صہیونیت

یہودی قومی تحریک

صہیونیت (عبرانی: צִיּוֹנוּת‎؛ عبرانی تلفظ: [t͡sijo̞ˈnut] از) قومی تحریک ہے جو یہودی لوگوں کی دوبارہ یہودی وطن یعنی ملک اسرائیل (جو کنعان، ارض مقدس اور فلسطین پر مشتمل ہے)۔ قیام کی حمایت کرتی ہے[1][2][3][4] جدید صیہونیت انیسویں صدی کے اواخر میں وسطی اور مشرقی یورپ میں ایک یہودی قومی احیاء کی تحریک کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، جس نے سام دشمنی کے رد عمل اور اخراجی قوم پرست تحریکوں کے جواب میں جنم لیا۔[5][6][7] اس کے بعد جلد ہی، اس کے زیادہ تر رہنماؤں نے اس تحریک کا مقصد مطلوبہ ریاست فلسطین اور بعد میں سلطنت عثمانیہ کے زیر حکومت علاقوں میں قائم کرنے سے وابستہ کر لیا۔[8][9][10]

تھیوڈور ہرتذل کو جدید صہیونی تحریک کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ 1896ء کی اپنی کتاب 'دیر یودنستات' (یہودی ریاست) میں انھوں نے بیسویں صدی میں مستقبل کی خود مختار یہودی ریاست کا تصور دیا۔
(مفکرصہیونیت) تھیوڈور ہرتزل کی کتاب یہودی ریاست کی اشاعت سے مہینہ قبل 17جنوری 1896ء کے یہودی اخبار کا صفحہ اول

1948ء تک صیہونیت کے بنیادی مقاصد میں دوبارہ یہود کو ارض مقدسہ میں تاریخی خود مختاری دلوانے، اجتماعِ جلاوطن یہود ، سام دشمنی، امتیازی سلوک اور یہود پرظلم و ستم سے آزادی پر مرکوز تھے جس کا سامنا انھوں نے یہودی جلاوطنی میں کیا تھا۔ 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے بعد صیہونیت بنیادی طور پر منجانب اسرائیل اس کی مسلسل موجودگی، توسیع اور دفاع کے خطرات سے نمٹنے کے لیے وکالت اور حمایت کا نام ہے۔

مذہبی قسم کی ایک صیہونیت یہودی تشخص برقرار رکھنے کی حمایتی ہے اور اسے مذہبی یہودیت سے وابستگی کو متعرف کرتا ہے اور یہودیوں کے دوسرے معاشروں میں انجذاب کی مخالفت کرتا ہے اور یہودیوں کی اسرائیل واپسی کو یہودیوں کی اپنی ایک علاحدہ ریاست میں اکثریتی قوم بننے کے ایک ذریعے کے طور پر وکالت کرتا ہے۔[11] ثقافتی صیہونیت ایک قسم کی صیہونیت ہے جس کی سب سے زیادہ نمایاں نمائندگی احد ہعام نے کی اور اس کی بنیاد رکھی اور اسرائیل میں ایک یہودی ’’روحانی مرکز ‘‘کے سیکولر (غیر مذہب) نقطہ نظر کو فروغ دیا۔ سیاسی صیہونیت کے بانی ہرتضل کے برعکس احد ہعام کی جدوجہد اسرائیل کو ’’یہودی ریاست نہ کہ صرف یہودیوں کی ریاست‘‘ بنانے کے لیے تھی۔[12]

صیہونیت کے حمایتی اور وکیل اسے مختلف قوموں میں رہنے والی مظلوم یہودی اقلیتوں کو واپس اپنے آبائی وطن میں بسانے کی ایک قومی تحریک آزادی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ صیہونیت کے ناقدین اسے استعمار پسندی نسل پرستی اور امتیاز پسندی کے نظریے جس نے اپنے پیرو انتداب فلسطین کے دوران یہودی صیہونی تشدد کی جانب راغب کرتی تحریک کے طور پر جانتے ہیں، جس نے فلسطینی نکبت اور انھیں آج تک مسلسل 1948ءکی جنگ کے دوران چھینے گئے فلسطینی جائداد اور املاک کی واپسی سے محروم رکھا۔[13] [14][15][16]

اصطلاح

صہیون لفظ (عبرانی: چیان، طزی یون) لفظ ’’صیہونیزم‘‘ سے اخذ ہوا ، جو یروشلم سے منسوب ہے۔ 19ء ویں صدی کے آخر میں تمام تر مشرقی یورپ میں، کئی مقامی گروہ یروشلم میں یہودی قومی آبادکاری اورعبرانی زبان کی بحالی اور نشو و نما کی تائید کوفروغ دیتے رہے۔ یہ گروہ اجتماعی طور پر ’’أحباء صہیون‘‘ کہلاتے تھے ،جنھوں نے یہودی لوگوں میں اس تحریک کی سمجھ اجاگر کرنے میں کردار ادا کیا۔ اس اصطلاح کا پہلے پہل استعمال آسٹریا میں قدیمہ قوم پرست یہودی تلامذہ تحریک کے بانی ناتھن برنبام سے منسوب کیا جاتا ہے۔اس نے 1890ء میں اپنے جریدے Selbstemanzipation (خود خلاصی) میں اصطلاح استعمال کیا ،جو لیؤن پنسکر کی 1882ء کتاب ’’خود خلاصی‘‘ کے تقریبا بعینہ تھی ۔[17]

جائزہ

مزید دیکھیں :صہیونیت کی اقسام

تمام  صہیونیوں میں  ارض اسرائیل تک یہودکی بطور قومی آبائی وطن واپسی کو یہودی قومی  خود مختاری کے لیے جائز نقطۂِ مرکوز جانتے ہیں جو ان میں ایک مشترک  نظریہ ہے ۔ یہ تاریخی تعلقات اور مذہبی روایات پر مبنی ہے جو یہود کو ارض اسرائیل سے  مربوط کرتی ہے۔[18] [19]صہیونیت کوئی  خاص یک ریخت و یکصورت نظریہ نہیں، بلکہ یہ بہت  سے نظریات کے مباحثوں سے مرتب ہوا : جیسے عمومی صہیونیت،مذہبی  صہیونیت،  لیبر(عمالی) صہیونیت ،تصحیحی صہیونیت، ماحولیاتی صہیونیت وغیرہ



تقریباً دو ہزار  سال تک  بغیر ریاست اور دوسرے ممالک کے غیر  یہودی علاقوں میں رہنے  کے بعد صہیونی تحریک کا قیام 19ء ویں صدی کے سیکولر اشکنازی یہود نے دیگر  وجوہات کے ساتھ ساتھ یورپ میں بڑھتی ہوئی سام دشمنی کے جواب میں رکھا،   سام دشمنی کی اس وقت کی مثالوں  میں فرانس میں ڈریفس معاملہ اور روسی سلطنت کے پوگروم بھی تھے۔[20] سیاسی صہیونی  تحریک کا باقاعدہ قیام آسٹریائی۔مجرستانیصحافی تھیوڈور ہرتزل نے 1897ء میں اپنی کتاب (Der Judenstaat : یہودی ریاست ) لکھنے کے بعدرکھا۔[21] اس وقت اس تحریک کا مقصد یہود کو سلطنت عثمانیہ کی جانب ہجرت کرنے پر ابھارنا تھا۔


اگر چہ اولا ً  کئی  یہودی تحاریک نے یورپی ثقافتی و دیگر انجذاب اور سام دشمنی کے متبادل پیش کیے تاہم  صہیونیت بہت تیزی سے  پھیلی۔ اولین مراحل میں اس کے حامیوں اور کارکنوں نے تاریخی فلسطینی علاقوں میں  یہودی ریاست کے قیام  کو بھی پیش نظر رکھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد وسطی اور مشرقی یورپ میں جہاں یہ تحاریک پروان چڑھیں یہودی ثقافت اور زندگی کے خاتمے کے بعد، وہاں یہ یہودی ریاست کی سوچ غالب رہی ۔

مملکت متحدہ کے ساتھ  اتحاد بنانے اور فلسطین کی جانب ہجرت کرنے کے لیے اس کی حمایت حاصل کرلینے کے بعد، صہیونیوں نے یورپی یہود کو وہاں جانے کے لیے بھرتی بھی کیے، خاصکر وہ یہود جو روسی سلطنت کے ان علاقوں میں رہے جہاں سام دشمنی عروج پر تھی۔ جیسے جیسے برطانیہ کو یہودی تحریک کے عربوں پر اثرات کا احساس ہوتا گیا یہ اتحاد کشیدہ رہا   تاہم صہیونی پھر بھی غالب رہے۔ یہ تحریک بالاخر  14 مئی 1948ء کو اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور یہودی قوم کے لیے ایک ریاست قائم کی۔ اسرائیل میں یہودی آبادی کا تناسب اس تحریک کے ابھرنے کے بعد سے  مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایکیسویں صدی  کے آغاز سے تمام دنیا کے% 40 یہود  اسرائیل میں رہ رہے ہیں جو کسی بھی ملک کے یہود کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ان دو نتائج  سے صہیونی تحریک کی کامیابی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کی مثال پچھلے دو ہزار سال کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اکادمی تعلیم کے  مطابق  صہیونی تحریک کو جلاوطنی سیاست کے تناظر میں  بطور جدید قومی آزادی کی تحریک دیکھا جاتا ہے۔[22]

صہیونیت  کا ایک مقصد  انجذاب یہود یعنی یورپی و دیگرمعاشروں میں یہود کی قبولیت تھی۔اس جلاوطنی کی وجہ سے بہت سے یہود اپنے اختیار کردہ ممالک میں  پردیسی بنکر رہتے رہے چنانچہ وہ جدیدیت اور نئے تصورات سے منفصل و بے بہرہ رہے۔ نام نہاد انجذاب پسند یہودیوں کی یورپی معاشرے میں مکمل جذب ہو جانے کی تمنی کرتے رہے اور جدیدیت اور انجذاب معاشرہ کے لیے وہ اپنی یہودیت ، یہودی روایات و تمدن میں تخفیف کرنے پر  بھی آمادہ تھے۔ تاہم ثقافتی ترکیب (معتدل قسم کی انجذاب کو ثقافتی ترکیب کہتے ہیں) کے تسلسل اور دھیمی ارتقا کے حامیین کو یہ بھی فکر لاحق رہا کہ یہود اپنی جداگانہ شناخت ہی نہ کھو دیں۔ ثقافتی ترکیب نے روایتی یہودی اقدار و عقائدکو برقرار رکھنے اور جدید معاشرے سے ہم آہنگی  کی ضرورت دونوں ہی پر زور دیا  مثلاّ ہفتے سے  اتوار کے دن کی چھٹی  و دیگرآداب معاشرت۔[23]

1975ء میں اقوام متحدہ مجلس عمومی  نے قرارداد 3379 منظورکی ، جس نے صہیونیت کو بطور ’’نسل پرستی اور نسلی تفریق  کی ایک قسم ‘‘ نشان دہی کی۔ یہ قرارداد  1991ء میں رد کردی گئی اور اسے  قرارداد  46\86 سے بدلا گیا۔  صہیونیت کی بطور نظریہ  مخالفت کو کبھی کبھار نسل پرستی اور  افتراق بین الناس بھی گردانا گیا  جنہیں ہم بودیت (ایک ساتھ رہنے) کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔[24][25]

عقائد

’’میرا ایمان ہے کہ ایک حیرت  انگیز  یہودی نسل وجود میں آئیگی ۔ مکابیین پھر سے عروج حاصل کریں گے۔ میں اپنے الفاظ پھر سے دہراتا ہوں : وہ یہود جو ریاست کی آرزو کرتے ہیں ، انھیں ملے گی۔ آخر کار ہم اپنی زمین پر بسیں گے اور ہم امن سے اپنے گھروں میں فوت ہو سکیں گے۔ ہماری آزادی دنیا کی آزاد ی ہوگی،ہماری  دولت دنیا کی دولت ہوگی،ہماری بڑائی سے ان کی عزت ہوگی۔ اور وہاں ہم اپنی فلاح کے لیے جو بھی کوشش کرنا چاہیں گے ، انسانیت کے لیے سودمند، مقوی اور طاقت بخش ہوگا۔‘‘

تھیوڈور ہرتزل، 1896ءکتاب : یہودی ریاست کے اختتامی الفاظ[26]

مرکزی صفحات: صہیون واپسی، سابرا، علیا، نسلی سام دشمنی، نئی سام دشمنی، مذہبی سام دشمنی اور احیائے عبرانی زبان

مزید دیکھیں:یدیش،لڈینو زبان اور خاندانی ناموں کو عبرانی کرنا

صہیونیت کو اسرائیلی ریاست بنانے کے سیاسی مقصد کو مد نظر رکھتے قائم کیا گیا تھا   جہاں یہود اکثریت میں ہوں نہ کہ اقلیت میں  جیسے وہ مختلف اقوام کے تحت جلاوطنی میں رہتے رہے۔ مفکر صہیونیت  ،تھیوڈور ہرتزل نے سام دشمنی کوان تمام معاشروں  کاایک ابدی پہلو قرار دیا تھا جہاں یہود اقلیت میں رہ رہے تھے اور یہ کہ ’’صرف  ان معاشروں سے علیحدگی ہی اس  ابدی عقوبت سے  خلاصی دے سکتی ہے۔   وہ اگر صرف ہمارے لوگوں کی ضروریات کے لیے کافی زمین کے ٹکڑے پر  خود مختاری دے دیں  ، تو باقی ہم خود کر لیں گے ‘‘  اس نے یہ دعوی ٰکر کے اپنے عزائم چاک کیے۔
صہیونیت کو اسرائیلی ریاست بنانے کے سیاسی مقصد کو مد نظر رکھتے قائم کیا گیا تھا   جہاں یہود اکثریت میں ہوں نہ کہ اقلیت میں  جیسے وہ مختلف اقوام کے تحت جلاوطنی میں رہتے رہے۔ [27] :صفحہ.27 (29)

ہرتزل نے دو ممکن جگہوں  ارجنٹینا اورفلسطین میں یہودی آبادکاری کی تجویز دی۔ اس نے فلسطین پر ارجنٹینا کو اس کے وسیع  علاقوں، معتدل  موسم اور کم آبادی کی وجہ سے فوقیت دی  ۔لیکن تسلیم کیا کہ فلسطین  اپنے پرانے یہودی  تعلق کی وجہ سے زیادہ پر کشش ہوگا۔[28] اس نے یوسف چیمبرلین کی تجویز  یعنی  برطانوی زیر تسلط مشرقی افریقی ممالک (یوگنڈا) میں آبادکاری کو بھی قبول کیا۔[29]:صفحہ.55–56

موجودہ ریاست اسرائیل ، ہدفِ صہیونی تحریک

علیاہ (لفظی معنی:  چڑھنا) ارض اسرائیل کی جانب  ہجرت ایک موضوع  ہے جو یہودی دعاؤں میں تواتر   سے ملتا ہے۔  صہیونیت میں جلاوطنی کی زندگی کی  تردید(مسترد کرنا) ایک مرکزی پہلو ہے۔[30] حامیین  صہیونیت کا ماننا تھا کہ یہودقوم کو مکمل نشو و نما ، قومی اور انفرادی زندگی  سے محروم رکھا جارہا ہے۔[حوالہ درکار]

صہیونی عموماً عبرانی زبان بولنے کو ترجیح دیتے  ہیں، ایک ایسی سامی زبان جو قدیم یہوداہ میں یہودی آزادی کے دوران وجود میں آئی،جسے انھوں نے جدت دی اور روزمرہ استعمال کے لیے قابلِ گفتار بنایا۔ صہیونی  یدیش  بولنے کا انکار بھی کرتے ہیں، جسے وہ ایسی زبان سمجھتے ہیں جو  یورپی عقوبت میں پروان چڑھی۔ وہ جب اسرائیل منتقل ہوئے  بہت سے اسرائیلیوں نے اپنی جلاوطنی کی مادری زبان بولنے سے انکار کر دیا اور نئی عبرانی زبان اور نام اختیار کیے۔عبرانی نہ صرف نظریاتی وجوہ سے اپنائی گئی بلکہ اس زبان کی وجہ سے نئی ریاست کے مختلف زبان بولنے والے شہریوں کو ایک زبان پر مجتمع ہونے کا موقع ملا۔یوں  انھوں نے اپنے سیاسی اور ثقافتی  بندھن کو مضبوط کیا۔[حوالہ درکار]

