کرد

کرد کی اصطلاح کردستان کے باشندوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر ایران، ترکی، عراق اور شام میں رہتے ہیں۔

کرد
کل آبادی
30 ملین[1]
(کتاب حقائق عالم, 2015 تخمینہ)
36.4–45.6 ملین[2]
(Kurdish Institute of Paris, 2017 تخمینہ)
گنجان آبادی والے علاقے
 ترکیہتخمینہ from 14.3 to 20 ملین
[1][2]
 ایرانestimates from 8.2 ملین to 12 ملین
[1][2]
 عراقestimates from 5.6 to 8.5 million
[1][2]
 سوریہestimates from 2 to 3.6 million,
[1][2]
ڈاسپورٹا (عظیم کردستان سے باہر)2 million
 جرمنی800,000[3]
 فرانس150,000[4]
 سویڈن83,600[5]
 نیدرلینڈز70,000[6]
 بلجئیم50,000[7]
 روس63,800[8]
 مملکت متحدہ50,000[9]
 قازقستان42,300[10]
 آرمینیا37,500[11]
 سویٹزرلینڈ35,000[12]
 ڈنمارک30,000[13]
 اردن30,000[14]
 آسٹریا23,000[15]
 یونان22,000[16]
 ریاستہائے متحدہ15,400[17]
 جارجیا13,861[18]
 کرغیزستان13,200[19]
 کینیڈا11,685[20]
 فن لینڈ10,700[21]
 آسٹریلیا7,000[22]
 آذربائیجان6,100[23]
صوبوں کی بنیاد پر ایران میں کرد آبادی کی تقسیم

کرد تین سو سال قبل مسیح سے ایران سے شام تک پھیلے ہوئے اس علاقہ میں آباد ہے جسے کرد کردستان کہتے ہیں۔ ساتویں صدی میں کرد مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور انہی میں سے صلاح الدین ایوبی ابھرے تھے جنھوں نے صلیبی جنگوں میں اپنی فتوحات سے بڑا نام پیدا کیا۔

پہلی عالم گیر جنگ سے پہلے کرد اس علاقہ میں سلطنت عثمانیہ کے تحت خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مشرق وسطی میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خود مختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا حالانکہ انیس سو بیس کے سیورے کے معاہدہ میں جس کے تحت عراق شام اور کویت کی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں کردوں کی ایک آزاد مملکت کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ترکی نے اور اس کے ساتھ ایران اور عراق نے کردوں کی آزاد مملکت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ گو شمالی عراق میں کردوں کی آبادی ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن سب سے زیادہ تعداد ان کی ترکی میں ہے جہاں یہ ایک کروڑ اسی لاکھ کے قریب بتائے جاتے ہیں۔ شام میں ان کی تعداد اٹھائیس لاکھ ہے اور ایران میں اڑتالیس لاکھ کے قریب ہیں۔ ایران میں کردوں کی اکثریت آذربائی جان اور ہمدان کے علاقہ میں آباد ہے جسے ایرانی کردستان کہا جاتا ہے، کرد اسے مشرقی کردستان کہتے ہیں۔

ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ سترہویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانہ پر زبردستی خراسان میں منتقل کر دیا۔ پھر انیس سو چھیالیس میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے مہا آباد جمہوریہ کے نام سے ایک الگ مملکت قائم کی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ قاضی محمد کو آخر کار کھلے عام پھانسی دی گئی۔

رضا شاہ پہلوی کے دور میں کردوں کی زبان پر پابندی عائد کی گئی۔ اور سن اناسی کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی نے کردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور بڑے پیمانے پر کرد علاقوں میں فوجی کارروائی کی گئی، آخر کار کردوں کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے۔

ادھر شمالی عراق میں کردوں نے سن انیس سو ساٹھ سے انیس سو پچھتر تک مصطفیٰ برزانی کی قیادت میں بغاوت کی جس کے نتیجہ میں انھیں خود مختاری حاصل ہوئی لیکن انیس سو اکانوے میں کردوں کی بغاوت کے بعد صدام حسین کی حکومت نے اس علاقہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور کردوں پر سخت مظالم توڑے۔

عراق میں گو صدام حسین کے زوال کے بعد کردوں کو نئے آئین کے تحت خود مختاری حاصل ہو گئی تھی اور ان کی علاقائی پارلیمنٹ بھی تسلیم کر لی گئی تھی۔ عراق کی جنگ کے بعد امریکیوں نے ان کے تیل سے مالا مال علاقہ کی وجہ سے ان پر دست شفقت رکھا تھا لیکن نہ جانے پھرکیوں ہاتھ کھینچ لیا۔ پچھلے دنوں کردوں نے اپنی آزاد خود مختار مملکت کے قیام کے لیے ریفرینڈم کا بھی انعقاد کیا تھا جسے عراقی حکومت نے مسترد کر دیا اور فوج کشی کر کے کردوں کی آزادی کے سارے خواب چکنا چور کر دئے۔

یہی وجہ ہے کہ کردوں کی تاریخ ایران اور عراق میں بغاوتوں سے عبارت ہے۔ ترکی میں کردوں نے انیس سو پچیس میں شیخ سعید کی قیادت میں بغاوت کی تھی جس کے بعد ترکی کی حکومت نے کردوں کے خلاف نہایت سخت گیر پالیسی اختیار کی اور ان کی زبان اور ثقافت ختم کرکے پہاڑی ترک قرار دیا۔ پہاڑی ترک قرار دے کر انھیں ترک معاشرہ میں ضم کرنے کی مہم شروع کردی۔

1978ء میں ترکی کے کردوں نے جب آزادی اور خود مختاری کی تحریک شروع کی تو بڑے پیمانہ پر ترکی کی حکومت اور کردوں کے درمیان معرکہ آرائی بھڑک اٹھی ۔ اس تحریک میں علحدگی پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی PKK پیش پیش تھی۔ یہ تحریک ترکی کی معیشت کے لیے بے حد تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس دوران ترکی کی معیشت کو 450 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا۔ آخر کار اس تحریک کے قائد عبد اللہ اوجلان نے 2015ء میں تحریک ختم کرنے کا اعلان کیااور یہ معرکہ آرائی ختم ہوئی۔

کردستان کے علاقہ کے باہر پوری دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ کرد پھیلے ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر وہ ہیں جنھوں نے ترکی، عراق اور ایران میں ظلم و ستم سے فرار ہو کر پناہ لی ہے۔ ان کردوں کا کہنا ہے کہ یہ کس قدر حیرت اور تاسف کی بات ہے کہ ان کے کرد قائد صلاح الدیں ایوبی نے تو ایران سے لے کر شمالی افریقہ تک ایک بڑی تعداد میں ملکوں کو آزادی کی نعمت سے سرشار کیا، لیکن ان کی قوم ابھی تک اپنی آزادی کے لیے تڑپ رہی ہے۔

نگار خانہ

مزید دیکھیے

حوالہ جات