرینیر نہم مریخی مدار گرد سے حاصل ہونے والی تصاویر نے ماضی کے پانی کے پہلے براہ راست ثبوت کو خشک دریائی فرش، آبی دروں (بشمول ویلس مرینیرز، جو ایک 4٫020 کلومیٹر پر پھیلا ہوا نظام ہے)، پانی کے کٹاؤ اور ذخیرے کے ثبوت، موسمی محاذ اور کئی دوسرے ثبوتوں کی صورت میں پہلی مرتبہ ظاہر کیا۔[235] مرینیر نہم سے کی جانے والی دریافتوں کو بعد کے وائکنگ منصوبے نے گہنا دیا۔ عظیم الشان ویلس مرینیرز آبی درے کے نظام کا نام مرینیر نہم کی خدمات کے صلے میں رکھا گیا۔

وائکنگ منصوبہ

ماجا ویلس میں دھارے کی صورت والا جزیرہ مریخ پر آنے والے بڑے سیلابوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

عام طور پر بڑی مقدار میں پانی سے بننے والی ارضیاتی اشکال کی دریافت کو کرکے دو وائکنگ مدار گردوں اور دو خلائی گاڑیوں نے مریخ پر پانی کے بارے میں ہمارے علم میں انقلاب برپا کر دیا۔ نہروں کے بڑے بڑے مخرج کئی علاقوں میں پائے گئے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ پانی کے سیلاب نے ڈیموں کو توڑ کر، گہری وادیوں کو تراشا، کھانچے دار زمین کو کاٹ کر دریائے فرش میں ڈھالا اور ہزارہا کلومیٹر کا سفر کیا۔[236] جنوبی نصف کرہ میں بڑے علاقوں میں شاخ دار وادیوں کے جال موجود ہیں، جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کبھی وہاں بارش ہوا کرتی تھی۔[237] کئی شہابی گڑھے ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے کہ تصادم گیلی مٹی میں ہوا ہو۔ جب وہ بنے تھے، تو شاید مٹی میں موجود برف پگھلی ہوگی، جس سے زمین کو کیچڑ میں بدل دیا ہوگا اور پھر یہ کیچڑ سطح پر پھیل گئی ہوگی۔[238] "منتشر میدان" جیسے علاقوں میں لگتا ہے کہ پانی کی بڑی مقدار ضائع ہو گئی ہوگی جس کی وجہ سے نیچے کی طرف بہنے والی بڑی نہریں بن گئی ہوں گی۔ کچھ تخمینہ جات تو مسیسپی دریا کے بہاؤ کے مقابلے میں دس ہزارہا گنا طور پر بہتے تھے۔[239] زیر زمین آتش فشانوں نے شاید جمی ہوئی برف کو پگھلا دیا ہوگا؛ اس کے بعد پانی دور بہ گیا ہوگا اور زمین نے منہدم ہو کر منتشر میدانوں کو اپنے پیچھے چھوڑ دیا ہوگا۔ مزید براں ان دونوں وائکنگ خلائی گاڑیوں سے کیے جانے والے عام کیمیائی تجزیے بتاتے ہیں کہ یا تو سطح ماضی میں ظاہر ہوئی ہوگی یا پھر پانی میں مل گئی ہوگی۔[240][241]

مریخی سیاروی مساحت کنندہ

سائی نس میریڈیانی میں موجود قلمی کچے لوہے کی تقسیم نقشے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان اطلاعات کو آپرچونیٹی خلائی گاڑی کے اترنے کی جگہ کے حوالے سے ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا تھا جس نے ماضی کے پانی کے بارے میں قطعی ثبوت دیکھے۔

مریخی سیاروی مساحت کنندہ کا حرارتی اخراجی طائف پیما ایک ایسا آلہ ہے جو مریخ کی سطح پر جمع ہوئی معدنیات کا تعیین کر سکتا ہے۔ اس آلے نے نیلی مجوف ساخت میں ایک بڑے علاقے (30٫000 مربع کلومیٹر)کی شناخت کی ہے جس میں زبرجد معدن موجود ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ قدیمی سیارچے کے اس تصادم میں جس میں اسیڈس طاس بنا ایسے شگاف پیدا ہو گئے جس میں یہ زبرجد سامنے نکل کر آگیا۔[242] زبرجد کی دریافت اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ مریخ کے کچھ حصّے لمبے عرصے سے شدید خشک ہیں۔ استواء کے 60 درجے شمال اور جنوب کے اندر کچھ دوسرے چھوٹے علاقوں میں بھی زبرجد پایا گیا ہے۔[243] کھوجی نے کئی نہروں کی تفتیش کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مستحکم مائع بہاؤ میں سے دو نانیدی ویلس اور نرگال ویلس میں پائے گئے ہیں۔[244]