صہیونی نظریات میں سے اہم جو اسرائیلی قرارداد آزادی میں پیش کی گئیں۔

  • ارض اسرائیل  یہودی قوم کا جائے پیدائش ہے۔ انکا  روحانی ، مذہبی  اور سیاسی تشخص   یہیں تشکیل ہوا۔ یہیں انھیں پہلا  ریاست پن  حاصل ہوا، قومی اور عالمگیری اہمیت کی حامل  ثقافتی اقدار یہیں قائم کیں اور دنیا کو  ازلی کتابوں کی کتاب عنایت کی۔
  • اپنی زمین سے زبردستی  جلاوطن کیے جانے کے بعد، دوران انتشار ان لوگوں نے اپنا ایمان قائم رکھااور ہمیشہ وطن واپسی کی اور سیاسی بحالی کی دعائیں کرتے رہے۔
  • تاریخی اور روایتی  لگاؤ کی وجہ سے مجبور ، یہود نے ہر نسل اور دور میں  اپنے آبائی وطن میں پھر سے  ریاست قائم کرنے کی جدوجہد کی ۔ حالیہ دہائیوں میں یہ اپنے  لوگوں میں جا پہنچے۔[31]

تاریخ

دیکھیں تاریخ صہیونیت : اصلِ صہیونیت اور تاریخ اسرائیل

فلسطینی آبادی بہ نسل و مذہب [32]
سالمسلمانیہودمسیحیدیگرُکل
1922ء486,177 (74.91%)83,790 (12.91%)71,464 (11.01%)7,617 (1.17%)649,048
1931ء493,147 (64.32%)174,606 (22.77%)88,907 (11.60%)10,101 (1.32%766,761
1941ء906,551 (59.68%)474,102 (31.21%)125,413 (8.26%)12,881 (0.85%)1,518,947
1946ء1,076,783 (58.34%)608,225 (32.96%)145,063 (7.86%)15,488 (0.84%)1,845,559

زمانہ عام کی پہلی صدی عیسوی کے بعد سے اکثر یہود ارض اسرائیل (فلسطین)سے باہر ہی رہتے رہے، اگرچہ ایک اقلیتی یہودی آبادی وہاں بستی رہی۔ یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کے مطابق  ارض اسرائیل ہی وہ موعود جگہ تھی جو یہود کو اللہ نے دی۔[33][34] یہود کو اس خطہ ارض سے 586 ق م میں اسیری بابل کے دوران نکالا گیا۔ بابلیوں نے ہیکل سلیمانی کو تباہ کیا جو یہود کا ثقافتی اور مذہبی قبلہ تھا۔ پہلی صدی عیسوی کے بغاوت عظیم  اور دوسری صدی کے بر کوخبا بغاوت کے بعد رومیوں نے یہود کو ریاست /صوبہ یہودیہ سے بیدخل کیا اور اس کا نام بدل کر  سوریہ فلسطینیہ رکھ دیا۔ بار کوخبہ بغاوت کے بعد سام دشمنی اور یہودی عقوبت میں اچانک اضافہ ہوا۔ بعد کی جلاوطنی نے فلسطین سے باہر رہنے والے یہود کی تعداد میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔[حوالہ درکار]

صہیون دراصل یروشلم  کے قریب ایک پہاڑی ہے،اور وسیع طور پہ  ارض اسرائیل کے لیے استعارہ  ہے۔[35]

اخبار کولونیل ٹائمز 1841ء میں پروٹسٹنٹ فرمانرواہوں کی طرف فلسطین میں یہودی ریاست کی بحالی کے لیے چھپی یاداشت

  16ویں صدی کے وسط میں ، یوسف نصی نے   عثمانی سلطنت کی حمایت سے  پرتگالی یہود کو اکھٹا کرنے کی کوشش کی، انھوں نے پہلے قبرص ہجرت کرنا تھی، پھر جمہوریہ وینس کی ملک میں آنا تھا اور آخر کار طبریہ میں  آبادہونا تھا۔ یوسف نصی جو غیر مسلم ہی رہا [36][37][notes 1]نے آخر کار سلطنت میں اعلی ترین طبی عہدہ حاصل کیااور شاہی درباری معملات میں بھی متحرک رہا۔ اسنے سلیمان اول کو  پوپ کے زیر حراست عثمانی  رعایا یعنی پرتگالی یہود کوبری کرنے کے لیے مداخلت کے لیے قائل کیا۔[38] چوتھی اور 19ویں صدی کے درمیان، فلسطین میں کسی قسم کا یہودی سیاسی مرکز بنانے کی عملی کوشش صرف یوسف نصی ہی کی جانب سے ہوئی۔[39]

17 ویں صدی میں سباتائی زیوی (1676ء-1626ء) نے مسیح ہونے کا اعلان کیااور اپنے گرد بہت سے یہود کو جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا، سلونیکا اس کا گھڑ تھا۔ اس نے غزہ میں آبادکاری کی کوشش کی  لیکن بعد میں  سمیرنا ، یونان گیا۔ وہاں کے پرانے ربی ہارون لپاپہ کو اختیارات سے محروم کرنے کے بعد 1666ء  کی بہار میں، آوینیو ،فرانس کی یہودی برادری نے نئی مملکت میں  ہجرت کرنا شروع کی۔اس وقت کے یہود  سباتائی کے مسیحانہ دعوؤں کوقبول کرنے کی  بڑی وجہ17ء ویں صدی کی یہودیت کی مایوسی اور ابتر حالت تھی۔ بوگدان خملنیسکی کے خونریز پوگروم میں ایک تہائی یہودی آ بادی  کا صفایا کردیاگیا اور بہت سے یہودی تعلیمی اور مشترکہ زندگی کے مراکز تباہ کیے گئے۔[40]

انیسویں صدی میں ،یہودیت کے  صہیون واپسی کی تحریک کی شہرت نے زور پکڑا،[41] خاصکر یورپ میں ،جہاں سام دشمنی بڑھ رہی  تھی۔اس دور میں فلسطین واپسی کا نظریہ ربیوں کی شوریٰ نے رد کیا۔ اس دوران انفرادی کوششیں یہودی گروہوں کی فلسطین ہجرت کی حمایت کرتی رہیں۔پہلی صہیونی مجلس سے بھی قبل یعنی قبل از صہیونیت علیا ہوتی رہی، تاہم 1897ء کے سال کو عملی صہیونیت کے آغاز کا سال گردانا جاتا ہے۔[42]

اصلاحی  یہود نے صہیون واپسی کے نظریہ کی مخالفت کی۔یہودی ربیوں کی 15سے 18جولائی1845ء کو فرینکفرٹ مین میں منعقد مجلس نے ایسی تمام دعائیں اپنی کتابوں سے حذف کر دیں جو صہیون واسپی اور یہودی ریاست کی بحالی سے متعلق تھیں۔ 1869ء میں فلاڈلفیہ مجلس نے جرمن یہود کی دیکھا دیکھی فرمان جاری کیا کہ اسرائیل کی مسیحانہ امید ’’خدا کے بچوں  کا اکھٹے ہونا ، (منتشر)خدا کے یکجا ہونے کا اقرار ہے ‘‘۔ پٹسبورگ مجلس 1885ء میں اصلاحی یہودیت کے اس مسیحانہ  نظرئے کی پھر سے یاددہانی کرائی گئی،جس کا اظہار قرارداد میں ہوا کہ ’’ہم خودکو اب قوم نہیں بلکہ مذہبی طبقہ سمجھتے ہیں  اور اسی لیے ہم فلسطین واپسی کی امید نہیں رکھتے، نہ ہی اولادِ ہارون کے ماتحت قربانی کی عبادت کی  اور نہ ہی یہودی ریاست سے متعلق  کسی قانون کی بحالی کی امید رکھتے ہیں ‘‘۔[43]

باسل سوئٹزرلینڈ: 1897ء میں منعقدہ پہلی صہیونی مجلس میں شریک مندوبین

و۔د۔ رابنسن نے 1819ءمیں بالائی مسیسپی کے علاقے میں یہودی آبادیاں قائم کی۔ دیگرنومذہب یہودی امریکی ایلچی وارڈر کریسن کی جانب سے    1850ءمیں یروشلم کے قریب قائم کی گئیں۔ کریسن پر اس کی بیوی اور لڑکے کی جانب  سے ایک مقدمہ میں پاگل پن کا دعوی ٰکیا گیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک پاگل ہی عیسائیت چھوڑ کر یہودیت اختیار کر سکتا ہے۔ مقدمہ کی دوسری پیشی میں سام دشمنی اور مذہبی آزادی کی بنیاد پر وہ سختی سے لڑا گیا مقدمہ جیت گیا۔[44] اس کے بعد کریسن  نے عثمانی سلطنت ہجرت کی اور یروشلم کی رفائیون وادی میں زرعی کالونی قائم کی۔ اس امید میں کہ ایسی تمام کوششیں جن سے مجبور (یہودی ) بھائیوں کی ضروریات کا فائدہ اٹھا کر انھیں  فرضی تبدیلی مذہب  سے باز رکھا جائے گا۔[45]

پراگ میں یہودی ہجرت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ابراہیم بینش اور موریطض سٹاینشنائڈر کی جانب سے 1835ء میں فقط وعظ و نصیحت  کی حد تک کوششیں کی گئیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکا  میں  مورڈیکائے نوح نے گرینڈ جزیرہ بفلو، نیو یارک کے سامنے  یہودی پناگاہ  قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہودی قوم  کی آبادکاری کی ابراہیم ، کریسن اور موریطض یہ ابتدائی کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں۔[46][صفحہ درکار][47]

1880ء: موسیٰ مونٹے فیورے

دنیا بھرمیں یہودی  مفادکے لیے مداخلت  اور ایڈگارڈو مورٹارہ کی رہائی کی کوششوں کے لیے مشہور سرموسی مونٹے فیورے نے  فلسطین میں  یہود کے لیے کالونی قائم کی۔  1854 ء میں اس کے دوست یوداہ طورو نے فلسطین میں یہودی آبادکاری کے لیے  اپنا ترکہ وقف کیا۔ مونٹے فیورے کو اس کے ترکے کا مختار نامزد کیا گیا تھا تاکہ وہ بشمول یروشلم مختلف قسم کے منصوبوں میں 1860ءکی پہلی  یہودی سکونت کی آبادکاری کی تعمیرکرے، جسے اب مشکنوط شعاننیم کہتے ہیں ۔ لارنس اولیفنٹ  (1879ء-1882ء) اسی طرح کی کوشش میں پولستان ، لتھووینیا ، رومانیہ اور ترکی کے یہود کو فلسطین بلانے میں ناکام ہوا تھا۔

نئے یئشو کی فلسطین میں باقاعدہ تعمیرکا آغاز بیلو گروہ کی 1882ءمیں آمد کیساتھ جوڑا جاتا ہے ، جس نے پہلا علیا اختیار کیا۔ آمدہ برسوں میں ، فلسطین کی جانب یہودی ہجرت سرگرمی و سنجیدگی سے شروع ہوئی۔ اکثر یہودی مہاجرین روسی سلطنت موجودہ یوکرین اور پولستان سے کثیرالوقع پوگروم اور ریاستی سر پرستی میں عقوبت سے فرار ہوکر  آئے ۔ انھوں نے یہودی اور مغربی یورپی مخیر وں کی مدد سے متعدد زرعی آبادکاریاں کیں۔ روسی انقلاب کے بعد پھوٹے متشدد  پوگروم اور 1930ء  کی دہائی کے نازی مظالم نے  علیا کو مزید ہوا دی۔ 19ویں صدی کے آخر تک یہود فلسطین میں ایک انتہائی چھوٹی سی اقلیت تھے۔[حوالہ درکار]

1885ء میں ریشوں لی صہیون کا کنیسہ قائم کیا گیا

1890ء کی دہائی میں،  تھیوڈور ہرتزل کے نئے نظریے اور عملی ناگزیریت  نے صہیونیت میں نئی روح پھونکی، جس کے نتیجے میں پہلی صہیونی مجلس  1897ء میں بازل کے مقام پر منعقد ہوئی[48]، جس نے عالمی صہیونی تنظیم بنائی۔  ہرتزل کا مقصد ایسے اقدامات کا آغاز تھا  جو یہودی ریاست کے قیام کے لیے ضروری ہوں۔ ہرتزل نے فلسطین کے عثمانی حکمرانوں کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنے کی ناکام کوششں بھی کی اور دوسری حکومتوں کی بھی حمایت حاصل کرتا رہا۔ عالمی صہیونی تنظیم چھوٹے پیمانے پر یہودی آبادکاری کرتے رہے، ان کی زیادہ تر کوششیں عالمی یہودی وفاق  ترتیب دینے کے لیے یہودی احساسات و شعورکو اجاگر کرنے کے لیے صرف ہوتی رہیں۔[حوالہ درکار]

ریاستی نسل کشی اور پوگروم (نسلی تخلیص )کی لمبی تاریخ کی حاملسلطنت روس ،عام طور پر یہود کی دشمن سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ صہیونی تحریک کا صدر  مقام  برلن بنایا گیا، کیونکہ اس تحریک کے اکثر رہنما جرمن زبان بولنے والے جرمن تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد روسی سام دشمنی کیوجہ سے زیادہ تر  یہود (اور صہیونی) جرمنی اور روس کی جنگ (دوسری جنگ عظیم) کے آغاز تک جرمنی کے حمایتی تھے۔[حوالہ درکار]

زیرغورعلاقے

مرکزی مضامین دیکھیں : یہودی علاقائیت اور یہودی ریاست کے لیے تجاویز

صہیونی تحریک کی پہلی دہائی کے دوران کئی صہیونی شخصیات نے فلسطین  سے باہر کی جگہوں (جیسے یوگنڈا اور ارجنٹائن)میں  یہودی ریاست کی حمایت کی ۔[49] حتی کہ تھیوڈور  ہرتزل، سیاسی صہیونیت کا بانی اولاً کہیں بھی خودعنان و بااختیار یہودی ریاست  کے لیے رضامند تھا ،[50] تاہم  دیگر صہیونیوں نے  ارض اسرائیل کے ساتھ جڑی وابستگی،  جذبات اور  حکایتوں پر زور دیا۔[51] تحریک کا نام صہیون استعمال کرنے کے باوجود (جو دراصل  لفظ یروشلم کا ہم معنی ،بائبل میں مذکورہ او یروشلم میں واقع قلعہ داؤد یا قلعہ یبوس کے نام پر رکھا گیا ہے )، فلسطین  پر ہرتزل کی توجہ صہیونی منشور جودنستات(Judenstaat) کی 1986 ء میں اشاعت کے بعد مرکوز ہوئی، لیکن اس کے بعد بھی وہ  متذبذب تھا۔[52]

1903ء میں ، برطانونی  نوآبادیاتی سیکریٹری یوسف چیمبرلین نے  ھرتزل کو یہودی آبادکاری کے لیے زیر حمایت مستعمر یوگنڈا کا 5000 مربع میل علاقہ دینے کی پیشکش کی[53] جو یوگنڈا سکیم کہلائی۔ عالمی صہیونی تنظیم کی چھٹی نشست میں اسی سال  اس پیشکش کو متعرف کرایا گیا جس پر ایک غضب ناک بحث واقع ہوئی۔ کچھ گروہوں کا خیال تھا کہ اس پیشکش کی منظوری فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کو  مزید دشوار کردیگا۔ ارض افریقہ کو ارض مقدسہ کے لیے بطور پیش کمرہ بیان کیا گیا۔ یہ رائے شماری کے ذریعے یہ فیصلہ کیا گیا کہ  تفتیش کے لیے زیر غورافریقی میدان مرتفعی علاقے میں ایک وفد بھیجا جائے۔ آمدہ سال  مجلس نے ایک وفد تفتیش کے لیے  بھیجا ،  وفد کے مطابق معتدل  آب و ہوا یورپی آبادکاروں کے لیے تومناسب تھی تاہم  مقامی ماسائی آبادی کے لیے اتنے زیادہ یورپی لوگوں کا ان کے علاقے میں امڈ آنا  قابل قبول نہ تھا۔ مزید برآں  وفد کو وہ خطہ ببر شیروں اور دیگر جنگلی جانور کی بہتات کی وجہ سے نامناسب معلوم ہوا۔

