پلوامہ حملہ، 2019ء

دہشت گرد حملہ

پلوامہ حملہ 14 فروری 2019ء کو بھارتی سیکورٹی افواج کے ایک قافلہ پر کیا گیا دہشت گردانہ حملہ تھا۔ جموں سری نگر قومی شاہراہ پر محو سفر سیکیورٹی افواج کا ایک کاروان جب بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ کے قصبے اونتی پورہ کے نزدیک واقع گاؤں لیتھپورہ سے گذر رہا تھا تو ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی قافلہ کی ایک بس سے ٹکرا دی۔ اس حملے کے نتیجے میں حملہ آور دہشت گرد اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے چھیالیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیش محمد نامی علاحدگی پسند تنظیم نے قبول کی ہے۔ ایک مقامی شخص عادل احمد ڈار کی حملہ آور کے طور پر شناخت ہوئی۔[1][2][3]

پلوامہ حملہ، 2019ء
بسلسلہ جموں و کشمیر میں کشمکش
بعد ازاں حملہ
پلوامہ حملہ، 2019ء is located in جموں و کشمیر
پلوامہ حملہ، 2019ء
پلوامہ حملہ، 2019ء (جموں و کشمیر)
مقاملیتھ پورہ، اونتی پورہ، پلوامہ، جموں و کشمیر، بھارت
متناسقات33°57′53″N 74°57′52″E / 33.96472°N 74.96444°E / 33.96472; 74.96444 (جائے وقوعہ)
تاریخ14 فروری 2019ء (2019ء-02-14)
15:15 بھارتی معیاری وقت (متناسق عالمی وقت+05:30)
نشانہسینٹرل ریزرو پولیس فورس کے سیکورٹی اہلکار
حملے کی قسمخودکش حملہ، کار دھماکا
ہلاکتیں40 سی آر پی ایف اہلکار، ایک حملہ آور
میجر سمیت 4 فوجی اہلکار (بمورخہ 18 فروری 2019ء)
زخمی35
مرتکبینجیش محمد
حملہ آورعادل احمد ڈار

18 فروری 2019ء کو پلوامہ کے پنگلینا گاؤں میں پیر کی صبح ایک مکان کے اندر چھپے عسکریت پسندوں کے جھڑپ ساتھ ہوئی، جھڑپ میں ایک میجر سمیت چار فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے۔[4]

پس منظر

کشمیر میں سنہ 2015ء میں شروع ہونے والی علاحدگی پسند جنگجو تنظیم نے بھارتی سیکورٹی افواج پر خود کش حملے کر کے اپنی دھاک بٹھائی۔ جولائی 2015ء میں گرداسپور میں پولیس اسٹیشن اور بس پر تین مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔ سنہ 2016ء کے اوائل میں پٹھان کوٹ فضائیہ فوجی اڈے پر چار سے چھ مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔[5] فروری و جون 2016ء میں پمپور میں جنگجوؤں نے نو اور آٹھ سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ ستمبر 2016ء میں چار حملہ آوروں نے اوڑی میں واقع بھارتی فوجی بریگیڈ کے صدر دفتر پر حملہ کر کے انیس سپاہی مار دیے۔ 31 دسمبر 2017ء کو لیتھ پورہ میں واقع کمانڈو تربیتی مرکز پر بھی حملہ کیا گیا اس میں پانچ سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کے جائے وقوع جموں سری نگر کی قومی شاہراہ کے نواحی علاقے تھے۔[2]

حملہ

فوجی قتل[1][6][7][8]
ریاستتعداد
اتر پردیش12
راجستھان5
پنجاب4
اوڈیشا2
اترکھنڈ2
بہار2
مہاراشٹر2
تمل ناڈو2
مغربی بنگال2
آسام1
کرناٹک1
جموں و کشمیر1
ہماچل پردیش1
کیرل1
جھارکھنڈ1
مدھیہ پردیش1
کل40

14 فروری 2019ء کو 78 گاڑیوں پر سوار 2،500 سینٹرل ریزرو پولیس فورس اہلکاروں کا قافلہ جموں سے سری نگر جانے کے لیے قومی شاہراہ 44 پر گذر رہا تھا۔ قافلہ بھارتی وقت کے مطابق لگ بھگ 3:30 پر جموں سے روانہ ہو چکا تھا اور اس میں کئی اہلکار شامل تھے۔ قافلے کو مقررہ وقت کے مطابق منزل پر سورج غروب سے پہلے پہنچنا تھا۔[2]