نانیدی ویلس کے فرش پر موجود اندرونی نہریں (تصویر کے اوپر) بتاتی ہیں کہ پانی کا بہاؤ کافی لمبے عرصے تک رہا ہوگا۔ تصویر از طرف لونا پالس چوگوشہ۔

مریخی خضر راہ

خضر راہ خلائی گاڑی نے یومیہ درجہ حرارت کے چکر میں رد و بدل کی پیمائش کی۔ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے یہ سرد ترین لگ بھگ -78 سیلسیس درجہ حرارت کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ سب سے زیادہ گرم مریخی دوپہر میں -8سیلسیس درجہ حرارت کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ دونوں شدت کے درجہ حرارت اس میدان کے قریب ہوتے ہیں جو تیزی سے گرم و سرد ہو جاتا ہے۔ اس جگہ پر سب سے زیادہ درجہ حرارت کبھی بھی پانی کے نقطۂ انجماد 0 درجہ حرارت تک نہیں پہنچتا، یہ اس قدر ٹھنڈا ہے کہ خالص مائع پانی سطح پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔

سطح کا دباؤ یومیہ 0.2 ملی بار سے اپر ہوتا ہے تاہم کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ یومیہ 2 تک بھی جاتا ہے۔ روزانہ کا اوسطاً دباؤ 6.75 ملی بار کے لگ بھگ سے کم سے کم 6.7ملی بار ہوتا ہے، بمطابق جب کاربن ڈائی آکسائڈ کی زیادہ سے زیادہ مقدار جنوبی حصّے میں تکثیف ہوتی ہے۔ مریخ پر خضر راہ نے جس فضائی دباؤ کی پیمائش کی ہے وہ بہت کم ہے یعنی لگ بھگ زمین کا 0.6 فساد کے قریب اور یہ اتنا نہیں ہے کہ مائع پانی کو سطح پر رہنے کے قابل چھوڑے۔[245]

دوسرے مشاہدات اس بات سے میل کھاتے ہیں کہ پانی ماضی میں موجود رہا ہوگا۔ مریخی خضر راہ کے اترنے کی جگہ پر کچھ چٹانیں ایک دوسرے کے مخالف اس طرح سے ہیں جس کو ماہرین ارضیات کنارہ پوش کہتے ہیں۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ ماضی میں زبردست سیلابی پانی نے چٹانوں کو اتنا دھکا دیا ہوگا کہ وہ بہاؤ سے دور ہو گئے ہوں گے۔ کچھ کنکریاں گول ہیں، شاید بہاؤ سے لڑکھڑا کر بن گئی ہوں گی۔ زمین کا کچھ حصّے چھلکے دار ہے شاید ایسے سیال کی وجہ سے جڑ گیا ہوگا جس میں معدنیات ہوں گی۔[246] وہاں پر بادلوں اور دھند کے ثبوت بھی تھے۔

مریخی مہم

سیمیکن شہابی گڑھے میں پیچیدہ نالیوں کا نظام۔ محل وقوع اسیمینس لاکس چو گوشہ ہے۔

2001ء مریخی مہم نے تصاویر کی صورت میں مریخ پر پانی کے کافی زیادہ ثبوت پائے اور اپنے طیف پیما کے ساتھ، اس نے بتایا کہ زمین کا کافی زیادہ حصّہ پانی سے لبریز تھا۔ مریخ کی سطح کے نیچے اس قدر برف موجود ہے کہ جھیل مشی گن دو مرتبہ اس سے بھر سکتی ہے۔ دونوں نصف کروں میں، 55 درجے عرض البلد سے لے کر قطبین تک، سطح کے بالکل نیچے مریخ میں برف کی بلند کثافت موجود ہے، لگ بھگ ایک کلو مٹی میں 500 گرام پانی کی برف موجود ہے۔ تاہم استواء کے قریب مٹی میں پانی کی مقدار صرف 2 فیصد سے لے کر 10 فیصد تک ہے۔ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ اس پانی کی اکثریت معدنیات کی کیمیائی ساخت میں مقید ہے جیسا کہ مٹی اور گندھک کے تیزاب کے نمک میں۔[247][248] ہرچند کہ اوپری سطح میں کچھ فیصد ہی کیمیائی طور پر بندھا ہوا پانی موجود ہے، تاہم صرف چند میٹر گہرائی میں برف موجود ہے جسیا کہ عربیہ میدان، ایمیزونا چو گوشہ اور ایلی سیم چو گوشہ میں دیکھا گیا ہے کہ ان میں بڑی مقدار میں پانی کی برف موجود ہے۔[249] اعداد و شمار کے تجزیات بتاتے ہیں کہ جنوبی نصف کرہ میں پرت دار ساخت ہو سکتی ہے جو نیچے پرت دار ذخیرے کو اب بڑے معدوم ہوئے پانی کے ڈھیر کے بارے میں عندیہ دیتی ہے۔[250]

آرام میں موجود قالب ممکنہ قدیمی پانی کے ماخذ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ محل وقوع اوکزیا پالس چو گوشہ ہے۔

