نصف حیات

کسی چیز کی تعداد کو نصف ہونے میں جتنا وقت لگتا ہے اس عرصہ کو اُس چیز کی نصف حیات یا ہاف لائف کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے ہاف لائف (Half-Life) کہتے ہیں اور t1⁄2 سے ظاہر کرتے ہیں۔ یہ لفظ عام طور پر تابکار (radioactive) اشیاء اور ناپائیدار ایٹمی ذرات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی تابکار شے کی ہاف لائف ایک سال ہے اور ابتدا میں اس چیز کے ایک ہزار ایٹم موجود ہیں تو ایک سال بعد ان کی تعداد ہزار سے کم ہو کر 500 رہ جائے گی۔ بقیہ 500 ایٹم تابکاری کے نتیجے میں ٹوٹ کر کسی اور عنصر (element) میں تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ مزید ایک سال بعد 500 ایٹم میں سے 250 باقی رہ جائینگے اور 250 تابکاری کا شکار ہو جائینگے۔ اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ تعداد میں اس طرح تسلسل سے واقع ہونے والی کمی ریاضیات میں exponential decay کہلاتی ہے۔

کتنی ہاف لائف گذر چکی ہیںکتنا حصہ بچ گیاکتنے فیصد بچ گیا
0پورا100
1آدھا50
2چوتھائی25
3آٹھواں12.5
41/166.25
51/323.125
61/641.563
71/1280.781
.........
n1/2n100/(2n)

اگر تابکار ایٹموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہو تو ہاف لائف کا تصور بالکل صحیح ہوتا ہے کہ ہر ہاف لائف کا عرصہ گزرنے کے بعد ان ایٹموں کی تعداد نصف ہوتی چلی جائے گی۔ مگر اگر ایسے ایٹموں کی تعداد بہت کم ہو تو اندازے بالکل صحیح نہیں رہتے۔ اور اگر صرف ایک تابکار ایٹم موجود ہو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب تابکاری کا شکار ہو گا کیونکہ وہ اپنی ہاف لائف سے بہت پہلے بھی ٹوٹ سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کئی ہاف لائف کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ نہ ٹوٹے۔ یہ بات شماریات کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔

مثالیں

کچھ تابکار عناصر کی ہاف لائف بہت لمبی ہوتی ہے یعنی کروڑوں سال ہوتی ہے جبکہ کچھ ایسے بھی عناصر ہیں جن کی ہاف لائف محض چند دن یا اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ جب اربوں سال پہلے یہ دنیا وجود میں آئی تھی تو اس وقت بے شمار تابکار عناصر یہاں بڑی مقدار میں موجود تھے۔ مگر مختصر ہاف لائف رکھنے والے عناصر اپنی نا پائیداری کی وجہ سے جلد ہی معدوم ہوتے چلے گئے جبکہ لمبی ہاف لائف والے عنصر آج بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جیسے یورینیئم۔

آئسوٹوپہاف لائف
پولونیئم-2141.6x10−4 سیکنڈ
سیسہ-21426.8 منٹ
ریڈون-2223.82 دن
اسٹرونشیئم-9028.1 سال
ریڈیئم-2261602 سال
کاربن-145730 سال
یورینیئم-2384.5 ارب سال

َ[1]

طب اور ہاف لائف

طب کی دنیا میں بھی ہاف لائف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اس سے مراد وہ عرصہ ہے جس کے بعد انسانی جسم میں موجود کسی دوا کی آدھی مقدار جسم سے خارج ہو چکی ہوتی ہے۔


مزید دیکھیے

حوالہ جات