ہسپانوی فلو

ہسپانوی فلو (انگریزی: Spanish flu) (ہسپانوی: la gripe española) جسے 1918ء کی عالمی فلو وبا [2] اور لنگڑا بخار بھی کہا جاتا ہے ایک غیر معمولی مہلک انفلوئنزا عالمگیر وبائی بیماری تھی۔جنوری 1918ء سے دسمبر 1920ء تک جاری رہنے والی اس عالمگیر وبا سے 500 ملین افراد متاثر ہوئے جو اس وقت دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے ہلاکتوں کی تعداد 17 ملین سے 50 ملین تک ہے اور ممکنہ طور پر 100 ملین تک بھی، جو اسے سیاہ موت کے بعد انسانی تاریخ کی سب سے مہلک وبائی بیماری بناتی ہے۔

ہسپانوی فلو
لنگڑا بخار
Soldiers from Fort Riley, Kansas, ill with Spanish flu at a hospital ward at Camp Funston
ہسپانوی فلو سے متاثرہ فورٹ رائلی، کنساس کے فوجی کیمپ فنسٹن کے ایک اسپتال وارڈ میں
مرضنزلہ
مقامعالمی
تاریخجنوری 1918 – دسمبر 1920
مصدقہ مریض500 ملین (اندازہً)[1]
اموات
17–50 ملین (اندازہً)

حوصلہ برقرار رکھنے کے لیے پہلی جنگ عظیم کے بعد خبروں پر سنسر نے جرمنی، مملکت متحدہ، فرانس اور ریاستہائے متحدہ میں بیماری اور اموات کی ابتدائی اطلاعات کو بہت کم ظاہر کیا گیا۔جنگ میں غیر جانب دار ہسپانیہ میں اس وبا کے اثرات کی اطلاع دینے کے لیے اخبارات آزاد تھے، جیسے شاہ الفونسو سیز دہم کی سنگین بیماری اور ان جیسی اطلاعات نے ہسپانیہ کے بارے میں یہ غلط تاثر پیدا کیا کہ خاص طور پر ہسپانیہ اس سے سخت متاثر ہے۔ اس نے وبا کے نام ہسپانوی فلو کو جنم دیا۔ تاریخی اور وبائی مرض کے اعداد و شمار وبائی مرض کی جغرافیائی اصلیت کے بارے میں یقینی طور پر شناخت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

زیادہ تر انفلوئنزا وبا سے کم عمر اور بہت بوڑھے ہلاک ہوتے ہیں اور درمیانی عمر کے لوگوں میں بقا کی شرح زیادہ ہوتی ہے، لیکن ہسپانوی فلو کی عالمگیر وبائی بیماری کے نتیجے میں کم عمر افراد میں متوقع اموات کی شرح بہت زیادہ تھی۔ [3]

سائنسدانوں نے 1918ء انفلوئنزا کی وبا کی اعلیٰ کی شرح اموات کے لیے کئی ممکنہ وضاحت پیش کیں ہیں۔ کچھ تجزیوں کے مبابق یہ وائرس خاص طور پر اس لیے مہلک ثابت ہوا کیونکہ یہ سائٹوکائن طوفان (Cytokine storm) کا باعث بنتا ہے، جو نوجوان بالغوں کے مدافعتی نظام کو تباہ کرتا ہے۔ [4] اس کے برعکس 2007ء میں اس دور کے طبی جرائد کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ وبائی مرض دیگر وبائی امراض سے زیادہ جارحانہ نہیں تھا۔ ۔[5][6]اس کی بجائے ناقص غذائیت، میڈیکل کیمپوں اور اسپتالوں میں بھیڑ اور ناقص حفظان صحت نے اسے زیادہ مہلک بنایا۔ [7][8]

مزید دیکھیے

حوالہ جات