مریخی مہم پر لگے ہوئے آلات صرف اوپری مٹی کا تجزیہ کرنے کے قابل ہیں، جبکہ مریخی پڑتال گر مدار گرد میں لگے ہوئے ریڈار چند کلومیٹر گہرائی تک پیمائش کر سکتے ہیں۔ 2002ء میں دستیاب اعداد و شمار کا استعمال کیا تاکہ یہ پتا لگا جا سکے کہ تمام سطح کی مٹی ایک برابر پانی کی تہ سے ڈھکی ہوئی ہے، تو معلوم ہوا کہ یہاں اتنا پانی ہے کہ ایک 0.5 سے لے کر 1.5 کلومیٹر گہری سیاروی پانی کی پرت بن سکتی ہے۔[251]

مہم مدار گرد سے حاصل کردہ ہزارہا تصاویر اس خیال کو تقویت دیتی ہیں کہ مریخ میں کبھی پانی کی عظیم مقدار اس کی سطح پر بہتی تھی۔ کچھ تصاویر شاخ دار وادیوں کے نمونوں کو ظاہر کرتی ہیں؛ دوسرے کچھ ایسی پرتوں کا بتاتی ہیں جو جھیل کے اندر بنی ہوں؛ بلکہ دریا اور ڈیلٹوں کی بھی شناخت ہو چکی ہے۔[252] کافی برسوں سے محققین سوچتے رہے ہیں کہ برفیلے تودے حاجز چٹان کی تہ کے اندر موجود ہیں۔ بھری ہوئی دھاری دار وادیاں ایسے برفیلے تودوں کو ڈھک کر رکھنے والی چٹانوں کی ایک مثال ہیں۔ ان کو کچھ نہروں کے فرش پر بھی پایا گیا ہے۔ ان کی سطح پر سکڑا ہوا اور مسام دار مادّے بھی موجود ہے جو رکاوٹوں سے ٹیڑھا ہو رہا ہے۔ دھاری دھار فرش کا ممکنہ تعلق گوشہ دار دھول تہ بند سے ہے، جن کے بارے میں مدار میں چکر لگاتے ہوئے ریڈار نے بتایا تھا کہ ان میں بڑی مقدار میں برف موجود ہے۔

فینکس

زیر زمین دائمی برف کی کثیر الاضلاع ساختیں جن کی تصویر فینکس خلائی گاڑی نے اتاری۔

فینکس خلائی گاڑی نے بھی مریخ کے شمالی علاقوں میں بڑی مقدار میں پانی کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔[253][254] اس کھوج کا اندازہ مدار گردوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار اور نظریہ کی مدد سے لگایا گیا تھا[255] جس کی پیمائش مدار سے مریخی مہم کے آلات نے کی تھی۔ 19 جون 2008ء کو ناسا نے اعلان کیا کہ ڈوڈو گولڈی لاکس حصّے میں روشن مادّے کے پانسوں کے حجم کے ڈھیر جس کی روبوٹ کے بازو نے کھودا تھا صرف چار دن میں فضاء میں اڑ گئے، جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ روشن ڈھیر پانی کی برف تھے جو سامنے آنے پر تصعیدی عمل سے گذرے۔ اگرچہ کاربن ڈائی آکسائڈ (خشک برف) بھی موجودہ ماحول میں تصعیدی عمل میں گذر سکتی ہے تاہم یہ ایسا مشاہدہ کیے جانے سے زیادہ کی شرح سے کرتی۔[256] 31 جولائی 2008ء ناسا نے اعلان کیا کہ فینکس نے اپنی اترنے کی جگہ پر پانی کی برف کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ نمونے کے حرارتی چکر کے دوران، کمیت طیف پیما نے پانی کے بخارات کا سراغ اس وقت لگایا جب نمونے کا درجہ حرارت صفر درجہ سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ مائع پانی مریخ کی سطح پراس کے موجودہ ماحولیاتی دباؤ اور درجہ حرارت کی وجہ سے وجود نہیں رکھ سکتا، کچھ نچلے علاقوں میں کچھ ہی دیر کے لیے مائع پانی رہ سکتا ہے۔[257]

پرکلوریٹ، جو ایک طاقتور اوکسائیڈ ہے اس کی موجودگی کی مٹی میں تصدیق ہوئی ہے۔ کیمیا جب پانی کے ساتھ ملتا ہے تو پانی کا نقطۂ انجماد کو کم کر دیتا ہے بعینہ اسی طرح جیسے کہ نمک کو سڑکوں پر برف کو پگھلانے کے لیے ڈالا جاتا ہے۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ پر کلوریٹ شاید مریکہ پر آج بھی تھوڑی مقدار میں مائع پانی کو بننے کی اجازت دیتا ہوگا اور شاید کھڑی ڈھلوانوں پر مٹی کے کٹاؤ کی وجہ سے بننے والی قابل مشاہدہ تنگ آبی دروں کو بنانے میں مدد دی ہوگی۔