1904ء میں ہرتزل کی موت کے بعد  جولائی 1905ء میں ساتویں نشست کے  چوتھے دن مجلس نے فیصلہ کیا کہ برطانوی پیشکش کو مسترد کیا جائے اور آدم رونورکے مطابق’’ آئندہ کی تمام تر جدوجہدکا رخ  فقط خطہ فلسطین پر مرکوز رکھاجائے گا‘‘۔[54] یہودی اقلیمی تنظیم کا حامی  اسرائیل زنگویل  کی آرزو تھی کہ  یوگنڈا تجویز کے جواب میں ریاست کہیں بھی  بنالی جائے جسے بہت سے مندوبین مجلس کی حمایت حاصل ہوئی۔   رائے شماری کے بعد ، جسے میکس نورڈاؤ نے پیش کیا ، زنگویل  نے نورڈاؤ پر الزام لگایا کہ ’’ تاریخ  کی عدالت میں نورڈاؤ اس کا ذمہ دار ٹھرایا جائے گا‘‘ جبکہ اس کے حامیوں نے  میناکھیم یوسیشکن کے  روس نواز اتحاد کورائے شماری کے نتیجہ کا ذمہ دار ٹھرایا۔[55]

یہودی جاگیردارانہ تنظیم کا مجلس سے رخصتی کا بہت کم اثر  پڑا۔ [56][57][58]صہیونی اشتراکی عمالی جماعت نے بھی خارج از فلسطین خود مختار خطہ یہودکی یہودی جاگیردارانہ تنظیم کے نظریے کی حمایت کی تھی۔[59] صہیونیت کے متبادل کے طور پر، سوویت حکام نے 1934ء میں خود مختار یہودی اوبلاست قائم کی ،  جو  روس میں ابھی تک باقی روسی خود مختار اوبلاسٹ ہے۔[60]

قرارداد بالفور اور تعہد  فلسطین

مرکزی صفحات : اعلانِ بالفور اور  تعہد  فلسطین( قانونی دستاویز)

1919ء : عالمی صہیونی تنظیم کی جانب سے پیرس امن اجتماع میں دعوی ٰکیا گیا فلسطینی خطہ

روسی یہودی مہاجر کھائیم ویزمان کی ترغیب کاری اور برطانوی حکومت کے خوف نے (کہ امریکی یہود امریکی حکومت  کی کمیونسٹ روس کیخلاف جرمنی کی حمایت  کرنے کی حوصلہ افزائی  نہ کر دیں) ملکر جنگ عظیم اول کے اختتام پربرطانوی حکومت سے1917ءبالفور قرارداد منظورکروایا۔

1919ء پیرس امن اجتماع میں بین الحلفاء وفد مقامی آبادی کے تاثرات کے تعین کے لیے فلسطین بھیجا گیا ، وفد نے مدعیوں کے صہیونیت کی حمایت اور مخالفت دونوں کے دلائل پر مبنی درج بالا روداد تخلیص کی-

اس قرارداد نے فلسطین میں یہودی  وطن کی توثیق کچھ یوں کی:

بادشاہ کی حکومت  فلسطین میں یہود کے لیے قومی وطن کے قیام کو التفات سے دیکھتی ہے اور اپنی بہترین کاوش کے استعمال سے اس مقصد  کے حصول کے لیے تسہیل مہیا  کریں گے-یہ وضاحت سے سمجھا جائے کہ کچھ ایسا نہ کیا جائے گا  جس سے غیر یہودی فلسطینی طبقات کے شہری اورمذہبی حقوق صلب  ہوں اور نہ ہی دیگر ممالک کے یہود کے سیاسی حیثیت اور حقوق  جو انکو حاصل ہوں

-[61]

1922ء میں ،  جمیعت اقوام  نے قرارداد منظور کرکے برطانیہ کو تعہد فلسطین  عطا کیا۔

اس  تعہد کا مقصد یہودی قومی وطن کے قیام کا تحفظ ،خود مختار ادارے کھڑے کرنا اور فلسطینی شہریوں کے بلا لحاظ مذہبی اور شہری حقوق کا تحفظ تھا -[62]

ویزمین کو بالفور قرارداد میں اس کے کردار کی وجہ سے صہیونی تحریک کا رہنما چنا گیا جو وہ 1948ء تک رہا اور  بعد ازاں آزادی ملنے کے بعد اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم  بنا۔

خواتین کی بین الاقوامی یہودی خواہری (برادری) کی متعدد اعلی درجے کی ترجمانوں نے خواتین کی پہلی یہودی مجلس میں شرکت کی، جو ویانا  آسٹریا میں مئی 1923ء کو منعقد ہوئی۔ قراردوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ’’ لہٰذا معلوم ہوتا  ہے کہ تمام یہود کی ذمہ داری ہے کہ   فلسطینی سماجی اقتصادی  تعمیر نو میں  اعانت اور اس ملک میں یہودی آبادکاری میں مدد دیں‘‘ ۔[63]

فلسطین کی جانب یہودی ہجرت اورزمینداروں سے یہود کی فلسطینی اراضی  کی عام خریداری  عربوں میں  بے اراضیت   کا سبب بنی، جس نے شورش کو ہوا دی ۔  1920,21ء اور 1929ء  میں دنگے پھوٹ پڑے  جس میں یہود و عرب دونوں ہی مارے گئے۔ [64]  تعہد فلسطین پر حکمرانی اور ذمہ داری برطانیہ کی تھی اور قرارداد بالفور  کے بعد ، اصولاًً برطانیہ یہودی نقل مکانی  کی  تائید کررہی تھی ۔ لیکن ان  متشدد دنگوں  کے واقعات میں پِیل وفد نے فلسطین کے لیے نئے حدود و قیودکی تجاویز دیں۔[حوالہ درکار]

جرمنوں کے سواستکا کے نشان کو اختیار کرنے پر  تھیوڈور نیومن کاؤفمن نے جواباً  ایک نسلی جنگ چھیڑی اور داخلی تولیدِ جرمنیت کے  تصور سے رجوع کیا، ’’جرمنی کا خاتمہ ضروری ہے‘‘کا  جرمنی مخالف  مضمون لکھا،  جیسے  دوسری جانب  روزنامہ  ایکسپریس لندن نازی مخالف مقاطعہ کی دعوت دیتا رہا، یونہی  ہٹلر سے قبل بھی جرمن سام دشمنی کے جواب میں بھی  مضامین لکھے جاتے رہے۔  ’’یہود نے مرگ انبوہ شروع کرائی ‘‘ کے سازشی نظریہ کو اسی بات نے جنم دیا، باوجودیکہ  نازی تشہیری وزیر جوزیف گوئبلز  بڑی حد تک یہود کا قلع قمع کیا جانے اورمحبِ وطن یہود کو نظر اندز کرکے جرمن مخالف یہودی مواد کی بطور ثبوت تشہیرکرنے  کا ذمہ دار تھا۔

ہٹلر کا عروج

گورنمنٹ پریس آفس میں ڈیوڈ بن گوریان اعلان آزادی کرتے ہوئے

1933ء میں ، ہٹلر جرمنی کے اقتدار میں آیا  اور 1935ء میں نوریمبرگ قوانین نے جرمن یہود(بعد میں آسٹریائی یہود  اور چیک یہود بھی )کو بے ریاست پناہ گزین بنا ڈالا۔ کئی یورپی محوری قوتوں نے ایسے ہی قوانین نافذ کیے۔ بعد ازاں بڑھتی یہودی نقل مکانی اور عربوں کے لیے کی گئی نازی پرچار کی وجہ سے 1936ء سے 1939ء کے فلسطینی دنگے رونما ہوئے۔ برطانیہ نے تحقیقات  کے لیے پیل کمیشن بنایا،  دو ریاستی حل اور جبری منتقلی آبادی کی تجویز دی۔ برطانیہ نے یہ تجویز رد کی اور  1939ء کی رپورٹ کی تجاویز نافذ کر دیں۔ جس کے مطابق 1944 ء تک  یہودی نقل مکانی کو ختم ہونا تھا اور صرف75000  اضافی سے زائد یہودی مہاجرین کو نقل مکانی  کی اجازت  تھی۔ یہ پالیسی برطانیہ نے تعہد فلسطین کے اختتام تک جاری رکھی۔[حوالہ درکار]

فلسطین میں یہودی برادری کی آبادی میں اضافے اور یورپی یہودی زندگی کی تباہی  نے  عالمی صہیونی تنظیم کو پس پشت ڈال دیا۔  داوید بن گوریون کی قیادت میں فلسطین کے لیے یہودی ایجنسی  زیادہ تر امریکی صہیونیوں اور امریکی فلسطینی کمیٹی کی مدد سے  پالیسی کی ہدایات دیتے تھے۔[حوالہ درکار]

دوسری جنگ عظیم میں ، جب مرگ انبوہ کے بارے معلومات عام ہوتی گئیں ، صہیونی قیادت نے  ایک ملین کا پلان ترتیب دیا، جو دراصل بن گوریان کے بیس لاکھ مہاجرین میں کمی تھی۔ جنگ کے اختتام پر ، فلسطین میں ایک  بہت بڑی لہر تارکین وطن یہود کی آمڈ آئی ، جو اکثر مرگ انبوہ کے مظلومین تھے،اور برطانوی قوانین کی خلاف ورزی کرتے چھوٹی کشتیوں میں پہنچے(علیا بیت)

تھے۔ مرگ انبوہ نے دنیائے یہود کو صہیونی منصوبے کے تحت یکجا کر دیا تھا۔[65]برطانیہ نے ان یہود میں سے کچھ کو قبرص میں قید کیا یا برطانوی زیر تسلط جرمن علاقوں میں بھیج دیا۔جس کی وجہ سے یہودی نقل مکانی کی وجہ سے عرب بغاوت کا سامنہ کرنے کے بعد اب برطانیہ کو کی مخالفت کا سامنا تھا۔ جنوری 1946ء میں برطانوی امریکی مشترکہ کمیٹی بنائی گئی تاکہ بے پایاں یہودی نقل مکانی فلسطین کے سیاسی ، معاشی  اور سماجی   محرکات کی جانچ اورفلسطینی شہریوں کی بہبود   ہو سکے ،عرب اور یہود ترجمانوں سے مشاورت اور دیگر ضروری تجاویز دی جاسکیں ، ان مسائل کا حتمی  حل ڈھونڈا جاسکے ۔ [66] تاہم آخر میں کمیٹی کی سفارشات کو عرب و یہود دونوں نے رد کر دیا چنانچہ برطانیہ نے مسئلہ اقوام متحدہ میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔[حوالہ درکار]

بعد ازجنگ عظیم دوم

عرب اسرائیل جنگ ١٥مئی تا ١٠ جون ١٩٤٨ء ۔ فوجوں کا حجم ، محل وقوع اور عرب حملے۔

1941ء کے روسی حملے کے ساتھ، سٹالن نے  صہیونیت کی دیرپا  مخالفت پلٹ دی اور سوویت جنگ کے لیے عالمی یہودی حمایت کو متحرک کی۔ ایک یہودی (فسطائی) فاشسٹ کمیٹی ماسکو میں قائم کی گئی۔ دوران جنگ ہزاروں یہود نازی جرمنی سے فرار ہو کر سوویت  اتحادمیں داخل ہوئے، جہاں انھوں نے پھر سے یہودی مذہبی سرگرمیاں شروع کیں اور نئے کنیسے کھولے۔[67]مئی 1947ء میں سوویت ڈپٹی وزیر خارجہ آندرے گرومیکو نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ متحدہ ریاستہائے سوویت روس فلسطین کی عرب اور یہودی حصوں میں تقسیم کی حمایت کرتا ہے اور یونہی متحدہ ریاستہائے سوویت روس نے باقاعدہ اقوام متحدہ کے  نومبر 1947ء کے اجلاس میں رائے دی۔[68]تاہم جب اسرائیل قائم ہو چکا تو ، سٹالن نے  اپنی رائے بدل دی  اور عربوں کی طرفداری شروع کی، یہودی فاشسٹ مخالف کمیٹی کے قائدین کو قید کر لیا  اور یونہی متحدہ ریاستہائے سوویت روس میں یہود پر حملے شروع کردئے۔[69]

1947ء میں ، اقوام متحدہ خصوصی کمیٹی برائے فلسطین نے سفارش کی کہ مغربی فلسطین کو یہودی ریاست بنایا جائے اور القدس کے اطراف کا علاقہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں دیا جائے۔[70] یہ  تقسیمی منصوبہ 29 نومبر 1947ء کو 33/181 ووٹوں کی رائے دہی کے ذریعے اختیار کیا گیا، جبکہ 13 ووٹ مخالف تھے۔[71] عربوں نے اس رائے دہی کی مخالفت کی اور یک ریاستی منصوبہ اور یہودی تارکین وطن کی منتقلی کا مطالبہ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ ہوئی۔

یمنی یہود آپریشن طلسمی قالین کے دوران اسرائیل جاتے ہوئے۔

14 مئی1948ء کو ، تعہدبرطانیہ کے اختتام پر ،یہودی ایجنسی داوید بن گوریون کی قیادت میں ریاست اسرائیل  کے قیام کا اعلان کیااور اسی روز سات عرب ریاستوں نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس کی وجہ سے  7,11,000فلسطینی عرب  سے بیدخل کیے گئے جسے عربی میں نکبہ یعنی عظیم آفت کہا گیا۔[72] بعد ازاں اسرائیلی حکومت نے قوانین کا ایک سلسلہ منظور کیا  جس کے تحت فلسطینیوں کو واپسی اور املاک کے دعوی ٰٰ کے حق سے محروم کیا گیا،وہ  اپنے ہی علاقوں میں مع اپنے اولاد پناہ گزیں ہی رہے۔[73][74] فلسطینیوں کی بیدخلی کو بہت سے حلقوں میں نسلی تخلیص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔[75][76] یہودی اور فلسطینی مؤرخوں کے مابین بڑھتے اتفاق رائے کے مطابق   دیگر وجوہات کے علاوہ فلسطینیوں کی بیدخلی اور قصبوں کی تباہی  فلسطینی پناہ گزینی کی ابتدا کا حصہ بنی۔[77]

اسرائیلی ریاست کے قیام  کے بعد سے، عالمی صہیونی تنظیم  نے زیادہ تر یہودکی نقل مکانی میں امداد اور حوصلہ افزائی کرتی تنظیم کے طور پر کام کیا ۔ اس نے اسرائیلی ریاست کے لیے دیگر ممالک میں سیاسی  حمایت مہیا کی لیکن اسرائیلی داخلی سیاست میں کم کردار ادا کیا۔ 1948ء کے بعد سے اس تحریک کی بڑی کامیابی نقل مکانی کرتے یہود کے لیے رسدی اعانت مہیا کرنا  تھی اور اس بھی زیادہ اہم ،روسی یہود کی ریاستہائے متحدہ سوویت کو چھوڑنے کے حق میں حکام سے جدوجہد ،اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی اور 8,50,000  بیدخل عربی یہود کی عرب سے اسرائیل نقل مکانی میں تعاون تھا۔45۔1944ء میں  ڈیوڈ بن گوریان  نے  غیر ملکی حکام کے سامنے منصوبہ ایک ملین کا پلان  کو صہیونی تحریک کا اولین ہدف اور اعلی ترین ترجیح قرار دیا۔[78] 1948ء کی  برطانوی تحقیقاتی رپورٹ کی پابندیوں کا مطلب یہ تھا کہ ایسا کسی منصوبہ بڑے پیمانے پر عمل در آمد نہیں ہو سکتا جب تک مئی 1948 کے اسرائیلی خود مختاری کا اعلان نہ کر دیا جائے ۔ نئے ملک کی نقل مکانی کی پالیسی کو خود اپنی حکومت ہی میں مخالفت کا سامنا بھی تھا ، جیسے کچھ کا خیال تھا کہ ایسے یہود جن کی زندگیوں کو کوئی خطرہ  نہیں ان کے لیے اس قدر بڑے پیمانے پر نقل مکانی  کا انتظام کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ، خاصکر جب انھیں خود اس کی طلب اور رغبت  نہیں ،[79] ساتھ ہی ساتھ یہ کہ ان کے لیے انجذاب کا عمل غیر ضروری مشکلات کا حامل ہے۔[80] بہر کیف داوید بن گوریون کے اثر و رسوخ اور اصرار نے  نقل مکانی کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا یقینی بنایا۔[81][82]