اونتی پورہ کے نزدیک لیتھ پورہ میں بھارتی وقت کے مطابق تقریباً 15:15[9] جس بس میں سیکورٹی اہلکار موجود تھے اس سے ایک مہیندر اسکورپیو ایس یو وی ٹکرائی، اس کار میں دھماکا خیز مواد تھا۔ اس کی جہ سے دھماکا ہو گیا اور کم از کم 40 اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو سری نگر میں آرمی بیس ہسپتال منتقل کیا گیا۔[1]

علیحدگی پسند گروہ جیش محمد نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ انھوں نے حملہ آور عادل احمد ڈار المعروف عادل احمد گاڑی ٹکرانے والا المعروف وقاص کمانڈو کی ایک ویڈیو جاری کی، یہ ایک 22 سالہ شخص تھا جو کاکاپورہ کا رہنے والا تھا اور یہ ایک سال پہلے گروہ میں شامل ہوا تھا۔[2][10] پاکستان نے اس حملے میں کسی بھی قسم کی وابستگی سے انکار کیا اور بھارت کا دعویٰ ہے کہ جیش محمد کا قائد مسعود اظہر پاکستان میں ہی ہے۔[11]

1989ء سے لے کر اب تک ہونے والے حملوں میں اِسے سب سے زیادہ بڑا حملہ قرار دیا گیا۔[9]

تفتیش

نیشنل انویسٹی گیشن ایجینسی نے جموں کشمیر پولیس کے ساتھ 12 رکنی ایک ٹیم حملہ کی جانچ کے لیے بنائی ہے۔[1][2]ابتدائی مرحلہ کی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ ایک کار 300 کلو دھماکا خیز مواد لے جارہی تھی[2] جس میں 80 کلو آر ڈی ایکس (دھماکا خیز مواد) موجود تھا۔[12]

رد عمل

بھارت

  •  بھارت : وزیر اعظم بھارت نریندر مودی نے ٹویٹ کیا ”پلوامہ میں سی آر پی ایف پر حملہ ناجائز ہے، میں اس بد قسمت حملہ کی پرزور مخالفت کرتا ہوں۔ ہمارے محافظین کی یہ شہادت رائیگاں نہیں جائے گی۔ پورا ملک شہیدوں کے خاندان کے ساتھ کندھا سے کندھا ملائے کھڑا ہے۔ زخمی کی جلد سے جلد شفایاب ہونے کی دعا کرتا ہوں۔“[2]

بین الاقوامی

  •  نیپال: وزیر اعظم نیپال کھڑگا پرساد اولی نریندر مودی کو فون کر کے سیکیورٹی اہلکار کی شہادت پر غم کا اظہار کیا۔[13]
  •  پاکستان: خارجی امور کے دفتر نے پریس رلیز جاری کیا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اس حملہ کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔[14]
  •  روس: بھارت میں موجود روس سفارت خانہ نے ایک بیان جاری کیا ”ہم کسی بھی کی دہشت گردانہ حملہ کی مذمت کرتے ہیں اور ان غیر انسانی حملوں کے خلاف غیر جانب داری سے مجموعی جواب کی پرزور وکالت کرتے ہیں۔ ہم شہیدوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہین اور زخمیوں کی جلد شفایابی کی دعا کرتے ہیں۔[15]
  •  سری لنکا: صدر سری لنکا مائتری پالا سری سینا یہ کہتے ہوئے حملہ کی مذمت کی ہے، ”ہم اس افسوس ناک حملہ سے بہت صدمہ میں ہیں جس میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے 40 جوان شہید ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کو اس دہشت گردانہ حملہ کی مذمت کرنی چاہیے اور اس کے خلاف سخت فیصلہ لینا چاہیے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں۔“[16]
  •  متحدہ عرب امارات: وزارت خارجہ برائے متحدہ عرب امارات نے حملہ کے تئیں اپنے دکھ کا اظہار کیا اور بین اللقوامی تنظیموں سے دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے اور عالمی تحفظ اور استقامت کی وکالت کی ہے۔[17]
  •  ریاستہائے متحدہ: بھارت میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے سفیر کینیتھ جسٹر نے ٹویٹ کیا: “ بھارت میں موجود امریکی مشن جموں و کشمیر میں ہوئے اس حملہ کا مذمت کرتا ہے۔ حملہ میں شہید ہوئے جوانوں کے اہل خانہ کے تئیں ہم دل کی گہرائیوں سے اپنے دکھ کا اظہارکرتے ہیں۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور بھارت میں اس کو ہرانے کے لیے امریکا بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔[18][19]

فرانس، بنگلہ دیش، بھوٹان اور مالدیپ بھی دہشت گرد حملے کی مذمت کر چکے ہیں۔[15]

بین الاقوامی تنظیمیں

حوالہ جات