فینکس خلائی گاڑی کے نیچے سے نظر آنے والے منظر میں پانی کی برف کو خلائی گاڑی کے راکٹ کے پیچھے کی طرف سے دیکھا جا سکتا ہے۔

جب فینکس اترا، تو زمین پر زور لگنے کی وجہ سے مٹی بکھری اور برف گاڑی پر پگھل گئی۔۔[258] تصاویر بتاتی ہیں کہ ٹکراؤ کی وجہ سے مادّے کی چھینٹیں کھڑی گاڑی پر لگ کر چپک گئیں۔ چھینٹیں اسی شرح سے پھیلیں جو پسیجنے سے میل کھاتی ہیں اور غائب ہونے سے پہلے گہری ہوئیں (ترقیق کے بعد ٹپکنے سے میل کھاتی ہیں) اور بھر ایسا لگا جیسا کہ ایک دوسرے میں ضم ہو گئی ہوں۔ یہ مشاہدات، حر حرارتی ثبوتوں کے ساتھ مل کر محققین کو یہ عندیہ دیتے ہیں کہ یہ چھینٹے اصل میں مائع نمکین قطرے تھے۔[259] دوسری تحقیق بتاتی ہے کہ یہ چھینٹے "برف کے ٹکڑے" بھی ہو سکتے ہیں۔[260][261][262] 2015ء میں اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ پرکلوریٹ کھڑی نالیوں پر باز گرد ڈھلوان خطوط بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔[263]

جتنا کیمرا دیکھ سکتا تھا، اترنے کی جگہ چپٹی تھی، تاہم اس کی وضع قطع 2 تا 3 میٹر کے کثیرالاضلاع ساخت جیسی تھی اور ایسی لگن کے ساتھ بندی ہوئی تھی جو 20 سینٹی میٹر تا 50 سینٹی میٹر گہری ہیں۔ یہ ہیئت مٹی میں موجود برف کے درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کے سبب پھیلنے اور سکڑنے کی وجہ سے بنی تھی۔ خرد بین نے دکھایا کہ کثیر الاضلاع ساختوں کے اوپری حصّے گول و چپٹے زرّات سے بنے ہیں، شاید کسی قسم کی مٹی ہے۔[264] کثیر الاضلاع ساختوں کے وسط میں سطح کے کچھ انچ نیچے برف موجود ہے اور اس کے کناروں کے ساتھ برف کم از کم 8 انچ گہری ہے۔ جب برف مریخ کے کرۂ فضائی کا سامنا کرتی ہے تو آہستگی کے ساتھ تصعید ہو جاتی ہے۔

برف ریشہ دار بادلوں سے گرتے ہوئے مشاہدہ کی جاچکی ہے۔ کرۂ فضائی میں بادل اس سطح پر بنے تھے جہاں درجہ حرارت لگ بھگ -65 درجے سینٹی گریڈ تھا، لہٰذا بادلوں کو لازمی طور پر کاربن ڈائی آکسائڈ (خشک برف) سے بننے کی بجائے پانی کی برف سے بننا ہوگا کیونکہ کاربن ڈائی آکسائڈ کی برف بننے کے لیے درجہ حرارت کو -120سینٹی گریڈ جتنا ہونا ہوگا۔ مہم کے مشاہدات کے نتیجے میں اب گمان یہ ہے کہ پانی کی برف (ژالہ) اس جگہ پر اس برس بعد میں جمع ہوگی۔[265] مہم کے درمیان میں سب سے زیادہ درجہ حرارت جو مریخی موسم گرما کے دوران میں درج کیا گیا وہ -19.6 سینٹی گریڈ تھا جب کہ سرد ترین درجہ حرارت -97.7 سینٹی گریڈ تھا۔ لہٰذا اس علاقے میں درجہ حرارت میں پانی کے نقطۂ انجماد(0 درجے سینٹی گریڈ) سے کہیں نیچے رہا۔[266]

مریخی کھوجی جہاں گرد

سطح سے نکلے ہوئے ابھاروں کی قریب سے تصویر
پتلی چٹانوں کی پرتیں جو ایک دوسرے کے متوازی نہیں ہیں۔
قلمی کچے لوہے کے کروچے (چھوٹی گولیاں)
جزوی پیوستہ کروچہ (چھوٹی گولی)

مریخی کھوجی جہاں گرد، اسپرٹ اور آپرچونیٹی نے مریخ کے ماضی میں پانی کے کافی ثبوت حاصل کیے ہیں۔ اسپرٹ جہاں گرد ایک ایسی جگہ پر اترا ہے جس کو جھیل کی تہ سمجھا جاتا تھا۔ جھیل کی تہ لاوے کے بہاؤ سے ڈھکی ہوئی ہے، لہٰذا ابتدا میں بہنے والے پانی کے ثبوتوں کا سراغ لگانا کافی مشکل ہے۔ 5 مارچ 2004ء ناسا نے اعلان کیا کہ اسپرٹ نے پانی کی تاریخ سے متعلق ثبوت ایک چٹان میں پائے ہیں جس کو "ہمفرے" کا نام دیا گیا ہے۔[267]