اقسام

1939ء عالمی صہیونی کانفرنس میں شریک ارکان و مندوبین کی تعداد،جب متحدہ سوویت میں صہیونیت کالعدم تھی[83]
ملکارکانمندوبین
پولستان299,165109
امریکا263,741114
فلسطین167,562134
رومانیہ60,01328
دولت متحدہ23,51315
جنوبی افریقہ22,34314
کنیڈا15,2208

عالمی کثیر القومی  صہیونی تحریک کی ساخت  جمہوری نمائندہ  اصول پر مبنی ہے۔ نشستیں ہر چار سال بعد (جنگ عظیم دوم سے قبل ہر دو سال بعد)منعقد ہوتی ہیں،اور  مجلس کے مندوب  منتخب کرتی ہیں ۔ ارکان کو واجبات (شیقل ) ادا کرنا ہوتی ہیں۔ مجلس میں مندوبین 30 افراد کی ایک مجلس عاملہ  منتخب کرتی ہے جو تحریک کے قائد کا انتخاب کرتی ہے۔تحریک اپنے آغاز سے جمہوری تھی جہاں عورتوں کو حق رائے دہی حاصل تھا۔[84]

1917ء تک، عالمی صہیونی تنظیم نے مسلسل محدود نقل مکانی اور یہودی قومی مد (فنڈ) جیسے ادارے (1901ء کاایک خیراتی  ادارہ  جو یہودی آبادکاری کے لیے زمینیں خریدتا تھا ) اور انگریز فلسطینی بنک (از 1903ء  جو یہودی تاجروں اور کسانوں کو قرضہ حسنہ فراہم کرتاتھا) بناکر یہودی وطن بنانے کی حکمت عملی اپنائی  ۔1942ء میں بالٹیمور اجلاس کے دوران ، تحریک نے پہلی بار ارض اسرائیل میں یہودی ریاست کے قیام کا اپنا مقصد کھلے طور پر شامل کیا ۔[85]

1968 ء القدس میں 28ویں صہیونی مجلس  نے پانچ نقاطی درج ذیل 'یروشلم پروگرام' اختیار کیا ، جنہیں اب صہیونیت کا مقصدبھی کہتے ہیں :[86]

  •       یہود کا اتحاد اور یہودی طرز زندگی میں اسرائیل کی مرکزیت۔
  •      تمام ممالک سے علیا کے ذریعے  یہود کا  تاریخی ارض اسرائیل میں اجتماع ۔
  •      امن وانصاف  کی پیغمبرانہ پیشنگوئیوں پر مبنی ریاست اسرائیل کو استحکام دینا۔
  •      عبرانی تعلیم ،روحانی و ثقافتی یہودی اقدار کے تحفظ کے ذریعے یہودی  شناخت کا تحفظ۔
  •      یہودی  حقوق کی  عالمگیر حفاظت۔

جدید اسرائیل کے قیام   کے بعد سے ، اس تحریک  کا کردار گھٹتا رہاہے۔ صہیونی تحریک اب اسرائیلی سیاست میں ثانوی عنصر ہے، اگرچہ اس کے مختلف  پہلو اسرائیلی اور یہودی سیاست میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔[87]

عمالی صہیونیت

1958ء : شامیر کے کھیتوں میں کیبوتس برادری ہاتھوں سے کپاس چنتے ہوئے۔

مرکزی  صفحہ : عمالی صہیونیت

1947ء میں مشمار ہائمک کیبوتس میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران خواتین جنگی تربیت لیتے ہوئے۔

عمالی صہیونیت مشرقی یورپ سے شروع ہوئی۔  اشتراکیت پسند صہیونیوں کا ماننا تھا کہ سام مخالف معاشروں میں صدیوں کے مظالم نے یہود کو بے ہمت،  غیر محفوظ اور زندگی سے مایوسی  کر دیا تھا جس کی وجہ سے سام دشمنی مزید بڑھی،  اولا یہ نظریہ تھیوڈور ہرتذل نے پیش کیا تھا۔ ان صہیونیوں  دلیل تھی کہ یہودی روح اور معاشرے میں انقلاب ضروری ہے جسے ان یہود کے لیے قابل حصول ہونا چاہیے جو نقل مکانی کے بعد ارض فلسطین میں اپنے وطن کے لیے کسان، مزدوراور فوجی بننے جا رہے ہیں ۔ اکثر اشتراکی  صہیونیوں نے روایتی مذہبی یہودیت کے اختیار کرنے کو رد کر دیا تھا  کیونکہ اس سے جلاوطنی کی سوچ کو دوام ملتا تھااور اسرائیل میں کیبوتسیم کے نام سے دیہاتی  برادریاں  قائم کیں۔ کیبوتس نے قومی مضروعی(کھیت)منصوبے کی بدلی ہوئی شکل کے طور پر ابتدا کی ،  یہ ایک تعاونی  زراعت کی قسم تھی جس میں یہودی قومی مد(فنڈ) یہودی مزدوروں کو تربیت یافتہ نگرانی  میں اجرت پر لیتی تھی۔ دوسری علیا  کی علامت سمجھی جانے والی کیبوتسیم میں اشتراکیت اور انسانی مساوات پر بہت زور دیا جاتا ، جوکسی حد تک تخیلی و مثالی اشتراکیت کا اظہار تھا ۔ مزید برآں ، وہ خود انحصاری پر زور دیتے ، جو عمالی صہیونیت کا  ایک اہم پہلو بنا۔ اگرچہ اشتراکی صہیونیت یہودیت کے بنیادی اقدار اور روحانیت سے تاثر لیتی اور اس کے فلسفے پر مبنی ہے ، اس کا اصلاحی و ترقیاتی پہلو راسخ العقیدہ یہودیت سے ایک حریفانہ تعلق کوفروغ دیتا ہے۔[حوالہ درکار]

1924ء میں قائم سب سے بڑی صیہونی نوجوانوں کی اشتراکیتی تحریک نوال کی اسرائیلی نوجوان لڑکیاں ، یہودی مزاحمتی جنگجو سمچہ روطم کے ساتھ

عمالی صہیونیت  تعہدی فلسطین کے دوران یشوو کی سیاسی اور معاشی طرز زندگی میں ایک غالب قوت بنی اور اسرائیلی سیاسی اختیاراتی حاکمیت(اسٹبلشمنٹ)کا مؤثر نظریہ  رہی، یہاں تک کہ 1977ء کےاسرائیلی الیکشن میں اسرائیلی عمالی جماعت کو شکست ہوئی۔ اگرچہ کیبوتسیم میں سب سے مقبول جماعت میریطز ہے تاہم اسرائیلی عمالی جماعت نے بھی اپنا وجود نہیں کھویا ۔[88] عمالی صہیونیت کو مرکزی  ادارہ  حستادرط (مزدورانجمنوں کی عام تنظیم)ہے ، جس نے  1920ء سے 1970ء کی دہائی تک عرب مزدوروں کی ہڑتالوں  کے دوران  متبادل یہودی مزدور مہیا کرنے سے ابتدا کی اور اسرائیلی حکومت کے بعد سب زیادہ نوکریاں دینے والا ادارہ رہا ۔[89]


آزاد خیال صہیونیت

مرکزی صفحہ :  عمومی صہیونی

1897ء کی پہلی صہیونی مجلس سے پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک عمومی   صہیونیت (یا آزاد خیال صہیونیت) کا پلہ صہیونی تحریک کے پرحاوی رہا ہے ۔ یورپی  آزاد خیال متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عمومی صہیونی  قائدین جیسے ہرتذل اور کھائیم ویزمین جس کے خواشمند رہے تھے۔ اگرچہ   کسی بھی اسرائیلی جدید سیاسی جماعت کاآزاد خیال  صہیونیت  سے  براہ راست تعلق نہیں ،اس کے باوجود  اسرائیلی سیاست میں اس کا رجحان کافی مضبوط ہے  جو  آزاد تجارتی اصولوں ، جمہوریت اور انسانی حقوق پر عملدرآمد کی حامی ہے۔ کدیمہ  ،2000 کی دہائی کی معتدل بڑی سیاسی  جماعت اب  غیر مؤثر ہے۔ تاہم  بنیادی آزاد خیال صہیونی نظریہ  کے لیے پہچانی جانے والی یہ جماعت ،دیگر امور کیساتھ ساتھ  فلسطینی ریاست ، آزادانہ تجارت اور اسرائیلی عربوں کے مساوی حقوق کی حمایتی رہی ہے تاکہ اسرائیل میں ایک بہتر جمہوری معاشرہ قائم کیاجاسکے۔2013ء میں میں اری شاویت نے تجویز دی کہ نئی یش عتید جماعت (جو  سیکولر غیر مذہبی ، متوسط طبقہ کے مفادات کی ترجمان   کرتی ہے) نئے عمومی صہیونیوں کی کامیابی کی ظاہری شکل ہے۔[90]

ڈرور ذیگ مین لکھتا ہے کہ سماجی عدل پر،قانون و انصاف  پر،ریاست اور مذہب کے معملات میں تکثیریت و برداشت   پر، خارجہ پالیسی اور سلامتی (سیکورٹی)میں اعتدال اور لچک  پر ، عمومی صہیونیوں کا روایتی  آزاد خیال نظریہ  اب بھی کئی متحرک اہم سیاسی حلقوں میں پسند کیا جاتا ہے۔[91]

فلسفی  کارلو سٹرنگر  (اپنے ’’خواندہ اسرائیلی قوم  ‘‘ کے تصور کی تائید کرتے ہوئے )  موجودہ  دور کی آزاد خیال صہیونیت کو بیان کرتا ہے کہ ،  یہ ہرتذل اور احد حام کی اولین نظریہ کے اساس  میں چھپی ہے، جو  دائیں بازو کی رومانوی قوم پرستی اور نیتزاہ اسرائیل کی  انتہائی راسخ الاعتقادی کے بر خلاف ہے۔ جمہوری اقدار اور انسانی حقوق  ، غداری کے الزامات کے بغیر سرکاری حکمت عملیوں پر تنقیدکی آزادی اورعوامی زندگی پر  بے جا مذہبی  اثراندازی  کی تردید  وغیرہ سے غرض  رکھنا اس کی خاصیت ہے۔ آزاد خیال صہیونیت  یہودی روایات کی سب سے زیادہ معتبر خاصیات پر عمل پیرا ہے، یعنی تند و تیز بحث کے لیے رضامندی، داوکا کی متضاد روح، آمریت کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے سے انکار۔[92][93] آزاد خیال صہیونیوں کا ماننا ہے کہ ’’ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ یہود کو اپنی قومی ریاست کا حق رہا ہے ‘‘۔ اور یہ بھی کہ اب اس ریاست کو  آزاد خیال جمہوریت ہی ہونا چاہیے، جس کا مطلب ہے کہ  مذہب ، جنس اور نسلی تعصب سے آزادمکمل قانونی  برابری ہے۔[94]

تصحیحی صہیونیت

تصحیحی صہیونیت کے بانی زئیف ژابوتنسکی، صہیونی مجلس میں

مرکزی صفحہ : تصحیحی صہیونیت

تصحیحی صہیونیت  جس کے قائد  اور بانی زئیف ژابوتنسکی تھے اور جو قومی صہیونییت  کہلانے لگی، اس کے رہنما اصول 1923ء کے مضمون آہنی دیوار میں وضع کیے گئے۔ 1935ء میں تصحیح پسندوں نے عالمی صہیونی تنظیم سے علیحدگی اختیار کی کیونکہ وہ  بطور مقصد یہودی ریاست کے قیام کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔

ژابوتنسکی کا ماننا تھا کہ،

ہر آبادیاتی تحریک کا یہ ایک آہنی اصول ہے ، ایسا اصول جس سے کوئی بھی مستثنی نہیں، جو ہر  زمان و مکان میں موجود رہا-وہ اصول ہے کہ اگر آپ ایسی زمین پر آبادکاری کرنا چاہتے ہیں جہاں لوگ پہلے سے مقیم ہوں، آپ کو اپنے لئے چھاونی بنانی پڑے گی، یا پھر آپ آبادکاری کا خواب چھوڑ دیں، کیونکہ ایک مسلح قوت جو آبادکاری کو روکنے یا تباہ کرنے کی کسی بھی قسم کی کوشش کو واقعاتاً ناممکن بنا دے اسکے بغیر آبادکاری ناممکن ہے، مشکل نہیں، خطرناک نہیں، مگر نا ممکن ! صہیونیت ایک نوآبادیاتی مہم جوئی ہے لہٰذااس صہیونیتی مہم جوئی کی عمارت صرف مسلح قوت کے سہارے ہی کھڑی رہ سکتی ہے – اسرائیل کا بننا ضروری ہے، عبرانی کا گفتاری زبان بننا بھی ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ان سے بھی زیادہ (اسلحہ) داغنے کے قابل ہونا ضروری ہے  وگرنہ میں اس آبادیاتی  کھیل کا حصہ نہیں ہوں- [95][96]

اور یہ کہ

اگرچہ یہود کا ماخذ مشرق ہے، لیکن ہم ثقافتاً، اخلاقاً اور روحانی طور پہ مغرب سے ہیں ۔ ژابوتنسکی  صہیونیت  کو بطورمرغوبِ یہود ارض اسرائیل میں واپسی کی بجائے مغربی تہذیب کی مشرق میں پیوندکاری اور شاخ سمجھتا تھا۔ یہ نظریائے عالم، جغرافیائی ستراتجیاتی (حکمت عملی) کے نظریے میں بدلا جس میں صہیونیت کو دائما ًتمام مشرقی بحیرہ روم کے عربوں کے بالمخالف یورپی استعماریت میں ساتھ دینا تھا۔[97]

تصحیحی صہیونیوں نے فلسطین میں عرب آبادی سے یہودی بھاری نقل مکانی بزور منوانے کے لیے ہمیشہ یہودی فوج کے قیام کی حمایت کی ہے۔

تصحیحی صہیونیت کے حامیوں نے اسرائیل میں لیکود جماعت بنائی،  جو 1977 ء کے بعد ہر حکومت میں بڑی تعداد میں موجود رہی ہے۔  یہ مغربی پٹی بشمول مشرقی القدس پر قبضہ برقرار رکھنے کی حامی ہے اور عرب اسرائیل تنازع میں سخت  نقطہ نظر  اپنایا۔ 2005ء میں اسرائیلی جماعت لیکوڈ  مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست کے قیام پر تقسیم ہو گئی، جن میں سے امن مذاکرات پر منقسم ارکان نے کدیمہ جماعت بنانے میں مدد کی۔[98]


مذہبی صہیونیت

مرکزی صفحہ: مذہبی صہیونیت

ابراہام اسحاق کک 1924ء میں

مذہبی صہیونیت  ایسا نظریہ ہے جو صہیونیت اور  باعمل  یہودیت کو یکجا کرتا ہے۔ اسرائیلی ریاست کے قیام سے قبل ، مذہبی  صہیونی زیادہ تر  باعمل یہود تھے جو ارض مقدسہ میں یہودی ریاست کے قیام کی کوششوں کی حمایت کرتے تھے۔

