عبد الرزاق گرناہ
عبد الرازق گرناہ (پیدائش 20 دسمبر 1948ء) ایک زنجبار نژاد ناول نگار ہیں جو برطانیہ میں مقیم ہیں۔ وہ سلطنت زنجبار میں پیدا ہوئے اور 1960ء کی دہائی میں زنجبار انقلاب کے دوران میں پناہ گزین کی حیثیت سے برطانیہ آئے۔ [17] ان کے ناولوں میں پیراڈائز (1994) شامل ہے، جسے مین بکر پرائز اور وہٹ بریڈ پرائز دونوں کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ویران (2005ء) اور بائی دی سی (2001ء)، جو بکر کے لیے لانگ لسٹ کیے گئے تھے اور لاس اینجلس ٹائمز بک پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے گئے تھے۔ گرناہ کو 2021ء میں ادب میں نوبل انعام دیا گیا جوان کی نو آبادیاتی نظام کے تہذیبوں پر اثرات اور پناہ گزینوں کے ساتھ مختلف براعظموں میں پیش آنے والے مصائب کو انتہائی آسان الفاظ میں بیان کرنے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ [18]
عبد الرزاق گرناہ | |
---|---|
(انگریزی میں: Abdulrazak Gurnah)،(سواحلی میں: Abdulrazak Gurnah)،(عربی میں: عبد الرزاق سالم قرنح)[1] | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (متعدد زبانیں میں: Abdulrazak Gurnah) |
پیدائش | 20 دسمبر 1948ء (76 سال)[2][3][4][5] زنجبار شہر [6] |
شہریت | مملکت متحدہ تنزانیہ |
رکن | رائل سوسائٹی آف لٹریچر [7] |
عملی زندگی | |
مادر علمی | یونیورسٹی آف کینٹ جامعہ لندن |
تعلیمی اسناد | پی ایچ ڈی |
پیشہ | ناول نگار ، استاد جامعہ ، نثر نگار ، شریک مدیر [8]، مصنف [9] |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [10][11][12]، سواحلی زبان |
شعبۂ عمل | مابعد نوآبادیاتی ادب [13]، ادارت [13] |
ملازمت | یونیورسٹی آف کینٹ |
کارہائے نمایاں | پیراڈائز ، دی لاسٹ گفٹ |
اعزازات | |
نامزدگیاں | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
نوبل پرائز کی ویب گاہ کے مطابق عبد الرزاق گرناہ کو نوآبادیات کے تہذیبوں پر اثرات اور پناہ گزینوں کے ساتھ مختلف براعظموں میں پیش آنے والے مصائب کو انتہائی آسان الفاظ میں بیان کرنے کی وجہ سے ادب کے نوبل انعام کے لیے منتخب کیا گیا ہے ۔ عبد الرزاق گرناہ جوانی میں ہی برطانیہ ہجرت کر گئے تھے اور انھوں نے وہاں تعلیم حاصل کرنے سمیت ملازمت بھی اختیار کی اور وہ یونیورسٹی میں ادب کے پروفیسر بھی رہے۔
عبد الرزاق گرناہ کے 10 ناول اور مختصر اسٹوریز کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، ان کا سب سے مشہور ناول ’پیراڈائیز‘ 1994 میں شائع ہوا جب کہ 2001ء میں شائع ہونے والے ان کے ناول ’بائے دی سی‘ نے لوگوں کی توجہ مہاجرین کے مسائل کی جانب مبذول کروائی۔
حوالہ جات
حوالہ جات
- Felicity Hand (2012)۔ "Becoming Foreign: Tropes of Migrant Identity in Three Novels by Abdulrazak Gurnah"۔ $1 میں Jonathan P. A. Sell۔ Metaphor and Diaspora in Contemporary Writing (بزبان انگریزی)۔ Palgrave Macmillan۔ صفحہ: 39–58۔ ISBN 978-1-349-33956-3۔ doi:10.1057/9780230358454_3
- Bruce King (2006)۔ "Abdulrazak Gurnah and Hanif Kureishi: Failed Revolutions"۔ $1 میں James Acheson، Sarah C.E. Ross۔ The Contemporary British Novel Since 1980۔ New York: Palgrave Macmillan۔ صفحہ: 85–94۔ ISBN 978-1-349-73717-8۔ OCLC 1104713636۔ doi:10.1007/978-1-349-73717-8_8
مزید پڑھنے
- Eckhard Breitinger۔ "Gurnah, Abdulrazak S"۔ Contemporary Novelists
- جونز، نیشا (2005)۔ عبد الرزاق گورنہ گفتگو میں۔ واسفیری، 20:46 ، 37-42۔ doi:10.1080/02690050508589982۔
- Joseph M. Palmisano، مدیر (2007)۔ "Gurnah, Abdulrazak S."۔ Contemporary Authors۔ 153۔ Gale۔ صفحہ: 134–136۔ ISBN 978-1-4144-1017-3۔ ISSN 0275-7176۔ OCLC 507351992978-1-4144-1017-3۔
- Philip Whyte (2019)۔ "East Africa in Postcolonial Fiction: History and Stories in Abdulrazak Gurnah's Paradise"۔ $1 میں Stefan Noack، Christine de Gemeaux، Uwe Puschner۔ Deutsch-Ostafrika: Dynamiken europäischer Kulturkontakte und Erfahrungshorizonte im kolonialen Raum (بزبان انگریزی)۔ Peter Lang۔ ISBN 978-3-631-77497-7978-3-631-77497-7۔
بیرونی روابط
- Abdulrazak Gurnah on Nobelprize.org