دسمبر 2007ء میں جب اسپرٹ نے الٹا سفر شروع کیا تو اپنے ساتھ پیچھے ایک ناکارہ پہیے کو بھی کھینچتا چلا گیا، پہیے نے مٹی کی اوپری تہ کو کریدا تو سیلیکا سے لبریز سفید فرش کا ٹکڑا نکلا۔ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ یہ لازمی طور پر دو میں سے ایک طریقے سے بنا ہوگا۔[268] پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ گرم پانی کے چشمے کے رسوب اس وقت بنتے ہیں جب پانی سیلیکا کا ایک جگہ حل کرتا ہے اور دوسری جگہ لے جاتا ہے (یعنی کہ چشموں کی صورت میں)۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تیزابی بھاپ چٹانوں میں موجود شگافوں سے نکل کر ان کو معدنیات سے محروم کر دیتی ہے اور پیچھے صرف سیلیکا باقی بچ جاتا ہے۔[269] اسپرٹ جہاں گرد نے کولمبیا پہاڑی کے گوسف شہابی گڑھے میں پانی کے ثبوت پائے ہیں۔ چٹانوں کے کلووس جماعت میں موسسباور طیف پیما نے گو تھائٹ کا سراغ لگایا[270] جو صرف پانی کی موجودگی میں ہی بنتی ہے۔[271][272][273] اس کے علاوہ لوہا تکسیدی صورت میں، [274] کاربونیٹ سے لبریز چٹانیں بھی ملی ہیں جس کا مطلب یہ کے سیارے کے علاقے کبھی پانی کی میزبانی کرتے تھے۔[275][276]

آپرچونیٹی جہاں گرد کو ایک ایسی جگہ پر بھیجا گیا جہاں بڑی مقدار میں مدار سے کچا لوہا دیکھا گیا تھا۔ کچا لوہا اکثر پانی سے بنتا ہے۔ جہاں گرد نے حقیقت میں پرتی چٹانیں اور سنگ مرمر یا نیل بیری جیسے کچے لوہے کے پتھر دیکھے۔ دوسری جگہ اپنے سفر کے دوران میں آپرچونیٹی نے اینڈیورنس شہابی گڑھے میں واقع برنس چوٹی میں موجود ہوائی ٹیلے کے طبقات کی تفتیش کی۔ اس کے آپریٹروں نے نتیجہ اخذ کیا کہ سطح سے ان نکلے ہوئے ابھاروں کی رکھوالی اور جوڑ کر رکھنے کو اتھلے زیر زمین پانی کے بہاؤ نے بنایا ہے۔ اپنے مسلسل کام کرنے کے برس آپرچونیٹی اب بھی ثبوت بھیج رہا ہے کہ مریخ پر موجود یہ جگہ ماضی میں مائع پانی سے گیلی رہی ہوگی۔[277][278]

مریخی کھوجی جہاں گرد نے قدیمی پانی کے ماحول کے بھی ثبوت حاصل کیے ہیں جو بہت زیادہ تیزابی تھے۔ حقیقت میں آپرچونیٹی نے جو چیز زیادہ دریافت کی یا ثبوت پائے ہیں وہ گندھک کے تیزاب کے ہیں جو حیات کے لیے انتہائی پر آشوب کیمیا ہے۔[279][280] 17 مارچ 2013ء میں ناسا نے اعلان کیا کہ آپرچونیٹی نے مٹی کے ذخائر پائے ہیں جو عام طور پر گیلے ماحول میں بنتے ہیں اور جو معتدل تیزابیت کے قریب ہیں۔ یہ تلاش مزید ثبوت قدیمی گیلے ماحول کے بارے میں دیتی ہے جو ممکنہ طور پر حیات کے لیے ساز گار ہوگی۔

مریخی پڑتال گر جہاں گرد

ورنل شہابی گڑھے میں موجود ہائی رائز سے دیکھے جانے والے چشمے۔ ماضی کی حیات کے ثبوت کو تلاش کرنے کے لیے یہ چشموں والی جگہیں کافی اچھی ہیں کیونکہ گرم چشمے حیات کی شکل کے ثبوت لمبے عرصے تک محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ محل وقوع اوکسیا پالس چو گوشہ ہے۔