1862ء میں جرمن راسخ العقیدہ ربی ذوی ہرش کالیسچر   نے اپنا کتابچہ دریشت صہیون شائع کیا ، جس میں اس نے لکھاکہ یہود کی انبیا کی جانب سے موعودہ آزادی  صرف  اپنی مدد آپ سے ہی ہو سکتی ہے۔ ربی موشے شمؤل گلاسنر ایک اور صہیونیت کی تائید کرنے والا نمایاں ربی رہا ہے۔ جدید مذہبی صہیونیت کا مفکر تاہم ابراہام اسحاق کک تھا ، جس نے صہیونیت کے لیے یہودی شریعت سے جواز پیش کیا، اس کے خیال میں صہیونیت ایک مقدس منصوبہ  ہو سکتا ہے جس کے ذریعے یہود  ارض مقدسہ میں جا سکیں۔اسی کے ذریعے سے یہود آزاد ہوں گے اور بعد میں پوری دنیا آزاد ہوگی۔یہودی وطن کی از سرنو قیام کے بعد عالمی امن قائم ہوگا جس کے بعد یہود کے لیے موعود مسیحا آئے گا،اگرچہ یہ ابھی تک نہیں ہوا، کک نے زور دیا کہ اس منصوبہ پر بہت وقت لگ سکتا ہے کیونکہ حتمی نجات مرحلہ وارہوا کرتی ہے،اور جب ہو رہی ہوتی ہے تو آشکار بھی نہیں ہوتی، 1924ءمیں کک فلسطین کا اشکنازی چیف ربی (مفتی اعظم)بنا، اس نے صہیونیت اور راسخ العقیدہ یہودیت میں موافقت کی بھی کوشش کی۔[حوالہ درکار]

6 روزہ جنگ اور مغربی کنارہ کنارے (جسے یہودی اصطلاح میں یہودا و سامرا کہا جاتا تھا  ) پرقبضہ کے بعد  ، مذہبی صہیونی تحریک کے دائیں بازو کے حصوں نے قومی برات کو مذہبی صہیونیت میں شامل کر کے صہیونیت نواز میں تبدیل ہوئے۔ انکا نظریہ تین ستونوں کے گرد گھومتا ہے ۔

سبز صہیونیت

مرکزی صفحہ : سبز صہیونیت

سبز صہیونیت، صہیونیت کی وہ شاخ  جو بنیادی طور پر اسرائیلی  ماحول اور فضا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔ اکیلی ماحولیاتی صہیونی جماعت سبز صہیونی اتحاد ہے۔

بعد از صہیونیت

20ویں صدی کے آخری پاؤ میں ،  تاریخی و مثالی  قومیت اب زبوں حالی کا شکار ہے۔جس نے اب بعد از صہیونیت کو جنم دیا۔ بعد از صہیونیت زور دیتا ہے کہ یہودی قوم کی ریاست  کا نظریہ اسرائیل کو ترک کردینا چاہیے اور اپنے تمام شہریوں کی ریاست بننے کی کوشش کرنی  چاہیے[100] یا دو قومی ریاست بننا چاہیے  جہاں عرب اور یہود ایک ساتھ رہ کر یکساں خود مختار ہوں۔[حوالہ درکار]

غیر یہودی حمایت

ارض مقدسہ کیجانب یہودی نقل مکانی کی سیاسی حمایت خودصہیونیت کے بطور سیاسی تحریک سے بھی پرانی ہے۔ 19ویں صدی میں ، ارض مقدسہ میں یہود کی بحالی کے حمایتیوں کو بحالی پرست کہا جاتا تھا۔ یہود کی ارض مقدسہ میں نقل مکانی کو  ملکہ وکٹوریہ ، نپولین بوناپارٹ ،[101] ایڈورڈ ہفتم ، صدر امریکا جان ایڈمز ، جنوبی افریقہ کے جنرل سمٹز وسیع طور پر حمایت حاصل تھی، چیکو سلوواکیہ کے صدر مصاریک، اٹلی کے  فلسفی اور مؤرخ  بنے ڈیٹو کروچے،  بین الاقوامی انجمن صلیب احمر و ہلال احمر کے بانی اور معاہدہ جنیوا کے مصنف ہنری ڈونانٹ اور ناروے کے   سائنس دان اور انسان پرست فرتیوف نانیسن۔

صدیوں قبل جس زمین سے یہودی نکلے وہاں یہودی قومیت کی نشاط ثانیہ کے لیے فرانسیسی حکومت نے م۔ کامبون کے ذریعے باقاعدہ  خود کو وقف کر دیا تھا۔ چین میں ، قومیت پرست  حکومت کومنتانگ  بشمول سن یات سین نے  یہودی قوم کے وطن کے لیے موافقت کا اظہار کیا۔[102]

مسیحی صہیونیت

مرکزی صفحہ : مسیحی صہیونیت ، دولت متحدہ میں  مسیحی صہیونیت

کچھ مسیحیوں نے صہیونیت کے عروج اور یہود کے فلسطین میں لوٹنے سے قبل ہی  صہیونیت کی حمایت شروع کردی تھی۔ انیتا شپیرہ ، تل ابیب یونیورسٹی کی تاریخ کی پروفیسر، یہ تجویز کرتی ہیں کہ  1840ءکے انجیلی  عیسائیت کے بحالی پسندوں نے  یہ عقیدہ یہودی حلقوں تک منتقل کیا۔[103] انجیلی مسیحیوں  کی یہود کی فلسطین میں نقل مکانی کی توقع اور دولت متحدہ میں نقل مکانی کے لیے سیاسی  ترغیب کاری 1820ء کی دہائی میں  پہلے ہی سے عام تھی۔[104]  پیوریٹن لوگوں میں یہودی فلسطین کی جانب نقل مکانی  کی توقع اور دُعا عام شہ تھی۔[105][106][107]

پروٹسٹنٹ مسیحیت   علما میں سے ایک نمایاں عالم جو  یہودکی فلسطین میں نقل مکانی کے بائبلی عقیدہ  کی تشہیر و ابلاغ کرتے تھے  جان نیلسن ڈاربی تھا۔اس کا نظریہ تدبيريہ تشہیر صہیونیت سے منسوب ہے، خاصکر1840ء میں جنیوا میںمسیحیت سے امید،یہود و غیر یہود پر  دئے گئے اس کے 11 وعظ کے بعد۔[108] تاہم ، دیگر جیسے  چ ح سپرجن ،[109] حوراٹئس  بونر،[110]اینڈریو بونر، رابرٹ مرے مچینی [111]اور ج ک ریل [112] یہودی نقل مکانی کی  اہمیت کے متعدد نمایاں تدبیری مشہرین میں سے تھے ۔ متعدد انجیل پسندمسیحیوں  نے صہیونی نواز نظریات تسلیم کر کے بین الاقوامی سیاست اور خارجہ پالیسی پر  اثر انداز ہوئے۔

ہیپولیٹس  لتؤصتنسکی عیسائیت کا روسی راسخ الاعتقاد کلیسیا نظریاتی تھا، جسے متعدد سام دشمن مذہبی کتابچوں کا مصنف بھی کہا جاتا ہے، اس نے 1911 ء سے اس بات پر زور دینا شروع  کیا کہ روسی یہود کو فلسطین میں جاری یہودی نقل مکانی میں مدد دی جانی چاہیے ۔[113]

اولین نامورصہیونی حامیوں میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ لویڈجارج  اور آرتھر جیمز بالفور شامل ہیں ، امریکی صدر  ووڈرو ولسن اور برطانوی میجر جنرل  اورد    وینگیٹ جس کی صہیون حامی کارروائیوں کیوجہ سے   اس پر فلسطین میں تعیناتی پابندی عائد کی گئی۔ کرلیٹن یونیورسٹی کے چارلس مرکلے کے مطابق، مسیحی صہیونیت 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد کافی  مضبوط ہوئی اور بہت سے تدبیری اور غیر تدبیری انجیلی مسیحی ، خصوصا امریکی  مسیحی اب شدت سے صہیونیت کی حمایت کرتے ہیں ۔[حوالہ درکار]

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اسرائیل اور صہیونیت کا حامی تھا اگرچہ اس سے ایک صہیون مخالف دوست کو خط بھی منسوب کیا جاتا ہے۔[114]اس کی زندگی کے آخری ایام میںتحریک مقدسین آخری ایام کے بانی  جوزف سمتھ نے  اعلان کیا کہ یہود کا ارض اسرائیل کی جانب نقل مکانی کا وقت اب آچکا ہے۔1842ءمیں  سمتھ نے  یسوع مسیح چرچ اور مقدسین آخری ایام کے داعی اورسن ہائیڈ کو بیت المقدس بھیجا تاکہ وہ یہودی نقل مکانی کے لیے زمین وقف کر سکے۔[115]

کچھ مسیحی عرب  جو برملا اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں ، ان میں مصنف نونی درویش اور سابقہ(مرتد) مسلمان  اور جئے اسرائیل کا مصنف ماگدی عالم  شامل ہیں [116]  یہ دونوں مصر میں پیدا ہوئے۔ لبنانی نژاد  امریکی مسیحی صحافیہ اورامریکی مجلس برائے سچ کی بانیہ بریجٹ گبریل ، جو امریکیوں پر زور دیتی ہیں کہ امریکا، اسرائیل اور مغربی تہذیب کے دفاع میں بے خطر بات کیاکریں۔[117]

اسلامی صہیونیت

مرکزی صفحہ : مسلم صہیونیت

دروز اسکاؤٹ کا مقبرہ شعیب کی جانب  تقدیم (مارچ) [118]

مسلمان جنھوں آزادنہ صہیونیت کا دفاع کیا ان میں اسلامی مفکر ،[119] اصلاح پسند اور سابقہ محارب  جماعت الجماعةالإسلامية‎  جسے اقوام متحدہ  اور یورپی یونین نے  دہشت گرد تنظیم قراردیا [120]کے رکن ڈاکٹر توفیق حامد، اطالوی اسلامی برادری کے ثقافتی ادارے کے مہتمم( ڈائریکٹر) شیخ پروفیسر  عبد الہادی پلازی [121]اور پاکستانی نژاد امریکی دانشور ، صحافی اور مصنف تشبیہ  سید ۔[122]

أحيانا ً کچھ غیر عرب  مسلمان جیسے کرد اور بربر نے صہیونیت کی تائید میں آواز اٹھائی[123][124][125] اگرچہ اب اکثر اسرائیلی دروز کی نسلاًً بطور عرب  نشان دہی کی جاتی ہے،[126] ہزاروں  دروز ، اسرائیلی صہیونی دروز ی تحریک میں شامل ہیں ۔[127]

تعہدی فلسطین کے دورمیں ، عکوی مسلمان عالم اسعد شوکیری  اور تنظیم آزادی فلسطین کے بانی احمد شو کیر ی  نے فلسطینی عرب قومی تحریک کے نظریات کو رد کیا چنانچہ صہیون مخالف تحریک   نے ان کی مخالفت کی ۔[128] وہ صہیونی حکام سے ملتا تھا اور تعہد فلسطین کے زمانے سے ہر صہیون نواز عرب تنظیم میں حصہ لیتا رہا اور کھلے عام محمد امین الحسینی کے اسلام کے استعمال کے ذریعے صہیونیت پر حملے کی مخالفت کرتا رہا۔[129]

کچھ بھارتی مسلمانوں نے اسلامی صہیون دشمنی کی مخالفت کا اظہار کیا ۔ اگست 2007ءمیں ، کل ہند تنظیم آئمہ و مساجد کے اراکین مع  صدر تنظیم مولانا جمیل الیاس نے اسرائیل کا دورہ کیا۔بعد میں اسرائیلی حکام کے  ساتھ ملکر اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بھارتی مسلمانوں کے جانب سے اسرائیل کی طرف  امن اور  خیر سگالی کا اظہار کیا گیا۔ جس سے اسرائیلی یہود  اور بھارتی مسلمانوں کے درمیان مذاکرات کا شروع ہوئے  اور اس  تصور کو مسترد کیا گیا کہ اسرائیلی۔ فلسطینی تنازع مذہبی نوعیت کا ہے۔[130]اس دورہ کاانتظام امریکی یہودی انجمن نے کیا تھا، جس کا مقصد اسلامی دنیا میں اسرائیل کی حیثیت کے بارے بمعنی مذاکرات کا فروغ دینا تھا۔یہ رائے دی گئی کہ یہ دورہ اسرائیل کی جمہوری حیثیت کو سمجھنے میں مسلم دنیا خصوصا مشرق وسطی کے مسلمانوں کے ذہن  کو آشکار کریگا۔[131]

ہندو صہیونیت

مرکزی صفحہ : اسرائیل بھارت تعلقات اور ہندتوا

1948ءمیں قیام  اسرائیل  کے بعد ، بھارتی سیاسی جماعت کانگریس کی حکومت نے صہیونیت کی مخالفت کی ۔ کچھ مصنفین کا کہنا ہے ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ رائے شماری میں مسلمان ووٹ حاصل کیے جاسکیں ۔[132] تاہم قدامت پسند ہندو قومیت پسندوں نے  سنگھ پریوار کی قیادت میں برملا صہیونیت کی حمایت کی، یونہی وینائیک دمودار سورکار اور سیتا رام گوئل و دیگر ہندو قومیت پسند دانشوروں نے بھی حمایت کی۔[133] برطانوی استعماری راج میں صہیونیت  کو بطور یہودی وطن واپسی و تحریک قومی آزادی کے دیکھے جانے نے بہت سے ہندو قومیت پسندوں کی دلچسپی اپنے جانب مبذول کی، جوخود اپنی برطانوی استعماری راج سے آزادی اور تقسیم ہند کو عرصے سے مغلوب ہندو آزادی  ہی دیکھتے تھے۔

ایک بین الاقوامی  مساحت (سروے) کے مطابق بھارت دنیا بھر میں سب سے بڑھ کر اسرائیل نواز ملک ہے۔[134]حالیہ دنوں میں قدامت پسند   بھارتی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں  صہیونیت کی تائید کرتی نظر آتی ہیں ۔[135][136]جس کی وجہ سے ہندتوا تحاریک پر بائیں بازو کے نظریات کے حاملین حملے کرتے اور یہودی دھڑوں سے ملکر سازش کرنے کے الزامات لگاتے بھی نظر آتے ہیں ۔[137]

صہیون مخالفت

مرکزی صفحات : صہیون مخالفت   اور  صہیون مخالفت  کا خط زمانی  

مزید دیکھیں : ، ، غیر صہیونیت , نئی صہیون مخالفت،اسرائیلی حکومت پر تنقید اور صہیونی  قابضہ نظریۂ سازشی حکومت

صہیونیت کے خلاف بہت سے مسلمان دانشور و علما  جیسے مولانا مودودی ، شیخ عمران حسین ،اوریا مقبول، ڈاکٹر اسرار احمد اور دیگر قران و حدیث کے درج ذیل حوالے  دیتے ہیں

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ [138]

ترجمہ:اور جس بستی(یروشلم) کو ہم نے ہلاک کر دیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ(یہود) پلٹ کر (حکمران بنکر) نہیں آئیں گے[139]


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”بیت المقدس(یروشلم) کی آبادی یثرب (مدینہ) کی ویرانی ہے اوریثرب کی ویرانی بڑی جنگ کا ظہور ہے“(ابوداؤد، مسند احمد، طبرانی، مستدرک، مصنف ابن ابی شیبہ)[140]


صہیونیت کی مختلف تنظیموں اور افراد کی ایک وسیع تنوع  کی جانب سے مخالفت ہوتی ہے۔ ان مخالفین میں سے  کچھ لادین (سیکولر یا علمانی)  یہود [141]، یہودیت کی سابقہ سویت اتحاد کی کچھ شاخیں  ( سطمر حاسیدیت  اور  ناطوری کارتا  )[142]، اسلامی دنیا اور فلسطین میں ہیں۔ صہیونیت کی مخالفت مختلف وجوہات کی بنا پر کی جاتی ہے جیسے : فلسطین پر قبضۂ زمین کو ناجائز جاننا اورنسلی امتیاز۔ عرب ریاستیں خاص طور پر صہیونیت کی مخالف ہیں  ، جن کا ماننا ہے کہ صہیونیت ہی 1948ء کی فلسطینی بیدخلی کی ذمہ دا ر ہے۔ افریقی  میثاق برائے انسانی اور قومی حقوق  جس کی 2014ء تک 53افریقی  ممالک نے توثیق کی ، اس کے مقدمہ میں  صہیونیت مع  استعماریت ، استعمار نوازی ، متشدد خارجی فوجی چھونیاں ،نسلی امتیاز  اور ہر قسم کے تفریق کے خاتمہ  کا عہد شامل ہے ۔[143][144]