مریخی پڑتال گر جہاں گرد ہائی رائز آلے نے کئی تصاویر اتاریں جو اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ مریخ کے ماضی میں پانی سے متعلق کافی شواہد موجود ہیں۔ ایک اہم دریافت نے قدیمی گرم چشموں کا ثبوت پایا۔ اگر اس میں خرد حیاتیات نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہوگا تو اس میں حیاتیاتی نقش پا ضرور موجود ہوں گے۔[281] 2010ء میں ایک تحقیق شایع ہوئی جس نے قوی ثبوت جاری رہنے والے رسوب ساز عمل کے ویلس مرینیر کے قریب کے علاقوں میں فراہم کیے۔ وہاں پر موجود معدنیات کی اقسام پانی سے نسبت رکھتی ہیں۔ مزید براں چھوٹی شاخ دار نہروں کی زیادہ تعداد کافی بڑے پیمانے پر ہونے والے رسوبی عمل کا عندیہ دیتی ہے۔

مریخ پرکئی جگہوں پر پائی جانے والی چٹانیں اکثر بطور پرتوں کے پائی جاتی ہیں جن کو پرت مطبق طبقہ کہتے ہیں۔[282] پرتیں کئی طریقوں سے بنتی ہیں جس میں آتش فشانوں، ہواؤں اور پانی کے ذرائع شامل ہیں۔[283] مریخ پر ہلکے رنگ کی چٹانیں آبیدہ معدنیات جیسے کہ گندھک کا نمک اور مٹی سے نسبت رکھتی ہیں۔[284]

ایسی موف شہابی گڑھے کے مغربی ڈھلوان پر موجود پرتیں۔ محل وقوع نواچس چو گوشہ ہے۔

مدار گرد نے سائنس دانوں کو اس بات کو تعین کرنے میں مدد دی کہ مریخ کی سطح موٹی ہموار غلاف سے ڈھکی ہوئی ہے جس کو برف اور گرد کا آمیزہ سمجھا جاتا ہے۔[285][286]اتھلی زیر زمین کے نیچے برف کے غلاف کو اکثر و بیشتر تبدیل ہونے والے موسم کی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ مریخ کے مدار اور جھکاؤ میں تبدیلی پانی کی برف کی تقسیم پر قطبی علاقوں سے لے کر نیچے ٹیکساس جتنے عرض البلد تک زبردست طریقے سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کچھ مخصوص ماحولیاتی تبدیلیوں کے دوران میں پانی کے بخارات قطبی برف کو چھوڑ دیتے ہیں اور کرۂ فضائی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ پانی زمین پر کم عرض البلد پراس وقت واپس چلا جاتا ہے جب برف کے ذخائر دھول کے ساتھ نرمی سے ملتے ہیں۔ مریخ کا کرۂ فضائی باریک زرّات کی کافی مقدار رکھتا ہے۔ جب پانی کے بخارات زرّات پر تکثیف ہوتے ہیں تو وہ پانی کے اضافی وزن سے نیچے گر جاتے ہیں۔ جب غلاف کے اوپری تہ پر موجود برف واپس کرۂ فضائی میں جاتی ہے، تو وہ اپنے پیچھے دھول کو چھوڑ دیتی ہے جو بقیہ برف کے لیے حاجز کا کام دیتی ہے۔2008ء میں مریخی پڑتال گر مدار گرد میں لگے اتھلے ریڈار سے کی جانے والی تحقیق نے قوی ثبوت گوشہ دار دھول تہ بند کے بارے میں ہیلس پلانیشیا میں دیے اور وسطی شمالی نصف عرض البلد میں برفیلے تودے ہیں جو چٹان کی پتلی تہ سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ اس کے ریڈار نے ان گوشہ دار دھول تہ بندوں کے اوپر اور نیچے سے انعکاس کا کافی قوی سراغ لگایا، مطلب یہ کہ خالص پانی کی برف نے زیادہ تر حصّے کو بنایا ہے۔ گوشہ دار دھول تہ بندوں میں پانی کی برف کی دریافت ظاہر کرتی ہے کہ پانی نچلے عرض البلد کی سطح پر بھی پایا جاتا ہے۔

ستمبر 2009ء میں شایع ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ مریخ پر موجود کچھ نئے شہابی گڑھے خالص پانی کی برف کو دکھاتے ہیں۔[287] کچھ وقت کے بعد برف غائب ہوجاتی ہے اور بخارات بن کر کرۂ فضائی میں چلی جاتی ہے۔ برف صرف چند فٹ گہری ہے۔ برف کی تصدیق مریخی پڑتال گر مدار گرد میں لگے ہوئے بھنچے ہوئے تصویری طیف پیما (کرزم) سے ہوئی تھی۔[288]

کیوریوسٹی جہاں گرد

ہوتاہ سطحی چٹان – ایک قدیمی بہاؤ کا فرش جس کو کیوریوسٹی جہاں گرد کی ٹیم نے دریافت کیا (14 ستمبر 2012ء) (قریب سے سہ جہتی نسخہ)
مریخ پر سطحی چٹان – میدانی سیلابی بہاؤ کی گاد کا ڈھیر – جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پانی بہاؤ کے ساتھ شدت سے بہتا ہوگا۔