صہیونیت کی مخالفت دیگر وجوہات کی بنا پر اسرائیل کے قیام سے قبل کئی یہود  نے بھی کی ، انکا خیال تھا کہ صہیونیت یہود ی قوم کے وجود کے لیے روحانی اور فطری طور پر پر خطر ہے ۔[145][صفحہ درکار]

1945ء میں  امریکی صدر فرینکلن ڈ ۔روزولٹ سعودی بادشاہ ابن سعود سے ملے ۔ ابن سعود نے اس امر کی نشان دہی کی کہ  یہود کے خلاف جرائم کا ارتکاب تو جرمنی کی جانب سے ہوا جس کی پاداش میں جرمنی کو سزا ملنی چاہیے نہ کہ فلسطینی مسلمانوں سے زمین چھیننی جائے۔ روزولٹ   نے واپسی پر  اس فیصلے پر پہنچا کہ اسرائیل فقط  طاقت کے زور پر قیام پزیر ہو سکتا ہے۔[146]

کاتھولک چرچ اور صہیونیت

مرکزی صفحات: مقدس کرسی و اسرائیلی تعلقات  ، استبدالیت  اور رومی کاتھولک عیسائت اور عیسائت و ضدسامیت

کاتھولک کلیسیا کا صہیونیت کے جواب میں اولین رد عمل سخت مخالفت  میں تھا۔ 1897ء کے بازل اجتماع کے فورا ًبعد ، نیم باضابطہ کاتھولک   جسے( یسوعی تصنیف کرتے ہیں ) جریدہ  سویلیتا کاتھولکہ نے  سیاسی صہیونیت پر مسیحی شرعی   فتویٰ دیا :  ’’الناصرة کے عیسی ٰ   ؑ کی پیشنگونی کو پورا ہوئے 1827 برس مکمل ہوئے ..... (یروشلم کی تباہی کے بعد ) یہود کو تمام اقوام میں غلام بننا تھا اور انھیں آخرالزمان تک فلسطین سے باہر رہناتھا ‘‘ یہود کو فلسطین کے حاکم بنکر واپس نہیں آنے دینا چاہیے : مقدس کتابوں کے مطابق،یہود کو ہمیشہ دیگر اقوام میں منتشر اور در بدر پھرنا ہے، تاکہ نہ صرف یہ کہ وہ مقدس کتابوں اور وجود سے عیسی ؑ ٰ  کی گواہی دیں۔

تاہم، 1903ء میں چھٹی صہیونی مجلس کے بعد اور وفات سے چھ ماہ قبل تھیوڈور ھرتزل جنوری 1904ء میں روم گیا ، تاکہ کسی قسم کی حمایت حاصل کرسکے ۔ 22جنوری کو ، ھرتزل سب سے پہلے پاپائی  وزیر خارجہ کارڈینل رافیل میری دی وال  سے ملا۔ اس کے ذاتی  روزنامچہ کی یاداشتوں کے مطابق ، کارڈینل کی تاریخِ اسرائیل کی تاویل وہی تھی جو کاتھولک چرچ کی تھی ، لیکن اس نے یہود کو کاتھولک عیسائی بننے کو کہا۔ تین دن بعد ، ھرتزل پوپ پئیس ایکس سے ملا ، جس نے وہی پہلا جواب دیا کہ اس شرط پر اس کی حمایت ہو سکتی ہے کہ اگر یہود عیسائیت اختیار کر لیں اور ساتھ ہی یہ کہا کہ ہم اس تحریک کی حمایت کرنے پر مختار نہیں … یہود نے ہمارے معبود کو  تسلیم نہیں کیا، اس لیے ہم یہودی قوم کو تسلیم نہیں کرتے۔ 1922ء میں  اسی جریدے کے ویانا کے نمائندے  نے ایک قطعہ شائع کیا ’’ سام دشمنی یہودی غرور کے خلاف  ایک ناگزیراور طبعی رد عمل کے علاوہ کچھ نہیں ہے ..... کاتھولک  سام دشمنی اخلاقی حد کے اندر رہ کرہروہ ضروری طریقہ اختیار کرتا ہے جس سے مسیحی قوم  اپنے صریح دشمن سے محفوظ رہے‘‘۔[147] بہرحال یہ سوچ  اگلے پچاس سالوں  میں  تبدیل ہوئی، 1997ء تک  جب ویٹیکن مذاکرہ منعقد ہوا ،پوپ جان پال دوم نے سام دشمنی کی بطور عیسائیوں کی اختراع کا انکار کیا اور کہا ’’ اوریہودپر قیاس کردہ (تصلیب عیسی ٰ کا)  جرم اور ان سے متعلق عہد  نامہ جدید کے غلط اور ناجائز تاویلات کافی زمانے تک گردش کرتی رہیں ، جس نے اس قوم کے خلاف جذبات کو بھڑکایا‘‘۔[148]

صہیونیت کی توضیح بطوراستعماری یا نسلی تخلیص

میڈرڈ ہسپانیہ میں نازیت، یہودیت اور امریکی ڈالر میں مساوات کرتا سام دشمن نوشتہ دیوار

صہیونیت کی تشریح بطور جدید استعماریت کے بھی کی جاتی رہی ہے،اور اس پہ ناجائز قبضہ کو بڑھاوا دینے ، فلسطینوں کی فلسطین سے بیدخلی اور ان پر تشدد کرنے کی وجہ سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔صہیونیت کی تشریح بطور استعماری قوت کرنے والوں میں  دیگر کے علاوہ  نور الدین مصالحة‎، گیرشون  شفیر، مائیکل پرائر، ایلان  پاپہ اور باروخ کیمرلینگ شامل ہیں ۔[149]

کچھ اور لوگ جیسے شلومو اویننیری  اور مچل بارڈ صہیونیت کو استعماری تحریک کی بجائے ایک قومی تحریک کے دیکھتے ہیں جو فلسطینی قومی تحریک سے نبرد آزما ہے۔[150] جنوبی افریقی ربی  داؤد ہوفمین  نے صہیونیت کے بطور استعماری آبادکاری کے منصوبہ  کے دعوی کو رد کیا بلکہ اسے  اثباتی کارروائی (مثبت نسلی امتیاز) کا قومی منصوبہ  قرار دیااور یہ کہ اسرائیل میں عہد قدیم سے یہودی موجودگی کا غیر شکستہ تسلسل رہا ہے۔[151]

نؤام چومسکی، جان پ کوئیگلی، نورمصالحہ اور چیرئل روبنبرگ نے صہیونیت پر تنقید کی اور کہا کہ یہ ناجائز طور پر زمین پر قابض ہے اور فلسطینیوں کو بیدخل کرتی ہے۔[152]

اسحاق ڈیوتشر نے اسرائیلیوں کو مشرق وسطی کے پروسی کہا ، جنھوں نے  15 لاکھ فلسطینییوں کو بیدخل کر کے  ٹوٹ سئگ (ازجرمن : مہلک و عاجل فتح) حاصل کی اور بیسویں صدی کی آخری  استعماری  آخری قوت ہے۔[153]

ایڈورڈ سعید اور  مائیکل پرائر  دعوی کرتے ہیں کہ  فلسطینیوں کو بیدخل کرنے کا نظریہ آغاز صہیونیت سے ہی ہے ، وہ 1895ء کی ھرتزل کی روزنامچے  کا حوالہ دیتے ہیں کہ جو واضح کہتی ہے کہ ہم غریب آبادی کو حدودسے باہر بیدخل کرنے کی خفیہ کوشش  کریں گے، بیدخلی  اور غریبوں کو ہٹانے کی کارروائی مخفی اور محتاط ہونی چاہیے۔[154] اس قول پر افرائیم کارش نے تنقید کی کہ یہ قول ھرتزل کی منشا کو تدلیسی انداز سے پیش کرتا ہے[155] بلکہ وہ اس قول کو فلسطینی پروپیگنڈا قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس سے ھرتزل کا مطلب یہود کی خریدی گئی زمینوں پر مسکون فلسطینی لوگوں کی رضاکارانہ طور پر کسی دوسری جگہ پر آبادکاری تھا اور روزنامچہ کی مذکورہ یاداشت کا مکمل متن کچھ یوں تھا’’ اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم احتراما دیگر مذاہب کے لوگوں کو برداشت کریں گے اور ان کے املاک ، جائداد ، آبرو  اور آزادی کی طاقت کے سخت ترین ذرائع کیساتھ حفاظت  کریں گے۔اور یہ دنیا کے لیے ایک نیا پہلو ہوگا جس میں  مثال قائم کریں گے، اگر ایسے کوئی لوگ ہوئے (جو اپنی زمین بیچنے پر راضی نہ ہوئے )تو ہم انھیں چھوڑ کر اپنی تجارت اور ایسی جگہوں کی جانب موڑیں گے جو ہماری ہوں‘‘۔  [156][157]ڈیر یک  پنسلار کہتا ہے کہ ھرتزل نے شائد جنوبی امریکا اور فلسطین کو زیر غور رکھا ہوگاجب اس نے ڈائری میں بیدخل کرنے کے بارے میں لکھا تھا،[158] والٹر لیقور کے مطابق اگرچہ بہت سے صہیونیوں نے(پر امن) منتقلی تجویز کی تھی جو باضابطہ صہیونی پالیسی نہیں تھی اور 1918ء میں داوید بن گوریان نے  اس تجویز کو سختی سے مسترد کردیاتھا۔[159]

ایلن پاپہ  کی رائے میں صہیونیت کا نتیجہ نسلی تخلیص کی صورت  میں ہوا۔[160] یہ نظریہ  دیگر نئے مورخین کے نظریے سے انحراف ہے جیسے بینی موریث ، جو فلسطینی  بیدخلی کو قبول تو کرتا ہے مگر اس بیانیے کو جنگی سیاق و سباق  میں رکھتا ہے نہ کہ نسلی تخلیص میں ۔[161] جب بینی مورث سے فلسطینیوں کی لد اور رملہ سےبیدخلی کا پوچھا گیا تو اسنے جواب دیا کہ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جو نسلی تخلیص کا جواز پیش کرتی ہیں ۔ مجھے معلوم ہے کہ 21ویں صدی کے اس وقت میں یہ اصطلاح  مکمل منفی ہے لیکن جب انتخاب نسلی تخلیص اور نسل کشی  یعنی آپ کی قوم کی بربادی کے درمیان ہو  تو میں نسلی تخلیص ہی کو ترجیح دیتا ہوں۔[162]

صالح عبد الجواد، نور الدین مصالحہ ، مائیکل پرائر ، ایان لسٹک اور جان روزنے صہیونیت کو فلسطینیوں کے خلاف تشدد کرنے پر تنقید کی ، جیسے  دیر یاسین قتل عام، صابرہ اور شاتیلا قتل عام اور مسجد ابراہیم قتل عام۔[163]

گاندھی اور جناح

1938ء میں گاندھی نے صہیونیت کو  مسترد کیا، ہندو اور مسلم ریاستوں کے درمیان تقسیم ہند اورفلسطین میں یہودی قومی وطن کے قیام کا موازنہ کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ’’ یہ ایک مذہی امر ہے لہذا اسے طاقت کے بل بوتے پر نافذ نہیں ہونا چاہیے۔وہ لکھتے ہیں کہ فلسطین عربوں کا ہے بالکل جیسے انگلستان انگریزوں کا ہے یا فرانس فرانسیسیوں کا ہے ۔ عربوں پر یہود کو مسلط کرنا غیر انسانی اور پر خطا ہے . . . .یقینا خوددار عربوں میں تخفیف کر کے فلسطین کو یہود کے لیے جزوی یا مکمل طور پر یہودی قومی وطن قرار دینا ، انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہود فلسطین میں صرف عربوں کی عنایت سے ہی آباد ہو سکتے ہیں ، انھیں عربوں کے دل اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔[164] اس سب کے باوجود  گاندھی کا صہیونیت کی مخالفت سے  تائید کی جانب تبدیل ہوتا میلان اس قول سے واضح ہوتا ہے ، جو انھوں نے امریکی صحافی لوئس فسشرکو 1946ءمیں دیا ’’یہود کا فلسطین میں پر اچھا خاصا دعوی ہے، اگر عرب فلسطین پر دعوی رکھتے ہیں تو ، یہود کا دعوی ان سے پیشترزمانے کا ہے‘‘۔[165]

علامہ محمد اقبال

جس کا جواب اقبالؒ نے ہسپانیہ پر مسلمانوں کا دعوی ٰ کر کے دیا

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کااگرحق

ہسپانیہ پرحق نہیں کیوں اہلِ عرب کا[166]

علامہ اقبالؒ نے اپنی زندگی کے آخری سال اپنے خدشات و جذبات کے اظہار کے لیے ایک طویل تاریخی بیان دیا جو 26 جولائی 1937ء کو لاہور کے موچی دروازہ کے مسلم لیگ کے تاریخی جلسہ عام میں پڑھا گیا اور مشہور اخبار ’’نیوٹائمز‘‘ میں شایع ہوا۔ [167]

علامہ اقبالؒ نے کہا ’’میں آپ لوگوں کو اس امر کا یقین دلاتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں جس شدت سے ہر وہ شخص اسے محسوس کرتا ہے جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا اور انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے، جو اس نے انگلستان کے نام پرعربوں کے ساتھ کیے تھے بہرحال یہ امر کسی حد تک موجب اطمینان ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر حال ہی میں جو بحث ہوئی ہے، اس میں تقسیم فلسطین کے مسئلے کا کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا گیا۔

لہٰذا اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانانِ عالم کو چاہیے کہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کریں کہ برطانیہ کے مدبر جس عقدے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کا تعلق صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پورے عالم اسلام کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔

اگر تاریخی پس منظر کو سامنے رکھ کر اس کا مطالعہ کیا جائے، تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ خالصتاً اور کلیتاً مسلمانوں کا معاملہ ہے،تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب حضرت عمرؓ بیت المقدس تشریف لے گئے تھے اور اس واقعے پر بھی آج تیرہ سو برس کا عرصہ گزرچکا ہے تو ان کی تشریف آوری سے مدتوں پہلے یہودیوں کا فلسطین کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہا تھا یہودیوں کو فلسطین سے زبردستی نہیں نکالا گیا تھا بلکہ جیسا کہ پروفیسر ہاکنگز کی رائے ہے، وہ اپنی خوشی سے دوسرے ممالک میں چلے گئے تھے اور ان کے مصحف مقدس کا بیشتر حصہ بھی فلسطین سے باہر ہی قلم بند کیا گیا تھا۔

مشرق قریب کے مسلمانوں کے بارے میں برطانوی شہنشاہیت کے مذموم ارادوں کو جس بری طرح رائل کمیشن نے اس رپورٹ میں بے نقاب کیا ہے اس کی مثال پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی تجویز تو محض ایک بہانہ ہے اصلیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس مقدس اور مذہبی سرزمین پر اپنا مستقل انتداب قائم رکھ کر برطانوی شہنشاہیت خود اپنے لیے ایک نیا ٹھکانہ پیدا کر رہی ہے یہ اقدام ایک خطرناک تجربہ ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بھی اس کو خطرناک تجربے ہی سے تعبیر کیا ہے۔

عربوں کو جس جس طریقے سے تنگ کر کے اپنی ارض مقدس جس پر مسجد عمرؓ قائم ہے، فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اس میں ایک طرف تو مارشل لا جاری کر دینے کی سخت دھمکیاں ہیں اور دوسری طرف عربوں کی قومی فیاضی اور ان کی روایتی مہمان نوازی کے جذبات لطیف کو برانگیختہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ یہ طرز عمل گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانوی تدبر کا اب دیوالیہ نکل چکا ہے۔

یہودیوں کو زرخیز اراضی کی پیش کش کر کے اور عربوں کو پتھریلی بنجر زمین کے ساتھ کچھ نقد رقم دے کر راضی کرنے کی کوشش قطعاً کسی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت نہیں یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی حقیر سودے بازی ہے جو یقینا اس عظیم الشان قوم کے لیے موجب ننگ اور باعث شرم ہے جس کے نام پر عربوں سے آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ان کے درمیان ایک مشترکہ ومتحدہ وفاق قائم کر دیا جائے گا۔

دوسرے یہ کہ عربوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے وقت عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بحالات موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہر گز اس قابل نہیں کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں۔ تیسرے  یہ کہ آج مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایشیا کے تمام آزاد اسلامی ممالک کی حمیت و غیرت کا امتحان ہے خواہ وہ ممالک عرب ہیں یا غیر عرب۔ منصب خلافت کی تنسیخ کے بعد عالم اسلام کے لیے یہ پہلا بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کی نوعیت بیک وقت مذہبی اور سیاسی ہے اور جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے زمانے کی طاقتیں اور تاریخ کے تقاضے آزاد اسلامی ممالک کو پکار رہے ہیں۔[168]

بانی پاکستان محمد علی جناح خطاب کرتے ہوئے

15 اکتوبر 1937ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اب میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کا مسلمانانِ ہند پر گہرا اثر پڑا ہے۔ برطانیہ کی پالیسی شروع سے آخر تک عربوں کو دھوکا دینے کی رہی ہے۔ برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران عربوں سے کیے گئے اُس وعدے کو پورا نہیں کیا جس میں عربوں کو مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ عربوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کر کے بر طانیہ نے بدنام زمانہ اعلانِ بالفور کے ذریعے اپنے آپ کو عربوں پر مسلط کر دیا اور یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن بنانے کی پالیسی کے بعد اب برطانیہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس کو نافذ کر دیا گیا تو عربوں کے اپنے وطن میں ان کی آرزوؤں اور تمناؤں کا خون ہو جائے گا۔ میں صرف مسلمانانِ ہند کی ہی نہیں بلکہ مسلمانانِ عالم کی ترجمانی کر رہا ہوں اور تمام انصاف پسند اور فکر و نظر رکھنے والے لوگ میری تائید کریں گے جب میں یہ کہتا ہوں کہ اگر برطانیہ نے عربوں سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ برطانیہ اسلامی دنیا میں اپنی قبر خود کھود رہا ہے۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ برطانوی حکومت فلسطینی عربوں کے خلاف تشدد پر اُتر آئی ہے۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے میں اُن کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند اس منصفانہ اور جرأت مندانہ جدوجہد میں فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کریں گے‘‘ [169]

وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان 1950ء کے امریکی دورے کے دوران خطاب کرتے ہوئے

قائد اعظمؒ نے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی اور امریکی اور برطانوی حکومت کو مجرم قرار دیتے ہوئے تقریر میں یہ بھی کہا: ”… امریکی اور برطانوی حکومتیں کان کھول کر سن لیں، پاکستان کا بچہ بچہ اور تمام اسلامی دنیا اپنی جانیں دے کر ان سے ٹکرا جائیں گے اور فرعونی دماغ کو پاش پاش کر دیں گے… ‘‘ 8 نومبر 1945ء کو قیصر باغ بمبئی [170]

مئی - جون 1950ءمیں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکا کے دوران امریکی صنعت و تجارت کے قائدین نے ان سے ملاقات کی اور  پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کر لینے کی صورت میں ہر قسم کی عسکری اور معاشی امداد کی یقین دہانی کروائی  ، امریکی صنعتکاروں نے اس پیشکش کی نئی ریاست پاکستان کے لیے اہمیت بھی واضح کی۔ تاہم لیاقت علی خان نے اپنے دھیمے انداز میں جواب دیا، ’’حضرات!  ہمارا ایمان برائے فروخت نہیں‘‘[171]

عمران خان از ٹویٹر
@ImranKhanPTI

جب بھارت و اسرائیل میں رہنما محض ووٹوں کیلئے اخلاقی دیوالیہ پن میں کمشیر/مغربی پٹی پر عالمی قوانین، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اپنے آئین کے برعکس قبضہ جمائے رکھنے کا نعرہ لگاتے ہیں تو کیا عوام کو غصہ نہیں آتا اور وہ ان سے پوچھتے نہیں کہ انتخاب جیتنے کیلئے آخر کس حد تک جاؤ گے؟

8 اپریل 2019ء[172]

شہباز شریف از ٹویٹر
@CMShehbaz

اے مغرب ، بیت المقدس مسلمانوں کے لیے سرخ لکیر ہے!@RT_Erdogan کی پکار پر جاگواگر آپ کے لیے یہ ارضی تنازع ہے تو اقبال پوچھتا ہے ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کااگرحقہسپانیہ پرحق نہیں کیوں اہلِ عرب کاامت کوقبلہ اول کی حرمت کی حفاظت کے لیے متفق باالرائے آواز اٹھانی ہوگی

7 دسمبر 2017ء[173]

صہیونیت کی توضیح بطور نسل پرستی

مزید دیکھیں :  اسرائیل اور صہیونیت میں نسل  پرستی، اسرائیل ، فلسطینی اور اقوام متحدہ ؛ اور اسرائیل اور (جنوبی افریقی) نسلی امتیاز کی مماثلت

ڈیوڈ بن گوریان نے کہا تھا ’’یہودی ریاست کے شہریوں میں ، مذہب ،نسل ، جنس اور طبقہ کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جائے گا‘‘۔[174] اسی طرح  ویلادیمیر جابوتنسکی  نے زور دیا’’ اقلیت کو بے دفاع نہیں چھوڑا جائیگا. . . جمہوریت کا  مقصد اس بات کی ضمانت دینا ہے کہ اقلیت بھی  ریاستی پالیسی  پر اثر انداز  ہو سکتی ہے‘‘۔[175]

تاہم ، صہیونیت کے ناقدین اسے استعماری[176]  یا نسل پرست[177] تحریک گردانتے ہیں۔ مؤرخ اوی شالم کے مطابق ، صہیونیت کی تمام تر تاریخ   مقامی  آبادی کے خلاف گہرے بغض اور اہانت سے بھری پڑی ہے۔ پھر شالم نے تلافی کے لیے  یہ نقطہ پیش کیا کہ صہیونیت میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنھوں نے اس رویے پر تنقید کی ۔ شالم   نے احد ہام کی مثال دی، جس نے 1891 ءکے فلسطینی دورے کے بعد ، صہیونی آبادکاروں کے متشدد رویے اور سیاسی  نسلیاتی مرکزیت  کے خلاف تنقیدی مقالوں کا ایک سلسلہ شائع کیا۔ہام نے لکھا کہ ’’صہیونی عربوں سے سفاکی اور  عنادسے پیش آتے ہیں ، ان کی حدود میں بے جا مداخلت کرتے ہیں ، انھیں بے وجہ شرمناک انداز سے  پیٹا جاتا ہے اور اس بارے شیخی بگھاری جاتی ہے،اور کوئی بھی اس سبکی اور خطرناک رجحان کی تحقیق کے لیے تیار  نہیں ، واحد زبان جو عربوں کو سمجھ میں آتی ہے وہ صرف طاقت کی ہے‘‘۔[178] کچھ تنقیدوں میں یہ بات ظاہر ہوئی کہ  درحقیقت یہودیت میں نسل پرستی کی وجہ اسکانظریہ  برگزیدہ  قوم ہے ۔[179][180]

دسمبر 1973ء میں ، اقوام متحدہ نے قراردوں کا ایک سلسلہ منظور کیا جن میں جنوبی افریقہ کی مذمت کی گئی اور پرتگالی استعماریت ، (جنوبی افریقی )نسلی امتیاز اور صہیونیت کے درمیان ایک ناپاک  اتحاد کا حوالہ شامل کیا گیا۔[181]اس دورمیں اسرائیل اور جنوبی افریقہ میں باہمی تعاون بہت تھوڑا تھا ،[182] اگرچہ ان دونوں نے 1970ء   کے عشرے میں  قریبی تعلقات استور کیے۔[183] جنوبی افریقی نسلی امتیازوی حکومت اور فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی پالیسیوں میں مماثلتیں قائم کی گئیں  ، جنہیں  صہیونی سوچ میں نسل پرستی کی مثالیں قرار دیا گیا۔[184][185][186]

1975ء میں  اقوام متحدہ مجلس عمومی نے قرارداد 3379منظور کی ، جس نے صہیونیت کو نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی ایک قسم قرار دیا۔ اس قرارداد کے مطابق ، برتری کا کوئی بھی نسلی امتیازوی نظریہ  سائنسی اعتبار سے نادرست ، اخلاقاً قابل مذمت ، سماجی طور پر ناجائزاور خطرناک ہے۔ اس قرارداد نے فلسطینی مقبوضہ علاقوں ، زمبابوے اور جنوبی افریقہ کو نسل پرست حکومتوں کی مثال قرار دیا۔اس قرارداد کو سویت اتحاد کی جانب سے پیش کیا گیا ، جسے اسرائیلی حمایت برائے جنوبی افریقی نسلی امتیازوی  حکومت کے الزامات کے دوران عربوں اور افریقی ممالک کی عددی   تائید سے منظور کیا گیا۔[187] امریکی ترجمان  ڈینئل پیٹرک موئینیہن نے اس قرارداد پربھر پور تنقید کی اور اسے  فحش اور اقوام متحدہ کو ایذا پہچانے والی قرارداد کہا۔[188] 1991ء میں  اسرائیل کے میڈرڈ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی دھمکی کے بعد[189]اقوام متحدہ مجلس عمومی قرارداد46\86 [190]کے ذریعے سے  منسوخ کی گئی۔

’’ اس  بدنام حرکت کو ریاستہائے متحدہ امریکا. . . .نہ تسلیم کرتا ہے ، نہ پاسداری کرے گا اور اس پرکبھی موافقت  اختیار نہ کرے گا. . . .یہ جھوٹ ہے کہ صہیونیت نسلی تعصب کی ایک قسم ہے۔ یہ ایک بے انتہا واضح حقیقت ہے کہ یہ(صہیونیت) ایسی نہیں۔‘‘[191]ڈینئل پیٹرک موئینیہن ،1975ء میں  3379قرارداد منظور ہونے کے بعد اقوام متحدہ مجلس عمومی میں تقریر کرتے ہوئے۔

جنوبی افریقہ ،  ڈربن میں منعقدہ  2001 ء کی نسل پرستی  پر اقوام متحدہ کانفرنس کے سلسلے میں عرب  ممالک صہیونیت کو نسل پرستی سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے[192] جواب میں امریکا اور اسرائیل نے کانفرنس  چھوڑدی ۔ کانفرنس کے حتمی اعلامیہ میں صہیونیت کو نسل پرستی سے منسلک نہیں کیا گیا۔اسی سلسلے میں  منعقد کی گئی انسانی حقوق کی کانفرنس نے  دوسری جانب ، صہیونیت کو نسل پرستی کے مساوی قرار دیا اور اسرائیل کو نسل پرست جرائم بشمول قتل عام اور نسلی تخلیص کیوجہ سے ملامت کی۔[193]

صہیونیت کے حامیین جیسے کھائیم  ہرذوگ ، دلیل دیتے ہیں کہ یہ تحریک غیر نسل پرست ہے اور اس میں کوئی نسلی پہلو شامل نہیں۔[194]

حاریدی یہودیت اور صہیونیت

مزید دیکھیں: حاریدیت اور صہیونیت

بہت سے حاریدی راسخ العقیدہ  تنظیمیں صہیونیت کی مخالفت کرتی ہیں ، وہ صہیونیت کو ایک سیکولر تحریک کے طور پر دیکھتی ہیں۔ وہ قومیت کو بطور نظریہ  مسترد کرتے ہیں اور صرف یہودیت کو  ہی وہ مذہب قرار دیتے ہیں جو ریاست سے مبرا ہے ۔ تاہم کچھ حاریدی تحاریک (جیسے  2010ء سے شاس) الاعلان خود کو صہیونی تحریک سے  ملحق کرتی ہے۔

حاریدی علما (ربی)  اسرائیل کو ہلاخاہوی(شرعی) یہودی ریاست نہیں مانتے کیونکہ اس کی حکومت سیکولر ہے ۔ لیکن وہ یہود کے مذہبی عقائد برقرار رکھنے کی ذمہداری لیتے ہیں اور چونکہ اکثر  اسرائیلی شہری یہودہیں ، وہ اس  لائحہ عمل کی اسرائیل میں  پیروی کرتے ہیں ۔ دیگر اسرائیلی ریاست کے امکان کو مسترد کرتے ہیں ، کیونکہ یہودی (شریعت) مذہبی قوانین کے مطابق یہودی ریاست مکمل طور پر  ممنوع ہے ۔ ان کی نظر میں لفظ یہودی ریاست ،اجتماع ضدین ہے۔

دو  حاریدی جماعتیں  اسرائیلی چناؤ میں امیدوار کھڑے کرتی ہیں۔ ان کے نظریات کو کبھی کبھی  قومیت پرست اور صہیونی  تصور کیا  جاتا ہے۔ وہ قومیت پرست صہیونی جماعتوں کے ساتھ الحاق کو ترجیح دیتی ہیں ، شائد اس لیے کہ یہ جماعتیں  اسرائیلی ریاست کی یہودی جبلت  کو بڑھاوا دینے میں زیادہ  دلچسپی لیتی ہیں ۔ سفاردی   راسخ العقیدہ جماعت شاس نے صہیونی  تحریک کیساتھ الحاق کو مسترد کیا ، تاہم  2010ء میں  یہ عالمی صہیونی تنظیم میں شامل ہوئی۔ اس کے رائےدہندگان عام طور پر صہیونی تصور کیے جاتے ہیں اور کنیست (پارلیمانی) ارکان جس لائحہ عمل کی پیروی کرتے ہیں اسے دیگر صہیونی ایجنڈا قرار دیتے ہیں ۔شاس نے فلسطینی عربوں کے ساتھ علاقائی سمجھوتے کی تائید کی تاہم وہ اسرائیلی مقدس مقامات  پر سمجھوتے کی مخالفت کرتی ہے۔

غیر حسیدی یا لتھوینیائی  حریدی  اشکنازی دنیا کی ترجمانی اشکنازی  اگودت اسرائیل \ یو ٹی جے  جماعت کرتی ہے۔ اس جماعت نے صہیونی تحریک سے الحاق  سے ہمیشہ گریز کیا ہے اور  عام طور پر امن کے معملات پر رائے شماری  اور بحث سے بھی کنارہ  کرتی ہے کیونکہ اس کے ارکان فوج میں خدمت سر انجام نہیں دیتے۔ یہ جماعت اسرائیل اور اسرائیلی قانون کو ہلاخاہ سے مطابقت رکھوانے کے لیے کام کرتی ہے،جیسے ہفتے کے دن کی چھٹی وغیرہ۔ خود ساختہ لتھوائی ربیائی  قائدین (علما ) موجودہ اور پچھلی نسلوں میں ، جیسے  ایلازار  مناکھیم شاکھ  اور ربی آویگدور میلر ، بشمول مذہبی اور سیکولر ہر قسم کی صہیونیت کے مخالف ہیں۔لیکن وہ اپنے مقلدین کو اسرائیلی سیاست اور چناؤ میں  فعال و غیر فعال سیاسی شرکت کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

یروشلم میں بہت سے دیگر حاسیدی گروہ ، جیسے سب سے مشہور سطمر گروہ  ، خود ایداہ ہاکھا ریدی ، جس  بڑی تحریک کا وہ حصہ ہیں سخت صہیونی مخالف  ہیں۔ ہر قسم کی جدید سیاسی صہیونیت کا حسیدی مخالف ، مجارستانی  ربی اور تلمودی عالم  جوئیل تیتلبام تھا۔اس کی نظر میں ، موجودہ اسرائیلی ریاست یہودیت کے برعکس ہے ، کیونکہ اس کے بانیین میں کچھ غیر مذہبی  شخصیات بھی تھیں،اوریہ  بظاہر یہودی نظریے (کہ یہود یہودی مسیحا کا انتظار کریں )کی خلاف ورزی ہے۔

تیتلبام نے جدید صہیونیت کے خلاف  اپنے دلائل میں خالص یہودی کتب کا حوالہ دیا ،خاص کر  تلمودی اقتباس  جس میں ربی یوسی بی ربی ہنینہ   وضاحت کرتے ہیں (کسوبوس 111a)کہ  آقا(اللہ) نے  یہودی قوم پر تین  وعدوں کی پاسداری عائد کی ہے

  • ا۔یہود ارض مقدسہ کی جانب  اکھٹے طاقت کے ذریعے واپس  نہیں آئیں گے۔
  • ب۔ یہود دیگر اقوام کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے۔
  • ج۔دیگر اقوام یہود کو زیر نگیں نہیں کریں گے۔