اپنے جاری رہنے والے منصوبوں کے دوران میں ناسا کے کیوریوسٹی جہاں گرد نے مریخ پر واضح دریائی عمل سے بننے والی گاد کو دریافت کیا۔ اس قسم کے سطح سے اوپر کے ابھاروں میں موجود گول پتھروں کے خصائص سابقہ زبردست دریائی بہاؤ کے بارے میں بتاتے ہیں یہ بہاؤ ٹخنے اور کمر کی اونچائی کے درمیان میں گہرے تھے۔ یہ چٹانیں الوویل فین نظام کے نیچے شہابی گڑھے سے اترتے ہوئے پائی گئی ہیں جن کو پہلے مدار سے شناخت کیا گیا تھا۔

2012ء میں اکتوبر کے مہینے میں کیوریوسٹی نے مریخی مٹی کا پہلا ایکس رے انکسار تجزیہ کیا۔ نتائج سے کئی معدنیات بشمول فلسپار، پائیروکسین اور زبرجد کی موجودگی کا معلوم ہوا اور یہ پتا لگا کہ نمونے کی مریخی مٹی اسی طرح کی تھی جیسے کہ موسمی اثر سے بننے والی ہوائی آتش فشاں کی سنگ سیاہ کی مٹی۔ جس نمونے کا استعمال کیا گیا تھا وہ سیاروی دھول کے طوفان سے تقسیم ہوئی اور مقامی باریک دھول تھی۔ اب تک کیوریوسٹی نے جن مادّوں کا تجزیہ کیا ہے ان کے نتائج گیل شہابی گڑھے کے ذخیرے کے ابتدائی تصور سے ہم آہنگ ہیں جس میں ان کو گیلی سے خشک ماحول کے دوران میں درج کیا گیا تھا۔[289]

دسمبر 2012ء میں ناسا نے مطلع کیا کہ کیوریوسٹی نے اپنا پہلا مفصل مٹی کا تجزیہ کیا ہے جس میں پانی کے سالمات، گندھک اور کلورین کی موجودگی مریخی مٹی میں ملی ہے۔[290][291] مارچ 2013ء میں ناسا نے آبیدہ معدنیات جیسا کہ آبیدہ کیلشیئم کے ثبوت کی اطلاع کافی چٹانی نمونوں میں دی جس میں ٹنٹینا چٹان اور سٹون انلئیر چٹان کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے جبکہ جیسے کہ وینس اور نوڈلیس کی دوسری چٹانوں جیسا کہ نور چٹان اور ورنیکی چٹان بھی شامل تھیں۔[292][293][294] جہاں گرد کے ڈین آلے کو استعمال کرتے ہوئے تجزیہ سے 2 فٹ نیچے تک کی گہرائی میں زیر زمین سطح کے نیچے موجود پانی کے ثبوت جس میں پانی کی مقدار 4 فیصد تک کی تھی، جہاں گرد کے براڈبری اترنے کی جگہ سے گلینلج میدان میں واقع یلونائف ساحل کے علاقے میں واپس جاتے ہوئے ملے ہیں۔

26 ستمبر 2013ء میں ناسا کے سائنس دانوں نے مطلع کیا کہ مریخ کے کیوریوسٹی جہاں گرد نے کثیر کیمیائی طور پر بندھے ہوئے پانی (1.5 سے 3 فیصد تک) کا سراغ گیل شہابی گڑھے میں واقع ایولس پالس کے راکنیسٹ علاقے سے حاصل کردہ مٹی کے نمونوں میں لگایا ہے۔[295][296][297][298][299][300] مزید براں ناسا نے دو اہم مٹی کی اقسام کو دیکھا۔ ایک باریک دانے دار مافک قسم کی جبکہ دوسری مقامی بڑے دانے کی فیلسک قسم کی ہے۔[301] مافک قسم مریخی مٹی کی دوسری مٹی اور مریخی دھول جیسی ہے جوآبیدہ مٹی کے بے شکلی مرحلے سے تعلق رکھتی ہے۔ پرکلورائٹ جس کی موجودگی حیات سے متعلق نامیاتی مادّوں کی موجودگی کا سراغ مشکل لگا دیتی ہے اس کا بھی کیوریوسٹی جہاں گرد کے اترنے کی جگہ پر پایا گیا ہے (اور اس کو پہلے بھی مزید فینکس خلائی گاڑی کے قطبی اترنے کی جگہ پر دیکھا گیا ہے) جس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ "نمکیات سیاروی طور پر پھیلے ہوئے ہیں"۔ ناسا نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ جاک ایم چٹان جس کا سامنا کیوریوسٹی نے گلنیج کی طرف جاتے ہوئے کیا تھا ایک موگیرائٹ (سنگ سیاہ کی ایک قسم) تھا اور میدانی چٹانوں سے بہت ملتا ہے۔[302]