تیتلبام کے مطابق ، دوسرے عہد  کا اطلاق اسرائیل اور عرب اقوام کے ما بین لڑی گئی جنگوں پر ہوتا ہے۔

ایداہ ہاکھا ریدی  میں مخالف گروہ  دشنسکی ، تولدوس، آہارون ، تولدوس  اوروہم ییتذکھوک، سپنکا اور دیگر ہیں ۔ ان کا شمار یروشلم میں لاکھوں میں ہیں جبکہ پورے عالم میں اس سے بھی زیادہ ہیں۔

و نتورائے کارتہ ارکان برلن میں اسرائیل مخالف مظاہرے میں  ایرانی اور حزب اللہ کے پرچم کے پہلو میں  شریک ہیں  

نتورائے کارتہ ایک راسخ العقیدہ حریدی مذہبی تحریک ہے  جو صہیونیت کی سخت مخالفت کرتی ہے اور اسرائیل کو نسل پرست جرم قرار دیتی ہے۔[195] وہ صہیونیت کو  مرکزی یہودیت سے دور  کناروں پر ایک فرقہ سمجھتے ہیں ،[196] باطنی یہودی درالکتب نے ان کے  5000 نام گنوائے ہیں،[197] لیکن   اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینے والے ان کے کارکنوں کا تخمینہ بدنامی مخالف لیگ نے  100 افراد سے بھی کم لگایا ہے ۔[198] یہ تحریک صہیونیت کو نازیت کے مساوی قرار دیتی ہے[199]،انکا ماننا ہے صہیونی نظریہ تورات کی تعلیمات کے برخلاف ہے اور خودصہیونیت ہی کو سام دشمنی میں بڑھاوے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ نتورائے کارتہ کے ارکان انتہا پسند بیانات دینے ،مشہور سام مخالفوں اور اسلامی انتہا پسندوں کی تائید کرنے  کی تاریخ رکھتے ہیں۔[200]

کھبعد –لوباویچ حاسیدی  تحریک راویتاً   صہیونی تحریک نہ تھی لیکن  اسرائیل میں کسی بھی علاقائی سمجھوتے کو مسترد کرتے ہوئے 20ویں صدی کے آخر میں صہیونی لائحہ عمل اپنایا۔[حوالہ درکار]


صہیون مخالفت یا سام دشمنی

مرکزی صفحہ: صہیون مخالفت اور نئی سام دشمنی

 صہیون مخالفت کے کچھ نئے  ناقدین کی رائے میں صہیونیت کی مخالفت اورسام دشمنی میں فرق کرنا اب مشکل ہوتا جارہا ہے،[201][202][203][204][205]اور اسرائیل پر تنقید کو عذر بنا کر وہ نقاط نظر پیش کیے جاتے ہیں جو بصورت دیگر سام دشمنی گردانے جاتے ہیں۔[206][207] مارٹن لوتھر کنگ  اصغر نے صہیون مخالفت کو سام دشمنی کی جگہ استعمال کرنے کی مذمت کی تھی۔[208] دیگر دانشوروں کا خیال ہے کہ کچھ اقسام کی صہیون مخالفت سام دشمنی کو ہوا دیتی ہے۔  بہت سے دانشور دلیل دیتے ہیں کہ  صہیون مخالفت یا ریاست اسرائیل کی پالیسیوں کی  مخالفت  انتہائی حدود میں  سام دشمنی میں شامل ہو جاتی ہیں۔[209]عرب دنیا میں ، لفط یہودی اور صہیونی  اکثر مترادفات کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ سام دشمنی کے الزامات سے بچنے کے لیے ،  تنظیم آزادی فلسطین  نے تاریخی طور پر لفظ صہیونی کی جگہ لفظ یہودی کے استعمال سے گریز کیا ہے، اگرچہ اس تنظیم کے حکام کبھی کبھی پھسل بھی گئے ہیں ۔[210]

کچھ سام مخالفین   نے الزام لگاتے ہیں کہ  صہیونیت دنیا  پر قابو پا لینے کی یہودی   سازش کا حصہ ہے۔[211] ان الزامات میں سے ایک خاص شکل  قواعد  بزرگان صہیون (ذیلی  سرورق ’’ ایسے قواعد  جو صہیونی مرکزی  انتظامی دفتر کے خفیہ دستاویزات سے مستنبط کیے گئے‘‘)نے عالمی  شہرت پائی۔ صہیون پسندوں  کا خیال ہے کہ یہ قواعدافسانوی  یہودی قائدین کے سازشی  اجلاس کی تصوراتی  رودادہیں۔ اس رودادی دستاویز کی  ابتدا کا تجزیہ اور تصدیق  1921ء ہی سے شروع ہو چکا تھا۔[212] یہ قواعد نازی جرمن فوج اور عرب دنیا میں تشہیر کے لیے وسعت کیساتھ استعمال کیے جاتے رہے ہیں ۔ ان قواعد کا حوالہ 1988ءکے حماس کے منشور میں بھی دیا گیا ہے۔[213]

ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں صہیون مخالفین وہ الزامات ، بہتانات،تصاویراور حربی تدبیرات استعمال کرتے رہے جو سام مخالفوں کے زیر استعمال رہیں۔ 21اکتوبر 1973ء اقوام متحدہ کے اس وقت کے سوویت سفیر  یعقوب مالک  نے دعوی  کیا کہ صہیونیوں نے پسندیدہ چنی گئی (برگزیدہ  قوم) کا نظریہ پیش کیا ، جوایک واہیاتی نظریہ ہے۔[214][215]

دوسری جانب صہیون مخالف مصنفین  جیسے ،  نؤام چومسکی ، نورمن فنکلسٹائن، مائیکل  مارڈر اور طارق علی  دلیل دیتے ہیں کہ  صہیون مخالفت کی بطور سام دشمنی  تشریح کرنا غیر صحیح ہے، اس کی وجہ سے اسرائیلی پالیسیوں اور کارروائیوں پر جائز تنقید بھی کبھی کبھی دھندلا جاتی  ہے،اوریہ اسرائیل پر جائز تنقید کو دبانے کے لیے بطور سیاسی چال استعمال کی جاتی ہے۔

خود اسرائیلی خاتون سیاست دان شولمیت الونی امریکی صحافیہ ایمی گڈمین کو 2002ء میں ایک مذاکرے میں بیان دیا

شولمیت الونی ، (1928ء-2014ء)

’’یہ ایک چال ہے جو ہم ہمیشہ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب یورپ سے کوئی اسرائیل پر تنقید کرتا ہے تو ہم (مرگ انبوہ) ہالوکاسٹ کا ذکر لے آتے ہیں، جب اس ملک(امریکا) میں لوگ اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں تو ہم ان پر سام دشمنی کا الزام لگاتے ہیں اور (صہیونی) تنظیم بہت مضبوط ہے اور اس کے پاس بہت سا پیسہ ہے، اسرائیل اور امریکی انتظامی سرکار(ایسٹبلشمنٹ) کے درمیان مضبوط تعلقات ہیں، جیسا کہ ان کے (یہود) کے پاس طاقت ہے، جو اچھی بات ہے، وہ (یہود) باصلاحیت ہیں، ان کے پاس اقتدار ہے پیسہ ہے اور میڈیا اور دیگر چیزیں ہیں،اور جیسے چائے کی اخلاقی اشتراکیت ہے ویسے ہی یہ لوگ کہتے ہیں اسرائیل میرا ملک ہے چاہے صحیح ہویا غلط، وہ تنقید سننے کے لیے تیار نہیں۔ ان لوگوں  پر سام دشمنی کا الزام لگانا نہایت آسان ہے جو اسرائیلی حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوں، پھر آپ (مرگ انبوہ) ہالوکاسٹ اور یہود پر کیے گئے مظالم لے آئیں اور یہ اس سب جواز بن جائیگا جو ہم فلسطینی لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں‘‘۔[216][217]

بعد میں شلومیت الونی کہتی ہیں ’’مجھ سورج کی طرح عیاں الزامات کا دفاع کرنے سے نفرت ہے‘‘[216]

اسرائیلی سفیر ، ابا ایبان

’’حال ہی میں ہم نے ایک بائیں بازو کا نیا حلقہ ابھرتا  دیکھا ، جو اسرائیل کی شناخت بطورخودپسندی کا شکارسرکاری انتظامیہ (ایسٹبلشمنٹ) اور تحصیل کار کرتا ہے ، یعنی بطور بنیادی دشمن ۔ کوئی بھی مغالطے میں نہ رہے یہ نیا بایاں بازو نئی سام شمنی کا مصنف  اور جد امجد ہے۔ کافی عرصہ سے کوشش کی جارہی ہے کہ سام دشمنی اور صہیون مخالفت کو  تسلیم کیا جائے تاکہ نسلی امتیازیت مخالف جذبات  کا استحصال کیا جاسکے، غیر یہودی  دنیا سے مکالمہ کا یہ ایک مرکزی   نقطہ رہتا ہے کہ سام دشمنی اور صہیون مخالفت  کے درمیان کوئی فرق  نہیں ۔ صہیون مخالفت ہی دراصل سام دشمنی ہے۔ تاریخی  سام دشمنی میں  معاشرے کے تمام انسانوں کے لیے برابر حقوق تھے مگر  یہود کے لیے نہیں۔ نئی سام دشمنی میں تمام  اقوام کو خود مختار قومی ریاست  کے قیام اور استحکام کے حقوق حاصل ہیں مگر یہود کو نہیں۔اور جب اس حق پر جزائر مالدیپ   نہیں ، ریاست گیبون نہیں یا بارباڈوس نہیں بلکہ دنیا کی قدیم ترین ، سب سے مستند قوم عمل کرے  تو اسے عمل کو مستثنیٰ پسندی ، مخصوصیت اور یہود کی آفاقی  مشن سے فرار کہا جاتا ہے‘‘۔ اسرائیلی سفیر  ابا ایبان    (یہودی امریکی کانگریس  کا دوہفتگی جریدہ ، 30مارچ 1973ء)[218]


پروفیسر نؤام چومسکی:  اسرائیلی سفیر  کے بیان پر اپنی کتاب ناگزیراوہام 1989 ء میں تبصرہ کرتے ہوئے[219]     

نؤام چومسکی ، 2004ء میں
اس موضوع پر سب سے مستند حوالہ اباایبان تھا ، اس نے امریکی یہودی برادری کو مشورہ دیا کہ انھوں نے دو کام کرنے ہیں،اول یہ کہ صہیون مخالفت دراصل ریاست اسرائیل کی سیاست (پالیسی) پر تنقید ہے۔جسے سام دشمنی کہنا ہے۔ دوم یہ کہ اگر یہ تنقید خود یہودکریں تو انھیں خود تنفری کا شکار ذہنی مریض قرار دیں جسے ذہنی علاج کی ضرورت ہو- آخر الذکر کی اس نے دو لوگ بطور مثال بیان کیے، ی۔ف۔سٹون اور میں (نؤام چومسکی)۔ لہٰذا ہمارا ذہنی علاج ہونا چاہیے اور یہ تنقید غیر یہود کریں تو ان کی سام دشمنی پر مذمت کی جائے۔ یہ قابل فہم ہے کہ اسرائیلی تشہیر ایساکیوں کرتی ہے، میں اباایبان کو قصور وار نہیں ٹہراتا، سفیر کا کام یہی ہے لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے ، کوئی معقول تہمت تو ہو،ایسا کچھ نہیں جس کا دفاع کیا جائے۔ یہ سام دشمنی کی قسم نہیں، یہ ریاست کے جرائم پر سادہ تنقید ہے۔

اسرائیلی سفیر  ابا ایبان نے اپنے ہی  طرز کی عقلا ًاور اخلاقا ًبدنام حیثیت کی رائے دی  ،لیکن یہ اب کارگر نہیں رہا، اب یہ امر ناگزیر ہے کہ اسرائیلی (سیاسات) پالیسیوں کو  بطور سام دشمنی کے دیکھا جائے۔ بلکہ ایک یہودی کی حیثیت سے انھیں بطور خود تنفری کے دیکھا جائے تاکہ  ہر قسم کی مخالفت اس میں شامل ہو سکے

مائیکل مارڈر

فلسفی  مائیکل مارڈر  :[220][221]

صہیونیت کی  تعبیر نو  . . . . .اس کے متاثرین کے لیے انصاف طلب کرنا  ہے، صرف فلسطینیوں کے لیے  نہیں جو دراصل اس کے اذیت کا شکار ہیں، بلکہ  صہیون مخالف یہود کے لیے بھی،جو باقاعدہ  تقدیس کی گئی صہیونی تاریخ کی سرگزشت  سے مٹا دئے گئے ہیں –اس کے نظریہ  کی تعبیر نو سے، ہم اس کے ان پہلوؤں پرروشنی ڈالتے ہیں جسےصہیونی دبانے کی کوشش کرتے ہیں ،جیسے اس تشدد پر جسے وہ مذہبی اور مافوق الطبیعات  وجوہات کی بنا پر اور اقوام عالم کی یورپ وغیرہ میں یہود پر کی گئی ناقابل تردید وخوفناک عقوبت پر ان کی  ندامت گناہ اجاگر کر کے موثر  التجا کرنے پر اسے جائز قرار دیتے ہیں  

امریکی  سیاسی سائنس دان  نورمن فنکلسٹائن دلیل دیتے ہیں کہ:[222]

نورمن فنکلسٹائین
صہیون مخالفت اور اسرائیلی پالیسیوں پر جائز تنقید کو سام دشمنی کیساتھ مخلوط کر دیا جاتا ہے،  بعض اوقات اسے سیاسی فوائد کےلئے نئی  سام دشمنی کی اصطلاح دی جاتی ہے- جب بھی اسرائیل کو تعلقات عامہ میں  قطعی ناکامی کا سامنا ہوتا ہے جیسے اسرائیل –فلسطین تنازع کو حل کرنے کے لیے انتفاضہ  یابین الاقوامی دباؤ، امریکی یہودی تنظیمیں اس نئی سام دشمنی کے شعبدہ بازی کاراگ الاپنا شروع کردیتی ہیں-اس کا مقصد کثیر الجہت ہے – پہلا تو یہ کہ الزام لگانے والے کو سام مخالف کہہ کر تمام تر الزامات کو غیر معتبر ٹہرانا، تاکہ یہود  خود متاثرین بن بیٹھیں ،اور فلسطینیوں سےمظلوم متاثرین کی حیثیت چھین لی جائے- اے ڈی ایل کے ابراہام فاکسمین جیسے لوگ  پیش کرتے ہیں ، یہود کو ایک نئے مرگ انبوہ کا خطرہ لاحق ہے، جس میں کردار پلٹ دئے جاتے ہیں – یہود اب  متاثرین ہیں ، فلسطینی نہیں-جو لوگ فلسطینی لوگوں پر سے الزام ہٹاتے ہیں  یہ انہیں  غیر معتبر ٹہرانے کا عمل کرتا ہے –اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں سے انخلاء سے پہلے ، اب عربوں کو سام دشمنی سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے-
طارق علی کی 2011ء کی تصویر

 طارق  علی: پاکستانی نژاد برطانوی مؤرخ اور سیاسی  عمل  پسند کی رائے میں[223]

نئی سام دشمنی کا نظریہ ریاست اسرائیل کے مفاد میں زبان  کا بیڑاغرق کرنے کی ایک کوشش ہے-جدید یورپ میں مفروضہ نئی سام دشمنی کے خلاف مہم اسرائیلی حکومت کی مشتبہ چال ہے  تاکہ  صہیونی ریاست پر کسی  بھی قسم کی  تنقید کو روکا جاسکے – اسرائیل پر تنقید کو  سام دشمنی کے مساوی قرار نہ دیا جاسکتا ہے نہ دیا جانا چاہیے-اکثر فلسطینی نواز اور صہیون مخالف گروہ  جو چھ روزہ جنگ کے بعد ابھرے وہ سام دشمنی اور صہیون مخالفت میں تمیز کرنے میں  محتاط رہے ہیں- 

مزید دیکھیے

یہود و الومناتی نظریہ سازش

حوالہ جات