9 دسمبر 2013ء میں ناسا نے مطلع کیا کہ سیارہ مریخ میں ماضی میں تازہ پانی کی جھیل تھی (جو خرد حیات کے لیے قابل رہائش ماحول رکھ سکتی تھی)۔ یہ ثبوت کیوریوسٹی جہاں گرد سے کیے گئے گیل شہابی گڑھے میں موجود ماؤنٹ شارپ کے قریب ایولس پالس کے میدان کی تحقیق سے حاصل ہوئے۔16 دسمبر 2014ء میں ناسا نے مطلع کیا کہ اس کو ایک ایسا سراغ ملا ہے جس میں سیارے مریخ کے کرۂ فضائی میں موجود میتھین میں غیر معمولی اضافہ اور پھر کمی ہوئی ہے؛ مزید براں نامیاتی کیمیائی مادّوں کا سراغ بھی کیوریوسٹی جہاں گرد سے چٹان میں سوراخ کرنے سے حاصل ہونے والے سفوف میں ملے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیوٹیریم کی ہائیڈروجن سے نسبت کی تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ مریخ کے گیل شہابی گڑھے میں پانی کا زیادہ حصّہ قدیمی دور کے دوران میں شہابی گڑھے میں جھیل کی تہ بننے سے پہلے ہی برباد ہو گیا، اس کے بعد پانی کی بڑی مقدار نے ضائع ہونا جاری رکھا۔[303][304][305]

13 اپریل 2015ء میں نیچر نے نمی اور سطح کے درجہ حرارت کے بارے کیوریوسٹی سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں ایک تجزیہ شایع کیا، جس میں مائع نمکین پانی کے سالموں کے ثبوت کو رات میں مریخ کے زیر زمین سطح کے اوپری 5 سینٹی میٹر میں بتایا۔ پانی کی سرگرمی اور درجہ حرارت ان شرائط سے کہیں کم رہا ہے جو چٹانی خرد حیاتیات کے نظام استحالہ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔[306][307]8 اکتوبر 2015ء کو ناسا نے تصدیق کی کہ جھیلیں اور بہتی ہوئی ندیاں گیل شہابی گڑھے میں آج سے لگ بھگ 3 ارب 30 کروڑ سے لے کر 3 ارب 80 کروڑ برسوں کے درمیان میں وجود رکھتی تھیں اور انھوں نے ماؤنٹ شارپ کی نچلی تہوں کو رسوبی گاد بھیج کر بنایا ہے۔[308][309]

نگار خانہ

دریائی وادیاں اور مخرج نہریں

نالیاں

برفیلے تودے

سطح پر موجود برف

قدیمی جھیلیں

مزید دیکھیے

حوالہ جات

فہرست نگاری

  • بوائیس، جوزف، ایم (2008ء)۔ اسمتھ سونیین کی مریخ کی کتاب ؛ کونیکی اینڈ کونیکی:اولڈ سیبروک، سی ٹی، آئی ایس بی این 978-1-58834-074-0
  • کار، مائیکل، ایچ(1996ء)۔ مریخ پر پانی ؛ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس: نیو یارک، آئی ایس بی این 0-19-509938-9۔
  • کار، مائیکل، ایچ (2006ء) مریخ کی سطح ؛ کیمبرج یونیورسٹی پریس: کیمبرج، یو کے، آئی ایس بی این 978-0-521-87201-0۔
  • ہارٹمین، ولیم، کے (2003ء) مریخ کے مسافر کی رہنما: سرخ سیارے کی پرسرار زمین۔ ؛ ورک مین: نیو یارک، آئی ایس بی این 0-7611-2606-6۔
  • ہینلن، مائیکل(2004ء) حقیقی مریخ :اسپرٹ، آپرچونیٹی، مریخی ایکسپریس اور سرخ سیارے کو کھوجنے کی جستجو ؛ کانسٹیبل: لندن، آئی ایس بی این 1-84119-637-1۔
  • کارجیل، جیفری، ایس(2004ء) مریخ: ایک گرم و مرطوب سیارہ۔ ؛ اسپرنگر پرایکسس : لندن، آئی ایس بی این 1-85233-568-8۔
  • مورٹن، اولیور (2003ء) مریخ کی نقشہ سازی: سائنس، تخیل اور جہاں کی پیدائش؛ پیکاڈور: نیو یارک، آئی ایس بی این 0-312-42261-X۔
  • شیہان، ولیم(1996ء) سیارہ مریخ: مشاہدات و دریافتوں کی تاریخ۔ ؛ یونیورسٹی آف ایریزونا پریس: ٹکسن، اے زی، آئی ایس بی این 0-8165-1640-5۔
  • وائکنگ جہاں گرد کی تصویر لینے والی ٹیم(1980ء)۔ وائکنگ جہاں گرد کے مریخی نظارے، سی آر۔ اسپٹزر، ایڈیشن۔؛ ناسا ایس پی-441: واشنگٹن ڈی سی

بیرونی روابط